اخلاق

ویکی شیعہ سے
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

اخلاق دین کے اس حصے کو کہا جاتا ہے جس میں انسانی اعمال کے فضائل اور رزائل کو بیان کیا جاتا ہے۔ اخلاق انسان کی ان باطنی صفات کو کہا جاتا ہے جو اس کی عادت میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ اخلاق کو اچھے اور برے اخلاق، فردی اور اجتماعی اخلاق میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید نے پیغمبر اکرم کی بعثت کا ہدف انسانوں کے اخلاق کی اصلاح بتایا ہے۔ روایات میں سب سے نیک اور اخلاقی صفت کو مکارم الاخلاق سے یاد کیا ہے۔ جامع السعادات، معراج السعاده، اخلاق شُبّر اور اخلاق ناصری اخلاقی موضوعات پر لکھی جانے والی شیعوں کی مشہور کتابوں میں سے ہیں۔

تعریف

اخلاق انسان کی باطنی صفات کو کہا جاتا ہے جو اس میں پائی جاتی ہیں۔ یہ لفظ اچھی اور نیک صفات جیسے جوانمردی، اور دلیری کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور بری صفات جیسے پستی اور بزدلی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے؛[1] اسی طرح فردی اخلاق جیسے صبر اور شجاعت و معاشرتی اور اجتماعی اخلاق جیسے تواضع اور ایثار کو بھی شامل کرتا ہے۔[2]

اخلاق اسلامی ان اسلامی تعلیمات کو کہا جاتا ہے جو انسانی کردار کی فضیلتوں اور برائیوں کو بیان کرتی ہیں۔[3]

اہمیت

اسلام اخلاق کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ قرآن مجید اخلاقی مفاہیم جیسے؛ خير اور شرّ، عدل اور ظلم، صبر و احسان پر زیادہ توجہ دیا جاچکا ہے۔[4] اور پیغمبر اکرمؐ کی رسالت کا اصلی ہدف انسانوں کے اخلاق کی اصلاح بیان کیا ہے۔[5] مستدرک الوسائل کی ایک روایت کے مطابق پیغمبر اسلامؐ نے اپنی نبوت کے ہدف،اخلاقی فضائل کو تکمیل تک پہنچنا قرار دیا ہے۔[6] محمدتقی مصباح یزدی نے لکھا ہے: انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو سنبھالنا دین کا ہدف ہے اور یہ مخصوص اخلاقی احکام کے سائے میں ہی ممکن ہے اسی وجہ سے تو کہا جاسکتا ہے کہ: اخلاق کے بغیر دین اپنے اہداف تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔[7]

فردی اور اجتماعی اخلاق

بعض اخلاق کی کتابوں میں اخلاق کو فردی اور اجتماعی اخلاق میں تقسیم کیا ہے۔ بعض نے لکھا ہے کہ اخلاقی صفات فردی ہوتی ہیں اور اجتماع اور معاشرے کے بغیر اس کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ ان صفات کو فردی اخلاق کہا جاتا ہے۔ جبکہ بعض دوسری خصوصیات ہر شخص کا دوسرے انسان سے متعلق ہے اس طرح سے کہ اگر کوئی شخص اکیلا رہ رہا ہو تو وہاں پر یہ چیزیں نہیں ہونگی۔ ان خصوصیات کو اجتماعی اور معاشرتی اخلاق کہا جاتا ہے۔[8]
بعض نے اپنی کتابوں میں معاشرتی اور اجتماعی اخلاق میں سے بعض مندرجہ ذیل عناوین کو بیان کیا ہے: ۔[9]

بعض اخلاقی مفاہیم فردی ہیں: جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

  • صبر
  • جزع
  • شجاعت
  • خوف
  • استقامت
  • سستی.[10]

اخلاقی خوبیاں اور برائیاں

اخلاقی کتابوں میں اچھے اور برے اخلاق کی ایک فہرست ہوتی ہے۔ ان کتابوں میں سب سے پہلے ہر اخلاقی صفت کی تعریف اور اس کے بعد بعض دیگر امور جیسے؛ کیسے یہ صفت بنتی ہے اور اس کے نتائج کیا ہیں، اس بارے میں گفتگو ہوتی ہے۔ اخلاقی بیماریوں اور برائیوں کی شناخت اور ان کا علاج، اور اخلاقی خوبیوں تک پہنچنے کا طریقہ کار، یہ وہ مسائل ہیں جو اخلاقی کتابوں میں کم وبیش بیان ہوتی ہیں۔ [11] خواجہ نصیر الدین طوسی اخلاق محتشمی نامی کتاب میں مشہور اخلاقی صفات کی مندرجہ ذیل فہرست بیان کی ہے:

فضایل اخلاقی

  • زہد
  • صبر
  • رضا
  • تواضع
  • صداقت
  • خوش‌خلقی
  • شجاعت
  • خاموشی
  • امانت‌داری
  • عفت
  • ایثار و فداکاری
  • دنیا سے دوری

بری صفات

اخلاق‌ اور قرآن‌

قرآن اخلاق کی ترقی اور ترویج پر زور دیتا ہے اور اسے پیغمبر اکرمؐ کی رسالت کا ہدف بھی قرا دیا ہے۔ [13] قرآن کا اخلاقی نظام دو مفہوم؛ «برّ» (نیکی) اور «تقوی» کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ [14] قرآنی نکتہ نظر سے ‌ «بِرّ» تمام دینی فضیلتوں جیسے؛ عقاید، دینی واجبات اور نیک صفات سب کو شامل ہوتا ہے[15] تقوا ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو برائیوں سے دور کرنے کے ساتھ ساتھ اسے «برّ» اور نیکی کی طرف بھی بلاتی ہے۔ [16] بعض دوسری اخلاقی اقدار جس پر قرآن میں تاکید ہوئی ہے مندرجہ ذیل ہیں:

  • قسط و عدل؛
  • صبر؛
  • رحمت‌ اور مہربانی‌؛
  • والدین سے نیک سلوک‌؛
  • صلہ رحم؛
  • فقیر اور یتیموں پر انفاق‌‌؛
  • وعدے پر پابند
  • امانت کو ادا کرنا‌؛
  • معاملات کو درست انجام دینا.[17]
اخلاقیات میں اختلاف کے بارے میں شہید مطہری کی رائے

اخلاق کی تعریف میں اختلاف کسی حد تک اعتقادات میں اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے؛ یعنی کائنات کے بارے میں کسی بھی مکتب فکر کا نظریہ اس مکتب میں ایک طرح کا اخلاقی نظام ایجاد کرتا ہے۔ مادی مکتب فکر ایک طرح کا اخلاقی نظام پیش کرتا ہے تو الہی مکاتب میں اخلاقیات کی ایک نئی تفسیر پیش کی جاتی ہے۔ جس مکتب میں کائنات کو ایک ازلی اور حکیمانہ ادارے کا ماحصل اور انسان کو خلیفۃ اللہ قرار دیا جاتا ہے، کا اخلاقی نظام خواہ نخواہ اس مکتب کے اخلاقی نظام سے مختلف ہوگا جس میں کائنات کو سراسر ظلم، تاریک، بے مقصد اور بے ہدف قرار دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ بعض مکاتب فکر اخلاقیات کے باب میں بند گلی میں پہنچ جاتے ہیں۔

مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۲۲، ص۲۸۹

مکارم اخلاق اور اہل بیتؑ کا کلام

پیغمبر اکرمؐ نے ایک حدیث میں خود کو مکارم اخلاق کا پابند معرفی کیا ہے۔[18] اور اہل بیتؑ کی روایات میں بھی مکارم الأخلاق کا تذکرہ ہوا ہے۔[19] اسی لئے یہ مفہوم اخلاقی مباحث میں اہمیت کا حامل ہے اور اسی نام پر بعض کتابیں بھی تالیف ہوئی ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ مکارم الاخلاق سے مراد اخلاق کی سب سے بہترین صفات مراد ہیں۔ [20] امام صادقؑ نے کسی سوال کے جواب میں مکارم اخلاق کو یوں بیان کیا ہے: جس نے تم پر ظلم کیا ہے اسے معاف کرنا، جس نے تجھ سے رابطہ قطع کیا ہے اس سے رابطہ برقرار کرنا، جس نے تجھے محروم رکھا اسے عطا کرنا، اور حق بات کہنا اگرچہ وہ آپ کے ضرر میں ہو۔[21] آپ ایک اور حدیث میں مشکلات میں صبر و استقامت، سچائی، امانتداری، صلہ رحمی، مہمان نوازی، فقیروں کو کھلانا، نیکی کا بدلہ نیکی سے دینا، ہمسایوں کا احترام اور ان کے حقوق کی رعایت، دوستوں کے حقوق اور احترام کا خیال رکھنے کو مکارم الاخلاق قرار دیا ہے۔ اور حیا کو ان سب میں سب سے اہم قرار دیا ہے۔[22] امام علیؑ نے حرام کاموں سے اجتناب کو مکارم الاخلاق تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔[23]

اخلاق سے مربوط علوم

اخلاق پر مختلف زاویوں سے بحث اور گفتگو ہوئی ہے۔ ہر علم نے اخلاق کے کسی ایک پہلو کو بیان کیا ہے۔ مندرجہ ذیل علوم اخلاق سے مربوط ہیں:

اخلاق ناصری اسلامی اخلاق کی اہم کتاب
  • علم اخلاق: وہ علم ہے جس میں اچھے اور برے افعال اور صفات اور ان کے آثار اور نتائج پر بحث ہوتی ہے۔
  • توصیفی اخلاق: یہ علم، مختلف مذاہب اور مکاتب، اقوام، ملتیں، اور اشخاص کے اخلاق کو بیان کرتا ہے۔
  • تعلیم و تربیت:‌ وہ علم ہے جس میں اخلاقی فضائل تک پہنچنے کا طریقہ کار بیان کیا جاتا ہے۔
  • علم اخلاق کا فلسفہ: یہ علم، علم اخلاق کا تاریخچہ، تبدیلیاں اور دگرگونیاں، ہدف، ضرورت اور اس علم کے ماہر علما کے بارے میں بحث کرتا ہے۔
  • فلسفۂ اخلاق: ایک ایسا علم ہے کہ جس میں اخلاقی اصطلاحات کے بنیادی مسائل جیسے؛ اخلاقی اقدار کا معیار، اخلاق کا نسبی یا مطلق ہونا، اور اخلاق میں کونسی چیز ہونی چاہیے اور کونسی چیز نہیں ہونی چاہیے، اس کی بررسی کرتا ہے۔ [24]

اخلاق کے بارے میں شیعہ کتابیں

اسلامی اخلاق کے بارے میں مسلمانوں کے مختلف نظریات کی وجہ سے اخلاق کے بارے میں مختلف کتابیں لکھی گئیں[25] مسلمانوں کی اخلاقی کتابوں میں روایی، فلسفی، عرفانی و ان سے مخلوط روش دیکھنے کو ملتی ہے۔[26] اخلاق کی بعض شیعہ مشہور کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:

حوالہ جات

  1. مصباح يزدى، فلسفہ اخلاق، ۱۳۹۴ش، ص۱۹، ۲۰؛ معلمی، فلسفہ اخلاق، ص۱۳و۱۴۔
  2. مکارم شیرازی،اخلاق در قرآن، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۷۶.
  3. موسوی بجنوردی، «بررسی نقش اخلاق در فقہ و حقوق(۱)و(۲)»، ص۱۲۸۵.
  4. غرویان، فلسفہ اخلاق، ۱۳۷۹ش، ص۲۰.
  5. بقره، ۱۵۱؛ آل عمران، ۱۶۴؛ جمعہ، ۲.
  6. علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۹، ص۳۷۵؛ نوری، میرزاحسین، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق ج۱۱، ص۱۸۷.
  7. مصباح يزدى، فلسفہ اخلاق، ۱۳۹۴ش، ص۲۲۳.
  8. مکارم شیرازی،اخلاق در قرآن، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۷۶
  9. مکارم شیرازی،اخلاق در قرآن، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۷۶
  10. مکارم شیرازی،اخلاق در قرآن، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۷۶، ۷۷.
  11. نصیرالدین طوسی، اخلاق محتشمی، ۱۳۷۷ش.
  12. نصیرالدین طوسی، اخلاق محتشمی، ۱۳۷۷ش، ۵۵-۵۸.
  13. پاکتچی، «اخلاق دینی»، ص۲۱۷
  14. پاکتچی، «اخلاق دینی»، ص۲۱۸
  15. پاکتچی، «اخلاق دینی»، ص۲۱۸، ۲۱۹
  16. پاکتچی، «اخلاق دینی»، ص۲۱۹.
  17. پاکتچی، «اخلاق دینی»، ص۲۲۱.
  18. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۱، ص۹۸
  19. کلینی، الکافی، ۱۰۴۷ق، ج۲، ص۵۵
  20. ہادی، «مکارم الاخلاق»، ص۲۴۱
  21. شیخ صدوق، امالی، ۱۳۷۶ش، ص۲۸۰،۲۸۱‏
  22. شیخ صدوق، الخصال، ۱۴۱۰ق، ص۴۳۱.
  23. تميمى آمدى، تصنیف غررالحکم و درالکلم، ۱۳۶۶ش، ص۳۱۷، ح۷۳۱۷
  24. معلمی، فلسفہ اخلاق، ۱۳۸۴ش، ص۱۴-۱۶
  25. جمعی از نویسندگان، کتابشناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۲۹
  26. جمعی از نویسندگان، کتابشناخت اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۲۹.

مآخذ

  • پاکتچی، احمد، «اخلاق دینی»، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج۷، زیر نظر کاظم موسوی بجنوردی، تہران: مؤسسہ فرہنگی‌انتشاراتی حیان، ۱۳۷۵ش.
  • تميمى آمدى، عبد الواحد بن محمد، تصنيف غرر الحكم و درر الكلم، تصحیح . تحقیق مصطفی درايتى، قم: دفتر تبليغات‏ اسلامی، ۱۳۶۶ش.‏
  • جمعی از نویسندگان، کتابشناخت اخلاق اسلامی، قم: پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، ‌۱۳۸۵ش.
  • صدوق، محمد بن علی، الأمالی، تہران: كتابچى،۱۳۷۶ش.‏
  • صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح علی اکبر غفاری، بیروت: مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰م.
  • غرویان، محسن، فلسفہ اخلاق، قم:‌ مرکز تحقیقات اسلامی نمایندگی ولی فقیہ در سپاہ، ۱۳۷۹ش.
  • کلینی،محمد بن يعقوب، الکافی، مصحح على اكبر غفارى و محمد آخوندى، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۳ق.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، مؤسسۃ الوفاء، چاپ دوم، ١٤٠٣ق.
  • مصباح يزدى، محمدتقى، فلسفہ اخلاق، تحقيق و نگارش: احمدحسين شريفی، قم: مؤسسہ آموزشى و پژوہشى امام خمينى، چاپ سوم، ۱۳۹۴ش.
  • معلمی، حسن، فلسفہ اخلاق، قم: مرکز جہانی علوم اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۴ش،
  • مکارم شیرازی، ناصر، اخلاق در قرآن، ج۱، قم: امام علی بن ابیطالب (ع)، ۱۳۸۷ش.
  • موسوی بجنوردی، سیدمحمود، بررسی نقش اخلاق در فقہ و حقوق(۱)و(۲)»، بازتاب اندیشہ، ش۸۳، ۱۳۸۵ش.
  • نوری طبرسی، میرزاحسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، بیروت: آل البیت(ع)، چاپ دوم، ۱۴۰۸ق.
  • ہادی،اصغر، «مکارم الاخلاق(پژوہش پیرامون روایت تتمیم مکارم اخلاق و روایات ہمانند)»، اخلاق، ش۵و۶، ۱۳۸۵ش.