وہابیت

ویکی شیعہ سے
(وہابیوں سے رجوع مکرر)

وہابیت اہل سنت کے ایک فرقے کا نام ہے جو بارہویں صدی کے اواخر اور تیرہویں صدی کے اوائل میں سعودی عرب میں محمد بن عبدالوہاب کے ذریعے وجود میں آیا۔ اس فرقے کے پیروکاروں کو وہابی کہا جاتا ہے۔ وہابی فروع دین میں احمد بن حنبل‌‌ کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت جزیرہ نمائے عرب کے مشرقی حصے میں مقیم ہے۔ اس فرقے کے مشہور مذہبی پیشواؤں میں ابن ‎تیمیہ، ابن قیم اور محمد بن عبدالوہاب قابل ذکر ہیں۔

وہابی قرآن اور سنت میں تأویل کی بجائے آیات اور روایات کے ظاہر پر عمل کرنے کے معتقد ہیں۔ اس بنا پر وہ بعض آیات و روایات کے ظاہر پر استناد کرتے ہیں اور خدائے متعال کے اعضا و جوارح کے قائل ہوتے ہوئے ایک طرح سے تشبیہ اور تجسیم کے معتقد ہیں۔

وہابی اعتقادات کے مطابق اہل قبور حتی پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ معصومین کی زیارت، ان کے قبور کی تعمیر؛ ان پر مقبرہ یا گنبد بنانا، ان ہستیوں سے متوسل ہونا اور ان قبور سے تبرک حاصل کرنا حرام ہے۔ وہابی مذکورہ تمام اعمال کو بدعت اور موجب شرک سمجھتے ہیں اسی بنا پر سعودی عرب پر مسلط ہونے کے بعد وہابیوں نے تمام اسلامی مقدسات بطور خاص شیعہ مقدس مقامات کو منہدم کرنا شروع کیا، انہدام جنت البقیع اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس میں ائمہ بقیع کے علاوہ کئی دوسرے بزرگ صحابیوں اور صحابیات کے مزار کو سنہ 1344 ھ میں وہابیوں نے منہدم کر دیا۔

نجد کے ایک قبیلے کا سردار محمد بن سعود جو درعیہ کا حاکم تھا، نے محمد بن عبدالوہاب کے نظریات کو قبول کرتے ہوئے اس کے ساتھ عہد و پیمان باندھا جس کے نتیجے میں انہوں نے سنہ 1157 ھ میں نجد اور اس کے گرد و نواح پر قبضہ کرتے ہوئے ان نظریات کو پورے جزیرہ نمائے عرب میں پھیلانا شروع کر دیا۔ ریاض کو فتح کرنے کے بعد اسے دارالخلافہ قرار دیا جو ابھی بھی سعودی شاہی حکومت کا دارالخلافہ ہے۔ موجودہ دور میں سعودی عرب کا سرکاری مذہب وہابیت ہے جہاں اس فرقے کے علماء کے فتووں پر حکومتی سربراہی میں عمل درآمد کیا جاتا ہے۔

بانی

اس فرقہ کا بانی محمّد بن عبدالوہاب (متوفی 1206 ھ) ہے۔

فقہی مذہب

فقہ میں وہابی احمد بن حنبلی کی پیروی کرتے ہیں لیکن عقاید اور بعض فرعی مسائل میں ابن تیمیہ کے طریقت پر خود کو "سَلَفِیہ" کہتے ہیں اور سَلَف صالح (یعنی پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب) کی پیروی کرنے کے مدعی ہیں۔ وہابی قرآن و سنت کے ظاہر پر عمل کرتے ہیں اور جو بھی قرآن و سنت میں مذکور نہ ہو اسے بدعت سمجھتے ہیں۔ اسی لئے وہابی صرف اپنے آپ کو موحّد قرار دیتے ہوئے باقی تمام مسلمانوں کو عبادت میں مشرک اور اہل بدعت سمجھتے ہیں۔[1]

وہابیت کی تاریخ

وہابیت کے اعتقادات اور نظریات، اِبن تِیمیّہ کے مبانی پر مبتنی ہے۔ مذہب جنبلی کے پیروکار ابن تیمیہ نے آٹھویں صدی میں ایسے اعتقادات اور نظریات کا اظہار کیا جو اس سے پہلے کسی بھی اسلامی فرقے نے مطرح نہیں کیا تھا۔[2] اس وقت کے نامور اہل سنت علماء نے ان کے نظریات کو ٹھکرایا اور اسلامی قلمرو میں بہت سارے مذہبی علماء نے ان کی مخالفت کی۔ بعض نے انہیں کافر قرار دیا جبکہ بعض نے انہیں جیل بھیجنے کا مطالبہ کیا۔[3]

ان علماء کی مخالفت کی وجہ سے ابن تیمیہ کے اعتقادات کو بارہویں صدی ہجری تک خاطر خواہ رونق نہیں ملی۔ بارہویں صدی ہجری میں محمّد بن عبدالوہاب نجدی نے ان کے اعتقادات اور نظریات کو دوبارہ زندہ کیا۔ ابتداء میں ان کا کوئی پیروکار نہیں تھا یہاں تک کہ سنہ1160 ہجری میں وہ نجد کے مشہور شہر دِرعیہ چلا گیا۔[4] وہاں کے حاکم محمّد بن مسعود نے عبدالوہاب کے اعتقادات کو اپنی حکومت کی تقویت کیلئے مناسب سمھجتے ہوئے محمّد بن عبدالوہاب کے ساتھ ایک سمجھوتہ کیا جس کے تحت اس نے حکومتی سربراہی میں عبد الوہاب کے اعتقادات اور نظریات کا پرچار شروع کیا اس شرط کے ساتھ کہ عبدالوہاب بھی دینی اور مذہبی پیشوا ہونے کے عنوان سے ان کی حکومت کی حمایت اور تائید کرے۔ اس کے بعد انہوں نے مختلف شہروں پر لشکر کشی کی اور ہر اس شخص کو کافر قرار دیتے ہوئے قتل کر دیتے جو ان کے اعتقادات اور نظریات کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے۔

اس طرح آل سعود کی حاکمیت اور قدرت میں روز بروز اضافہ ہونے لگا جس کے سائے میں وہابیت کے اعتقادات اور نظریات پر پھیلنے لگی۔ جب نوآبادیاتی نظام کے ہاتوں خلافت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر گیا تو سعودی عرب کو آل سعود کے لئے چھوڑ دیا گیا چونکہ ایک طرف ان کی حکومت کافی مستحکم ہو چکی تھی تو دوسری طرف سے ان کے اعتقادات اور نظریات نوآبادیاتی نظام کے اہداف میں رکاوٹ بھی نہیں بن رہے تھے۔[5] اس وقت سے لے کر اب تک سعودی عرب کا سرکاری مذہب وہابیت قرار پایا اور اس پورے عرصے میں اپنے نظریات اور اعتقادات کو پوری دنیا میں پھیلانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور لگا رہے ہیں۔

عقائد

عمدہ‌ ترین عقائد: وہابیت کی بنیادی خصوصیت اپنے علاوہ دوسرے مسلمانوں کے عقائد کی نفی ہے۔ یہ لوگ بعض مسلمانوں خاص کر شیعوں کے بعض اعمال کو توحید عبادی کے منافی سمجھتے ہیں۔[6] ان کے گذشتہ پیشواؤں کی کتابوں میں موجود نظریات کی بنیاد پر صرف اس شخص کو مسلمان کہا جا سکتا ہے جو درج ذیل کاموں کو ترک کرے:

  • خدا کے کسی بھی انبیاء اور اولیاء سے متوسل نہ ہو مثلا یہ نہ کہے: "یا الله اتوسل الیک بنبیک محمد نبی الرحمه
  • نہ پیغمبر اکرم(ص) کی زیارت کیلئے جائے اور نہ وہاں دعا مانگی جائے۔ انبیاء اور اولیاء خدا کے قبور پر ہاتھ نہ پھیرے اور نہ ان مزارات کے نزدیک نماز پڑھی جائے۔
  • پیغمبر اکرم (ص) کی قبر مطہر پر مقبرہ یا مسجد وغیرہ تعمیر نہ کی جائے۔
  • کسی بھی مردہ شخص حتی انبیاء اور اولیاء الہی کیلئے نذر نہ کی جائے۔
  • انبیاء سمیت کسی بھی انسان کی قسم نہ کھائے۔
  • کسی بھی مردہ شخص کو مخاطب قرار نہ دے حتی وہ پیغمبر اکرم (ص) ہی کیوں نہ ہوں۔
  • پیغمبر اکرم(ص) کیلئے سیدنا وغیرہ نہ کہے مثلا یا محمد(ص)! یا سیدنا محمد (ص) نہ کہے۔
  • خدا کو کسی بھی انسان کا واسطہ نہ دے یعنی یہ نہ کہا جائے کہ خدایا حضرت محمد (ص) کے طفیل میری فلان حاجت پوری فرما۔
  • خدا کے علاوہ کسی سے استغاثہ یا مدد مانگنا شرک ہے۔
  • اچھے اور برے شگون کا قائل نہ ہوں؛ مثلا یہ نہ کہے: اگر ان شاء اللہ خدا نے چاہا تو ایسا ہوگا وغیرہ۔
  • زیارت قبور، مقبرہ سازی، تزیین قبور اور ان پر شمع جلانا وغیرہ شرک ہے۔
  • کسی بھی انسان سے شفاعت طلب نہ کرے یہاں تک کہ وہ پیغمبر اکرم (ص) ہی کیوں نہ ہو؛ کیونکہ اگرچہ وہ خدا کی طرف سے اس مقام پر فائز ہیں لیکن دوسروں کو حق نہیں ہے کہ وہ ان سے ایسی چیز کی درخواست کرے، ورنہ بت پرستوں سے کوئی فرق نہیں ہے۔[7]

عقیدتی مبانی: وہابیت کے عقائد، صدر اسلام سے رائج بعض اعمال اور سنتوں کی ممنوعیت پر استوار ہیں:

  • زیارت قبور
  • پیغمبر اکرم (ص) کی زیارت کیلئے سفر کرنا
  • مقبرہ سازی
  • قبور پر مسجد بنانا اور وہاں نماز پڑھنا
  • انبیاء، اولیاء اور نیک اور صالح بندوں سے متوسل ہونا
  • مردوں کیلئے زندوں کی طرف سے نذر وغیرہ کے ذریعے نفع پہنچانا
  • انبیاء اور اولیاء الہی سے متعلق چیزوں سے متبرک ہونا
  • میلاد پیغمبر اکرم(ص) پر جشن منانا
  • اموات اور مردوں پر گریہ کرنا
  • خدا کو انبیاء اور اولیاء کا واسطہ دینا
  • غیر خدا کی قسم کھانا
  • خدا کے علاوہ کسی اور نام کے ساتھ "عبد" کے مرکب کے ذریعے بچوں کا نام رکھنا مثلا عبدالحسین وغیرہ۔[8]

وہابیوں کا خدا: وہابیت جو اپنے آپ کو توحید اور بطور خاص توحید عبادی کا مدافع معرفی کرتی ہے، خدا کو ایک جسمانی موجود قرار دیتی ہے۔ وہابیت کی نگاہ میں خدا کی اہم ترین خصوصیات درج ذیل ہیں:

  • خدا جسم رکھتا ہے پس جسمانی امور سے منزہ نہیں ہے۔[9]
  • خدا ہر رات آسمان سے زمین پر آتا ہے۔[10]
  • خدا تمام انسانی اعضاء کا حامل ہے سوائے داڑھی اور شرمگاہ کے۔[11]
  • خدا ہرولہ[یادداشت 1]کرتا ہے۔[12]

مشترکہ اعتقادات: وہابیوں کے بعض دیگر اعتقادات درج ذیل ہیں:

  • حضرت نوح (ع) پہلے نبی ہیں؛[13]
  • خدا کو آخرت میں دیکھا جا سکتا ہے؛[14]
  • انبیاء صرف مقام تبلیغ میں معصوم ہیں لہذا جس وقت تبلیغ میں مشغول نہیں ان کا گناہ کے مرتکب ہونے اور اپنی شریعت کے برخلاف قدم اٹھانے کا بھی امکان ہے۔[15]

اہم شخصیات

ابن تیمیہ

ابو العباس احمد بن عبد الحلیم حرّانی جو ابن تیمیہ کے نام سے معروف تھا، مذہب حنابلہ کے ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے علماء میں سے تھا۔ چونکہ ان کے نظریات اپنے ہم عصر علماء کے نظریات سے مخالف تھے اسی بنا پر دوسرے علماء نے ان کے کافر ہونے کا فتوا لگایا یوں اسے جیل بھیج دیا گیا۔ شام پر مغلوں کے حملے کے وقت شام سے قاہرہ فرار کیا، سنہ 712 ھ کو دوبارہ دمشق واپس آیا اور سنہ 728 ھ کو قلعہ دمشق میں وفاتی پائی۔

ابن تیمیہ باوجود اس کے کہ وہ اور ان کا والد مذہب حنابلہ کے پیروکار تھے، لیکن فقہی مسائل میں احمد بن حنبل کی پیروی کرنے کا پایبند نہیں تھا۔ اسی طرح کلامی مسائل میں مسئلہ توحید پر زیادہ تاکید کی خاطر شہرت اور اجماع کے مخالف بہت زیادہ نظریات کا حامل تھا۔

ابن قیم

شمس الدین ابو عبد اللّہ محمد جو ابن قیم جوزی کے نام سے معروف ہے،(691-751 ھ) ابن تیمیہ کا شاگرد تھا اور اپنے استاد کی طرح ان کے مذکورہ نظریات کا دفاع کرتا تھا اسی بنا پر دین اسلام میں بدعت گذاری کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا۔

محمد بن عبدالوہاب

نجد کے شہر عینیہ میں پیدا ہوا اور اپنے والد کے یہاں سے فقہ حنابلہ کی تعلیم حاصل کی۔ توحید کے مسئلے میں افراطی نظریات خاص کر توسل، تبرک اور زیارت قبور جیسے مسائل میں مشہور کی مخالفت کی وجہ سے سنہ 1106 ھ میں درعیہ سے نکال باہر کیا گیا لیکن یہاں کے حاکم، محمد بن سعود نے اپنی حکومت کی بقا کی خاطر ان کی مدد اور حمایت کا اعلان کیا۔ یوں اس نے تھوڑی مدت میں اپنی رعایا کو "نجد" کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا اور محمد بن سعود کی مدد سے "نجد" پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ بعد میں اس نے حکومت کو محمد بن سعود کے بیٹے عبدالعزیز کے حوالے کر دیا اور وہ خود سنہ 1206 ھ میں اپنی وفات تک انے نظریات کی تدریس اور ترویج میں مشغول رہے۔

وہابیوں کے بعض خلاف شرع اقدامات

سعودی عرب میں حکومت پر قابض ہونے کے بعد وہابیوں نے اپنے اعتقادات کے مطابق بہت سارے کام انجام دیئے ان کے بعض اہم اقدامات درج ذیل ہیں:

تبلیغ

اس فرقہ کے علماء نے شروع سے اپنے اعتقادات اور نظریات کی ترویج اور نشرواشاعت کیلئے سخت کوششیں کی اور ابھی بھی کر رہے ہیں۔

افریقہ: موجودہ دور میں ایک کثیر رقم مختص کرکے افریقہ اور برصغیر میں وہابیت کی ترویج کیلئے بہت کوشش کی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں بہت سارے لوگ اس مذہب میں داخل ہو رہے ہیں۔

برصغیر: میں پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم سے پہلے سر سید احمد خان (1817-1898 ء) کو وہابیت کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے 1822ء میں اپنے سفر حج کے دوران مذہب وہابیت اختیار کیا اور واپسی پر پنجاب میں اس مذہب کی طرف لوگوں کو دعوت دینا شروع کیا۔ انہوں نے اس منطقہ میں سعودی عربیہ میں وہابی حکومت کی طرز پر ایک ریاست بنائی اور یہاں تک پیشرفت کیا کہ شمالی ہند کو خطرہ محسوس ہونے لگا۔ وہ اس منطقہ میں موجود علماء اور دینی رہنماؤوں کو وہابیت کی طرف دعوت دیتے اور جو بھی ان کے نظریات کو قبول نہ کرتے ان کے ساتھ اعلان جہاد کرتا تھا۔[حوالہ درکار]


الجزایر: میں امام سنّوسی حج کیلئے مکہ چلا گیا اور وہاں پر انہوں نے اس مذہب کو اختیار کیا پھر وطن واپسی پر اس مذہب کی ترویج شروع کی۔

یمن: میں مقبل بن ہادی وادعی (متوفی 1422 ھ) نے وہابیت کی ترویج کی۔

ان اواخر میں اپنے اعتقادات کی ترویج اور تبلیغ کیلئے بروئے کار لائے جانے والے وہابیوں کے بعض اقدامات درج ذیل ہیں:

  • سن 1417 ھ موسم حج میں 500 مبلغین کی فعالیت۔
  • سن 1417 ھ میں 1000 چیچنیایی باشندوں کو مہمان کے طور پر دعوت۔
  • سن 1418 ھ میں مشرق وسطی سے 1400 حجاج کو مہمان کے طور پر دعوت۔
  • چین کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لائبریریوں کا قیام۔
  • بین الاقوامین کانفرنسوں میں وہابیت کی تبلیغ۔
  • ایک سال کے اندر 2000 مبلغین کا 290000 تبلیغی فعالیتیں۔
  • سعودی عرب میں سن 1418 ھ میں 5200000 تبلیغی فعالیتیں۔
  • بحرین کے مساجد میں سن 1418 ھ صفر کے مہینہ میں 300 نشتوں، 3650 دینی دروس اور 41176 مذہبی لٹریچرز کی اشاعت۔
  • دبئی میں 3789 تبلیغی فعالتوں اور 11698 لٹریچرز کی اشاعت۔
  • قطر میں 1418 دینی دروس اور 3715 مذہبی لٹریچرز کی اشاعت۔
  • سن 1417 ھ کی ماہ رمضان میں فجیرہ امارات میں 6000 تبلیغی فعالیتیں۔
  • پاکستان میں سن 1417 ھ میں 165296 تبلیغی فعالتیں۔
  • افغانستان، ایران، ہندوستان، نیپال، موریتانیہ، برطانیہ، پیرس اور ہالینڈ وغیرہ میں مبلغین کا بھیجنا۔
  • برطانیہ کے مدرسوں، جیل خانوں، اور ہسپتالوں میں سن 1417 ھ میں انجام دی جانے والی تبلیغی فعالیتوں میں 10800 علمی دروس شامل ہیں۔
  • انڈونیشیا کے مبلغین کیلئے تعلیمی کورس۔
  • تاتارستان کے طالب علموں کیلئے تعلیمی کورس۔
  • وینیزوئیلا کے اسلامی مراکز اور قبائلی سرداروں کیلئے عربی زبان کا مختصر کورس۔
  • ارجنٹینہ میں لاطینی امریکہ کے مبلغین کیئلے مختصر کورس۔
  • قزاقستان کے مبلغین کیلئے کورس۔
  • کینیا میں مبلغین کیلئے کورس۔
  • تھایلینڈ میں مبلغین کیلئے کانفرنس۔
  • سینیگال میں مبلغین کیلئے کانفرنس۔
  • مغربی افریقہ میں ائمہ جماعات کیلئے کورس کا انعقاد۔
  • کرغستان میں ائمہ جماعات اور مبلغین کیلئے کورس کا انعقاد۔
  • امریکہ میں ائمہ جماعات اور مبلغین کیلئے کورس کا انعقاد۔
  • یوکرائن میں تربیت مبلغ کورس کا انعقاد۔
  • چیچنیا میں مبلغین کی تربیت کیلئے ایک کالج کا قیام۔
  • بین الاقوامی رابطہ کمیٹی کے چرمین کا مختلف اسلامی ممالک کے سربراہوں سے ملاقات۔
  • بوسنیا کے مساجد کی تعمیر و ترقی۔
  • فیلپین میں 104 مساجد کی تعمیر۔
  • بوسینیا میں 90 مساجد کی تعمیر یا مرمت۔
  • دنیا میں 1359 مساجد کی تعمیر میں حصہ۔
  • بیلجئیم میں 300 مساجد کی مالی تعاون۔
  • روس میں تربیت مبلغ کورس کا انعقاد۔
  • ماسکو یونیورسٹی میں فعالیت۔
  • 34 ممالک کو تعلیمی سکالرشپ۔
  • ٹوکیو میں اسلامی اور عربی علوم کیلئے ٹریننگ کالج کا قیام.
  • انڈونیشیا کے اسلامی اور عربی ٹریننگ کالج سے 3891 طلباء کی گریجویشن۔
  • کردستان عراق میں تبلغی قافلوں کا قیام۔
  • جمہوری آذربایجان کے 100000 پناہ گزینوں کی مالی تعاون۔
  • بوسینیا کیلئے 321000 کتابوں کی اشاعت۔[19]
کتاب الوہابیۃ المتطرفۃ: موسوعۃ نقدیۃ (وہابیت پر تنقیدی انسائکلوپیڈیا)

تنقیدات

شیعہ اور سنّی علماء نے وہابیت کی ردّ میں بہت زیادہ کتابیں لکھی ہیں۔[20] ان میں سے بعض آثار درج ذیل ہیں:

وہابی عقائد کے رد میں تالیف شدہ کتب

علمائے اسلام نے وہابی آراء کی تردید میں کتب لکھی ہیں اور بعض دیگر نے اصولی طور پر وہابی عقائد کو علمی انداز سے رد کیا ہے جبکہ وہابی سرگرمیاں جاری رہنے کی بنا پر کتب و مقالات آج بھی لکھے جارہے ہیں؛ ان حوالوں سے لکھی جانے والی بعض کتب نمونے کے طور پر متعارف کرائی جاتی ہیں:

  • کشف الارتیاب بقلم سیدمحسن امین عاملی
  • دعوی الہدی الی الدرع فی الافعال و التقوی، بقلم محمد جواد بلاغی
  • معجم ما الفّہ علماء الاسلام رداً علی الوہّابیة[22]
  • آیین وہابیت جعفر سبحانی
  • برگی از جنایات وہابیہا بقلم مرتضی رضوی
  • وہابیان بقلم علی اصغر فقیہی
  • وہابیت ایدہ استعمار بقلم مسٹر ہمفر ترجمہ: علم الہدی
  • آیا این است اسلام واقعی بقلم ابوالفضل حسینی
  • فتنہ وہابیت بقلم زینی دحلان ترجمہ: ہمتی
  • ناسیونالیسم و اسلام بقلم زینی دحلان ترجمہ: ہمتی
  • نقدی بر اندیشہ وہابیان بقلم موسوی قزوینی ترجمہ: طارمی
  • تحلیلی نو بر عقاید وہابیان بقلم حسن ابراہیمی
  • فرقہ وہابی و پاسخ بہ شبہات آنہا بقلم قزوینی ترجمہ: دوانی
  • نقد و تحلیلی پیرامون وہابیگری بقلم ہمایون ہمتی
  • اشتباہ بزرگ وہابیہا بقلم عیسی اہری
  • مجلہ بقیع
  • پیشینہ سیاسی فکری وہابیت درّی
  • تاریخ مکہ بقلم ہادی امینی ترجمہ: آخوندی
  • ترجمہ کشف الارتیاب، ج 4 بقلم علامہ سید محسن امین ترجمہ: تہرانی
  • توسل یا استمداد از ارواح مقدسہ بقلم جعفر سبحانی
  • سخنی چند با موحدین مصطفی نورانی

وہابیت کی تردید کے سلسلے میں اردو میں بھی بڑی تعداد میں کتب لکھی گئی ہیں اور بعض عربی کتب کا ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔ نیز رجوع کریں: [23]

نوٹ

  1. (ہ وَ لِ) [ ع. ہرولۃ ] (اِ.) چلنے اور دوڑنے کے درمیان حرکت کی ایک قسم (دلکی چال) (فرہنگ فارسی معین

حوالہ جات

  1. امین، کشف الارتیاب، ۷-۱۲؛ ربانی، فرق و مذاہب کلامی، ص۱۸۱
  2. سبحانی، بحوث فی الملل و النّحل، ج۴، ص۳۳۱
  3. رضوانی، وہابیت از دیدگاہ مذاہب اہل سنّت، ص۵۷- ۴۳
  4. امین، کشف الارتیاب، ص۹
  5. تاریخ و نقد وہابیت، علی اکبر فائزی پور، ۴۱-۱۰۲
  6. ابن تیمیہ، مجموعہ الوسائل و المسائل، تحقیق:محمد رشید رضا، لجنہ التراث العربی، ص۳-۱، ۲۰، ۲۱، ۴۲-۴۳
  7. مغنیہ، محمد جواد، ہذہ ہی الوہابیہ، ص۷۴-۷۶ (نرم افزار کلام اسلامی، ۲.۵)
  8. سبحانی، جعفر، بحوث قرآنیہ فی التوحید و الشرک، ص۵۴
  9. ابن تیمیہ حرانی، التاسیس فی رد اسس التقدیس، ج۱، ص۱۰۱
  10. ابن تیمیہ، مجموع الفتاوی، ج۵، ص۶۱
  11. ابن تیمیہ، العواصم من القواصم، ص۲۱۰
  12. فتاوی اللجنہ الدایمہ للبحوث و الافتاء، ج۳، ص۱۹۶، فتوای شمارہ ۹۶۳۲
  13. فرہنگ فرق اسلامی، ص۴۵۹
  14. منہاج السّنّہ النبویہ، ص۲- ۱/ ۲۱۵ و ۲۱۶
  15. منہاج السنہ، ج۱، ص۲۲۸- ۲۲۶؛ ادیان الہی و فرق اسلامی، ص۱۹۴
  16. امین. کشف. ص۳۳
  17. امین. کشف. ص۱۵و ص۳۳
  18. امین. کشف. ص۱۶
  19. رضوانی، علی اصغر، سلفی گری (وہابیت) و پاسخ بہ شبہات، قم، مسجدمقدس جمکران، چاپ ششم، ۱۳۸۸، ص۲۰۴-۲۰۵
  20. فرقہ وہابی و پاسخ شبہات آنہا، ص۱۵-۲۱
  21. فرہنگ شیعہ، ص۴۶۸
  22. مجلة تراثنا ، سال چہارم ، شوال 1409، ش 17۔
  23. ابن تیمیہ کے عقائد کی رد میں لکھی جانے والی کتب اہل سنت اور کتب شیعہ۔

مآخذ

  • ابراہیم زادہ، عبداللہ، علی نوری. علی رضا. ادیان الہی و فرق اسلامی. قم: تحسین. ۱۳۸۳.
  • ابن تیمیہ الحرانی، احمد. التاسیس فی رد اسس التقدیس.
  • ابن تیمیہ الحرانی، احمد. العواصم من القواصم.
  • ابن تیمیہ الحرانی، احمد. کتب، رسایل و فتاوای شیخ الاسلام ابن تیمیہ. مکتبہ ابن تیمیہ. تحقیق: عبدالرحمن بن محمد العاصمی. چاپ دوم.
  • ابن تیمیہ الحرانی، احمد. مجموعۃ الوسائل و المسائل. تحقیق: محمد رشید رضا. لجنہ التراث العربی.
  • ابن تیمیہ. احمد. منہاج السّنّہ النبویہ. تحقیق: محمد رشاد سالم. موسسہ قرطبہ. ۱۴۰۶ق.
  • امین، سید محسن، کشف الارتیاب فی اتباع محمد بن عبد الوہاب. (نرم افزار کلام اسلامی، ۲.۵)
  • ربانی گلپایگانی. علی. فرق و مذاہب کلامی. قم. مرکز جہانی علوم اسلامی.۱۳۸۳. چاپ سوم.
  • رضوانی. علی اصغر. وہابیان. تہران: مشعر. ۱۳۹۰ش.
  • رضوانی، علی اصغر. سلفی گری (وہابیت) و پاسخ بہ شبہات. قم: مسجد مقدس جمکران. چاپ ششم. ۱۳۸۸ش.
  • رضوانی، علی اصغر. وہابیت از دیدگاہ اہل سنّت. قم: دلیل ما. ۱۳۸۷ش.
  • سبحانی. بحوث فی الملل و النّحل. قم. حوزہ علمیہ. ۱۳۶۶ش.
  • سبحانی. جعفر. بحوث قرآنیہ فی التوحید و الشرک. قم: موسسہ امام صادق. ۱۳۸۴ش.
  • فائزی پور، علی اکبر. تاریخ و نقد وہابیت (ترجمہ کشف الارتیاب). قم: مطبوعات دینی. ۱۳۸۷ش.
  • فتاوی اللجنہ الدایمہ للبحوث و الافتاء. فتوای شمارہ ۹۶۳۲
  • فرہنگ شیعہ، پژوہشکدہ تحقیقات اسلامی. قم: زمزم ہدایت. ۱۳۸۶ش. چاپ دوم.
  • مشکور. محمد جواد. فرہنگ فرق اسلامی. مشہد: آستان قدس رضوی. ۱۳۷۲ش. چاپ دوم.
  • مغنیہ، محمد جواد، ہذہ ہی الوہابیہ. (نرم افزار کلام اسلامی، ۲.۵)
  • موسوی قزوینی. محمد حسن فرقہ وہابی و پاسخ شبہات آنہا، مترجم: علی دوان. تہران: رہنمون. ۱۳۹۱ش.

برونی لینک

تاریخ وہابیت کا مختصر جائزہ

بانیٔ وہابی تاریخ کے آئینہ میں

تاریخ وہابیت ، اردو ترجمہ مجمع جہانی اہل بیت