امام حسین علیہ السلام

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
ویکی شیعہ سے
(سبط پیغمبر سے رجوع مکرر)
امام حسین علیہ السلام
ضریح امام حسینؑ
ضریح امام حسینؑ
منصبشیعوں کا تیسرا امام
نامحسینؑ بن علیؑ
کنیتابو عبداللہ
القابزکی، سید الشہداء
تاریخ ولادت3 شعبان، سنہ 4 ہجری
جائے ولادتمدینہ
مدت امامتتقریباً 10 سال (50ھ کے آغاز سے 61ھ تک)
شہادت10 محرم (عاشوراسنہ 61 ھ
سبب شہادتواقعہ عاشورا
مدفنکربلا، عراق
رہائشمدینہ، کوفہ
والد ماجدامام علیؑ
والدہ ماجدہحضرت فاطمہؑ
ازواجرباب، لیلا، ام اسحاق، شہربانو
اولادامام سجاد علیہ‌السلام، علی اکبر، جعفر، علی اصغر، سکینہ، فاطمہ
عمر57 سال
ائمہ معصومینؑ
امام علیؑامام حسنؑامام حسینؑامام سجادؑامام محمد باقرؑامام صادقؑامام موسی کاظمؑامام رضاؑامام محمد تقیؑامام علی نقیؑامام حسن عسکریؑامام مہدیؑ


زندگینامہ امام حسینؑ
۳ یا 5 شعبان۴ھ ولادت[1]
۷ہجری اصحاب کساءپر آیۂ تطہیر کا نزول [2]
24ذی‌الحجہ ۹ہجری مباہلہ میں شرکت[3]
ربیع الاول ۱۱ہجری امام علیؑ کی خلاقت کا حق واپس لینے کے لیے والدین اور بھائی کے ہمراہ انصار اور اہل بدر کے در در جانا[4]
ذی‌الحجہ ۳۵ہجری امام علیؑ کے حکم پر دشمنوں سے عثمان کی حفاظت[5]
ذی‌الحجہ ۳۵ھ لوگوں کا امام علیؑ کی بیعت کرنے کے بعد آپ کا خطبہ[6]
جمادی الثانی ۳۶ھ جنگ جمل میں شرکت[7]
صفر ۳۷ہجری جنگ صفین میں شرکت[8]
صفر ۳۸ہجری جنگ نہروان میں شرکت[9]
۴۱ہجری کوفہ سے مدینہ واپسی[10]
28 صفر ۵۰ہجری شہادت امام حسنؑ[11] اور امام حسینؑ کی امامت کا آغاز
۵۱ یا ۵۲ یا ۵۳ہجری[12] حجر بن عدی اور اس کے ساتھیوں کی شہادت پر معاویہ کو اعتراض آمیز خط
۵۸ہجری منی میں خطبہ[13]
۲۶رجب ۶۰ہجری یزید کی بیعت کرنے کے لیے دار الامارۃ میں بلاوا[14]
28رجب ۶۰ہجری مدینہ سے مکہ کی طرف روانگی [15]
3شعبان ۶۰ہجری ورودِ مکہ[16]
۱۰ تا ۱۴ رمضان ۶۰ہجری کوفہ والوں کے خطوط موصول کرنا[17]
15 رمضان ۶۰ہجری مسلم کو اپنا نمائندہ بنا کر کوفہ بھیجنا[18]
8 ذی الحجہ ۶۰ہجری مکہ سے کوفہ کی طرف روانگی[19]
2 محرم ۶1ہجری ورودِ کربلا.[20]
۹ محرم 61ہجری عمر سعد کا اعلانِ جنگ اور امام کی طرف سے مہلت کا مطالبہ[21]
۱۰ محرم 61ہجری واقعہ عاشورا، امام حسین اور یار و انصار کی شہادت[22]


حسین بن علی بن ابی طالب (4۔61ھامام حسینؑ، اباعبد اللہ و سید الشہداء کے نام سے مشہور شیعوں کے تیسرے امام ہیں جو واقعہ عاشورا میں شہید ہوئے۔ آپ امام علیؑ و فاطمہ زہراؑ کے دوسرے بیٹے اور پیغمبر اکرم ؐ کے نواسے ہیں۔ آپ اپنے بھائی امام حسن مجتبیؑ کے بعد دس سال منصب امامت پر فائز رہے۔

شیعہ و اہل سنت تاریخی مصادر کے مطابق پیغمبر خداؐ نے آپؑ کی ولادت کے وقت آپ کی شہادت کی خبر دی اور آپ کا نام حسین رکھا۔ رسول اللہؐ حسنینؑ کو بہت چاہتے تھے اور ان سے محبت رکھنے کی سفارش کرتے تھے۔ امام حسینؑ اصحاب کسا میں سے ہیں، مباہلہ میں بھی حاضر تھے اور اہل بیتِ پیغمبر میں سے ہیں جن کی شان میں آیۂ تطہیر نازل ہوئی ہے۔ امام حسینؑ کی فضیلت میں آنحضرتؐ سے بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں جیسے؛ حسن و حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور حسین چراغ ہدایت و کشتی نجات ہیں۔

ختمی المرتبتؐ کی وفات کے بعد کے تیس سالوں میں آپ کی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ آپ امیرالمؤمنینؑ کی خلافت کے دور میں ان کے ساتھ تھے اور اس دور کی جنگوں میں شریک رہے۔ امام حسنؑ کی امامت کے دوران آپ ان کے دست و بازو بنے اور امام حسنؑ کی معاویہ سے صلح کی تائید کی۔ امام حسن کی شہادت سے معاویہ کے مرنے تک اس عہد پر باقی رہے اور کوفہ کے بعض شیعوں نے جب آپ کو بنی‌ امیہ کے خلاف قیام اور شیعوں کی رہبری سنبھالنے کی درخواست کی تو آپ نے انہیں معاویہ کے مرنے تک صبر کرنے کی تلقین کی۔

حسین بن علیؑ کی امامت معاویہ کی حکومت کے معاصر تھی۔ بعض تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ نے معاویہ کے بعض اقدامات پر سخت اعتراض کیا ہے، بالخصوص حجر بن عدی کے قتل پر معاویہ کو سرزنش آمیز خط لکھا اور جب یزید کو ولی عہد بنایا تو آپ نے اس کی بیعت سے انکار کیا۔ معاویہ اور بعض دوسروں کے سامنے آپ نے اس کے اس کام کی مذمت کی اور یزید کو ایک نالایق شخص قرار دیتے ہوئے خلافت کو اپنے لئے شایستہ قرار دیا۔ امام حسین کا منا میں خطبہ بھی بنی امیہ کے خلاف آپ کا سیاسی موقف سمجھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود معاویہ تینوں خلفاء کی طرح ظاہری طور پر امام حسینؑ کا احترام کرتا تھا۔

معاویہ کی وفات کے بعد امام حسینؑ نے یزید کی بیعت کو شریعت کے خلاف قرار دیا اور بیعت نہ کرنے پر یزید کی طرف سے قتل کی دھمکی ملنے پر 28 رجب 60ھ کو مدینہ سے مکہ گئے۔ مکہ میں چار مہینے رہے اور اس دوران کوفہ والوں کی طرف سے حکومت سنبھالنے کے لیے لکھے گئے متعدد خطوط کی وجہ سے مسلم بن عقیل کو ان کی طرف بھیجا۔ مسلم بن عقیل کی طرف سے کوفہ والوں کی تائید کے بعد 8 ذی‌ الحجہ کو کوفہ والوں کی بے وفائی اور مسلم کی شہادت کی خبر سننے سے پہلے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔

جب کوفہ کے گورنر ابن زیاد کو امام حسینؑ کے سفر کی خبر ملی تو ایک فوج ان کی جانب بھیجی اور حر بن یزید کے سپاہیوں نے جب آپ کے راستے کو روکا تو مجبور ہو کر کربلا کی جانب نکلے۔ عاشورا کے دن امام حسین اور عمر بن سعد کی فوج کے درمیان جنگ ہوئی جس میں امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب و انصار میں سے 72 آدمی شہید ہوئے اور شہادت کے بعد امام سجادؑ جو اس وقت بیمار تھے، سمیت خواتین اور بچوں کو اسیر کرکے کوفہ اور شام لے گئے۔ امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کے جنازے 11 یا 13 محرم کو بنی‌ اسد نے کربلا میں دفن کئے۔

امام حسین کے مدینہ سے کربلا کے سفر کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں، ایک نظرئے کے مطابق آپ حکومت قائم کرنا چاہتے تھے جبکہ بعض قائل ہیں کہ یہ سفر صرف اپنی جان بچانے کی خاطر تھا۔ حسین بن علیؑ کی شہادت نے مسلمانوں خاص کر شیعوں پر بڑا اثر کیا اور بہت ساری تحریکوں کے لئے سرمشق بن گئی۔ شیعہ اپنے اماموں کی پیروی کرتے ہوئے امام حسین کی عزاداری اور ان پر گریہ کا خاص طور پر محرم و صفر کے مہینوں میں بہت اہتمام کرتے ہیں۔ معصومین کی روایات میں زیارت امام حسین کی بھی بہت تاکید ہوئی ہے اور ان کا حرم شیعوں کی زیارت گاہ ہے۔

جس طرح حسین بن علیؑ کو شیعوں کے یہاں تیسرے امام اور سید الشہدا ہونے کے ناطے بڑا مقام حاصل ہے۔ اسی طرح اہل سنت بھی پیغمبر اکرمؐ کی احادیث میں بیان کی ہوئی فضیلتوں اور یزید کے مقابلے میں استقامت اور قیام کی وجہ سے آپ کا احترام کرتے ہیں۔

آپ کے کلمات حدیث، دعا، خط، شعر اور خطبہ کی شکل میں موسوعۃ کلمات الامام الحسین اور مسند الامام الشہید نامی کتابوں میں جمع کئے گئے ہیں۔ آپ کی شخصیت اور زندگی پر بھی بہت ساری کتابیں، انسائکلوپیڈیا، مقتل اور تحلیلی تاریخ کی شکل میں لکھی گئیں ہیں۔

مقام و منزلت

حسین بن علی (ع) شیعوں کے تیسرے امام ہیں۔ وہ پہلے امام حضرت علی (ع) کے فرزند اور پیغمبر اسلام (ص) کے نواسے ہیں۔[23] اسلامی مصادر میں ان کے فضائل کے سلسلہ میں بہت ساری احادیث موجود ہیں اور شیعہ ان کے لئے ایک خاص مقام کے قائل ہیں۔ امام حسین (ع) اہل سنت کے نزدیک بھی احترام کے حامل ہیں۔

حدیثی و تاریخی منابع میں

شیعہ و سنی روایات کے مطابق حسین بن علیؑ اصحاب کساء میں سے ایک تھے۔[24] مباہلہ میں بھی آپ شریک تھے[25] اور اپنے بھائی کے ساتھ آیہ مباہلہ میں «ابناءَنا» کے مصداق ہیں۔[26] اسی طرح آیہ تطہیر جو اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی اس میں بھی آپ شامل ہیں۔[27]

امام حسنؑ کی شہادت کے بعد اگرچہ بنی ہاشم میں عمر میں بہت سے افراد امام حسینؑ سے بڑے تھے لیکن آپؑ سب سے شریف فرد تھے؛ یعقوبی کے نقل کے مطابق معاویہ نے حسن بن علی کی شہادت کے بعد ابن عباس سے کہا: اب اپنی قوم کے آپ بزرگ ہیں تو ابن عباس نے ان کے جواب میں کہا: جب تک حسین زندہ ہیں میں بزرگ نہیں ہوں۔[28] اسی طرح بنی ہاشم کے بعض مشورے ہوئے ہیں جن میں حسین بن علی کی نظر سب پر فوقیت رکھتی تھی۔[29] نقل ہوا ہے کہ عمرو بن عاص بھی آپ کو زمین پر اہل آسمان کے نزدیک محبوب ترین فرد سمجھتا تھا۔[30]

شیعہ تہذیب و ثقافت میں

سنہ 61 ہجری روز عاشورا آپ کی شہادت سبب بنی کہ آپ کی شخصیت شیعوں حتی غیر شیعوں کے نزدیک حق طلبی و شجاعت و شہامت کے اعتبار سے نمایاں ہوگئی اور آپ کے دیگر اوصاف و صفات جو روایات میں ذکر ہوئے ہیں، کافی حد تک تحت الشعاع قرار پائے۔[31] اس واقعہ نے کم از کم اس جہت سے کہ یہ خاندان نبوت کی پہلی بے حرمتی اور آشکار حملہ تھا، اس نے شیعہ تاریخ و ثقافت پر ایک عمیق نقش چھوڑا۔[32] اور امام (ع) کے قیام کو ظلم کے خلاف تحریک، تلوار پر خون کی فتح، امر بالمعروف و نہی عن المنکر و ایثار و قربانی کی علامت میں تبدیل کر دیا۔[33]

اہل سنت کی نظر میں

اہل سنت کی معتبر کتابوں میں امام حسینؑ کی فضیلت کے بارے میں بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔[34] فضیلت کی روایات کے علاوہ اللہ کی راہ میں امام حسینؑ کی جان اور مال کی قربانی کی وجہ سے بھی مسلمانوں کے اعتقادات آپ کی نسبت مضبوط ہوگئے ہیں۔[35]

امام حسینؑ کے قیام کے بارے میں اہل سنت کے یہاں دو نظریات پائے جاتے ہیں ایک گروہ اس کو بے اہمیت سمجھتا ہے جبکہ دوسرا گروہ اس کی تعریف و تمجید کرتا ہے۔ مخالفوں میں سے ایک ابوبکر ابن عربی ہے جس نے امام حسین کے قیام کو کم اہمیت سمجھتے ہوئے کہتا ہے کہ لوگوں نے (جو لوگ امت میں اختلاف پھیلاتے ہیں اس سے جنگ کرنے کے بارے میں) پیغمبر کی احادیث سن کر حسین سے لڑنے لگے۔[36] ابن تیمیہ بھی کہتا ہے کہ حسین بن علیؑ نہ صرف حالات کی اصلاح کے باعث نہیں بنے بلکہ شر و فساد کا باعث بنے۔[37]

تا قیامت قطع استبداد کردموج خون او، چمن ایجاد کرد
مدعایش سلطنت بودی اگرخود نکردی با چنین سامان سفر
رمز قرآن از حسین آموختیمز آتش او شعلہ ہا افروختیم

ابن خلدون نے ابن عربی کی باتوں کو ٹھکراتے ہوئے کہا ہے کہ ظالم اور ستمگروں سے لڑنے کے لیے عادل امام کا ہونا شرط ہے اور حسینؑ اپنے زمانے کے عادل ترین فرد تھے اور اس جنگ کرنے کے حق دار تھے۔[38] ایک اور جگہ فرماتے ہیں: جب یزید کا فسق سب پر آشکار ہوا تو حسین نے اس کے خلاف قیام کو اپنے پر واجب سمجھا کیونکہ وہ خود کو اس کام کا اہل سمجھتے تھے۔[39] آلوسی نے روح المعانی میں ابن عربی کے خلاف بد دعا کرتے ہوئے اس کی بات کو جھوٹ اور سب سے بڑا تہمت قرار دیا ہے۔[40]

عباس محمود عقاد اپنی کتاب ابو الشهداء الحسین بن علی میں لکھتا ہے: یزید کے دور میں حالات اس نہج پر پہنچے تھے کہ شہادت کے علاوہ اس کا کوئی علاج نہیں تھا۔[41] اور اس کا کہنا تھا کہ ایسے قیام بہت کم لوگوں کی طرف سے واقع ہوتے ہیں جو اسی کام کے لیے ہی خلق ہوئے ہیں ان کی تحریک کو دوسروں کی تحریک سے مقایسہ نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ یہ لوگ کچھ اور طرح سے سمجھتے ہیں اور کچھ اور چاہتے ہیں۔[42] اہل سنت کے مصنف طہ حسین کا کہنا ہے کہ حسین کا بیعت نہ کرنا دشمنی اور ضد کی وجہ سے نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر یزید کی بیعت کرتے تو اپنے وجدان سے خیانت کرتے اور دین کی مخالفت کرتے، کیونکہ یزید کی بیعت ان کی نظر میں گناہ تھا۔[43] عمر فروخ کہتا ہے کہ ظلم کے بارے میں سکوت کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے اور آج کے مسلمانوں کے لیے ضرورت یہی ہے کہ ہمارے درمیان ایک حسینی قیام کرے اور ہمیں سیدھے راستے میں حق کی دفاع کرنے کی رہنمائی کرے۔[44]

یزید پر امام حسینؑ کا قاتل ہونے کے ناطے لعنت کرنے کے بارے میں بھی اہل سنت میں دو نظریات پائے جاتے ہیں اور اہل سنت کے بہت سارے علما اس لعنت کے جواز کے قائل ہیں بلکہ یزید پر لعنت کو واجب سمجھتے ہیں۔[45]

مسند الامام الشهید امام حسینؑ کے کلمات کا مجموعہ

نام، نسب، کنیت و القاب

شیعہ و سنی کتابوں میں موجود روایات کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے اللہ کے حکم سے[46] آپ کا نام حسین رکھا۔[47] حسن و حسین کا نام جو اسلام سے پہلے عرب میں رائج نہیں تھے،[48] یہ شَبَّر و شَبیر (یا شَبّیر)،[49] حضرت ہارون کے بچوں کے نام سے لئے ہیں۔[50] اس کے علاوہ بھی یہ نام رکھنے کی وجوہات ذکر ہوئی ہیں جیسے؛ امام علیؑ نے شروع میں آپ کا نام حرب یا جعفر رکھا لیکن پیغمبر اکرمؐ نے آپ کے لیے حسین نام انتخاب کیا۔[51] بعض نے اس کو جعلی قرار دیتے ہوئے اس کے رد میں بعض دلائل بھی پیش کئے ہیں۔[52]

امام حسین، امام علیؑ و حضرت فاطمہؑ کے بیٹے اور حضرت محمدؐ کے نواسے ہیں قبیلہ قریش کے بنی ‌ہاشم خاندان سے آپ کا تعلق ہے۔ امام حسن مجتبیؑ، حضرت عباسؑ اور محمد بن حنفیہ آپ کے بھائیوں میں سے اور حضرت زینبؑ آپ کی بہنوں میں سے ہیں۔[53]

امام حسینؑ کی کنیت ابو عبداللہ ہے۔[54] ابو علی، ابو الشہداء (شہیدوں کا باپ)، ابو الاحرار (حریت پسندوں کے باپ) و ابو المجاہدین (مجاہدوں کے باپ) بعض دیگر آپ کی کنیت ہیں۔[55]

حسین بن علیؑ کے بہت سارے القاب ہیں۔امام حسینؑ سے متعدد القاب منسوب کئے گئے ہیں جن میں سے اکثر آپ کے بھائی امام حسن مجتبیؑ کے ساتھ مشترک ہیں؛ جیسے: سید شباب أہل الجنۃ (جنت کے جوانوں کے سردار)۔ آپ کے بعض دوسرے القابات مندرجہ ذیل ہیں: زکی، طیب، وفیّ، سیّد، مبارک نافع، الدلیل علی ذات اللّہ، رشید، و التابع لمرضاۃ اللّہ۔[56]

ابن طلحہ شافعی نے «زکی» لقب کو دوسرے القاب میں سب سے زیادہ مشہور اور «سید شباب أہل الجنہ» کے لقب کو سب سے اہم لقب قرار دیا ہے۔[57] بعض احادیث میں آپؑ کو شہید یا سید الشہداء کے لقب سے تعبیر کیا گیا ہے۔[58] ثاراللہ اور قتیل العبرات کے القاب بھی بعض زیارتناموں میں ذکر ہوئے ہیں۔[59]

پیغمبر اکرمؐ کی ایک روایت جس کو شیعہ و اہل سنت کے اکثر منابع میں نقل کیا ہے اس میں «حسین سِبطٌ مِن الاَسباط» (حسین اسباط میں سے ایک)[60] ذکر ہوا ہے۔ سبط یا اسباط جو کہ اس روایت میں اور قرآن مجید کی بعض آیات میں بھی آیا ہے اس کے معنی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ علاوہ بر این کہ انبیا کی نسل ہیں، امام اور نقیبوں میں سے بھی ہیں جو لوگوں کی سرپرستی کے لیے انتخاب ہوئے ہیں۔[61]

حالات زندگی

رسول اللہ کی حدیث امام حسین کی حرم کے در پر

حسین بن علی کی ولادت سنہ 3 ہجری مدینہ میں ہوئی۔[62] لیکن مشہور قول کے مطابق سنہ 4 ہجری ہے۔[63] آپ کی ولادت کے دن کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور مشہور قول کے مطابق ولادت 3 شعبان کو واقع ہوئی۔[64] لیکن شیخ مفید نے کتاب الارشاد میں آپ کی تاریخ ولادت 5 شعبان لکھا ہے۔[65] شیعہ اور اہل سنت کی گزارشوں میں آیا ہے کہ آپ کی ولادت کے وقت پیغمبر اکرمؐ روئے اور آپ کی شہادت کی خبر دی۔[66] کتاب کافی کی ایک روایت کے مطابق، حسینؑ نے اپنی والدہ یا کسی اور عورت کا دودھ نہیں پیا۔[67] منقول ہے کہ امّ فضل زوجۂ عباس بن عبدالمطلب نے خواب دیکھا کہ پیغمبر اکرمؐ کے بدن سے گوشت کا ایک ٹکڑا اس (ام فضل) کے گود میں رکھا گیا۔ حضور اکرمؐ نے خواب کی تعبیر میں کہا فاطمہ کے یہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوگی اور تم اس کی دایہ ہوگی۔ جب حسینؑ متولد ہوئے تو ام فضل نے دودھ پلانے کی ذمہ داری اپنے ذمے لی۔[68] بعض منابع میں عبداللہ بن یقطر کی ماں کا نام بھی امام حسینؑ کی دایوں میں سے لکھا ہے، لیکن امام حسینؑ نے ان دونوں میں سے کسی کا بھی دودھ نہیں پیا۔[69]

اہل سنت کے بعض منابع میں آیا ہے کہ رسول اللہ اپنے اہل بیت میں سے حسن اور حسین کو زیادہ چاہتے تھے۔[70]اور یہ محبت اتنی زیادہ تھی کہ کبھی مسجد میں خطبہ دیتے ہوئے مسجد میں آئیں تو آپ خطبے کو ادھورا چھوڑتے تھے اور منبر سے اتر کر انہیں اپنی گود میں لیتے تھے۔[71] پیغمبر خداؐ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ان دونوں کی محبت نے مجھے ہر کسی دوسرے کی محبت سے بے نیاز کیا ہے۔[72]

حسینؑ باقی اصحاب کساء کے ساتھ واقعہ مباہلہ میں شریک تھے۔[73] اور پیغمبر کی رحلت کے وقت آپ کی عمر سال تھی؛ اسی لئے آپ کو اصحاب کے طبقے میں سے آخری طبقے میں شمار کیا گیا ہے۔[74]

رسول خدا کا فرمان
حُسَیْنٌ مِنِّی وَ أَنَا مِنْه
أَحَبَّ الله مَنْ أَحَبَّ حُسَیْنا

ترجمہ: حسین مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔
اللہ ہر اس کو دوست رکھتا ہے جو حسین کو دوست رکھے۔

رسول خداؐ، انساب الاشراف، ج3، ص142، الطبقات الکبرى، ج10، ص385

خلفاء ثلاثہ کا دور

امام حسینؑ نے اپنی عمر کے تقریبا 25 سال خلفائے ثلاثہ (ابوبکر، عمر و عثمان) کے زمانے میں بسر کئے۔ خلیفہ اول کی خلافت کے آغاز کے وقت آپ کی عمر سات سال تھی اور خلیفہ ثانی کے دور کے آغاز میں آپ کی عمر 9 سال جبکہ خلیفہ ثالث کی خلافت کے آغاز پر آپ کی عمر 19 سال تھی۔[75] شیعوں کے تیسرے امام کے اس دور کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں اور شاید اس کی علت امام علیؑ اور ان کے بیٹوں کی سیاسی محدودیت تھی۔[76]

مروی ہے کہ امام حسینؑ خلافت ابوبکر کے ابتدائی ایام میں اپنے والدین اور بھائی امام حسن مجتبی علیہ السلام کے ہمراہ راتوں کو امام علی علیہ السلام کا غصب شدہ حق خلافت واپس دلانے کے لیے انصار کے دروازوں پر حاضر جاتے تھے۔[77]

عمر کی خلافت کے دور میں امام حسینؑ کی عمر تقریباً نو سال کی تھی، بعض مآخذ میں مروی ہے کہ عمر کی خلافت کے آغاز میں ایک روز امام حسینؑ مسجد میں داخل ہوئے اور عمر کو منبر رسولؐ پر خطبہ دیتے ہوئے دیکھ کر منبر کی سیڑھیوں سے اوپر چڑھے اور عمر سے کہا: "میرے باپ کے منبر سے نیچے اترو اور اپنے باپ کے منبر پر بیٹھو"۔
عمر نے کہا: "میرے باپ کا کوئی منبر نہیں تھا!"[78] اور بعض گزاراشات میں خلیفہ دوم کی طرف سے امام حسینؑ کے احترام کا تذکرہ ہوا ہے۔[79]

جس وقت عثمان نے اپنی خلافت کے دوران ابوذر کو ربذہ کی جانب جلا وطن کیا اور حکم دیا کہ کوئی بھی اسے خدا حافظی نہیں کرے گا تو امام حسینؑ اپنے والد اور بھائی اور بعض دیگر افراد کے ساتھ خلیفہ حکم کے برخلاف ابوذر کو رخصت کرنے آئے۔[80] اہل سنت کے بعض منابع میں مذکور ہے کہ حسنین نے سنہ 26 ہجری کو جنگ افریقہ[81] اور سنہ 29 یا 30 ہجری کو جنگ طبرستان[82] میں شرکت کی۔ لیکن ایسی گزارش کسی شیعہ کتاب میں ذکر نہیں ہوئی ہے۔ بہت ساری کتابوں میں کہا ہے کہ یہ جنگیں بغیر کسی لڑائی کے صلح کے ساتھ ختم ہوئیں۔[83]

حسنینؑ کے ان جنگوں میں شریک ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں موافق اور مخالف نظرئے ملتے ہیں۔ بعض لوگ جیسے جعفر مرتضی عاملی نے ان گزارشات کی سندی مشکلات اور نیز اس طرح سے کئے جانے والے فتوحات کی ائمہ کی طرف سے مخالفت کے پیش نظر انہیں جعلی قرار دیا ہے۔ اور جنگ صفین میں حسنین علیہما السلام کو امام علیؑ کی طرف سے اجازت نہ ملنے کو تائید کے طور پر پیش کیا ہے۔[84] بعض نے حسنینؑ کی ان جنگوں میں شرکت کو امتی اسلامی کی مصلحت کے مطابق سمجھا ہے جس سے امام علیؑ کے لیے معاشرے کی صحیح رپورٹ ملتی تھی اور لوگ بھی اہل بیت سے آشنا ہوتے تھے۔[85]

منقول ہے کہ عثمان کی حکومت کے آخری دنوں میں ایک گروہ نے ان کے خلاف بغاوت کی اور انہیں قتل کرنے کی غرض سے ان کے گھر پر حملہ آور ہوئے تو عثمان بن عفان کی کارکردگی سے ناراضگی کے باوجود، امام حسینؑ اپنے بھائی امام حسن مجتبیؑ کے ہمراہ اپنے والد امام علی علیہ السلام کی ہدایت پر عثمان کے حریم کی حفاظت کے لئے سرگرم ہوئے۔[86] اس گزارش کے بعض موافق ہیں تو بعض مخالف بھی ہیں۔[87]

امام علیؑ کا دور حکومت

مروی ہے کہ لوگوں نے جب امیرالمومنینؑ کی بیعت کی تو امام حسینؑ نے ایک خطبہ دیا۔[88] امام حسینؑ نے جنگ جمل میں امیر المومنین کے لشکر کے بائیں جانب کو اپنے ذمے لیا[89] اور جنگ صفین میں لوگوں کو جہاد کی طرف رغبت دلانے کے لیے ایک خطبہ دیا[90] اور لشکر کے دائیں جانب کے سپہ سالار تھے۔[91] اور جنگ نہروان میں شامی لشکر سے پانی واپس لینے میں آپ شریک تھے اور اس کے بعد امیر المومنینؑ نے فرمایا: یہ پہلی کامیابی تھی جو حسین کی برکت سے حاصل ہوئی۔[92] کہا گیا ہے کہ امام علیؑ جنگ صفین میں حسنینؑ کو لڑنے سے منع کرتے تھے اور اس کی وجہ بھی رسول اللہؐ کی نسل کی حفاظت کرنا تھی۔[93] بعض منابع کے مطابق آپ نے جنگ نہروان میں بھی شرکت کی ہے۔[94]

امام علیؑ کی شہادت کے دوران امام حسینؑ آپ کے پاس تھے[95] اور تجہیز و تکفین اور تدفین میں شریک تھے۔[96] ایک روایت کے مطابق، امام حسینؑ امیرالمؤمنینؑ کی شہادت کے وقت آپ ہی کی طرف سے کوئی اہم کام سرانجام دینے کی غرض سے مدائن کے دورے پر تھے اور امام حسنؑ کا خط پا کر اس واقعے سے مطلع ہوئے اور کوفہ لوٹ آئے۔[97]

امام حسنؑ کا دَور

امام حسین علیہ السلام
الناس عبید الدنیا و الدّین لعق علی ألسنتہم یحوطونہ ما درّت معائشہم فإذا محّصوا بالبلاء قلّ الدیانون (ترجمہ: لوگ دنیا کے غلام ہیں اور اپنی دنیاوی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنی زبانوں پر دین کا ورد کرتے رہتے ہیں اور جب آزمائش میں ڈالے جائیں تو دیندار لوگ بہت کم ہوں گے۔)

امام حسینؑ، (شہیدی، قیام حسینؑ، ص46، 94)

تاریخ میں ملتا ہے کہ امام حسینؑ اپنے بھائی امام حسنؑ کا احترام کرتے تھے اور نقل ہوا ہے کہ جس مجلس میں امام حسنؑ ہوتے تھے اس مجلس میں آپ کے احترام کی خاطر امام حسینؑ بات نہیں کرتے تھے۔[98] امیرالمؤمنینؑ کی شہادت کے بعد خوارج جو شامیوں سے جنگ چاہتے تھے انہوں نے امام حسنؑ کی بیعت نہیں کی اور امام حسینؑ کے پاس آکر آپ کی بیعت کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے پناہ مانگتا ہوں جب تک حسن زندہ ہیں تمہاری بیعت میں قبول نہیں کر سکتا ہوں۔[99]

معتبر روایات کے مطابق، معاویہ کے ساتھ صلح امام حسن کے وقت آپ نے معاویہ کے ساتھ بھائی حسنؑ کی مصالحت کی حمایت کی[100]اور آپ نے کہا کہ وہ (امام حسنؑ) میرے امام ہیں۔[101] اور ایک قول کے مطابق صلح برقرار ہونے کے بعد اپنے بھائی حسن کی طرح آپ نے بھی معاویہ کی بیعت کی[102] اور امام حسنؑ کی شہادت کے بعد بھی اپنے عہد پر باقی رہے۔[103] اس کے مقابلے میں بعض روایات کے مطابق آپ نے بیعت نہیں کی[104] اور بعض منابع کے مطابق آپ صلح سے راضی نہیں تھے اور امام حسنؑ کو قسم دیا کہ معاویہ کے جھوٹ کو نہ مانیں۔[105] بعض محققین نے ان باتوں کو دیگر گزارشات اور تاریخی شواہد کے ساتھ ناسازگار سمجھتے ہیں۔[106] ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ جب بعض لوگوں نے صلح پر اعتراض کرتے ہوئے امام حسینؑ کو معاویہ پر حملہ کرنے کرنے کے لئے شیعوں کو اکھٹا کرنے کی تجویز دی تو ان کے جواب میں آپ نے کہا: ہم نے ان سے عہد کیا ہے اور کبھی بھی وعدہ خلافی نہیں کرینگے۔[107] ایک اور جگہ ذکر ہوا ہے کہ اعتراض کرنے والوں سے کہا: جب تک معاویہ زندہ ہے تب تک انتظار کرو؛ جب وہ مرجائے تو تصمیم لینگے۔[108] امام حسینؑ سنہ 41 ہجری کو (معاویہ سے صلح کے بعد) اپنے بھائی کے ہمراہ کوفہ سے مدینہ کو لوٹے۔[109]

ازواج و اولاد

آپ کی اولاد کی تعداد کے بارے میں اختلاف نظر ہے؛ بعض نے چار بیٹے اور دو بیٹیاں[110] اور بعض نے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں لکھا ہے۔[111]

ازواج نسب اولاد تفصیل
شہر بانو یزدگرد ساسانی بادشاہ کی بیٹی امام سجاد شیعوں کے چوتھے امام معاصر محققین شہر بانو کے نسب کے بارے میں تردید کرتے ہیں۔[112] بعض کتابوں میں ان کا نام سِنْدیہ، غزالہ اور شاہ زنان ذکر ہوا ہے۔
رباب امرؤ القیس بن عدی کی بیٹی سُکَینہ اور عبداللّہ۔[113] رباب کربلا میں موجود تھیں اور اسیر ہو کر شام تک گئیں۔[114] اکثر کتابوں میں عبداللہ کو شہادت کے وقت شیرخوار نقل کیا گیا ہے۔[115] شیعہ انہیں علی اصغر کے نام سے جانتے ہیں۔
لیلیٰ ابی‌ مُرَّۃ بن عروۃ بن مسعود ثَقَفی کی بیٹی[116] علی اکبرؑ [117] واقعہ عاشورا میں شہید ہوئے۔
ام اسحاق طلحہ بن عبیداللہ کی بیٹی فاطمہ امام حسین کی بڑی بیٹی[118] ام اسحاق، امام حسن مجتبیؑ کی زوجہ تھیں اور آپؑ کی شہادت کے بعد امام حسین سے شادی کی۔[119]
سُلافہ یا ملومہ[120] قُضاعہ نامی قبیلے سے جعفر[121] جعفر نے امام کی حیات میں ہی وفات پائی اور ان کی کوئی نسل باقی نہیں ہے۔[122]

چھٹی صدی میں لکھی ہوئی کتاب لباب الانساب[123] میں امام کی ایک بیٹی رقیہ کے نام سے اور ساتویں ہجری میں لکھی گئی کتاب کامل بہایی میں امام حسین کی ایک چار سالہ بچی کا تذکرہ ہے جو شام میں وفات پائی ہے۔[124] بعد کی کتابوں میں رقیہ کا نام زیادہ آنے لگا ہے۔ اسی طرح بعض منابع میں شہر بانو کا بیٹا علی اصغر اور رباب کا بیٹا محمد اور اسی طرح سے زینب (ماں کا نام لکھے بغیر) کے نام، امام حسین کی اولاد میں سے ذکر ہوئے ہیں۔[125] ابن طلحہ شافعی نے اپنی کتاب مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول میں آپ کی اولاد کی تعداد کو دس بتایا ہے۔[126]

دوران امامت

آپ کی امامت کا آغاز معاویہ کی حکومت کے دسویں سال ہوا۔ معاویہ نے 41ھ[127] کو امام حسن سے صلح کے بعد حکومت سنبھالی اور اموی خلافت کی بنیاد رکھی۔ اہل سنت منابع نے اسے چالاک اور بردبار لکھا ہے۔[128]اور ظاہری طور پر دین کا پابند تھا اور اپنی خلافت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے لیے بعض دینی اصولوں سے استفادہ کرتا تھا۔ اگرچہ حکومت کو زور اور سیاسی چالاکیوں سے حاصل کیا تھا[129] لیکن اسے اللہ تعالی کی دی ہوئی اور قضا و قدر الہی سمجھتا تھا۔[130]

وہ اپنے آپ کو اہل شام کے لیے انبیا، اللہ کے نیک بندوں اور دین و احکام کے مدافعین کے ہم پلہ سمجھتا تھا۔[131] تاریخی منابع میں آیا ہے کہ معاویہ نے خلافت کو سلطنت میں تبدیل کر دیا[132] اور علنی طور پر کہتا تھا کہ عوام کی دینداری سے میرا کوئی سروکار نہیں ہے۔[133]

معاویہ کی حکومت کے مسائل میں سے ایک عوام خاص کر عراق کی عوام میں شیعہ عقیدے کا پانا تھا۔ شیعہ معاویہ کے دشمن تھے، اسی طرح خوارج بھی اس کے دشمن تھے لیکن خوارج کے لیے عوام میں کوئی مقام حاصل نہیں تھا جبکہ شیعہ امام علیؑ اور اہل بیت کی وجہ سے عوام پر بہت نفوذ رکھتے تھے۔ اسی لئے معاویہ اور اس کے اہلکار، مصالحت سے یا ٹکر کے ذریعے سے شیعوں سے نمٹتے تھے۔ معاویہ کا ایک اہم طریقہ عوام میں علیؑ سے دوری ایجاد کرنا تھا اسی وجہ سے معاویہ کے دور اور بعد کے اموی دور میں علیؑ پر لعن کرنا ایک عام رسم بنی۔[134] معاویہ نے حکومت کو مضبوط کرنے کے بعد شیعوں پر سیاسی دباؤ شروع کیا اور اپنے افراد سے کو خط لکھا کہ علیؑ کے چاہنے والوں کو اپنے دربار سے نکالیں، بیت المال سے ان کو کچھ نہ دیں اور ان کی گواہی کو قبول نہ کریں۔[135] اسی طرح اگر کسی نے امام علیؑ کی فضیلت بیان کرنے والوں کو دھمکی دی یہاں تک کہ محدثوں نے آپ کو قریش کا ایک مرد، رسول اللہ کا ایک صحابی اور ابو زینب سے یاد کرنے لگے۔[136]

دلائل امامت

امام حسینؑ کی ضریح پر حدیث نبوی

امام حسینؑ اپنے بھائی کی شہادت کے بعد 50ھ کو امامت پر فائز ہوئے اور اکسٹھ ہجری کے ابتدائی دنوں تک شیعوں کی امامت اور رہبری پر فائز رہے۔[حوالہ درکار] شیعہ علما نے جہاں بارہ اماموں کی امامت پر دلیل قائم کی ہے[137] وہاں ہر امام کی امامت پر خاص طور سے بھی دلیل پیش کیا ہے۔ شیخ مفید نے کتابِ ارشاد میں امام حسینؑ کی امامت پر بعض احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں سے یہ احادیث کہ جہاں ارشاد ہوتا ہے۔ ابنای ھذان امامان قاما او قعدا(ترجمہ: میرے یہ دو بیٹے حسن و حسین امام ہیں چاہے یہ قیام کریں چاہے یہ بیٹھے ہوں)‌۔[138] اسی طرح امام علیؑ نے اپنی شہادت کے وقت امام حسن کی امامت کے بعد آپ کی امامت کی تاکید کی ہے۔[139] اور امام حسنؑ نے بھی اپنی شہادت کے وقت محمد بن حنفیہ کو وصیت کرتے ہوئے اپنے بعد حسین بن علیؑ کو امام متعارف کیا ہے۔[140] شیخ مفید اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے امام حسینؑ کی امامت کو یقینی اور ثابت سمجھتے ہیں۔ ان کے کہنے کے مطابق امام حسینؑ نے معاویہ سے صلح امام حسن میں جو وعدہ کیا تھا وہ اور تقیہ کی وجہ سے معاویہ مرنے تک لوگوں کو اپنی طرف دعوت نہیں کی اور امامت کو علنی نہیں کیا؛ لیکن معاویہ مرنے کے بعد آپ نے امامت کو علنی کیا اور جن کو آپ کے مقام کا نہیں پتہ تھا انہیں اپنی پہچان کروایا۔[141] علاوہ ازیں ایسی احادیث رسول اللہؐ سے وارد ہوئی ہیں جن میں ائمہؑ کی تعداد بتائی گئی ہے اور امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ اور ان کے نو فرزندوں کی امامت پر تصریح و تاکید ہوئی ہے۔ [142]

منقول ہے کہ 60 ھ کو امام حسینؑ مدینہ سے نکلتے ہوئے اپنی بعض وصیتوں اور امامت کی امانتوں کو زوجۂ رسول خداؐ ام سلمہ کے حوالے کیا[143] اور بعض کو شہادت سے پہلے اکسٹھ ہجری کی محرم کو اپنی بڑی بیٹی فاطمہ کے حوالے کیا[144] تاکہ وہ انہیں امام سجاد کے حوالے کرے۔

صلحِ امام حسن کی پاسداری

اس کے باوجود کہ امام حسنؑ کے بعد آپؑ حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے صالح ترین اور مناسب ترین شخصیت تھے؛ تاہم معاویہ کے ساتھ امام حسنؑ کی صلح کی بنا پر، آپ اس صلح کے پابند رہے۔[145] اور اس کے باوجود کہ کوفی عوام نے معاویہ کے خلاف قیام کے لئے آپ کو خطوط لکھے، آپؑ نے قیام سے اجتناب کیا گو کہ آپ نے مسلمانوں پر معاویہ کی حاکمیت کی شرعی اور قانونی حیثیت کو مسترد کر دیا اور ظالموں کے خلاف جہاد پر زور دیا اور قیام کو معاویہ کی موت تک ملتوی کر دیا۔[146] اور کوفہ والوں کے خطوط کے جواب میں لکھا:

ابھی میرا یہ عقیدہ نہیں، معاویہ مرنے تک کوئی اقدام نہ کریں، اپنے گھروں میں چھپے رہیں اور ایسے کام سے اجتناب کریں جس سے تم پر بدگمان ہوجائیں۔ اگر وہ مرا اور تب تک میں زندہ رہا تو اپنی رای سے آپ کو آگاہ کروں گا۔[147]

معاویہ کے اقدامات کے خلاف موقف

یزید کی بیعت کی دعوت پر امام حسینؑ کا جواب

یزید اپنی فکر اور عقیدے کو دکھا چکا ہے؛ تم بھی اس کے لیے وہی چاہو جو وہ چاہتا ہے: کتوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑانا، کبوتروں کو اڑانا اور گانے والی کنیزوں سے معاشرت اور دیگر قسم کی سرگرمیاں... [اے معاویہ] اس کام سے باز آجاؤ؛ اللہ کے حضور گناہوں کے بوجھ کے علاوہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ لے کر جانے میں تمہیں کیا فائدہ پہنچے گا؟!

امام حسینؑ، ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، ج1، ص209

اگرچہ معاویہ کی حکومت کے دوران امام حسینؑ نے عملی طور پر ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا لیکن معاصر تاریخی محقق، رسول جعفریان کا کہنا ہے کہ امام اور معاویہ کے درمیان ہونے والے بعض رابطے اور گفتگو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں امام حسینؑ نے معاویہ کی حکومت کو سیاسی طور پر قبول نہیں کیا تھا اور ان کے سامنے تسلیم نہیں ہوئے تھے۔[148] امام حسینؑ اور معاویہ کے درمیان رد و بدل ہونے والے متعدد خطوط بھی اسی بات کے شاہد ہیں۔ اس کے باوجود تاریخی گزارشات سے معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ بھی خلفائے ثلاثہ کی طرح ظاہری طور پر امام کا احترام کرتا تھا۔[149] اور اپنے اہلکاروں کو حکم دیا تھا کہ رسول اللہ کے بیٹے کے مزاحم نہ بنیں اور ان کی بے احترامی نہ کریں۔[150]

معاویہ نے یزید کو وصیت میں بھی امام حسینؑ کے مقام کی تاکید کی اور انہیں لوگوں میں سب سے محبوب جانا اور کہا اگر حسین پر کامیاب ہوگیا تو اسے بخش دو کیونکہ اس کا حق بہت بڑا ہے۔[151]

شیعیانِ امام علیؑ کے قتل پر اعتراض

معاویہ کے حجر بن عدی، عمرو بن حمق خزاعی اور عبداللہ بن یحیی حضرمی جیسی شخصیات کے قتل پر امام حسینؑ نے شدید اعتراض کیا۔[152] اور بہت ساری تاریخی منابع کے مطابق آپ نے معاویہ کو خط لکھا اور علیؑ کے دستوں کو قتل کرنے کی مذمت کی اور معاویہ کے بعض برے کاموں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کو محکوم کیا اور کہا: میں اپنے اور اپنے دین کے بارے میں تمہارے ساتھ جہاد سے بالاتر کوئی اور چیز نہیں جانتا ہوں۔ اس خط میں مزید لکھا: اس امت پر تمہاری حکومت سے زیادہ بڑے فتنے کا مجھے علم نہیں ہے۔[153]

جب حج کے سفر میں معاویہ کا امامؑ سے آمنا سامنا ہوا[154] تو اس نے کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ حُجر اور اس کے دوست اور تمہارے والد کے شیعوں کے ساتھ ہم نے کیا کیا ہے؟ امام نے فرمایا: کیا کیا ہے؟ معاویہ نے کہا: انہیں قتل کیا، کفن دیا، ان پر نماز پڑھی اور دفن کردیا۔ امام نے فرمایا: لیکن اگر ہم تمہارے اصحاب کو قتل کریں تو انہیں نہ کفن دینگے، نہ ان پر نماز پڑھیں گے اور نہ ہی انہیں دفنائیں گے۔[155]

یزید کی ولایت عہدی پر اعتراض

سنہ 56 ھ کو معاویہ نے امام حسنؑ سے کئے ہوئے صلح نامے میں مذکور، (اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین نہیں بنائے گا) معاہدہ کے برخلاف یزید کو اپنا جانشین بنا کر لوگوں کو اس کی بیعت کے لئے کہا۔[156] امام حسینؑ سمیت بعض شخصیات نے اس کی بیعت سے انکار کر دیا۔ معاویہ نے یزید کی ولیعہدی کو مستحکم بنانے کی غرض سے وسیع اقدامات انجام دینے کے بعد مدینہ کا دورہ کیا تا کہ مدینہ کے اکابرین سے یزید کی ولایت عہدی کے لئے بیعت لے۔[157] امام حسینؑ نے ایک مجلس میں معاویہ، ابن عباس اور بعض اموی درباریوں کی موجودگی میں معاویہ کی ملامت کی اور یزید کی نااہلی اور ہوس بازیوں کی یاد آوری کرائی اور اس کو یزید کی ولیعہدی کااعلان کرنے سے متنبہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ امام حسینؑ نے اپنے مقام اور حق کو بیان کرتے ہوئے یزید کی بیعت کے لیے معاویہ کی طرف سے پیش کئے جانے والے دلایل کو رد کیا۔[158]

اسی طرح ایک اور مجلس میں جہاں عوام بھی تھے، امام حسینؑ نے معاویہ کی یزید کی شایستگی کی باتوں کے خلاف اپنے کو خلافت کے لئے فردی اور خاندان کے اعتبار سے مناسب قرار دیا اور یزید کو شرابی اور ہوس باز کے طور پر متعارف کیا۔[159]

امام حسینؑ کا منی میں خطبہ

منی میں امام حسینؑ کے خطبے سے اقتباس

اگر مشکلات میں صبر کروگے اور اللہ کی راہ میں سختیاں اور اخراجات کو برداشت کرو گے تو اللہ کے امور آپ کے ہاتھ آئینگے۔۔۔ لیکن تم لوگوں نے ظالموں کو اپنی جگہ بٹھا کر اپنے پر مسلط کر لیا ہے اور اللہ کے امور ان کے سپرد کر چکے ہو۔ تمہارا موت سے ڈرنا اور دنیا کی لالچ کی وجہ سے ظالموں کو اس کام پر قادر بنایا ہے۔

امام حسینؑ، (تحف العقول، ص168)

امام حسین نے معاویہ کی وفات سے دو سال پہلے یعنی سنہ 58 ھ کو منی میں ایک اعتراض آمیز خطبہ دیا[160]اس دور میں شیعوں پر معاویہ کی طرف سے شدید دباؤ تھا۔[161] امام نے اس خطبے میں امیر المؤمنین اور اہل بیتؑ کی فضیلت، امر بالمعروف و نہی از المنکر کی دعوت کے ساتھ ساتھ اسی اسلامی وظیفے کی اہمیت کی تاکید، علما کی ذمہ داری، ظالم کے خلاف قیام اور علما کا ظالموں کے مقابلے میں خاموشی کے نقصانات بیان کئے۔

یزید کی خلافت پر اعتراض

معاویہ کی وفات کے بعد 15 رجب سنہ 60 ہجری کو یزید حاکم بنا۔[162] اس نے بعض ان بزرگوں سے زبردستی بیعت لینے کا ارادہ کیا جنہوں نے اس کی خلافت کو قبول نہیں کیا تھا، ان میں سے ایک حسین بن علیؑ تھے۔[163] لیکن امام حسینؑ نے بیعت کرنے سے انکار کیا[164] اور دوست احباب اور خاندان سمیت 28 رجب کو مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔[165]

مکہ میں عوام اور عمرہ پر آنے والوں کی طرف سے آپ کا بڑا استقبال ہوا[166] اور چار مہینے سے زیادہ (3 شعبان تا 8 ذی الحجہ) وہاں رہے۔[167] اس عرصے میں کوفہ والوں نے آپ کے یزید کی بیعت نہ کرنے کی خبر سنی اور آپ کے لیے دعوت نامے بھیجے اور خط کے ذریعے کوفہ بلایا۔[168] امام نے کوفہ والوں کو جانچنے کے لیے مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا تاکہ وہ وہاں کی حالات سے آگاہ کریں۔ مسلم نے جب کوفیوں کا استقبال اور ان کی بیعت کو دیکھا تو امام کو کوفہ بلا لیا[169] اور آپ اہل و عیال اور دوست احباب سمیت 8 ذی الحجہ[170] کو مکہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے۔

بعض گزارشوں سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ امام حسینؑ کو مکہ میں ان کے قتل کی سازش کا علم ہوا تھا اس لئے مکہ کی حرمت باقی رکھتے ہوئے اس شہر سے نکل پڑے۔[171]

واقعۂ کربلا

مرقد حسینی کا تاریخچہ[172]
61ھ‍ (12 محرم) سب سے پہلے آپ(ص) کا مرقد بنانے والے بنی اسد تھے۔
65ھ‍ مختار نے مرقد پر اینٹوں اور چونے کی گنبد تعمیر کردی۔
132ھ‍ ابو العباس سفاح نے مرقد کے ساتھ ایک سرپوشیدہ عمارت بنوائی۔
146ھ‍ ابو جعفر منصور نے اس عمارت کو ویران کیا۔
158ھ‍ مہدی عباسی نے اس کی تعمیر نو کا اہتمام کیا۔
171ھ‍ ہارون الرشید نے عمارت کو ویران کیا اور قریب ہی بیری کا درخت بھی کٹوا دیا۔
193ھ‍ امین نے حرم کی عمارت کو از سر نو تعمیر کیا۔
236ھ‍ متوکل عباسی نے عمارت کو ویران کردیا اور زمین میں ہل چلوایا۔
247ھ‍ منتصر عباسی نے بنا کی تعمیر نو کروائی؛ علوی اور سب سے آگے آگے سید ابراہیم مجاب نے مرقد امام(ع) کے اطراف میں سکونت کا آغاز کیا۔
273ھ‍ تحریک طبرستان کے قائد محمد بن محمد بن زید کے ہاتھوں حرم کی تعمیر نو۔
280ھ‍ علوی داعی نے قبر کے اوپر ایک گنبد بنوائی۔
367ھ‍ عضد الدولہ دیلمی نے حرم کے لئے ایک گنبد، چار ڈیوڑھیوں اور ہاتھی دانت سے بنی ضریح کی تعمیر کا اہتمام اور شہر کے لئے برجوں اور فصیل کا انتظام کیا۔
397ھ‍ عمران بن شاہین، نے رواق سے متصل اپنے نام پر ایک مسجد تعمیر کردی۔
407ھ‍ دو شمعیں گرنے کی وجہ سے حرم آگ میں جل گیا، وزیر حسن بن سہل نے حرم کی تعمیر نو کا اہتمام کیا۔
479ھ‍ ملک شاہ سلجوقی، نے حرم کے اطراف کی دیوار کی مرمت کروائی۔
620ھ‍ الناصر لدین اللہ عباسی، نے مرقد امام(ع) کے لئے ایک ضریح بنوائی۔
767ھ‍ سلطان اویس جدایری نے اندرونی گنبد بنوائی اور قبر شریف کے گرد ایک صحن قرار دیا۔
786ھ‍ سلطان احمد اویس، نے حرم کے لئے دو سنہرے گلدستے قرار دیئے اور صحن کی توسیع کا اہتمام کیا۔
914ھ‍ شاہ اسماعیل صفوی حرم کے کناروں پر سونے کا کام کروایا اور سونے کے 12 چراغدان حرم کو بطور عطیہ پیش کئے۔
920ھ‍ شاہ اسماعیل صفوی، نے ساج کی لکڑی کا ایک صندوق ضریح کے لئے بنوایا
932ھ‍ شاہ اسماعیل صفوی دوئم نے چاندی کی جالیدار اور خوبصورت ضریح حرم کو بطور عطیہ پیش کی۔
983ھ‍ علی پاشا، المعروف بہ "وند زادہ" نے گنبد کی تعمیر نو کا اہتمام کیا۔
1032ھ‍ شاہ عباس صفوی نے تانبے کی ضریح بطور عطیہ پیش کی اور گنبد پر کاشی کاری کا کام کروایا۔
1048ھ‍ سلطان مراد چہارم (عثمانی) نے حکم دیا کہ حرم کو باہر سے چونا لگا کر سفید کیا جائے۔
1135ھ‍ نادر شاہ افشار کی زوجہ نے حرم امام(ع) کی وسیع تعمیر نو کی غرض سے بہت سے اموال حرم کو بطور عطیہ پیش کئے۔
1155ھ‍ نادرشاہ افشار نے موجودہ عمارتوں کی تزئین کا اہتمام کیا اور حرم کے گنجینے کو بیش بہاء عطیات پیش کئے۔
1211ھ‍ آقا محمد خان قاجار نے طلائی گنبد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔
1216ھ‍ نوظہور وہابی مذہب کے پیروکاروں نے کربلا پر حملہ کیا، ضریح اور رواق کو ویراں کردیا اور حرم کے اموال کو لوٹ کر لے گئے۔
1227ھ‍ فتح علی شاہ قاجار، نے عمارت کی تعمیر نو اور گنبد پر لگے طلائی اوراق کی تبدیلی کا حکم دیا۔
1232ھ‍ فتح علی شاہ قاجار نے چاندی کی ضریح بنوائی اور ایوانوں پر سونے کا کام کروایا۔
1250ھ‍ فتح علی شاہ قاجار نے گنبد و بارگاہ کی تعمیر نو کا اہتمام کیا اور ابو الفضل(ع) کی قبر شریف پر بھی گنبد تعمیر کردی۔
1273ھ‍ ناصر الدین شاہ، نے گنبد کی تعمیر نو اور طلاکاری کی مرمت کروائی۔
1418ھ‍ انتفاضۂ شعبانیہ میں صدام نے گنبد کو توپوں کا نشانہ بنایا اور طلاکاری کا ایک حصہ منہدم ہوگیا۔
1428ھ‍ صحن کو نئے طرز سے مسقف کیا گیا۔
1431ھ‍ حرم حضرت ابو الفضل (ع) کے گلدستوں پر طلاکاری کا کام کیا گیا۔

واقعہ کربلا جہاں حسین بن علیؑ اور ان کے اصحاب و انصار کی شہادت ہوئی؛ آپ کی زندگی کا اہم حصہ شمار ہوتا ہے۔ بعض گزارشات کے مطابق عراق کی جانب روانہ ہونے سے پہلے امام حسینؑ نے اپنی شہادت کی خبر دی تھی۔[یادداشت 1] یہ واقعہ یزید کی بیعت نہ کرنے کی وجہ سے رونما ہوا۔ امام حسین، کوفہ والوں کی وعوت پر اپنے گھر والے اور اصحاب کے ساتھ کوفہ کی جانب سفر پر نکلے تھے، ذو حسم نامی جگہ پر حر بن یزید ریاحی کی سربراہی میں ایک لشکر کے رو برو ہوئے اور اپنا راستہ کوفہ سے کربلا کی جانب تبدیل دینے پر مجبور ہوئے۔[173]

امام حسین علیہ السلام

و علی الإسلام السلام اذا بُلیت الاُمّۃ براعٍ مثل یزید (ترجمہ: اگر امت کے لیے یزید جیسا حاکم بنے، تو اسلام کا فاتحہ پڑھنا ہوگا!)

امام حسینؑ، مقتل خوارزمی،1423، ج1، ص268

اکثر تاریخی کتابوں کے مطابق 2 محرم‌ کو آپ کربلا پہنچے[174]اور اس سے اگلے دن عمر بن سعد کی سربراہی میں کوفہ سے چار ہزار کا لشکر کربلا پہنچا۔[175]اس عرصے میں امام حسینؑ اور عمر سعد کے درمیان کچھ مذاکرات بھی ہوئے[176] لیکن ابن زیاد یزید کی بیعت یا جنگ کے علاوہ کسی اور بات کے لئے تیار نہیں ہوا۔[177]

9 محرم کے عصر کو عمر سعد کا لشکر جنگ کے لئے تیار ہوا لیکن امام حسینؑ نے اپنے خدا سے مناجات کے لیے اس رات کی مہلت مانگی۔[178] عاشورا کی رات امامؑ نے اپنے اصحاب سے گفتگو کی اور ان سے بیعت اٹھا لی اور جانے کی اجازت دی؛ لیکن انہوں نے وفاداری اور حمایت کرنے کی تاکید کی۔[179]

روز عاشورا صبح کو جنگ شروع ہوئی اور ظہر تک امام حسینؑ کے بہت سارے اصحاب شہید ہوگئے۔[180] جنگ کے دوران عمر سعد کی فوج کے کمانڈروں میں سے حر بن یزید ریاحی فوج کی کمانڈری چھوڑ کر امام حسینؑ سے ملحق ہوئے۔[181] امام کے اصحاب شہید ہونے کے بعد آپ کے رشتہ دار میدان میں گئے اور ان میں سب سے پہلے جانے والے علی اکبر[182] اور پھر وہ سب ایک ایک کرکے شہید ہوئے اور پھر امام حسینؑ خود میدان میں گئے اور دس محرم کی عصر کو حسین بن علیؑ بھی شہید ہوئے اور شمر بن ذی‌الجوشن[183] یا ایک اور روایت کے مطابق سنان بن انس[184] نے آپ کا سر بدن سے جدا کیا اور اسی دن حسین بن علی کا سر ابن زیاد کو بھیجا گیا۔[185]

عمر سعد نے ابن زیاد کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے امام حسینؑ کے بدن پر گھوڑے دوڑانے کا حکم دیا اور آپ کے بدن کی ہڈیاں ریزہ ریزہ کی گئیں۔[186] بیمار امام سجادؑ، خواتین اور بچے اسیر کرکے پہلے کوفہ پھر وہاں سے شام لے جائے گئے۔[187] امام حسینؑ اور ان کے تقریبا 72 اصحاب کے لاشوں[188] کو 11[189] یا 13 محرم کو بنی اسد کے ایک گروہ نے یا ایک اور نقل کے مطابق امام سجادؑ کی ہمراہی میں اسی شہادت پانے والی جگہ میں دفن کیا گیا۔[190]

نظریات و آثار

امام حسینؑ کے مدینہ سے مکہ اور وہاں سے کوفہ کی جانب حرکت اور پھر کربلا میں لشکر عمر سعد سے جنگ کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک نظرئے کے مطابق یہ حرکت قیام اور جنگ کی عرض سے نہیں تھی بلکہ صرف جان کی حفاظت کی خاطر تھی۔(شیخ علی‌ پناہ اشتہاردی کا نظریہ)[191] بعض کا کہنا ہے کہ آپ نے حکومت تشکیل دینے کے لیے قیام کیا ہے۔ گزشتہ علما میں سے سید مرتضی[192] اور معاصرین میں صالحی نجف‌ آبادی نے اپنی کتاب، شہید جاوید میں اس نظرئے کو بیان کیا ہے۔[193] جبکہ بعض اس نظرئے کے مخالف ہیں جیسے؛ شیخ مفید، سید بن طاووس اور علامہ مجلسی۔[194]

امام حسین کے قیام نے بہت سارے گروہوں کو بیدار کیا اور آپ کی شہادت کے فوراً بعد ہی انقلابی اور اعتراض آمیز تحریکیں شروع ہوئیں اور کئی سالوں تک جاری رہیں۔ سب سے پہلے اعتراض عبداللہ بن عفیف[195] کا ابن زیاد سے ٹکر لینا تھا۔ توابین، مختار ثقفی، زید بن علی اور یحیی بن زید کے قیام بھی انہی تحریکوں میں سے ہیں۔ اسی طرح ابو مسلم خراسانی نے قیام امام حسین کے تناظر میں قیام سیاہ جامگان کو یا لثارات الحسین کے شعار سے تشکیل دیا[196] جس کے سبب اموی حکومت نابود ہوگئی۔ ایران کا اسلامی انقلاب نے بھی امام حسینؑ کے قیام سے الہام لیتے ہوئے شہنشاہیت کو نابود کیا۔ امام خمینی فرماتے ہیں: اگر یہ وعظ و نصیحت کی مجالس اور عزاداری اور اس کے جلوسوں کا اجتماع نہ ہوتا تو ہمارا ملک کامیاب نہ ہوتا۔ امام حسین کے علَم کے سائے تلے سب نے قیام کیا ہے۔»[197]

بہت سے مسلمان اور غیر مسلمانوں نے بھی امام حسینؑ کو اپنے لیے فداکاری، ظلم کے خلاف ڈٹنے، آزادی طلبی، اقدار کی حفاظت اور حق طلبی میں آئیڈیل قرار دیا ہے۔[حوالہ درکار]


خصوصیات و فضائل

ظاہری صفات

اکثر حدیثی، تاریخی اور رجالی کتابوں میں امام حسینؑ کی پیغمبر اکرمؐ سے شباہت کا ذکر کیا ہے[198]اور ایک روایت میں حضور اکرمؐ سے سب سے زیادہ شبیہ فرد آپ کو کہا گیا ہے۔[199] آپ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آپ خز کا عمامہ پہنتے تھے[200] سر اور داڑھی کے بالوں یر خضاب لگاتے تھے۔[201]

حرم امام حسینؑ کے ایک دروازے پر سید شباب اہل الجنۃ کی عبارت

پیغمبر اکرمؐ کی زبانی

آپ کی فضیلت میں پیغمبر اکرمؐ کی بہت ساری روایت نقل ہوئی ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔.[202]
  • عرش کے دائیں جانب لکھا ہوا ہے حسین ہدایت کے چراغ اور نجات کی کشتی ہیں. [یادداشت 2]
  • حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔[203]
  • جو میرے ان دو بیٹوں (حسن و حسین) کو چاہے گویا اس نے مجھے چاہا ہے جس نے ان دونوں سے دشمنی کی اس نے گویا مجھ سے دشمن کی ہے۔[204]

شہادت کی پیش گوئی

حسین بن علی کی شہادت کی پیشگوئی کے بارے میں بہت ساری روایات موجود ہیں۔[205] جیسا کہ حدیث لوح میں پیغمبر اکرمؐ سے نقل ہوا ہے کہ اللہ تعالی نے حسین کو شہادت کے لیے چنا ہے اور شہیدوں میں سب سے برتر قرار دیا ہے۔[206] علامہ مجلسی نے بحار الانوار کی جلد نمبر 44 اور باب نمبر 30 میں ایک روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالی نے حسینؑ کی شہادت کی خبر بعض انبیاء کو دی ہے ان میں سے بعض پیغمبران یہ ہیں۔ آدم، نوح، ابراہیم، زکریا اور محمدؐ اور یہ انبیاء آپ پر روئے ہیں۔[207] اسی طرح امیرالمومنینؑ صفین جاتے ہوئے جب کربلا پہنچے تو انگلی سے ایک جگہ دکھائی اور کہا: یہ ان کا خون بہنے کی جگہ ہے۔[208]

کرامتیں

بعض روایات میں امام حسینؑ کے لیے بعض مخصوص خصوصیات ذکر ہیں۔ ان میں سے ایک یہ کہ آپ نے کرامت سے پیغمبر اکرمؐ کی انگلی سے دودھ پی لیا[209] اور بال و پر سوختہ ایک فرشتہ بنام فطرس نے آپ کی برکت سے نجات پائی اور اس کے بعد امام حسین کے زائروں کا سلام آپ تک سلام پہنچانے پر مامور ہوئے ہیں۔[210] اسی طرح مروی ہے کہ اللہ تعالی نے تربت حسینؑ میں شفا اور آپ کے حرم کے گنبد کے نیچے دعا کو مستجاب قرار دیا ہے۔[211] الخصائص الحسینیۃ نامی کتاب میں آپ کی بہت ساری خصوصیات ذکر ہوئی ہیں۔

اخلاقی خصوصیات

آپ مسکینوں کے ساتھ بیٹھتے اور ان کی دعوت کو قبول کرتے اور ان کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے اور انہیں اپنے گھر دعوت پر بلاتے تھے اور گھر پر جو ہوتا اس سے دریغ نہیں کرتے تھے۔[212] ایک دن کسی فقیر نے آپ سے مدد مانگی جبکہ امام نماز پڑھ رہے تھے، آپ نے نماز کو مختصر کر دیا اور جو کچھ آپ کے پاس تھا اسے دے دیا۔[213]

آپ غلاموں اور کنیزوں کو اچھے کردار کی وجہ سے آزاد کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے معاویہ نے ایک کنیز کو بہت سارے مال اور فاخر لباس کے ساتھ آپ کو ہدیہ بھیجا تو آپ نے قرآن کی بعض آیات کی تلاوت اور دنیا و موت کے بارے میں بعض اشعار پڑھنے پر اسے ازاد کیا اور اس مال کو بھی اسے بخش دیا۔[214] ایک دن کسی کنیز نے آپ کو پھول دیئے تو آپ نے اسے آزاد کیا۔ کسی نے کہا ایک پھول کی وجہ سے اسے آزاد کیا؟ تو آپ نے آیہ شریفہ «و اذا حیّیتم بتحیّة فحیّوا بأحسن منها أو ردّوها» کی تلاوت کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی نے ہمیں اس طرح کا ادب سکھایا ہے۔[215]

امام حسینؑ بہت سخی تھے اور سخاوت سے پہچانے جاتے تھے۔[216] اور جب اللہ کی راہ میں کچھ عطا کرتے تھے تو اس میں بھی اپنے بھائی کے احترام کی خاطر ان سے کچھ کم دیتے تھے۔[217] تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ آپ نے 25 مرتبہ پیدل حج کیا ہے۔[218]

عزاداری و زیارت

فارسی بینر جو عزاداری میں نصب کئے جاتے ہیں اور ایرانی شاعر محتشم کے بارہ بند کے اشعار کے چند بیت سے مزین ہے۔

شیعہ (اور کبھی غیر شیعہ) محرم کے مہینے جس کی دس تاریخ کو واقعہ کربلا رونما ہوا، امام حسینؑ اور شہداے کربلا کے لئے عزاداری کرتے ہیں اس عزاداری کے لیے شیعوں کے اپنے خاص رسومات ہیں جن میں مجلس پڑھنا، سینہ ‌زنی، تعزیہ علَم اور زیارت؛ جیسے زیارت عاشورا، زیارت وارث اور زیارت ناحیہ مقدسہ کو انفرادی یا گروہی صورت میں پڑھنا شامل ہیں۔[219]

امام حسینؑ پر عزاداری عاشورا کے بعد ابتدائی دنوں میں شروع ہوئی۔[220] ایک نقل کے مطابق جب اسرائے کربلا شام میں پہنچے تو بنی ہاشم کی خواتین نے کالے کپڑے پہن کر چند دن عزاداری کی۔[221] شیعہ حکومتیں آنے اور شیعوں سے دباؤ کم ہونے کے بعد عزاداری نے رسمی اور قانونی شکل اختیار کی۔[222]

بعض تاریخی اور حدیثی گزاراشات کے مطابق شیعہ ائمہ عزاداری اور امام حسین کی شہادت پر رونے کا بہت اہتمام کرتے تھے اور شیعوں کو عزاداری اور عاشورا کو زندہ رکھنے کی تاکید کرتے تھے۔[223] معصومین کی روایات میں امام حسینؑ کی زیارت کی بہت تاکید ہوئی ہے۔[224] اور بعض روایات میں اسے حج اور عمرہ کے برابر قرار دیا ہے۔[225]

اربعین حسینی

امام حسینؑ کی شہادت کے چالیس دن بعد کہ جسے اربعین حسینی یا روز اربعین کہا جاتا ہے اس دن بہت سارے شیعہ امام حسینؑ کے مزار کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ اور تاریخ نقل کے مطابق جابر بن عبداللہ انصاری اس دن سب سے پہلے زائر کے عنوان سے [226] امام حسینؑ کے مزار پر حاضر ہوئے۔ لہوف میں منقول ہے کہ اسیران کربلا بھی اسی 61ھ کو شام سے مدینہ جاتے ہوئے اربعین کے دن شہدائے کربلا کی زیارت کے لیے کربلا گئے۔[227]

زیارت اربعین کی تاکید کے سبب شیعہ خاص کر عراق کے شیعہ ہر سال ملک کے ہر کونے سے کربلا کی جانب روانہ ہوتے ہیں اور اکثر یہ سفر پیدل ہوتا ہے اور دنیا کے عظیم پیدل مارچ میں سے ایک ہے۔ اور 2017 کی اربعین کو نیوز رپورٹ کے مطابق تیرہ میلین زائرین نے شرکت کی ہے۔[228]

حرم و حائر حسینی

امام حسینؑ کے حرم کے گنبد پر انتقام کی نشانی کے طور پر سرخ پرچم لہرا رہا ہے۔[229]

امام حسینؑ کے مرقد کو حائر حسینی کہا جاتا ہے اور حائر کے محدودہ کی بعض فضیلتیں اور فقہی احکام ہیں اور مسافر وہاں پر نماز پوری بھی پڑھ سکتا ہے۔[230] حائر حسینی کی مساحت کے بارے میں چند نظرئے ہیں اور کم از کم قبر سے 11 میٹر کو حائر کہا گیا ہے جو انتہائی بافضیلت ہے۔[231]

  • حرم امام حسین

گزاراشات کے مطابق امام حسینؑ کی قبر پر پہلی عمارت مختار ثقفی کے دور میں ان کے حکم سے تعمیر ہوئی اور اس وقت سے اب تک کئی بار حرم کی مرمت ہوئی ہے اور وسعت دی گئی ہے،[232] اسی طرح کئی بار بعض خلفا عباسی[233] اور وہابیوں[234] نے اس کو مسمار بھی کیا ہے۔ یہاں تک کہ متوکل عباسی نے وہاں پر کھیتی باڑی کرنے اور قبر کو زیر آب لانے کا حکم دیا۔[235]

امام حسین کی معنوی میراث

حدیث اور تاریخی منابع میں امام حسین کی معنوی میراث میں، کلمات، دعا، خطوط، اشعار، خطبے اور آپ کی وصیت نقل ہوئی ہے۔ یہ تمام آثار مسند الامام الشہید بقلم عزیز اللہ عطاردی اور کتاب موسوعۃ کلمات الامام الحسین میں جمع ہوئے ہیں۔

اقوال و کلمات: شیعوں کے تیسرے امام کے کلمات، توحید، قرآن، اہل بیت، احکام اور اخلاق کے موضوع پر اسلامی منابع میں ذکر ہوئے ہیں۔[236] ان کلمات میں سے اکثر آپ کی عمر کے آخری مہینے سے مربوط ہیں۔ [حوالہ درکار]

دعائیں: مسند الامام الشہید نامی کتاب میں تقریبا 20 دعائیں اور مناجاتیں نقل ہوئی ہیں۔ ان میں سے مشہور دعا، دعاے عرفہ ہے کہ جسے عرفہ کے دن امام (ع) صحراے عرفات میں پڑھا ہے۔[237]

منسوب اشعار: امام حسینؑ سے بعض اشعار منسوب ہیں۔ محمد صادق کرباسی، ان اشعار کو دیوان الامام الحسین نامی کتاب میں جمع کیا ہے اور ان کی سند اور ادبی لحاظ سے تحقیق کی ہے۔[238]

خطبے اور وصیتیں: بعض منابع میں، منی میں امام حسین کا خطبہ،[239] عاشورا کے دن امام حسین کا خطبہ[240] اور اپنے بھائی محمد حنفیہ کے نام مکتوب وصیت نامہ جس میں اپنے قیام کا ہدف بیان کیا ہے،[241] ذکر ہوئے ہیں۔

خطوط: مکاتیب الائمۃ نامی کتاب میں امام حسینؑ کے 27 خطوط جمع ہوئے ہیں۔[242] ان میں سے بعض خطوط معاویہ کے نام اور بعض دیگر خطوط دوسرے افراد کے نام مختلف موضوعات کے بارے میں لکھا ہے۔

بعض مشہور کلمات:

  • اگر تمہارا کوئی دین نہیں اور قیامت سے نہیں ڈرتے ہو تو اس دنیا میں کم از کم آزاد رہو۔[243]
  • لوگ دنیا کے غلام ہیں اور اپنی دنیاوی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنی زبانوں پر دین کا ورد کرتے رہتے ہیں اور جب آزمائش میں ڈالے جائیں تو دیندار لوگ بہت کم ہوں گے۔[244]
  • لوگوں کی تم سے احتیاجات اللہ کی تم پر نعمت ہیں؛ نعمتوں سے تھکن اور مغموم مت ہونا کہیں وہ بلا میں تبدیل نہ ہوجائے۔[245]
  • ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔[246]
  • میں نے ظلم اور فساد پھیلانے کے لیے نہیں بلکہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے قیام کیا ہے؛ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں۔[247]
  • جو شخص اللہ کی نافرمانی سے کسی چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہو تو جس چیز کی امید ہے اس کے حصول سے کہیں زیادہ جلدی میں اس چیز کو کھو بیٹھتا ہے اور جس چیز سے گھبرا رہا ہے اس میں گرفتار ہوتا ہے۔[248]
دانشنامہ امام حسین امام حسینؑ کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں پانچ سو سے زیادہ تاریخی، فقہی، تفسیری اور کلامی کتابوں کی طرف رجوع کیا گیا ہے۔

کتاب‌ شناسی

امام حسین کی شخصیت اور زندگی کے بارے میں بہت سارے انسائیکلوپیڈیا، زندگی نامے، مقتل اور تحلیلی تاریخ لکھی گئی ہیں اور اس سلسلے میں چالیس کتابیں اور مقالے کتابیات کے نام سے لکھے گئے ہیں۔[249] ان میں سے ایک کتاب ‌شناسی اختصاصی امام حسین نے 1428 کتابوں کو مولف کے نام کے ساتھ ذکر کیا ہے۔[250] آقا بزرگ تہرانی نے بھی الذریعۃ میں 985 کتابوں کا اس موضوع میں ذکر کیا ہے۔[251]

اس موضوع پر اہم کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:

انسائیکلوپیڈیا:
زندگی نامہ:
  • حیاۃ الامام الحسین تألیف باقر شریف قریشی (3 جلد)
  • ترجمۃ الإمام الحسینؑ بقلم ابن عدیم‏ (1 جلد)
  • الطبقات الکبری تالیف ابن سعد میں امام حسین (ع) سے مربوط مطالب جنہیں ترجمة الامام الحسین و مقتله کے عنوان سے مستقل کتاب کی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔
  • تاریخ مدینۃ دمشق تالیف ابن عساکر میں امام حسین سے مربوط بخش جو ترجمۃ الامام الحسین کے نام سے مستقل طور پر چھپ چکی ہے۔
  • زندگانی امام حسین تالیف سید ہاشم رسولی محلاتی
مقتل:

جو کتاب کسی تاریخی شخصیت کے قتل یا شہادت کے بارے میں لکھی گئی ہو تو اسے مقتل کہا جاتا ہے۔[253] شیعوں کے تیسرے امام کے بارے میں لکھا جانے والا پہلا مقتل، ابو مخنف کی مقتل الحسین ہے جو دوسری صدی میں لکھا گیا ہے۔ امام حسینؑ کے بارے میں لکھی جانے والی بعض دوسری کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:

مقتل جامع سید الشہدا میں مقتل کے علاوہ عاشورا کی تاریخ، قیام امام حسین کا فلسفہ، عزاداری کی تاریخ اور آپ کے اصحاب کی زندگی کے بارے میں بھی لکھا ہے۔
تاریخی-تحلیلی:
مقالات: امام حسینؑ کی شخصیت اور زندگی کے بارے میں بہت سارے مقالات لکھے گئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ص۸۲۶. مفید، الإرشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۷
  2. یوسفی غروی، موسوعہ التاریخ الاسلامی ، ۱۴۱۷، ج۳، ص۱۳۰
  3. المفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۶۶-۱۷۱. ابن شہرآشوب، ۱۳۷۶ق، ج۳، ص۱۴۴
  4. ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ۱۴۱۰، ج۱، ص۲۹-۳۰؛ طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳، ج۱، ص۷۵
  5. ابن حجر عسقلانی، الإصابة، ۱۴۱۵،ج۴، ص۳۷۹.
  6. مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج ۱۰، ص۱۲۱.
  7. ذہبی، تاریخ الإسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام‏، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۴۸۵.
  8. ابن شہرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۳، ص۱۶۸.
  9. ابن عبد البر، الاستیعاب فى معرفة الاصحاب، ۱۴۱۲ق، ج‏۳، ص۹۳۹.
  10. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۱۶۵؛
  11. طبرسی،تاج الموالید، ۱۴۲۲ق، ص۸۲.
  12. طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷، ج۵، ص۲۵۳: سال ۵۱؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دارصادر، ج۲، ص۲۳۱: سال ۵۲؛ مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹، ج۳، ص۱۸۸: سال ۵۳.
  13. ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ۱۴۰۴، ص۶۸
  14. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷، ج۵، ص۳۳۹.
  15. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷، ج۳، ص۱۶۰؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳، ج۲، ص۳۴.
  16. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷، ج۵، ص۳۸۱.
  17. سبط بن الجوزی، تذكرة الخواص، ۱۴۱۸، ص۲۲۰
  18. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹، ج۳، ص۵۴
  19. شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳، ج۲، ص۶۶
  20. مفید، الارشاد، ۱۴۱۳، ج۲، ص۸۴
  21. شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳، ج۲، ص۹۰-۹۱.
  22. شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳، ج۲، ص۹۵-۱۱۲.
  23. شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص27.
  24. مسلم، صحیح مسلم، 1423ق، ج15، ص190؛ کلینی،الکافی،1363، ج‏1، ص287
  25. مفید، الارشاد، 1413، ج1، ص168.
  26. زمخشری، الکشاف، 1415 ق، ذیل آیہ 61 آل عمران؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1405 ھ، ذیل آیہ 61 سورہ آل عمران.
  27. احمد بن حنبل، مسند احمد، دار صادر، ج 1، ص331؛ ابن کثیر، تفسیر القرآن، 1419ق، ج3، ص799؛ شوکانی، فتح القدیر، عالم الکتب، ج4، ص279
  28. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص226؛ ابن سعد، الطبقات الکبری،1418، ج10، ص363.
  29. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418، ج10، ص414ـ416
  30. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418، ج10، ص395؛ ابن ابی‌ شیبہ، المصنَّف، 1409ق، ج7، ص269
  31. حاج منوچهری، «حسین (ع)، امام»، ص681.
  32. حاج منوچهری، «حسین (ع)، امام»، ص686.
  33. محدثی، فرهنگ عاشورا، 1393ش، ص372.
  34. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418، ج10، ص376-410؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ق، ج3، ص7؛ مسلم، صحیح مسلم، 1423ق، ج15، ص190؛ ابن کثیر، تفسیر القرآن، 1419ق، ج3، ص799؛ مراجعہ کریں حسینی شاهرودی، «امام حسین ؑ و عاشورا از دیدگاه اهل سنت» و ایوب، م، ترجمہ قاسمی، «فضایل امام حسین علیه السلام در احادیث اہل سنت»
  35. ایوب، م، ترجمہ قاسمی، «فضایل امام حسین علیہ السلام در احادیث اہل سنت»
  36. ابوبکر ابن عربی، العواصم من القواصم، المکتبۃ السلفیۃ، ص232.
  37. ابن تیمیہ، منہاج السنۃ النبویۃ، 1406ق، ج4، ص530-531.
  38. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص217.
  39. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص216.
  40. آلوسی، روح المعانی، 1415ق، ج13، ص228.
  41. عقاد، ابو الشهداء، 1429ق، ص207.
  42. عقاد، ابو الشهداء، 1429ق، ص141.
  43. طہ حسین، علی و بنوہ، دار المعارف، ص239
  44. فروخ، تجدید فی المسلمین لا فی الإسلام، دار الكتاب العربی، ص152
  45. ناصری داودی، انقلاب کربلا از دیدگاه اهل سنت، 1385، ص287-319.
  46. ابن شہر آشوب‏، المناقب، 1379ق،ج3، ص397؛ اربلی، ابن سعد، الطبقات الكبرى، ج10، ص244.
  47. شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص27؛ احمد ابن حنبل، المسند، دارصادر، ج1، ص98، 118.
  48. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1968م، ج6، ص357؛ ابن اثیر، اسد الغابہ، بیروت، ج2، ص10.
  49. ابن منظور، لسان العرب، 1414ق، ج4، ص393؛ زبیدى، تاج العروس، 1414ق، ج7، ص4.
  50. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ق، ج13، ص171.
  51. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418ق، ج10، ص239-244؛ مجلسی، بحار الأنوار، 1363ش، ج39، ص63.
  52. ری شہری، دانشنامہ امام حسین، 1388، ج1، ص194-195
  53. شیخ مفید، الارشاد، 1414ق، ج2، ص27.
  54. شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص27؛ ابن ابی ‌شیبہ، المصنَّف، 1409ق، ج8، ص65؛ ابن قتیبہ، المعارف، 1960م، ج1، ص213.
  55. محدثی، فرہنگ عاشورا، 1380ش، ص39.
  56. ابن ابی‌ الثلج، تاریخ الائمہ، 1406ق، ص28؛ ابن طلحہ شافعی، مطالب السؤول، 1402ق، ج2، ص374؛ القاب کی فہرست کے لیے مراجعہ کریں: ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، 1385ش، ج4، ص86.
  57. ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، 1385ش، ج4، ص86.
  58. مراجعہ کریں: حِمْیری، قرب الاسناد، 1413ق، ص99ـ100؛ ابن قولویہ، کامل الزیارات، 1417ق، ص216ـ219؛ شیخ طوسی، امالی، 1414ق، ص49ـ 50.
  59. ابن قولویہ، کامل الزیارات، 1356، ص176.
  60. بلاذری، انساب الاشراف، 1417ق، ج3، ص142؛ شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص127؛ مقریزی، امتاع الأسماع، 1420ق، ج6، ص19.
  61. ری شہری، دانشنامہ امام حسین، 1388ش، ج1، ص474-477
  62. کلینی، الکافی، 1365ش، ج1، ص463؛ شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، 1401ق، ج6، ص41؛ ابن عبدالبرّ، الاستیعاب، 1412ق، ج1، ص392.
  63. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج2، ص246؛ دولابی، الذریۃ الطاہرۃ، 1407ق، ص102، 121؛ طبری، تاریخ طبری، 1962، ج2، ص555؛ شیخ مفید، الارشاد، 1414ق، ج2، ص27.
  64. ابن المشہدی، المزار [الکبیر]، 1419ق، ص397؛ شیخ طوسی، مصباح المتہجد، 1411ق، ص826، 828؛ سید بن طاوس، اقبال الاعمال، 1367ش، ص689-690.
  65. شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص27.
  66. شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص129؛ مقریزی، امتاع الأسماع، 1420ق، ج‏12، ص237؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دار الفکر، ج6، ص230.
  67. کلینی، الکافی، 1362ش، ج1، ص465.
  68. شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص129؛ مقریزی، امتاع الأسماع، 1420ق، ج‏12، ص237؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دار الفکر، ج6، ص230.
  69. سماوی، ابصار العین، 1419ق، ص93.
  70. ترمذی، سنن ترمذی، 1403ق، ج5، ص323.
  71. احمد بن حنبل، المسند، بیروت، ج5، ص354؛ ترمذی، سنن ترمذی، 1403ق، ج5، ص322؛ ابن حبان، صحیح، 1993م، ج13، ص402؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، 1406ق، ج1، ص287.
  72. ابن قولویہ قمى، کامل الزیارات‏، 1356ق، ص50.
  73. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1968، ج6، ص406ـ407؛ شیخ صدوق، عون اخبار الرضا، 1363ش، ج1، ص85؛ شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج1، ص168
  74. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418، ج10، ص369.
  75. ری شہری، دانشنامہ امام حسین، 1388ش، ج2، ص324.
  76. ری شہری، دانشنامہ امام حسین، 1388ش، ج2، ص325
  77. دینوری، ابن قتیبہ؛ الامامہ و السیاسہ، ج1، ص29-30؛ طبرسی، احمد بن علی؛ الاحتجاج، ج1، ص75 و علامہ مجلسی؛ بحار الانوار، ج22، ص328
  78. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418، ج10، ص394؛ ذہبی، تاریخ الاسلام، 1993م، ج5، ص100؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، 1379، ج4، ص40؛ بغدادی، تاریخ بغداد، 1412ق، ج1، ص152.
  79. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ق، ج14، ص175؛ سبط بن جوزى، تذکرۃ الخواص‏، 1418ق، ص212.
  80. کلینی، الکافی، 1365ش، ج8، ص206-207؛ ابن ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1385-1387ق، ج8، ص253-254
  81. ابن خلدون، العبر، 1401ق، ج2، ص573-574
  82. طبری، تاریخ طبری، 1387ھ۔ ج4، ص269.
  83. ابن قتیبہ، المعارف، 1992م، ص568؛ بلاذری، فتوح البلدان، 1988م، ص326؛ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج5، ص198.
  84. جعفر مرتضی، الحیاۃ السیاسیۃ للامام الحسن، دارالسیرۃ، ص158
  85. زمانی، حقایق پنہان، 1380ش، ص118-119.
  86. ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسۃ، 1410، ج1، ص59؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ق، ج5، ص558.
  87. ری شہری، دانشنامہ امام حسین، 1388ش، ج2، ص331-332
  88. مجلسی، بحار الأنوار، 1363ش، ج 10، ص121.
  89. شیخ مفید، الجمل، 1413، ص348؛ ذہبی، تاریخ الإسلام‏، 1409ق، ج3، ص485.
  90. نصر بن ‌مزاحم، وقعۃ الصفین، 1382ق، ص114ـ115
  91. ابن اعثم، الفتوح، 1411، ج3، ص24؛ ابن شہر آشوب‏، المناقب، 1379ق، ج3، ص168
  92. مجلسی، بحار الأنوار، 1363ش، ج44، ص266.
  93. اربلى، کشف الغمۃ، 1421ق، ج1، ص569؛ نہج البلاغہ، تحقیق: صبحی صالح، خطبہ 207، ص323
  94. ابن عبد البر، الاستیعاب، 1412ق، ج‏3، ص939
  95. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج‏5، ص147.
  96. ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، 1410، ج1، ص181؛ شیخ مفید، الارشاد، 1414ق، ج1، ص25
  97. کلینی، الکافی، 1362، ج3، ص220؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ق، ج2، ص497-498
  98. کلینی، الکافی، 1362ش،ج1، ص291؛ ابن شہر آشوب‏، المناقب، 1379ق، ج3، ص401.
  99. ابن قتیبۃ دینوری، الإمامۃ و السیاسۃ، 1410ق، ج1، ص184.
  100. دینورى، الأخبار الطوال، 1368ش، ص221.
  101. شیخ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال (رجال کشی)، 1348ش، ص110.
  102. شیخ طوسی، اختیار معرفۃ الرجال (رجال کشی)، 1348ش، ص110.
  103. شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص32.
  104. ابن اعثم، الفتوح، 1411، ج4، ص292؛ ابن شہر آشوب، المناقب، 1379،ج4، ص35
  105. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج5، ص160 ؛ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ق، ج13، ص267.
  106. جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، 1381ش، ص157-158
  107. دینورى، الأخبار الطوال، 1368ش، ص220
  108. بلاذری، أنساب الأشراف‏، 1417ق، ج3، ص150
  109. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج5، ص165؛ ابن‌ جوزی، المنتظم، 1992م، ج5، ص184
  110. مُصْعَب بن عبداللّہ، کتاب نسب قریش، 1953 ء، ج1، ص57-59؛ بخاری، سرّ السلسلۃ العلویۃ، 1381ق، ج1، ص30؛ شیخ مفید، الارشاد، چاپ رسولی محلاتی، ج2، ص135.
  111. طبری، دلائل الامامۃ، 1408ق، ج1، ص74؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، چاپ رسولی محلاتی، ج4، ص77؛ ابن طلحہ شافعی، مطالب السؤول، 1402ق، ج2، ص69.
  112. مطہری در خدمات متقابل اسلام و ایران، ص131-133؛ شریعتی در تشیع علوی و تشیع صفوی، ص91؛ دہخدا، لغت نامہ؛ جعفر شہیدی در زندگانی علی ابن الحسینؑ، ص12 و یوسفی غروی، تقی‌ زادہ، سعید نفیسی و کریستین ان محققین میں سے ہیں جن کے مختلف نظریے ہیں۔
  113. اصفہانی، مقاتل الطالبیین، 1405ق، ص59؛ شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص135
  114. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، 1408ق، ج8، ص229
  115. مُصْعَب بن عبداللّہ، کتاب نسب قریش، 1953ء، ج1، ص59؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج5، ص468؛ بخاری، سرّالسلسلۃ العلویۃ، 1381ق، ج1، ص30
  116. مصعب بن عبداللہ، کتاب نسب قریش، 1953ء، ص57؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج2، ص246ـ247؛ طبری، تاریخ طبری، 1382-1387ق، ج5، ص446
  117. مقری