ذوب النضار فی شرح الثار (کتاب)
مشخصات | |
---|---|
مصنف | جعفر بن محمد بن نما حلی |
سنہ تصنیف | ساتویں صدی ہجری |
موضوع | قیام مختار |
زبان | عربی |
تعداد جلد | 1 |
طباعت اور اشاعت | |
ناشر | دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین |
مقام اشاعت | قم |
سنہ اشاعت | 1416ھ |
ذوبُ النُّضار فی شَرحِ الثّارعربی زبان کی ایک کتاب ہے جسے جعفر بن محمد بن نماحلی (وفات: 680ھ) نے مختار ثقفی کی شخصیت کے دفاع کو مد نظر رکھ کر ان کے سوانح حیات اور قیام کے بارے میں لکھی ہے۔ ابن نما حلی نے بعض احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے مختار ثقفی کو شیعہ ائمہؑ کے نزدیک محترم شخصیت اور ان کے قیام کو ائمہ کے ہاں مورد تائید قرار دیا ہے۔ مصنف نے مختار کے سوانح حیات، قیام توابین، قیام مختار اور امام حسینؑ کے قاتلوں سے انتقام پر مشتمل موضوعات کو چار حصوں میں پیش کیا ہے۔ کتاب ذوب النضار کو مختار اور اس کے قیام کے بارے میں سب سے اہم کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
اس کتاب میں نقل کردہ روایات کے منابع، بعض الفاظ کی وضاحت اور کتاب میں ذکر شدہ بعض شخصیات کو فارس حسون نے ذوب النضار پر لکھی تحقیق میں ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب دفتر نشر اسلامی کی طرف سے مستقل طور پر شائع ہونے کے علاوہ، بحار الانوار اور عوالم العلوم و المعارف جیسی کتابوں میں بھی انہی کتابوں کے بعض حصوں کے طور شائع ہو چکی ہے۔ اس کتاب کا ایک خطی نسخۃ فاضل خوانساری کے کتب خانے میں محفوظ رکھا گیا ہے۔
اوصاف اور مقام
کتاب ذوبُ النُّضار مختار ثقفی کی شخصیت اور ان کے قیام کے بارے میں لکھی گئی اہم ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔[1] کہا جاتا ہے کہ مولف نے اس کتاب میں قیام مختار کے ابتدائی مراحل، اس زمانے کے معاشرے کی معاشرتی صورت حال اور قیام کے نتائج کی تمام جہتوں اور پہلؤوں کو مد نظر رکھ کر ان کا جائزہ لیا ہے۔[2]انہوں نے متعدد روایات کی رو سے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ محمد بن حنفیہ نے کبھی بھی امامت کا دعویٰ نہیں کیا؛ بلکہ وہ امام سجادؑ کو اپنا امام مانتے تھے اور بعض روایتوں کے برخلاف مختار، محمد بن حنفیہ کی امامت کو نہیں مانتے تھے۔[3] اسی طرح مولف نے ائمہؑ سے منقول روایات سے استناد کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ مختار ائمہؑ کے نزدیک محترم شخصیت کے مالک تھے اور ان کا خون امام حسینؑ سے انتقام بھی ائمہؑ کی تائید شامل تھی۔[4]
مؤلف نے اپنے دوستوں کی درخواست اور مختار ثقفی کے بارے میں بعض شیعوں کے منفی نقطہ نظر کو اس کتاب کی تحریر کا محرک قرار دیا ہے۔[5]
مندرجات
کتاب ذوبُ النُّضار ایک مقدمہ اور چار حصوں پر مشتمل ہے۔ کتاب کے آخر میں ایک تکملہ الحاق کیا گیا ہے جسے لطفُالله بن محمد نے لکھا ہے اور قتل مختار کی تفصیلات اس حصے میں بیان کی گئی ہیں۔[6]
مولف نے کتاب کے مقدمے میں متعدد روایات سے اسنتاد کرتے ہوئے مختار ثقفی کے برحق ہونے کو ثابت کرتے ہوئے ان کی نسبت کی گئی الزام تراشیوں کو رد کیا ہے۔[7] ابن نما نے کتاب کے پہلے حصے میں مختار ثقفی کی سوانح عمری، ان کے فضائل اور قیام کے آغاز سے پہلے کے ان کی زندگی کے کچھ واقعات پیش کیے ہیں۔[8]
کتاب کے دوسرے حصے میں سلیمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں قیام توابین کی تشکیل، اس کی تفصیلات، سلیمان خزاعی کی شہادت اور قیام مختار کے مقدمات کے بارے مطالب ذکر ہوئے ہیں۔[9] تیسرے حصے میں قیام مختار کا آغاز اور قتل امام حسینؑ کے سلسلے میں کردار ادا کرنے والے وہ افراد جن کا مختار نے خون حسینؑ کا انتقام لیا، ان کے اسامی کا ذکر آیا ہے۔[10] چوتھا حصہ عمر بن سعد اور عبید اللہ بن زیاد اور ان کے پیروکاروں کو مارے جانے کی کیفیت، عبید اللہ کے ساتھ جنگ اور اس پر لشکر مختار کی فتح کی تفصیلات سے متعلق ہے۔[11]
کتاب کا اصلی نام
آقا بزرگ تہرانی نے الذریعۃ اس کتاب کے تین عناوین کا ذکر کیا ہے۔«اخذ الثار»،[12]«ذوب النضار فی شرح الثار»،[13] اور «شرحُ الثّار المُشتمل علی اخبارِ المُختار».[14] البتہ اس کے کچھاور نام بھی بیان ہوئے ہیں جیسے بعض نے اسے «اخذُ الثّار فی احوالِ المختار»[15] اور «ذوبُ الغَضار فی شرحِ اَخذِ الثّار»[16] کے عنوان سے بھی یاد کیا ہے۔ آقا بزرگ تہرانی کے مطابق لفظ «الغضار» چاپی غلطی کی وجہ سے ہے وگرنہ درست نام «النضار» ہے۔[17] خود مولف نے اس کا نام ذوبُ النُّضار فی شرحِ الثار رکھا ہے۔[18] لغت میں لفظ "نضار" کے معنی خالص سونے کے ہیں جسے ابھی کان سے نہ نکالا ہو[19] اور ذوب النضار سونے کے پگھلنے کو کہتے ہیں۔
مولف
کتاب ذوبُ النُّضار کو جعفر بن محمد بن نما حلی (وفات: 680ھ) ملقب بہ نجمُ الدین اور المعروف ابن نما نے تحریر کیا ہے۔[20] انہیں شیعہ امامیہ کے پایے کے فقیہ سمجھے جاتے ہیں۔[21] انہیں ادیب، مورخ اور علامہ حلی کے استاد بھی مانے جاتے ہیں۔ اہل بیتؑ کی شان میں مدحت پر مشتمل ان کے اشعار موجود ہیں۔[22]
ابن نما کے دیگر قلمی آثار بھی ہیں؛ جیسے مقتل کے موضوع پر لکھی گئی کتاب "مُثیرُ الاَحزان و مُنیرُ سُبُلِ الاَشجان"، اور ""مَنهجُ الشیعه فی فضائلِ وصی خاتمِ الشَریعه"، جس میں امیر المومنینؑ حضرت علیؑ کے فضائل و مناقب بیان کیے ہیں۔[23]
اشاعت
کہا جاتا ہے کہ کتاب ذوبُ النُّضار کا ایک پرانا خطی نسخہ موجود ہے جس کو فاضل خوانساری کے کتب خانے رکھا گیا ہے۔ یہ کتاب خط نسخ میں 32 صفحات پر مشتمل ہے۔[24] ذوب النضار کی کتاب بحار الانوار کے ایک حصے کے طور پر، اس کتاب کی 45ویں جلد میں اس کے مطالب بیان ہوئے ہیں ہے؛ اسی طرح عبد الله بن نورالدین بَحرانی کی کتاب "عوالم العلوم و المعارف"عَوالمُ العلومِ و المَعارف و الاَحوال مِنَ الآیاتِ و الاخبارِ و الاقوال" کی ساتویں جلد کے کچھ حصے کے طور پر بھی اس کی اشاعت ہوئی ہے۔[25]
کتاب ذوب النضار کی فارس حسون کی تحقیق اور مندرجہ بالا نسخہ جات کے مقابلے میں سنہ 1416ھ میں دفتر نشر اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کے توسط سے مستقل طور پر بھی طبع ہوئی ہے۔[26] حسون کی تحقیق کا محور کتاب میں منقول روایات کو معتبر منابع سے استخراج کرنا، غیر معروف الفاظ کے معنی بیان کرنا اور کتاب میں مذکور افراد کے بارے میں اجمالی وضاحت بیان کرنا ہے۔[27]
حوالہ جات
- ↑ مؤسسه نشر اسلامی، «مقدمه»، در ذوب النضار، 1416ھ، ص3-4.
- ↑ مؤسسه نشر اسلامی، «مقدمه»، در ذوب النضار، 1416ھ، ص3-4.
- ↑ ابننما حلی، ذوب النضار، 1416ھ، ص50-57.
- ↑ ابننما حلی، ذوب النضار، 1416ھ، ص62-66.
- ↑ ابننما حلی، ذوب النضار، 1416ھ، ص50-51.
- ↑ ابننما حلی، ذوب النضار، 1416ھ، ص148-150.
- ↑ ابننما حلی، ذوب النضار، 1416ھ، ص50-58.
- ↑ ابننما حلی، ذوب النضار، 1416ھ، ص59-81.
- ↑ ابننما حلی، ذوب النضار، 1416ھ، ص82-104.
- ↑ ابننما حلی، ذوب النضار، 1416ھ، ص105-125.
- ↑ ابننما حلی، ذوب النضار، 1416ھ، ص126-147.
- ↑ آقابزرگ طهرانی، الذريعة، 1408ھ، ج1، ص369.
- ↑ آقابزرگ طهرانی، الذريعة، 1408ھ، ج1، ص369 و ج10، ص43.
- ↑ آقابزرگ طهرانی، الذريعة، 1408ق، ج13، ص170.
- ↑ امین، اعیان الشیعه، 1403ھ، ج4، ص156؛ یعقوبی، البابلیات، 1370ھ، ج1، ص74.
- ↑ آقابزرگ طهرانی، الذریعه، 1403ھ، ج10، ص43.
- ↑ آقابزرگ طهرانی، الذریعه، 1408ھ، ج13، ص170.
- ↑ ابننما حلی، ذوب النضار، 1416ھ، ص58.
- ↑ دهخدا، لغتنامه دهخدا، ذیل نضار.
- ↑ حسون، «مقدمه»، در ذوب النضار، 1416ھ، ص32.
- ↑ امین، اعیان الشیعه، 1403ھ، ج4، ص156.
- ↑ امین، اعیان الشیعه، 1403ھ، ج4، ص156؛ یعقوبی، البابلیات، 1370ھ، ج1، ص74؛ صفار، «ابننما الحلی (توفی 680ھ/1281ء)»، وبگاه العتبه الحسینیه المقدسه.
- ↑ آقابزرگ طهرانی، الذریعه، 1403ق، ج19، ص349.
- ↑ حسون، «مقدمه»، در ذوب النضار، 1416ھ، ص42.
- ↑ حسون، «مقدمه»، در ذوب النضار، 1416ھ، ص43.
- ↑ حسون، «مقدمه»، در ذوب النضار، 1416ھ، ص43.
- ↑ حسون، «مقدمه»، در ذوب النضار، 1416ق، ص43.
مآخذ
- آقابزرگ طهرانی، محمدمحسن، الذریعه، بیروت، دار الاضواء، 1403ھ.
- ابننما حلی، ذوب النضار، قم، مؤسسه نشر اسلامی، چاپ اول، 1416ھ.
- امین، محسن، اعیان الشیعه، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1403ھ.
- حسون، فارس، «مقدمه»، در ذوب النضار، تألیف ابننما حلی، قم، مؤسسه نشر اسلامی، چاپ اول، 1416ھ.
- صفار، محمدطاهر، «ابننما الحلی (توفی 680ه/1281م)»، وبگاه العتبه الحسینیه المقدسه، تاریخ درج مطلب: 25 آبان 1401ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 25 مرداد 1402ہجری شمسی.
- مؤسسه نشر اسلامی، «مقدمه»، در ذوب النضار، تألیف ابننما حلی، قم، مؤسسه نشر اسلامی، چاپ اول، 1416ھ.
- یعقوبی، محمدعلی، البابلیات، نجف، مطبعه الزهراء، 1370ھ.