محمد بن ابی سعید بن عقیل

ویکی شیعہ سے
محمد بن ابی سعید بن عقیل
گنج شہداء، کربلا
کوائف
نام:محمد بن ابی سعید بن عقیل
نسببنی ہاشم
مشہور اقاربعقیل، مسلم بن عقیل عبدالله بن عقیل، فاطمہ بنت علی (ع)
شہادت10 محرم سنہ 61 ہجری
مقام دفنگنج شہداء، حرم امام حسین
اصحابامام حسین علیہ السلام


محمد بن ابی سعید بن عقیل عاشورا کے دن شہید ہونے والے بنی ہاشم کے شہدائے کربلا میں سے ہیں۔ واقعہ کربلا کے دوران ان کی عمر 7 سال تھی۔ حضرت امام حسین کی شہادت کے بعد خیموں پر ہونے والے حملے میں ان کی شہادت واقع ہوئی۔ ان کا نام زیارت ناحیہ مقدسہ میں آیا ہے۔

حسب و نسب

بعض ماہرین رجال و علمائے شیعہ[1] نے انہیں محمّد بن سعید اور بعض نے محمّد بن ‌ابی سعد[2] ذکر کیا ہے۔ بعض عبداللہ بن عقیل کی کنیت ابو سعید سمجھتے ہیں اور احتمال دیتے ہیں کہ محمّد بن ابی سعید ہی محمد بن عبداللہ بن عقیل ہیں۔[3]

المجدی فی انساب الطالبیین کے مولف نے محمد کے باپ یعنی ابو سعید کو ابو سعید احول کہا ہے نیز اسے شہدائے کربلا میں سے شمار کیا ہے۔[4]

البتہ بعض منابع میں فاطمہ بنت علی (ع) کو محمد بن ابی‌ سعید بن عقیل کی زوجہ ذکر کیا گیا ہے۔ جن سے حمیدہ نام کی ایک بیٹی بھی ہے۔[5] موسوعہ کربلا نے فاطمہ کو محمد بن ابی‌ سعید کی والدہ نقل کیا ہے اور واقعہ کربلا میں شہادت کے وقت ان کی عمر سات برس ذکر کی ہے۔[6]

کیفیت شہادت

محمد بن ابی سعید کا نام بعض منابع میں شہدائے کربلا کے ضمن میں ہوا ہے۔ ابن سعد نے ان کا نام واقعہ کربلا میں شہید ہونے والے افراد میں ذکر کیا ہے۔[7] سماوی کے بقول شہدائے کربلا میں پانچ افراد ایسے تھے جو سن بلوغت تک نہیں پہچے تھے، ان میں سے ایک محمد بن ابی سعید بھی ہیں۔[8] اسی طرح سے ابصار العین میں حمید بن مسلم نے محمد بن ابی‌ سعید بن عقیل کی شہادت اس طرح نقل کی ہے:

امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد ایک نوجوان خیمے سے باہر آیا جو حیرانی اور پریشانی کے عالم میں اپنے دائیں بائیں دیکھ رہا تھا کہ اسی دوران عمر بن سعد کے سپاہیوں میں سے لقیط بن ایاس (ناشر) جُهَنی نامی شخص نے اس پر حملہ کیا اور ایسی ضرب لگائی کہ اس کی شہادت واقع ہو گئی۔ میں نے اس نوجوان اور اس کے قاتل کا نام دریافت کیا تو معلوم ہوا اس کا نام محمد بن ابی سعید اور اس کے قاتل کا نام لقیط بن ایاس جہنی ہے۔[9] اس واقعے کو تاریخ طبری نے بھی ہانی بن ثبیت حضرمی کے حوالے سے جو عمر بن سعد کے لشکر میں تھا، نقل کیا ہے۔ ہانی نے اس میں اس نوجوان کا نام ذکر نہیں کیا ہے اور اس کے قاتل کے طور پر اپنا نام ذکر کیا ہے۔[10]

زیارت ناحیہ مقدسہ میں ان کے نام کے ساتھ انہیں سلام کیا گیا ہے اور ان کے قاتل پر نام کے ساتھ لعنت کی گئی ہے: السَّلامُ عَلی مُحَمَّد بن ابی سَعید بن عَقیل وَلَعَنَ‌ اللہ قاتِلَهُ لُقَیطِ بن ناشِر الجُهَنیّ[11]

حوالہ جات

  1. حلی، ابن داود، رجال ابن داود، ج1، ص172؛ ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب علیہم‌ السلام، ج3، ص254.
  2. سید ابن طاووس، الاقبال بالاعمال الحسنہ، ج3، ص343؛ ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب علیہم‌ السلام، ج3، ص259.
  3. کاشانی، حبیب، تذکرۃ الشہداء، ج1، ص154.
  4. علوی، علی بن محمد، المجدی فی انساب الطالبیین، ص307.
  5. ابن سعد، الطبقات، 1410ھ، ج8، ص340؛ مجلسی، بحار الانوار، 1404ھ، ج42، ص94.
  6. بیضون، موسوعة کربلاء، 1427ھ، ج1، ص529.
  7. ابن سعد، الطبقات، 1414ھ، طبقه خامسہ، ج1، ص477.
  8. سماوی، ابصار العین، 1419ھ، ص224.
  9. سماوی، ابصار العین، 1419ھ، ص91.
  10. طبری، تاريخ الامم و الملوک، بیروت، ج5، ص449.
  11. سید ابن طاووس، الاقبال بالاعمال الحسنہ، ج3، ص76.

مآخذ

  • ابن داود حلی، حسن بن علی، رجال ابن داود، تهران، انتشارات دانشگاه تهران، بی‌تا۔
  • ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌ طالب علیهم‌ السلام، نجف، مطبعة الحیدریة، 1375ھ۔
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری (طبقہ خامسہ (1))، تحقیق محمد بن صامل السلمی، الطائف، مکتبة الصدیھ، 1414ھ/1993ء۔
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری (ج8)، تحقیق محمد بن صامل السلمی، الطائف، مکتبة الصدیھ، 1414ھ/1993ء۔
  • بیضون، لبیب، موسوعة کربلا، بیروت، مؤسسة الاعلمی، 1427ھ۔
  • سماوی، محمد بن طاهر، ابصار العین فی انصارالحسین علیہ السلام، تحقیق محمد جعفر طبسی، قم، مرکز الدراسات الاسلامیة لحرث الثورة، 1419ھ۔
  • سید ابن طاووس، علی بن موسی، الإقبال بالأعمال الحسنة، تصحیح جواد قيومى اصفهانى، قم، دفتر تبليغات اسلامى‌، 1376ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، روائع التراث العربی، بی‌تا۔
  • علوی، علی بن محمد، المجدی فی انساب الطالبیین، قم، کتابخانہ عمومی آیت الله مرعشی نجفی، 1380ہجری شمسی۔
  • کاشانی، حبیب‌ الله، تذکرة الشهداء، مترجم سید علی جمال‌اشرف، قم، مدین، 1385ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، بیروت، مؤسسة الوفاء، 1404ھ۔