مندرجات کا رخ کریں

"حضرت عباس علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

حجم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ،  10 اپريل 2019ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 32: سطر 32:
===والدہ===
===والدہ===
[[فائل:نیاکان مادری حضرت عباس(ع).jpeg|left|تصغیر|350px|حضرت عباس کے ننھیال کا شجرہ نسب<ref> خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۲۵.</ref>.]]
[[فائل:نیاکان مادری حضرت عباس(ع).jpeg|left|تصغیر|350px|حضرت عباس کے ننھیال کا شجرہ نسب<ref> خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۲۵.</ref>.]]
امام علیؑ نے اپنے بھائی [[عقیل بن ابی طالب|عقیل]] سے درخواست کی تھی کہ انھیں ایسی ہمسر کی تلاش کریں جس سے بہادر اور دلیر بیٹے پیدا ہوجائیں تو عقیل جو کہ نسب شناس تھے، نے عباس کی ماں [[فاطمہ بنت حزام]] کو آپ کے لئے معرفی کیا تھا<ref>ابن عنبہ، عمدۃ الطالب، ۱۳۸۱ق، ص۳۵۷؛ المظفر، موسوعۃ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱، ص۱۰۵.</ref>منقول ہے کہ شب [[عاشورا]] جب [[زہیر بن قین]] کو پتہ چلا کہ [[شمر]] نے عباسؑ کو امان نامہ بھیجا ہے تو کہا: اے فرزند [[امام علی علیہ السلام|امیرالمومنین]]، جب تمہارے والد نے شادی کرنا چاہا تو تمہارے چچا عقیل سے کہا کہ ان کے لئے ایسی خاتون تلاش کریں جس کے حسب و نسب میں شجاعت و بہادری ہو تاکہ ان سے دلیر اور بہادر پیدا ہوں، ایسا بیٹا جو [[کربلا]] میں [[امام حسین علیہ السلام|حسینؑ]] کا مددگار بنے۔<ref> الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۷۷؛الاوردبادی، موسوعۃ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ص۵۲-۵۳؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۶.</ref> اردوبادی کہتا ہے کہ زہیر اور عباس کی گفتگو کو [[اسرار الشہادۃ (کتاب)|اسرار الشہادۃ]] نامی کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہیں پایا۔<ref> الاوردبادی، موسوعۃ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ص۵۲-۵۳.</ref>
امام علیؑ نے اپنے بھائی [[عقیل بن ابی طالب|عقیل]] سے درخواست کی تھی کہ انھیں ایسی ہمسر کی تلاش کریں جس سے بہادر اور دلیر بیٹے پیدا ہوجائیں تو عقیل جو کہ نسب شناس تھے، نے عباس کی ماں [[فاطمہ بنت حزام]] کو آپ کے لئے معرفی کیا تھا<ref>ابن عنبہ، عمدۃ الطالب، ۱۳۸۱ق، ص۳۵۷؛ المظفر، موسوعۃ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱، ص۱۰۵.</ref>منقول ہے کہ شب [[عاشورا]] جب [[زہیر بن قین]] کو پتہ چلا کہ [[شمر]] نے عباسؑ کو امان نامہ بھیجا ہے تو کہا: اے فرزند [[امام علی علیہ السلام|امیرالمومنین]]، جب تمہارے والد نے شادی کرنا چاہا تو تمہارے چچا عقیل سے کہا کہ ان کے لئے ایسی خاتون تلاش کریں جس کے حسب و نسب میں شجاعت و بہادری ہو تاکہ ان سے دلیر اور بہادر پیدا ہوں، ایسا بیٹا جو [[کربلا]] میں [[امام حسین علیہ السلام|حسینؑ]] کا مددگار بنے۔<ref> الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۷۷؛الاردوبادی، موسوعۃ العلامہ الاردوبادی، ۱۴۳۶ق، ص۵۲-۵۳؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۶.</ref> اردوبادی کہتا ہے کہ زہیر اور عباس کی گفتگو کو [[اسرار الشہادۃ (کتاب)|اسرار الشہادۃ]] نامی کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہیں پایا۔<ref> الاردوبادی، موسوعۃ العلامہ الاردوبادی، ۱۴۳۶ق، ص۵۲-۵۳.</ref>


=== کنیت===
=== کنیت===
سطر 60: سطر 60:
بعض محققین کا کہنا ہے کہ  آپ کی [[واقعہ کربلا]] سے پہلے کی زندگی کے بارے [[جنگ صفین]] کی بعض گزارشات کے علاوہ کوئی خاص اطلاعات میسر نہیں ہیں۔<ref>بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۸</ref>
بعض محققین کا کہنا ہے کہ  آپ کی [[واقعہ کربلا]] سے پہلے کی زندگی کے بارے [[جنگ صفین]] کی بعض گزارشات کے علاوہ کوئی خاص اطلاعات میسر نہیں ہیں۔<ref>بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۸</ref>
===ولادت===
===ولادت===
حضرت عباس کی ولادت کے سال کے بارے میں اختلاف ہے۔ <ref>الاوردبادی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، ۱۴۳۶ق، ص۶۱. محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۱.</ref> یہ اختلافات امام علیؑ کی [[شہادت]] کے وقت عباسؑ کی عمر کے بارے میں موجود اختلافات کی بنا پر ہیں۔ بعض نے 16 سے 18 سال تک کی عمر کا کہا ہے۔<ref>محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۱ و ۵۰</ref> جبکہ دوسرے بعض نے اس وقت آپ کی عمر کو 14 سال اور [[بلوغ|نابالغی]] کا دور قرار دیا ہے۔<ref>الناصری، مولد العباس بن علی، ۱۳۷۲ش، ص۶۲؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق، ص۲۴۲</ref>
حضرت عباس کی ولادت کے سال کے بارے میں اختلاف ہے۔ <ref>الاردوبادی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، ۱۴۳۶ق، ص۶۱. محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۱.</ref> یہ اختلافات امام علیؑ کی [[شہادت]] کے وقت عباسؑ کی عمر کے بارے میں موجود اختلافات کی بنا پر ہیں۔ بعض نے 16 سے 18 سال تک کی عمر کا کہا ہے۔<ref>محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۱ و ۵۰</ref> جبکہ دوسرے بعض نے اس وقت آپ کی عمر کو 14 سال اور [[بلوغ|نابالغی]] کا دور قرار دیا ہے۔<ref>الناصری، مولد العباس بن علی، ۱۳۷۲ش، ص۶۲؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق، ص۲۴۲</ref>
مشہور قول کے مطابق آپ [[سنہ ۲۶ ہجری قمری|۲۶ھ]] کو [[مدینہ]] میں پیدا ہوئے۔<ref>زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۸۹-۹۰؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۲۹</ref> اردوبادی کے کہنے کے مطابق قدیمی منابع میں آپ کی ولادت کے مہینے اور دن کے بارے میں بھی کچھ نہیں ملتا ہے اور صرف تیرہویں صدی ہجری میں لکھی گئی انیس الشیعہ نامی کتاب میں اپ کی تولد کو [[4 شعبان]] قرار دیا ہے۔<ref>الاوردبادی، حیاۃ ابی‌ الفضل العباس، ۱۴۳۶ق، ص۶۴</ref> [[روایات]] کے مطابق، جب آپ پیدا ہوئے تو [[امام علیؑ]] نے اپنی گود میں لیا اور اسے عباس نام دیا اور ان کے کانوں میں [[اذان]] اور [[اقامت]] پڑھی پھر اس کے بازوؤں کا بوسہ لیا اور رونے لگے تو ام البنین نے رونے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا تمہارے بیٹے کے دونوں بازو [[حسینؑ]] کی مدد میں تن سے جدا ہونگے اور [[اللہ تعالی]] ان کے کٹے ہوئے بازوؤں کے بدلے اسے [[آخرت]] میں دو پر عطا کرے گا۔<ref>کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۴۰۸ق، ص۱۱۹-۱۲۰.</ref> عباس کے دونوں بازوؤں کے کاٹنے پر گریہ کرنے کا ذکر دوسری بعض روایات میں بھی ذکر ہوا ہے۔<ref>دیکھیں: ناصری، مولد العباس بن علی، ۱۳۷۲ق، ص۶۱-۶۲؛ خصائص العباسیہ، ص۱۱۹-۱۲۰؛ خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۷۸ش، ص۱۴۰</ref>
مشہور قول کے مطابق آپ [[سنہ ۲۶ ہجری قمری|۲۶ھ]] کو [[مدینہ]] میں پیدا ہوئے۔<ref>زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۸۹-۹۰؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۲۹</ref> اردوبادی کے کہنے کے مطابق قدیمی منابع میں آپ کی ولادت کے مہینے اور دن کے بارے میں بھی کچھ نہیں ملتا ہے اور صرف تیرہویں صدی ہجری میں لکھی گئی انیس الشیعہ نامی کتاب میں اپ کی تولد کو [[4 شعبان]] قرار دیا ہے۔<ref>الاردوبادی، حیاۃ ابی‌ الفضل العباس، ۱۴۳۶ق، ص۶۴</ref> [[روایات]] کے مطابق، جب آپ پیدا ہوئے تو [[امام علیؑ]] نے اپنی گود میں لیا اور اسے عباس نام دیا اور ان کے کانوں میں [[اذان]] اور [[اقامت]] پڑھی پھر اس کے بازوؤں کا بوسہ لیا اور رونے لگے تو ام البنین نے رونے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا تمہارے بیٹے کے دونوں بازو [[حسینؑ]] کی مدد میں تن سے جدا ہونگے اور [[اللہ تعالی]] ان کے کٹے ہوئے بازوؤں کے بدلے اسے [[آخرت]] میں دو پر عطا کرے گا۔<ref>کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۴۰۸ق، ص۱۱۹-۱۲۰.</ref> عباس کے دونوں بازوؤں کے کاٹنے پر گریہ کرنے کا ذکر دوسری بعض روایات میں بھی ذکر ہوا ہے۔<ref>دیکھیں: ناصری، مولد العباس بن علی، ۱۳۷۲ق، ص۶۱-۶۲؛ خصائص العباسیہ، ص۱۱۹-۱۲۰؛ خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۷۸ش، ص۱۴۰</ref>


=== ازواج اور اولاد ===
=== ازواج اور اولاد ===
سطر 70: سطر 70:
بعض کتابوں کے مطابق [[جنگ صفین|صفین]] میں حضرت عباس ان افراد میں سے تھے جنہوں نے [[مالک اشتر]] کی سپہ سالاری میں [[فرات]] پر حملہ کیا اور [[امام علیؑ]] کی فوج کیلئے پانی کا بندوبست کیا۔<ref>حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۴۳۷؛ الموسوي المقرم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.</ref>جنگ صفین میں [[شام]] کے ابن شعثاء اور اس کے سات بیٹوں کے حضرت عباس کے ہاتھوں قتل ہونے کا ذکر بھی ہوا ہے۔<ref>الموسوي المقرم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.</ref>  شام کے لوگ ابن شعثاء کو ہزار آدمی کے برابر سمجھتے تھے۔<ref>الموسوي المقرم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.</ref> آپ کی جنگ صفین کے بعد سے [[واقعہ کربلا]] تک کے درمیانی عرصے کی زندگی کے بارے میں تاریخی مصادر میں کچھ ذکر نہیں ہوا ہے۔
بعض کتابوں کے مطابق [[جنگ صفین|صفین]] میں حضرت عباس ان افراد میں سے تھے جنہوں نے [[مالک اشتر]] کی سپہ سالاری میں [[فرات]] پر حملہ کیا اور [[امام علیؑ]] کی فوج کیلئے پانی کا بندوبست کیا۔<ref>حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۴۳۷؛ الموسوي المقرم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.</ref>جنگ صفین میں [[شام]] کے ابن شعثاء اور اس کے سات بیٹوں کے حضرت عباس کے ہاتھوں قتل ہونے کا ذکر بھی ہوا ہے۔<ref>الموسوي المقرم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.</ref>  شام کے لوگ ابن شعثاء کو ہزار آدمی کے برابر سمجھتے تھے۔<ref>الموسوي المقرم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.</ref> آپ کی جنگ صفین کے بعد سے [[واقعہ کربلا]] تک کے درمیانی عرصے کی زندگی کے بارے میں تاریخی مصادر میں کچھ ذکر نہیں ہوا ہے۔


اردوبادی کے بقول حضرت علیؑ کی [[امام حسین]] کے بارے میں کی جانے والی [[وصیت]] کے بارے میں سنا تو بہت ہے لیکن ابھی تک اس کے لیے کوئی مستند نہیں ملا ہے۔<ref>اوردبادی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، ص۵۵</ref>
اردوبادی کے بقول حضرت علیؑ کی [[امام حسین]] کے بارے میں کی جانے والی [[وصیت]] کے بارے میں سنا تو بہت ہے لیکن ابھی تک اس کے لیے کوئی مستند نہیں ملا ہے۔<ref>اردوبادی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، ص۵۵</ref>


== واقعہ کربلا ==
== واقعہ کربلا ==
{{محرم کی عزاداری}}
{{محرم کی عزاداری}}
{{اصلی|واقعہ کربلا}}
{{اصلی|واقعہ کربلا}}
کربلا کے واقعے میں شرکت حضرت عباس کی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہے اور اسی وجہ سے شیعوں کے ہاں آپ بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ عباس کو [[قیام امام حسینؑ]] کی اہم شخصیات میں سے شمار کیا ہے۔<ref>شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۴.</ref>اس کے باوجود بہت ساری کتابوں میں حضرت عباس کے بارے میں الگ سے لکھا گیا ہے۔ امام حسینؑ کی [[مدینہ]] سے [[مکہ]] اور مکہ سے [[کوفہ]] تک کے سفر اور محرم 61ھ سے پہلے تک حضرت عباس کے بارے میں کوئی تاریخی رپورٹ یا روایت میں کچھ نہیں ملتا ہے۔<ref>بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ دیکھیں: مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱و۲ و۳؛ الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق؛ حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق؛ ابن‌جوزی‌، تذكرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق؛ الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش؛ اخطب خوارزم، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۴ و ۵</ref>  
کربلا کے واقعے میں شرکت حضرت عباس کی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہے اور اسی وجہ سے شیعوں کے ہاں آپ بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ عباس کو [[قیام امام حسینؑ]] کی اہم شخصیات میں سے شمار کیا ہے۔<ref>شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۴.</ref>اس کے باوجود بہت ساری کتابوں میں حضرت عباس کے بارے میں الگ سے لکھا گیا ہے۔ امام حسینؑ کی [[مدینہ]] سے [[مکہ]] اور مکہ سے [[کوفہ]] تک کے سفر اور محرم 61ھ سے پہلے تک حضرت عباس کے بارے میں کوئی تاریخی رپورٹ یا روایت میں کچھ نہیں ملتا ہے۔<ref>بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ دیکھیں: مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱و۲ و۳؛ الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق؛ حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق؛ ابن‌جوزی‌، تذكرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق؛ الاردوبادی، موسوعہ العلامہ الاردوبادی، ۱۴۳۶ق؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش؛ اخطب خوارزم، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۴ و ۵</ref>  
===مکہ میں خطبہ دینا===
===مکہ میں خطبہ دینا===
چند سال پہلے چھپنے والی کتاب خطیب کعبہ کے مصنف نے حضرت عباس سے ایک خطبے کی نسبت دی ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.</ref>وہ اس خطبے کو مناقب سادۃ ‎الکرام نامی کتاب کی ایک یادداشت کی طرف استناد دیتا ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.</ref>اس گزارش کے مطابق حضرت عباس نے آٹھویں ذی الحجہ کو [[کعبہ]] کی چھت پر ایک خطبہ دیا جس میں [[امام حسینؑ]] کے مقام و عظمت بیان کرتے ہوئے [[یزید]] کو ایک شرابخوار شخص بیان کیا اور اس کی [[بیعت]] کرنے پر لوگوں کی مذمت کی۔ آپ نے اس خطبے میں تاکید کی کہ جب تک وہ زندہ ہیں کسی کو امام حسینؑ شہید کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور امام حسینؑ کو شہید کرنے کا تنہا راستہ پہلے انھیں قتل کرنا ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶-۴۸.</ref> یہ خطبہ تاریخ و حدیث کے مصادر اولیہ میں نہیں پایا گیا۔ نیز جویا جہان‌ بخش نے اس خطبے کا ادبی اعتبار سے نقد کیا اور اس کتاب (مناقب سادۃ الکرام) کے مصنف اور اصل کتاب کو مجہول الحال قرار دبتے ہوئے تصریح کی ہے کہ یہ ماجرا دوسری کتابوں میں نہیں ملتا ہے۔<ref>جہان‌بخش، «گنجى نويافتہ يا وہمى بربافتہ؟»، ص۲۸-۵۶.</ref>
چند سال پہلے چھپنے والی کتاب خطیب کعبہ کے مصنف نے حضرت عباس سے ایک خطبے کی نسبت دی ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.</ref>وہ اس خطبے کو مناقب سادۃ ‎الکرام نامی کتاب کی ایک یادداشت کی طرف استناد دیتا ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.</ref>اس گزارش کے مطابق حضرت عباس نے آٹھویں ذی الحجہ کو [[کعبہ]] کی چھت پر ایک خطبہ دیا جس میں [[امام حسینؑ]] کے مقام و عظمت بیان کرتے ہوئے [[یزید]] کو ایک شرابخوار شخص بیان کیا اور اس کی [[بیعت]] کرنے پر لوگوں کی مذمت کی۔ آپ نے اس خطبے میں تاکید کی کہ جب تک وہ زندہ ہیں کسی کو امام حسینؑ شہید کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور امام حسینؑ کو شہید کرنے کا تنہا راستہ پہلے انھیں قتل کرنا ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶-۴۸.</ref> یہ خطبہ تاریخ و حدیث کے مصادر اولیہ میں نہیں پایا گیا۔ نیز جویا جہان‌ بخش نے اس خطبے کا ادبی اعتبار سے نقد کیا اور اس کتاب (مناقب سادۃ الکرام) کے مصنف اور اصل کتاب کو مجہول الحال قرار دبتے ہوئے تصریح کی ہے کہ یہ ماجرا دوسری کتابوں میں نہیں ملتا ہے۔<ref>جہان‌بخش، «گنجى نويافتہ يا وہمى بربافتہ؟»، ص۲۸-۵۶.</ref>
سطر 90: سطر 90:


=== بھائیوں کی شہادت===
=== بھائیوں کی شہادت===
تاریخی گزارشات کے مطابق [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] کی [[ام‌ البنین]] سے شادی کے نتیجے میں چار بیٹے ابوالفضل «عباس»، ابو عبداللہ «جعفر»، ابو محمد «عبداللہ» و ابو عمر «عثمان» پیدا ہوئے۔ عباسؑ نے روز عاشورا اپنے بھائیوں کو خود سے پہلے میدان جنگ بھیجا اور ان سے پہلے تینوں بھائی شہید ہوئے۔<ref>الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۶۹-۷۱.</ref> عباس 36 سال کی عمر میں، جعفر 29، عبداللہ  25، اور عثمان 21 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔<ref>الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۷۳-۸۴.</ref>
تاریخی گزارشات کے مطابق [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] کی [[ام‌ البنین]] سے شادی کے نتیجے میں چار بیٹے ابوالفضل «عباس»، ابو عبداللہ «جعفر»، ابو محمد «عبداللہ» و ابو عمر «عثمان» پیدا ہوئے۔ عباسؑ نے روز عاشورا اپنے بھائیوں کو خود سے پہلے میدان جنگ بھیجا اور ان سے پہلے تینوں بھائی شہید ہوئے۔<ref>الاردوبادی، موسوعہ العلامہ الاردوبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۶۹-۷۱.</ref> عباس 36 سال کی عمر میں، جعفر 29، عبداللہ  25، اور عثمان 21 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔<ref>الاردوبادی، موسوعہ العلامہ الاردوبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۷۳-۸۴.</ref>


ابن اثیر نے کتاب الکامل میں لکھا ہے کہ عباسؑ نے اپنے بھائیوں سے کہا:«تقدّموا حتى أرثكم» مجھ سے پہلے جنگ کو چلے جاؤ تاکہ میں تم سے ارث پاوں۔<ref>ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۶ق،  ج۴، ص۷۶.</ref>بعض محققین نے اس بات کو غلط اور وہم قرار دیا ہے کیونکہ عباس کو معلوم تھا کہ اس وقت ان کو بھی قتل ہونا ہے تو ارث پانے کا معنی نہیں رکھتا ہے۔<ref>الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۸۴-۱۸۶؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۲۲۱-۲۲؛  میردریکوندی، دریای تشنہ؛ تشنہ دریا، ۱۳۸۲ش، ص۵۴-۵۶. </ref>  اس کے برخلاف [[فضل بن حسن طبرسی|طبرسی]] اور دینوری نے نقل کیا ہے کہ عباسؑ نے بھائیوں سے کہ تم جاکر اپنے بھائی سید اور مولا کا دفاع کرو تاکہ تم مارے جاؤ تو وہ قتل نہیں ہوگا۔<ref>الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۸۵؛ بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ص۹۶.</ref> اردوبادی احتمال دیتا ہے کہ عباسؑ نے بھائیوں کو اپنے سے پہلے اس لیے میدان بھیجا تاکہ ان کو [[جہاد]] کے لیے تیار کرنے کا ثواب اور بھائیوں کی شہادت پر صبر کر کے صابرین کا ثواب بھی حاصل کرسکے۔<ref>الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۱۰۶.</ref>
ابن اثیر نے کتاب الکامل میں لکھا ہے کہ عباسؑ نے اپنے بھائیوں سے کہا:«تقدّموا حتى أرثكم» مجھ سے پہلے جنگ کو چلے جاؤ تاکہ میں تم سے ارث پاوں۔<ref>ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۶ق،  ج۴، ص۷۶.</ref>بعض محققین نے اس بات کو غلط اور وہم قرار دیا ہے کیونکہ عباس کو معلوم تھا کہ اس وقت ان کو بھی قتل ہونا ہے تو ارث پانے کا معنی نہیں رکھتا ہے۔<ref>الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۸۴-۱۸۶؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۲۲۱-۲۲؛  میردریکوندی، دریای تشنہ؛ تشنہ دریا، ۱۳۸۲ش، ص۵۴-۵۶. </ref>  اس کے برخلاف [[فضل بن حسن طبرسی|طبرسی]] اور دینوری نے نقل کیا ہے کہ عباسؑ نے بھائیوں سے کہ تم جاکر اپنے بھائی سید اور مولا کا دفاع کرو تاکہ تم مارے جاؤ تو وہ قتل نہیں ہوگا۔<ref>الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۸۵؛ بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ص۹۶.</ref> اردوبادی احتمال دیتا ہے کہ عباسؑ نے بھائیوں کو اپنے سے پہلے اس لیے میدان بھیجا تاکہ ان کو [[جہاد]] کے لیے تیار کرنے کا ثواب اور بھائیوں کی شہادت پر صبر کر کے صابرین کا ثواب بھی حاصل کرسکے۔<ref>الاردوبادی، موسوعہ العلامہ الاردوبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۱۰۶.</ref>


===روز عاشورا رجزخوانی===
===روز عاشورا رجزخوانی===
[[واقعہ کربلا]] میں حضرت عباسؑ کے مختلف رجز نقل ہوئے ہیں:<ref>مراجعہ کریں:کلباسی، خصائص عباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۱-۱۸۸؛ خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶-۱۱۲؛الاوردبادی،موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۲۱۹-۲۲۰؛ المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۵-۱۷۶. </ref>  
[[واقعہ کربلا]] میں حضرت عباسؑ کے مختلف رجز نقل ہوئے ہیں:<ref>مراجعہ کریں:کلباسی، خصائص عباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۱-۱۸۸؛ خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶-۱۱۲؛الاردوبادی،موسوعہ العلامہ الاردوبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۲۱۹-۲۲۰؛ المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۵-۱۷۶. </ref>  
{{شعر2
{{شعر2
|أقسمت باللّہ الأعز الأعظم|و بالحجور صادقا و زمزم
|أقسمت باللّہ الأعز الأعظم|و بالحجور صادقا و زمزم
سطر 102: سطر 102:
{{شعر2  
{{شعر2  
|و اللہ ان قطعتم یمینی|انی احامی ابدا عنی دینی
|و اللہ ان قطعتم یمینی|انی احامی ابدا عنی دینی
|عن امام صادق الیقین|نجل النبی الطاہر الامین<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۵؛ کلباسی، خصائص عباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۷؛ الاوردبادی،موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۲۲۰؛ خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۱۰.</ref>}}
|عن امام صادق الیقین|نجل النبی الطاہر الامین<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۵؛ کلباسی، خصائص عباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۷؛ الاردوبادی،موسوعہ العلامہ الاردوبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۲۲۰؛ خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۱۰.</ref>}}


=== شہادت  ===
=== شہادت  ===
حضرت عباس کی شہادت کی کیفیت اور وقت کے بارے میں تین قول پائے جاتے ہیں؛ [[7 محرم]]، [[9 محرم]] اور دس محرم۔ محمد حسن مظفر نے پہلے دو قول کو ضعیف اور بہت نادر قرار دیا ہے اور اکثر مورخین کی گزارشات اور تصریح کے مطابق حضرت عباس قطعی طور پر [[10 محرم]] کو شہید ہوئے ہیں۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۲.</ref>  
حضرت عباس کی شہادت کی کیفیت اور وقت کے بارے میں تین قول پائے جاتے ہیں؛ [[7 محرم]]، [[9 محرم]] اور دس محرم۔ محمد حسن مظفر نے پہلے دو قول کو ضعیف اور بہت نادر قرار دیا ہے اور اکثر مورخین کی گزارشات اور تصریح کے مطابق حضرت عباس قطعی طور پر [[10 محرم]] کو شہید ہوئے ہیں۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۲.</ref>  


مورخین نے حضرت عباسؑ کی شہادت کی کیفیت کے بارے میں مختلف روایات نقل کی ہیں:<ref> خرمیان، ابو الفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶- ۱۱۲؛ دیکھیں: بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱و۲ و۳؛ الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق؛ حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق؛ ابن‌ جوزی‌، تذكرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق؛ الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت ابو الفضل العباس، ۱۳۸۶ش؛ الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۵-۳۵۸؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۸۴-۱۲۰؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۲۸ق، ص۳۳۸؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۴؛ سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۱۶۱؛ طبرسی، اعلام الوری، ج۱، ص۴۵۷.</ref>بہت ساری کتابوں کے نقل کے مطابق عباسؑ [[اصحاب امام حسین|اصحاب]] اور [[بنی‌ ہاشم]] کے آخری فرد کی شہادت تک میدان کو نہیں گئے تھے<ref>اردوبادی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، ص۱۹۲-۱۹۴</ref>ان کی شہادت کے بعد خیموں میں پانے لانے کا قصد کیا۔ آپ نے [[عمر سعد|عمر‌بن سعد]] کی لشکر پر حملہ کیا اور فرات تک پہنچ گئے۔ بعض مقاتل میں آیا ہے کہ عباس نے ہاتھوں کے چلو کو پانی پینے کی قصد سے بھرا اور منہ کے قریب کیا پھر زمین پر گرایا اور تشنہ لب، مشک پر کرکے فرات سے باہر آئے۔ واپسی پر دشمن نے ان پر حملہ کیا اور آپ نے نخلستان میں دشمن کا مقابلہ کیا اور خیموں کی جانب نکلے تو [[زید بن ورقاء جہنی]] نے کسی خرما کے اوٹ سے آکر آپ کے دائیں ہاتھ پر ایک ضربت ماری عباسؑ نے تلوار بایاں ہاتھ میں لیا اور دشمن سے جنگ جاری رکھااسی اثناء میں ایک درخت کے اوٹ میں گھات لگائے [[حکیم بن طفیل طائی سنبسی]] نے آپ کے داہنے ہاتھ پر وار کیا اور اس کے بعد عباسؑ کے سر پر گرز مارا اور آپ کو شہید کیا<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۴- ۱۷۸؛الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۲۱۹-۲۲۰؛ خرمیان، ابو الفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶- ۱۱۴؛ شیخ مفید، ترجمہ ارشاد، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۴۱۱-۴۱۲؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ج۲، ص۳۴؛ مقرم، حادثہ کربلا در مقتل مقرم، ص۲۶۲؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۶ق، ج۳، ص۲۵۶.</ref>
مورخین نے حضرت عباسؑ کی شہادت کی کیفیت کے بارے میں مختلف روایات نقل کی ہیں:<ref> خرمیان، ابو الفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶- ۱۱۲؛ دیکھیں: بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱و۲ و۳؛ الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق؛ حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق؛ ابن‌ جوزی‌، تذكرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق؛ الاردوبادی، موسوعہ العلامہ الاردوبادی، ۱۴۳۶ق؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت ابو الفضل العباس، ۱۳۸۶ش؛ الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۵-۳۵۸؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۸۴-۱۲۰؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۲۸ق، ص۳۳۸؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۴؛ سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۱۶۱؛ طبرسی، اعلام الوری، ج۱، ص۴۵۷.</ref>بہت ساری کتابوں کے نقل کے مطابق عباسؑ [[اصحاب امام حسین|اصحاب]] اور [[بنی‌ ہاشم]] کے آخری فرد کی شہادت تک میدان کو نہیں گئے تھے<ref>اردوبادی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، ص۱۹۲-۱۹۴</ref>ان کی شہادت کے بعد خیموں میں پانے لانے کا قصد کیا۔ آپ نے [[عمر سعد|عمر‌بن سعد]] کی لشکر پر حملہ کیا اور فرات تک پہنچ گئے۔ بعض مقاتل میں آیا ہے کہ عباس نے ہاتھوں کے چلو کو پانی پینے کی قصد سے بھرا اور منہ کے قریب کیا پھر زمین پر گرایا اور تشنہ لب، مشک پر کرکے فرات سے باہر آئے۔ واپسی پر دشمن نے ان پر حملہ کیا اور آپ نے نخلستان میں دشمن کا مقابلہ کیا اور خیموں کی جانب نکلے تو [[زید بن ورقاء جہنی]] نے کسی خرما کے اوٹ سے آکر آپ کے دائیں ہاتھ پر ایک ضربت ماری عباسؑ نے تلوار بایاں ہاتھ میں لیا اور دشمن سے جنگ جاری رکھااسی اثناء میں ایک درخت کے اوٹ میں گھات لگائے [[حکیم بن طفیل طائی سنبسی]] نے آپ کے داہنے ہاتھ پر وار کیا اور اس کے بعد عباسؑ کے سر پر گرز مارا اور آپ کو شہید کیا<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۴- ۱۷۸؛الاردوبادی، موسوعہ العلامہ الاردوبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۲۱۹-۲۲۰؛ خرمیان، ابو الفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶- ۱۱۴؛ شیخ مفید، ترجمہ ارشاد، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۴۱۱-۴۱۲؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ج۲، ص۳۴؛ مقرم، حادثہ کربلا در مقتل مقرم، ص۲۶۲؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۶ق، ج۳، ص۲۵۶.</ref>
بعض گزارشات نے لکھا ہے کہ جب عباسؑ شہید ہوئے تو امام حسینؑ بھائی کی لاش پر حاضر ہوئے اور بہت روئے اور فرمایا: {{حدیث|اَلآنَ اِنکَسَرَ ظَهری وَ قَلَّت حیلَتی}}: اب میری کمر ٹوٹ گئی اور چارہ جوئی کم ہوگئی۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۸؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۹۸؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۳۴؛ خرمیان، ابو الفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۱۳. </ref>
بعض گزارشات نے لکھا ہے کہ جب عباسؑ شہید ہوئے تو امام حسینؑ بھائی کی لاش پر حاضر ہوئے اور بہت روئے اور فرمایا: {{حدیث|اَلآنَ اِنکَسَرَ ظَهری وَ قَلَّت حیلَتی}}: اب میری کمر ٹوٹ گئی اور چارہ جوئی کم ہوگئی۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۸؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۹۸؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۳۴؛ خرمیان، ابو الفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۱۳. </ref>


سطر 229: سطر 229:
* ابو الفرج الاصفہانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق احمد صقر، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۷ء.
* ابو الفرج الاصفہانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق احمد صقر، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۷ء.
* اطیابی، اعظم، «سقاخانہ‌ہای اصفہان»، مجلہ‌ی فرہنگ مردم، تابستان ۱۳۸۳-شمارہ ۱۰.
* اطیابی، اعظم، «سقاخانہ‌ہای اصفہان»، مجلہ‌ی فرہنگ مردم، تابستان ۱۳۸۳-شمارہ ۱۰.
* الاورد بادی، محمد علی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، در موسوعۃ العلامۃ الاوردبادی، ج۷، دار الکفیل، کربلا، ۱۴۳۶ق.
* الاورد بادی، محمد علی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، در موسوعۃ العلامۃ الاردوبادی، ج۷، دار الکفیل، کربلا، ۱۴۳۶ق.
* البغدادی، محمد بن حبیب، المحبّر، بیروت، منشورات دار الآفاق الجدیدۃ، بی تا.
* البغدادی، محمد بن حبیب، المحبّر، بیروت، منشورات دار الآفاق الجدیدۃ، بی تا.
* التكريتي، عبد اللہ طاہر، مذكرات حردان التكريتي، بی جا، بی مکان.
* التكريتي، عبد اللہ طاہر، مذكرات حردان التكريتي، بی جا، بی مکان.
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم