نذر

نامکمل زمرہ
غیر سلیس
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے

نَذْر کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے اوپر واجب کرے کہ کوئی نیک کام خدا کیلئے انجام دے گا یا ایسا کام جس کو انجام نہ دینا بہتر ہے اسے خدا کیلئے ترک کرے گا۔ شریعت کی نظر میں نذر اس وقت واجب العمل ہو گا کہ انسان اس کا صیغہ عربی یا کسی اور زبان میں ادا کرے۔ نذر تمام انبیائے کرام کا مورد پسند ایک سنت حسنہ ہے اور گذشتہ امتوں میں بھی تھی اور اسلام میں بھی اس کی مشروعیت ثابت ہے۔ ائمہ اطہار(ع) کیلئے نذر کرنا نذر کی مؤثرترین اقسام میں سے ہے۔

تعریف

یہ لفظ لغت میں کسی چیز کو اپنے اوپر واجب کرنے کو کہتے ہیں[1] اور فقہی اصطلاح میں نذر یہ ہے کہ انسان خدا کیلئے کسی نیک کام کو انجام دینے یا کسی برے کام کو ترک کرنے کو اپنے اوپر واجب کرے۔ [2] مثال کے طور پر نذر یہ ہے کہ انسان ان الفاظ میں نذر کا صیغہ پڑھے: میں نذر کرتا ہوں کہ اگر میری بیماری ٹھیک ہو جائے تو میں اپنے اوپر واجب کرتا ہوں کہ خدا کیلئے ایک لاکھ تومان کسی فقیر کو دوں گا۔

نذر کی تاریخ

نذر ایک پسندیدہ سنت ہے جو تمام انبیاء الہی اور گذشتہ امتوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ اسلام میں اس کی مشروعیت کافی پرانی ہے۔ قرآن کریم میں حضرت عمران کی بیوی یعنی حضرت حضرت مریم(س) کی ماں کے نذر کی داستان نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "اس وقت کو یاد کرو جب عمران علیھ السّلام کی زوجہ نے کہا کہ پروردگار میں نے اپنے شکم کے بّچے کو تیرے گھر کی خدمت کے لئے نذر کردیا ہے اب تو قبول فرمالے کہ تو ہر ایک کی سننے والا اور نیتوں کا جاننے والا ہے"۔ [3]

سورہ مریم میں حضرت عیسی(ع) کی پیدائش کا واقعہ بیان کرتے ہوئے خداوند متعال حضرت مریم(س) سے فرماتے ہیں: " پھر اس کے بعد کسی انسان کو دیکھئے تو کہہ دیجئے کہ میں نے رحمان کے لئے روزہ کی نذر کرلی ہے لہذا آج میں کسی انسان سے بات نہیں کرسکتی۔"[4] اس آسمانی کتاب میں "عباد الرحمن" کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "یہ بندے نذر کو پورا کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔" [5]

امام صادق(ع) ایک روایت میں آیت "یوفون بالنذر" کی شأن نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) بیمار تھے ایک دن پیغمبر اکرم(ص) حضرات حسنین (ع) سے ملاقات کیلئے تشریف لے گئے اور حضرت علی(ع) سے فرمایا: بہتر ہے اپنے فرزندوں کی صحت و سلامتی کیلئے کوئی نذر کی جائے۔ حضرت علی(ع) نے فرمایا میں نذر کرتا ہوں اگر یہ دونوں صحت یاب ہو جائے تو شکرانے میں خدا کیلئے تین دن روزہ رکھوں گا۔ اس کے بعد حضرت فاطمہ(س) اور آپ کی کنیز فضّہ نے بھی اس نذر کو تکرار کئے اور نتیجے میں خدا نے حسنین شریفین(ع) کو صحت و سلامتی عنایت فرمائی اور خود ان دو ہستیوں نے بھی ساتھ روزہ رکھے۔[6]

بنابراین "نذر" نہ صرف توحید، رضا، تسلیم اور خدا کے مقابلے میں ادب و احترام کے منافی نہیں ہے بلکہ اس نذر پر عمل پیرا ہونا اور اس عہد کو پورا کرنا حق تعالی پر ایمان اور خدا کی طرف متوجہ ہونا ہے اور خالق حقیقی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ قرب حاصل ہونے کا سبب ہے اور یہ چیز اہل بیت(ع) عصمت و طہارت اور مؤمنین کے درمیان رائج اور مرسوم ہے۔

شرائط

إِذْ قَالَتِ امْرَ‌أَتُ عِمْرَ‌انَ رَ‌بِّ إِنِّي نَذَرْ‌تُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّ‌رً‌ا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ﴿٣٥﴾ (ترجمہ: اس وقت کو یاد کرو جب عمران علیھ السّلام کی زوجہ نے کہا کہ پروردگار میں نے اپنے شکم کے بّچے کو تیرے گھر کی خدمت کے لئے نذر کردیا ہے اب تو قبول فرمالے کہ تو ہر ایک کی سننے والا اور نیتوں کا جاننے والا ہے)

نذر حقیقت میں خدا کے ساتھ عہد و پیمان ہے،[7] تا کہ بندے کی طرف سے اپنے اوپر واجب کرنے والے نیک کام کے انجام دینے کے نتیجے میں خداوندعالم اس بندے کی حاجب پوری کرتا ہے۔ نذر کے مخصوص آداب اور شرائط ہے جن میں سے بعض یہ ہیں:

صیغہ نذر

شریعت کی رو سے نذر اس وقت واجب العمل ہو جاتا ہے کہ اس کا صیغہ عربی میں پڑھا گیا ہو یا کسی اور زبان میں پڑھا جائے لیکن شرط یہ ہے کہ اس مضمون کا حامل ہو: اگر میری فلان حاجت پوری ہو جائے تو میں خدا کیلئے فلان نیک کام انجام دوں گا۔ بنا بر این اگر انسان اس مطلب کو اپنے ذهن میں مرور کرے لیکن اسے زبان پر نہ لائے اور مذکورہ صیغہ کو جاری نہ کرے تو یہ نذر واجب العمل نہیں ہو گا البتہ اس پر عمل کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

متعلق نذر

جس کام کو انجام دینے کی نذر کی جاتی ہے اس کا پسندیدہ ہونا ضروری ہے۔ پس اگر کسی حرام یا مکروہ کام کو انجام دینے کی نذر کرے یا کسی واجب یا مستحب کو ترک کرنے کی نذر کرے تو نذر صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کسی مباح کام کو جس کا انجام دینا اور ترک کرنا مساوی ہے، کو انجام دینے کی نذر کرے تو اس کا نذر صحیح نہیں ہے۔ لیکن اس مباح کام کو کسی جہت سے انجام دینا پسندیدہ ہو اور نذر کرنے والا اسی جہت کو مد نظر رکھ کر نذر کرے تو اس کا نذر صحیح ہے۔(مثلا نذر کرے کہ ایک ایسی غذا کھاؤں گا جس سے عبادت انجام دینے کی توانائی حاصل ہو جاتی ہے) اسی طرح اگر اس مباح کام کو ترک کرنا کسی جہت سے پسندیدہ ہو اور انسان اسی جہت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے ترک کرنے کی نذر کرے تو اس کا نذر صحیح ہے۔ اگر انسان اپنی واجب نماز کو ایک ایسی جگہ پڑھنے کی نذر کرے جہاں پر نماز پڑھنا ذاتا تو کوئی اضافی ثواب کا باعث نہ ہو مثلا کمرے میں نماز پڑھنے کی نذر کرے۔ لیکن وہاں نماز پڑھنا کسی جہت سے پسندیدہ ہو مثلا یہ کہ شور و غل نہ ہونے کی وجہ سے انسان حضور قلب پیدا ہوتی ہو تو اس جہت کو مد نظر رکھتے ہوئے نذر کرے تو اس کا نذر صحیح ہے۔

اس کام کو انجام دینا امکان پذیر ہو

انسان ایک ایسے کام کی نذر کر سکتا ہے جسے انجام دینا امکان پذیر ہو بنابراین اگر کوئی شخص پیدل کربلا نہیں جا سکتا اس کے باوجود پیدل کربلا جانے کی نذر کرے تو یہ نذر صحیح نہیں ہے۔

نذر کرنے والا

نذر کے صحیح ہونے کیلئے ضروری ہے کہ نذر کرنے والے میں درج ذیل شرائط پائی جاتے ہوں:

  • مکلف ہو: نذر صحیح ہونے کی پہلی شرط یہ ہے کہ نذر کرنے والا مکلف ہو بنابراین اگر کوئی مکلف نہ ہو تو اس نذر پر عمل کرنا واجب نہیں ہے۔[8]
  • عاقل ہو: نذر کی دوسری شرط یہ ہے کہ نذر کرنے والا عاقل ہو۔ بنابراین جو شخص بے وقوف ہو جو اپنے اموال کو بے ہودہ کاموں میں خرچ کرتا ہو یا حاکم شرع اسے اپنے اموال میں تصرف کرنے سے منع کیا ہو تو اس کے اموال سے متعلق نذر صحیح نہیں ہے۔[9]
  • مختار ہو: تیسری شرط یہ ہے کہ نذر کرنے والا اپنے ارادے اور اختیار سے نذر کرے، بنابراین اس شخص کا نذر صحیح نہیں ہے جسے نذر کرنے پر مجبور کیا گیا ہو یا غصے کی وجہ سے بے اختیار کوئی نذر کیا ہو یہ نذر صحیح نہیں ہے۔[10]
  • نذر کا ارادہ ہو: نذر کرنے والا نذر کرتے وقت نذر کا ارادہ رکھتا ہو بنابراین صرف ذہن میں خطور کرنے یا صرف صیغہ پڑھنے یا مستی کی حالت میں نذر واجب نہیں ہو جاتا ہے۔[11]
  • قصد قربت: نذر کرنے والا نذر کرتے وقت قصد قربت رکھتا ہو پس کافر اور ریاکاری کیلئے اگر کوئی نذر کرے تو یہ نذر منعقد نہیں ہوگا۔[12]
  • امکان پذیر ہو: جس چیز کی نذر کی ہے وہ نذر کرنے والے کی قدرت میں ہو یعنی نذر کرنے والے کی استطاعت میں ہو کہ وہ نذر کو انجام دے۔ بنابراین نذر محال عرضی پر تعلق نہیں پکڑتا ہے۔[13]
  • معصیت انجام دینے کی نذر کرنا: جس چیز کی نذر کی گئی ہے وہ ایک عبادت یا مباح کام ہو بنابراین کسی معصیت کی انجام دہی کی نذر کرنا صحصح نہیں ہے۔[14]

نذر پر عمل کرنا امکان پذیر نہ ہو

نذر پر عمل کرنا ممکن نہ ہونے کی دو صورتیں ہیں:

  1. یہ کہ شروع سے ہی نذر پر عمل کرنا ممکن نہیں تھا۔
  2. یہ کہ جس وقت نذر کر رہا تھا اس پر عمل کرنا امکان پذیر تھا، لیکن نذر کرنے کے بعد اس پر عمل کرنا نا ممکن ہوا ہو۔

پہلی صورت میں مراجع تقلید فرماتے ہیں: انسان ایک ایسے کام کی نذر کر سکتا ہے جسے انجام دینا اس کیلئے ممکن ہو بنابراین جو شخص پیدل کربلا نہیں جا سکتا اگر پیدل کربلا جانے کی نذر کرے تو اس کا نذر صحیح نہیں ہے۔[15]

دوسری صورت میں فقہاء فرماتے ہیں: اگر روزہ کے علاوہ کسی اور کام کی نذر کی ہو تو یہ نذر باطل ہے اور اس کی گردن پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔[16] ولى اگر روزہ‏‌ رکھنے کی نذر کی ہو اور کسی پیشگی اطلاع کے روزہ رکھنا اس کیلئے ممکن نہ ہو تو اس کی قضا رکھنا واجب ہے اور اگر قضا بھی ممکن نہ ہو[17] تو ایک مدّ کھانا کسی فقیر کو بطور صدقہ دے دیں۔[18]

نذر کی اقسام

نذر کرنے والے کی قصد کو مد نظر رکھتے ہوئے نذر کی دو قسم ہے:

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: کسی بھی معصیت کے انجام دینے کی نذر کرنا صحیح نہیں ہے اسی طرح رشتہ داری کو ختم کرنے والا کوئی بھی قسم صحیح نہیں ہے۔

منبع = منابع فقہ شيعہ ج٢۴؛ ص٨۵۵

معلق اور مشروط نذر

نذر کرنے والا اپنے نذر کو کسی کام کے ساتھ معلق اور مشروع کر دیتا ہے، مثلاً یہ کہ اگر میری فلان حاجب پوری ہوئی تو میں خدا کی خشنودی کیلئے فلان کام کرنگا۔[19]

نذر کی یہ قسم خود دو قسموں میں تقسم ہوتی ہے:

  • نذر شکرانہ: یہ کہ کسی حاجت کے پوری ہونے پر خدا کا شکر ادا کرنے کی خاطر نذر کرنا، مثلا یہ کہے کہ اگر مجھے فلان بیماری سے نجات مل جائے اور صحت و سلامتی دوبارہ بحال ہو جائے تو فلان کام کرنے کی نذر کرتا ہوں۔[20]
  • نذر مجازاتی: کسی معصیت کے مرتکب ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو تنبیہ کرنے کی خاطر کوئی نذر کرے مثلا یہ کہے کہ اگر میں فلان گناہ کا مرتکب ہوا تو فلان کام انجام دینے کو اپنے اوپر لازم قرار دیتا ہوں۔[21]

نذر تبرّعی

نذر تبرّعی سے مراد یہ ہے کہ نذر کرنے والا نذر کو کسی کام سے مشروع نہیں کرتا مثلا یہ کہ کوئی شخص کسی کام کو اپنے اوپر واجب قرار دے۔[22]

احکام نذر

نذر کی مخالفت

اگر نذر تمام احکام و شرائط کے ساتھ منعقد ہو تو عمدا اس کی مخالفت کرنے کی صورت میں اس شخص پر كفارہ واجب ہوتی ہے۔ [23]

نذر کی نوعیت میں تبدیلی

اگر کوئی شخص شرعی صیغہ پڑھ کر کسی چیز کی نذر کرے تو اسے تبدیل کرنا جائز نہیں ہے لیکن اکثر لوگ صیغہ نہیں پڑھتے اس بنا پر نذر شرعی منعقد نہیں ہوتا اس بنا پر اس کو تبدیل کرنے یا سرے سے اسے ترک کرنے میں آزاد ہے۔[24]

عین منذروہ کو تبدیل کرنا

اگر نذر شرعا منعقد ہوئی ہو یعنی صیغہ پڑھ کر نذر کی ہو تو جس چیز کی نذر کی ہے اسے اسی کام میں مصرف کرنا واجب ہے مثلا اگر شخص کسی مشخص گوسفند کی قربانی کی نذر کرے تو کسی اور کو اس کی جگہ قربانی نہیں کر سکتا ہے۔[25]

وَمَا أَنفَقْتُم مِّن نَّفَقَة أَوْ نَذَرْ‌تُم مِّن نَّذْرٍ‌ فَإِنَّ اللَّـه يَعْلَمُه ۗ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ‌ (ترجمہ: اور تم جو کچھ بھی راسِ خدا میں خرچ کرو گے یا نذر کروگے تو خدا اس سے باخبر ہے البتہ ظالمین کا کوئی مددگار نہیں ہے۔)

بقرہ، ٢٧٠

متعلق نذر کو معین نہ کرنا

عبیداللہ بن علی حلبی، امام صادق(ع) سے نقل کرتے ہیں کہ امام(ع) نے اس شخص کے بارے میں جو متعلق نذر کو معین کئے بغیر کوئی نذر کرتا ہے، فرمایا: "اگر متعلق نذر کو معين کیا ہو تو وہی معین ہے لیکن اگر معین نہیں کیا ہے تو اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہے۔" [26]

شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کی نذر

چنانچہ اگر بیوی اپنے شوہر کی غیر موجودگی یا اس سے پوچھے بغیر یا اس کی رضایت کے بغیر کوئی نذرکرے تو اس کی نذر صحیح نہیں ہے چاہے مال منذور شوہر کا ہو یا دونوں کا مشترک مال ہو یا خود بیوی کا مال ہو تینوں صورتوں میں نذر باطل ہے۔[27]

نذر کرنے یا اس پر عمل کرنے میں والدين کی رضامندی

ماں باپ اپنے بیٹے یا بیٹی کو نذر کرنے یا اس پر عمل کرنے سے نہیں روک سکتے لیکن متعلق نذر ان کی رضایت مؤثر ہے مثلا یہ کہ ماں باپ اپنی اولاد کو نذر کرنے سے تو منع نہیں کر سکتے لیکن وہ یہ کام کر سکتے ہیں کہ اولاد سے کہے کہ روزے رکھنے کی نذر نہ کرے یعنی متعلق نذر کو روزہ قرار دینے سے منع کر سکتے ہیں۔[28]

حوالہ جات

  1. خرمشاہی، ج۲، ص۲۲۲۱.
  2. توضیح المسائل مراجع، ج۲، ص ۶۰۹-۶۱۲٫
  3. سورہ آل عمران، آیہ ۳۵.
  4. سورہ مریم، آیہ ۲۶.
  5. سورہ انسان، آیہ ۷.
  6. میزان الحکمہ، ج۱۰، ص۴۸.
  7. تفسیر انوار درخشان، ج۱، ص۳۵۳.
  8. توضیح المسائل مراجع، ج۲، ص ۶۰۹-۶۱۲٫
  9. توضیح المسائل مراجع، ج۲، ص ۶۰۹-۶۱۲٫
  10. توضیح المسائل مراجع، ج۲، ص ۶۰۹-۶۱۲٫
  11. خرمشاہی، ج۲، ص۲۲۲۱ و ۲۲۲۲.
  12. خرمشاہی، ج۲، ص۲۲۲۱ و ۲۲۲۲.
  13. خرمشاہی، ج۲، ص۲۲۲۱ و ۲۲۲۲.
  14. خرمشاہی، ج۲، ص۲۲۲۱ و ۲۲۲۲.
  15. توضیح المسائل (المحشى للإمام الخمینی)، ج ‏۲، ص ۶۱۳، برطبق فتوای امام خمینی(رہ)، سیستانی، بہجت، مکارم، زنجانی.
  16. ہمان، بنا بر فتوای آیت اللہ سیستانی.
  17. آیت اللہ سیستانی آگے فرماتے ہیں: اور اگر ممکن ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ یا ہر روز کے بدلے ۷۵۰ گرام گندم کسی فقیر کو دے یا کسی شخص کو ۵/ ۱ گندم دے تاکہ وہ اس کی جانب سے روزہ رکھے۔
  18. این نظریہ بنا بر فتوای آیت اللہ زنجانی است.
  19. خرمشاہی، ج۲، ص۲۲۲۱ و ۲۲۲۲.
  20. ر.ک.رسالہ توضیح المسایل(مراجع)، ج۲، ص۶٠٩.
  21. ر.ک.رسالہ توضیح المسایل(مراجع)، ج۲، ص۶٠٩.
  22. خرمشاہی، ج۲، ص۲۲۲۱ و ۲۲۲۲.
  23. مجمع المسایل، ج2 ص318.
  24. مجمع المسایل، ج2 ص321.
  25. ر.ک. مجمع المسایل، ج۲ ص۳۲۰.
  26. منابع فقہ شيعہ، جلد:٢۴، ص٨۶٣.
  27. مجمع المسایل، ج2 ص323.
  28. ر.ک. مجمع المسایل، ج2 ص323.

مآخذ

  • قرآن.
  • گلپایگانی، محمدرضا، مجمع المسایل، جلد ٢، دار القرآن الکریم، قم.
  • امام خمینی و سایر مراجع، رسالہ توضیح المسایل (مراجع)، جلد ٢، گردآورندگان، اصولی، احسان،/ بنی ہاشمی خمینی، محمد حسن، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، قم، ١٣٨١ش.
  • منابع فقہ شيعہ، جلد ٢۴، بروجردی، حسین، زير نظر: اسماعیل تبار، احمد، مترجم: حسینیان قمی، مہدی، مترجم: مہوری، محمد حسین، فرہنگ سبز، تہران، ١٣٨٧ش.