صدام حسین

ویکی شیعہ سے
(صدام سے رجوع مکرر)
صدام حسین
کوائف
نام:صدام حسین
وجہ شہرت:24 سال صدر عراق، دجیل قتل عام، سرکوب انتفاضہ شعبانیہ
پیدائش:1937 ء
مقام پیدائشتکریت
محل زندگی:بغداد
وفات:30 دسمبر 2006 ء


صدام حسین 1979ء سے 2003ء تک عراقی حکومت میں صدر کے عہدہ پر رہا۔ وہ حزب بعث کے اراکین میں سے تھا۔ 1968 ء میں حزب بعث کی طرف سے ہونے والے تختہ پلٹ کے بعد وہ نائب صدر بنا اور اس کے بعد 1979 ء میں صدر بن گیا۔

صدام عربی قوم پرستی کو بیحد اہمیت دیتا تھا اور اس کا ماننا تھا کہ دین کی سرحد سے آگے نکل کر دیکھنا چاہئے تا کہ انقلابی راستہ پر چلا جا سکے۔ اس نے شیعوں کی عزاداری کو محدود اور اربعین کی پیادہ روی کو ممنوع قرار دیا۔ اسی طرح سے اس نے مذہبی و حوزوی اداروں کو کمزور کرنے کی راہ میں بیحد کوشش کی۔ آیت اللہ العظمی سید محسن الحکیم کے مطابق حزب بعث کے رہنما منجملہ صدام مشرک تھے۔

اس نے اپنے مخالفین میں ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اس کی حکومت کے دور میں ہونے والے قیام کو اس نے نہایت شدت کے ساتھ سرکوب کیا۔ اس نے عراق و ایران میں کیمیائی بموں کا استعمال کیا اور ان کے ذریعہ دسیوں ہزار بے گناہ عام افراد کی جان لی یا انہیں زخمی کیا۔ مجلہ نیویارک ٹائم نے اسے معاصر قرن کے سب سے خوانخوار افراد میں شمار کیا ہے۔

صدام نے 1980 ء میں ایران کے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔ یہ جنگ آٹھ سال تک چلی اور اس میں دونوں طرف سے چار لاکھ لوگ مارے گئے اور سینکڑوں ارب ڈالر دونوں ملکوں کو نقصان پہنچا۔ اس کے بعد اس نے کویت پر حملہ کیا۔ کئی مہینے کے بعد امریکی اتحاد پر مشتمل فوج کی جوابی کاروائی میں اسے پیچھے ہٹنا پڑا۔

امریکا نے سنہ 2003ء میں عراق پر حملہ کیا۔ اسی سال اسے امریکی فوجیوں نے گرفتار کیا۔ اس پر دجیل میں قتل عام کا مقدمہ چلا اور عدالت نے اسے پھانسی کی سزا دی۔ 2006ء میں اسے پھانسی دے دی گئی۔

سوانح عمری

نوجوانی کی تصویر

صدام حسین کی پیدائش سنہ 1937 عیسوی[1] میں شہر تکریت کے پاس ایک سنی نشین عرب قریہ میں ہوئی۔[2] وہ بچپن میں اپنے سوتیلے باپ کے ساتھ چرواہے کا کام کرتا تھا۔[3] اس نے اپنی زندگی کا ایک حصہ اپنی ماں اور سوتیلے باپ کے ساتھ بسر کیا۔ اس کے بعد وہ بغداد میں اپنے ماموں کے یہاں چلا گیا۔[4] اس نے آرمی کالج کے ورودی امتحان میں شرکت کی۔ مگر نمبر کم ہونی کی وجہ سے اسے وہاں داخلہ نہیں مل سکا۔[5]

کنبہ

صدام نے سنہ 1963 ء میں اپنے ماموں کی بیٹی ساجدہ سے شادی کی۔ اس سے دو بیٹے عدی و قصی اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔[6] حسین کامل اور اس کا بھائی صدام کامل یہ دونوں بھائی صدام کے داماد تھے۔ 1996 ء میں صدام سے اختلاف کے بعد یہ دونوں اردن فرار ہو گئے۔ وہاں سے عراق واپسی پر دونوں کو قتل کر دیا۔ اس کے بیٹوں قصی اور عدی کو امریکیوں نے عراق پر قبضہ کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کی بیٹیوں نے اپنی ماں کے ہمراہ اردن میں پناہ لی۔[7] اسی طرح سے صدام نے سمیرہ شاہ بندر سے بھی شادی کی۔ جس سے اس کے یہاں علی نامی ایک بیٹا پیدا ہوا۔[8]

صدام و حزب بعث

صدام جوانی میں ہی حزب بعث سے ملحق ہو گیا تھا۔[9] حزب بعث کی بنیاد شام کے رہنے والے میشل عفلق نے سنہ 1946 ء میں رکھی۔ جس نے عربی قوم پرستی کے شعار کے ساتھ عرب ریاستوں اور خاص طور پر عراق کے جوانوں کو جزب کیا۔[10]

حزب بعث نے اس وقت کے وزیر اعظم عبد الکریم قاسم کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ صدام ان افراد میں شامل تھا جسے اس کام کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔ قتل کے منصوبہ کے ناکام ہونے کے بعد اسے پہلے شام اور پھر مصر فرار ہونا پڑا۔ آخرکار 1962 ء میں بغداد واپسی ہوئی۔[11] اس کے کچھ عرصہ بعد اسے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا۔ اسی دوران اسے حزب بعث بغداد کا سکریٹری منتخب کیا گیا۔ 1962ء میں وہ جیل سے فرار ہونے میں کامیاب رہا اور اس کے بعد سے اس نے مخفی زندگی کا آغاز کیا۔[12]

یہاں تک کہ حزب بعث نے احمد حسن البکر کی سرکردگی میں 1968 ء میں حکومت کا تختہ پلٹ کر قدرت پر قبضہ کر لیا۔[13] صدام کو اس کا نائب بنایا گیا۔[14] 1979 ء میں صدام نے احمد حسن البکر کو استعفی دینے پر مجبور کیا اور حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اس کے بعد اسے صدر مملکت، مسلح افواج کا رئیس اور حزب بعث کا سکریٹری جنرل بنایا گیا۔[15] عراق تیل صنعت کو احمد حسن البکر کے دور ریاست اور صدام کی نیابت کے زمانہ میں سرمایہ قومی و ملی قرار دیا گیا۔[16]

نسل و مذہب کا کردار

عربی لباس میں

حزب بعث اور اس کی پیروی کرتے ہوئے صدام نے اپنے لئے تین بنیادی شعار منتخب کئے تھے؛ اتحاد، آزادی اور سوشلزم۔[17] عربی قومیت اور وطنی تعصب بھی بعثیوں کے یہاں بیحد اہمیت کا حامل عنصر تھا۔ اسی وجہ سے محققین کا ماننا ہے کہ عراقی سیاست مداروں میں واقعی طور پر دین و مذہب کا کوئی درد نہیں تھا اور عراق پر حاکم قوانین، حقوق اور حکومت میں دین و علماء کے لئے کوئی خاص جگہ نہیں تھی۔[18]

سوشلسٹ افکار کی حامل بعث پارٹی نے حکومت حاصل کرنے سے پہلے تو دین و مذہب کی خوب تعریف و تمجید کی اور اس کے لئے احترام کے قائل رہے مگر حکومت حاصل کر لینے کے بعد میں وہ دین مخالف ہوگئے۔[19]

حزب بعث، اسلام کے عربی دین و تحریک ہونے کا قائل تھا۔ جس کا مقصد ان کے بقول عربیت کی تجدید و تکمیل تھا۔[20] صدام مذہب اہل سنت کا پیرو تھا[21] اور وہ خود کو مذہبی ظاہر کرنے کی کوشش کرتا تھا۔[22] اس کے باوجود کا ماننا تھا کہ دین سے اوپر اٹھ کر دیکھنا چاہئے تا کہ ترقی پذیر انقلابی راہ تک پہچا جا سکے۔[23] صدام وطنی تعصب کے نظم و نسق کے لئے اس بات کا قائل تھا کہ حکومت مذاہب اسلامی میں سے کسی بھی مذہب کے خصوصیات کی ترویج کی کوشش نہ کرے۔[24]

صدام کا ماننا تھا کہ حزب بعث کا فلسفہ دنیوی ہے دینی نہیں۔ اس کے باوجود وہ ظاہری طور پر اس بات کا اظہار کرتا تھا کہ حزب بعث کو چاہئے کہ وہ عوام کو ان کے دینی اعتقاد سے دور نہ کرے۔[25]

صدام نے زعیم حوزہ علمیہ نجف آیت اللہ العظمی سید محسن الحکیم کی وفات کے بعد حوزہ علمیہ کو کمزور اور نابود کرنے کی بہت کوشش کی۔[26]

امام خمینی کا ماننا تھا کہ صدام حسین اپنے ظاہر سے قطع نظر ایسا انسان ہے جو اسلام و حوزہ علمیہ کی نابودی کے لئے کوشش میں لگا ہوا ہے۔[27]

اپنے دور کے بزرگ شیعہ مرجع تقلید سید محسن الحکیم حزب بعث کے رہنماوں منجملہ صدام کو مشرک سمجھتے تھے۔[28]

امام خمینی نے بھی اس فتوی کی طرف اشارہ کیا ہے۔[29]

مذہبی رسومات پر پابندی

یہ حکمران (صدام) طاقت کے بل بوتے پر لوگوں پر حکومت کرتا ہے اور لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق جو کہ مذہبی رسومات کی ادائیگی میں آزادی ہے، سے بھی منع کرتا ہے، اس کی حکومت باقی نہیں رہ سکتی۔ لوگوں پر ہمیشہ طاقت کے بل بوتے پر حکومت نہیں کیا جا سکتا۔

کاظم، ارقام و آراء حول نظام البعث فی العراق،‌ ۱۹۸۲م، ص۲۶۶.

عراق میں حزب بعث کی حکومت کے کچھ عرصہ گذرنے کے بعد شیعہ مراسم کی انجام دہی میں مشکلات و درگیری پیش آنا شروع ہو گئیں۔[30] سنہ 1977 ء میں حسن البکر کی صدارت اور صدام حسین کی نیابت کے دور میں عراقی حکومت نے ایک دستور العمل صادر کیا جو حزب بعث کی حکومت میں آخر تک باقی رہا۔ اس دستور العمل میں بعض شعائر حسینی (ع) کے محدود کیا گیا تھا جبکہ بعض پر پابندی لگائی گئی تھی۔ یہ دستورات حزب بعث کی حکومت کے آخر تک باقی رہے اور اس میں کسی بھی طرح کا موکب لگانا اور امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے کربلا تک پیدل کئے جانے والے سفر پر پابندی لگائی گئی۔ اسی طرح سے امام حسین (ع) کے لئے ہونے والی مجالس کو محدود کیا گیا اور فقط شرائط پائے جانے کی صورت میں اجازت دی جاتی تھی۔[31]

حکومت کی پابندی اور شیعوں کے اصرار کے نتیجہ میں درگیری و قیام پیش آئے۔ جن میں مہم ترین انتفاضہ صفر ہے جو سنہ 1977 ء میں یش آیا۔[32]

ایرانیوں کا اخراج

حزب بعث کے صدر حسن البکر اور اس کے نائب صدام حسین نے اپنی عرب زدہ سیاست کی پیروی کرتے ہوئے قوانین پاس کئے اور عراق میں ایرانیوں کی موجودگی اور ان کی تاثیر گذاری کو محدود اور سخت کیا۔[33] انہوں نے سنہ 1971 ء کی سردیوں میں عراق میں مقیم ایرانیوں کو بہت بڑی تعداد میں وہاں سے اخراج کیا۔ ان افراد میں اکثریت طلاب علوم دینی اور علماء کی تھی۔ اس کے بعد سنہ 1975 ء میں ایک بار انہوں نے بڑی تعداد میں ایرانیوں کو نکالا۔[34]

تقریبا 1980 ء تک ایرانی الاصل عراقیوں کو عراق سے نکالنے کا سلسلہ جاری رہا۔[35] ان میں اکثریت امیروں اور تاجروں کی تھی۔ ان کو نکالنے کے بعد حکومت نے ان کے اموال کو ضبط کر لیا اور اس سے حکومت کو تین عرب ڈالر سے زائد مالیت کا سرمایہ حاصل ہوا۔[36]

بعض معاصر محققین کے مطابق اسے عراقی حکومت کے ظالمانہ ترین سلوک میں شمار کیا گیا جو انہوں نے اپنی اس اقلیت پر ڈھایا جن کی کئی نسلوں نے عراق میں رہ کر وہاں کی آباد کاری و ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔[37]

صدام اور فلسطین

صدام اپنے اسی عرب زدہ تعصب کی بنیاد جس پر اس کی تاکید تھی، مسئلہ آزادی فلسطین کو بہت زیادہ ذکر کرتا تھا۔[38] اس کا ماننا تھا کہ فسلطین ایک عرب سرزمین ہے، مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور مسلمانوں کی تیسری سب کی مقدس جگہ ہے۔[39] اس کا دعوی تھا کہ جب تک قدس صیہونیوں (اسرائیلیوں) کے قبضہ ہے کون مسلمان خود کو مومن کہہ سکتا ہے اور اس بات سے مطمئن ہو سکتا ہے کہ اس کی نمازیں میں بارگاہ خداوندی میں قابل قبول ہیں۔[40] حتی کہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ نصف اسرائیل کو نذر آتش کرے گا۔ البتہ بعض افراد نے صدام کی مذمت میں لکھا ہے کہ اس نے نصف اسرائیل کو نذر آتش کرنے کی بات کہی تھی مگر اس نے اسرائیل کی جگہ اربیل کو آگ کے حوالے کر دیا۔ اس نے اسرائیل کی نابودی کا وعدہ کیا تھا لیکن اس کے بجائے کویت کو اپنے چنگ میں لے لیا۔[41]

قیام و قتل عام

عراق، صدام حسین کے دور حکومت میں بہت سے قتل و غارت اور قتل عام کا گواہ رہا ہے۔ مجلہ نیویارک ٹائمز نے صدام کو معاصر صدی کے سب سے خونخوار افراد میں شمار کیا ہے۔[42] صدام نے آیت اللہ العظمی سید محمد باقر صدر اور ان کی ہمشیرہ بنت الہدی صدر کو گرفتار کرکے انہیں پھانسی کی سزا دی۔[43] اسی طرح سے اس نے حزب الدعوت (حزب الدعوۃ الاسلامیۃ) کے بہت سے افراد کو قتل کیا۔[44]

کیمیکل بم سے قتل عام

حلبچہ پر کیمیائی بم سے حملہ

عراقی حکومت نے اپنے ایرانی و عراقی، فوجی و غیر فوجی اہداف و مقاصد کے لئے کیمیائی بموں کا استعمال کیا۔ عراقی فوج نے غیر فوجی علاقوں جیسے عراقی شہر حلبچہ اور ایرانی قریہ زردہ پر اعصابی گیس (nerve gas) سے حملہ کیا۔ اسی طرح سے اس نے مریوان، سردشت اور دیگر دیہاتی علاقوں میں دوسرے قسم کے گیس سے حملہ کیا۔[45]

اسی طرح سے بعثی حکومت نے فوجی حملوں میں بھی کیمیکل بموں کا استعمال کیا اور بدر، خیبر، والفجر 8، فاو کے علاقوں میں مورجوں پر موجود فوجیوں پر کیمیائی بموں سے حملہ کرکے انہیں نشانہ بنایا۔[46]

عراقی حکومت نے کیمیکل بموں سے باقاعدہ طور پر بطور منظم حملہ سنہ 1983 ء میں ایران عراق جنگ میں شروع کیا[47] اور یہ حملات جنگ کے ختم ہونے تک 1988 ء تک جاری رہے۔[48] ان بموں سے حملوں کے نتیجے میں ایک لاکھ کے قریب فوجی و غیر فوجی افراد شہید اور زخمی ہوئے۔[49]

اسی طرح سے عراقی فوج نے کیمیکل بموں سے سرحدی شہروں اور قریوں پر حملات کا حکم دے کر جنگ روانی شروع کی تا کہ ایرانی افواج و دیگر عہدہ داروں پر فشار ڈال سکیں اور انہیں ایران کے بڑے شہروں اور ایرانی ریاستوں کے مرکز پر کیمیائی بموں اور میزائل حملوں کی دھمکی دی؛ ایسی دھمکی جو محققین جنگ کے مد نظر خلاف توقع نہیں تھی اور ایران کی جانب سے قرارداد نمبر 598 کو قبول کئے جانے میں موثر واقع ہوئی۔[50]

انتفاضہ صفر

بعثی حکومت نے مذہبی پروگراموں کے انعقاد کو محدود کر دیا اور اسی طرح سے ہر طرح کے موکب اور کربلا کی جانب پیدل سفر پر پابندی عائد کر دی۔[51] ان سب کے باوجود نجف کی عوام نے 15 صفر 1398 ھ بمطابق 1977 ء خود کو اربعین کی پیادہ روی کے پروگرام کے لئے آمادہ کرنا شروع کر دیا۔[52] 30 ہزار کی تعداد پر مشتمل قافلہ نے کربلا کی سمت حرکت کرنا شروع کی۔ شروع سے ہی حکومت نے اس پر حملہ کیا اور کچھ زائرین شہید ہوئے۔ اس کے بعد نجف سے کربلا کے راستے میں فوج نے حملہ کرکے ہزاروں افراد کو گرفتار کیا۔[53] بعض شہید ہوئے۔ بعض کو پھانسی دی گئی، بعض کو عمر قید کی سزا ہوئی۔[54] سید محمد باقر الصدر اور سید محمد باقر الحکیم نے اس انتقاضہ میں کردار ادا کیا۔[55] امام خمینی نے بھی اس عوامی قیام کی تائید کی۔[56]

دجیل قتل عام

دجیل عراق کا ایک شہر ہے جس کی اکثریت شیعہ آبادی پر مشتمل ہے۔[57] ماہ مبارک رمضان 1402 ھ میں صدام نے دجیل کا سفر کیا۔ صدام کے شہر میں داخل ہونے کے بعد حزب الدعوہ کے بعض اعضاء نے اسے قتل کرنا چاہا۔ مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ اس کے بعد بہت سے بعثیوں نے جنہیں ہوائی فوج کی حمایت حاصل تھی، شہر پر حملہ کر دیا۔ سینکڑوں مردوں، عورتوں اور بچوں کو گرفتار کیا گیا۔ بہت سے افراد ٹارچر کے وقت مارے گئے، بہت سے افراد کو پھانسی کی سزا سنائی گئی اور انہیں پھانسی دی گئی۔[58] اس قتل عام میں 148 افراد قتل کئے گئے[59] جن میں بعض عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔[60] ایک لاکھ ہیکٹر سے زیادہ کھیتوں کو حکومت کی طرف سے تباہ کر دیا گیا۔[61]

سنہ 2006 ء میں صدام کو دجیل کے قتل عام میں پھانسی کی سزا سنائی گئی اور پھانسی دی گئی۔[62]

انتفاضہ شعبان

کویت کی جنگ میں شکست کے بعد عراقی عوام نے حزب بعث اور صدام کے خلاف قیام کیا۔ یہ قیام شعبان 1411 ھ بمطابق 1991 ء پیش آیا۔[63]

آٹھ سال تک ایران سے جنگ، جنگ کویت میں شکست مطلق، اقتصادی بد حالی، بے شمار اقتصادی و رفاہی بنیادوں کی تباہی و بربادی سبب بنی کہ پورے عراق کی عوام صدام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کا آغاز بصرہ سے ہوا اور بہت تیزی سے تمام ریاستوں میں پھیل گیا۔[64] عراق کے 18 میں سے 14 اضلاع معترضین کے قبضہ میں آ گئے۔[65] یہ سلسلہ 15 دن تک چلا۔[66] عراقی فوج نے اسے کچلنے کا فیصلہ کیا۔ دسیوں ہزار لوگ مارے گئے اور تقریبا 20 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔[67] روضہ امام علی علیہ السلام اور روضہ امام حسین علیہ السلام کو نقصان پہچایا گیا۔ 6 ماہ تک حرم کے دروارے بند رہے۔[68] بعثیوں نے کربلا و نجف میں دسیوں مساجد، دینی مدارس اور امام بارگاہ کو تباہ و برباد کر دیا۔[69]

جنگیں

عراق نے صدام کے زمانہ میں اس کے حکم سے کئی جنگوں کا آغاز کیا:

جنگ ایران و عراق

عراقی فوج نے صدام کے حکم سے 22 ستمبر 1980 ء میں ایران پر مکمل و ہمہ گیر حملہ کا آغاز کیا۔[70] صدام اس جنگ سے مندرجہ ذیل اہداف و مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا:

  • عراق معاہدہ الجزایر کو لغو کرکے دریائے اروندرود کو عراق میں ملحق کرنا چاہتا تھا۔ اس کے مقابلہ میں بعض تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ عراقی فوج کے خرم شہر و ریاست خوزستان کے بعض علاقوں پر قبضہ کے بعد ان کے عزائم سے سمجھ میں آتا ہے کہ وہ پورے خوزستان کو عراق میں ضمیمہ کرنا چاہتے تھے۔[71]
  • بعض تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ عراقی عہدہ داروں و آفیسروں کے اقدامات و بیانات پر نظر ڈالنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ صدام ایران میں تشکیل شدہ نئی اسلامی حکومت کا خاتمہ اور ایران کا تجزیہ کرنا چاہتا تھا۔[72]
  • صدام نے اعلان کیا کہ ایران کو چاہئے کہ اپنے وہ تین جزایز تنب بزرگ، تنب کوچک اور ابو موسی کو ترک کر دے۔[73]

یہ جنگ 2888 روز تک چلی اور صدی کی سب سے بڑی جنگوں میں سے ایک ثابت ہوئی۔[74] اس جنگ نے دونوں ملکوں کو بہت زیادہ نقصان پہچایا؛ دونوں ملکوں کے لاکھوں لوگوں کے زندگی بیحد سخت ہوگئی۔ جنگ کے نتیجہ میں دونوں ملکوں کے بنیادی تاسسیات و عمارتیں تباہ و برباد ہوگئیں، سرحدی علاقوں کے شہر و دیہاتی خالی اور ویران ہو گئے، طبیعی سرمایے اور ثقافتی آثار ۔۔۔ تباہی و بربادی کا شکار ہوئے۔[75]

صدام گرفتاری کے بعد
پھانسی کے وقت

ایران و عراق دونوں ملکوں نے 200 ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ اس جنگ پر خرچ کیا اور تقریبا 1500 ارب ڈالر سے زیادہ کا دونوں ملکوں کو نقصان ہوا۔ ایک لاکھ اٹھاسی ہزار (1.88.000) ایرانی اس جنگ میں شہید، پانچ لاکھ انیس ہزار (5.19.000) زخمی اور بیالیس ہزار (42.000) قید ہوئے۔[76] عراق کی طرف سے بھی تقریبا دو لاکھ (2.00.000) افراد مارے گئے، اس سے تین گونہ زائد زخمی اور ساٹھ ہزار (60.000) اسیر ہوئے۔[77]

جنگ عراق و کویت

2 اگست 1990 ء میں عراقی فوج نے اپنی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے کویت پر حملہ کیا اور تین گھنٹے میں انہوں نے کویت میں داخل ہو کر وہاں قبضہ کر لیا۔[78] کچھ عرصہ کے بعد عراق نے کویت کو اپنے انیسویں ضلع ہونے کا اعلان کر دیا۔[79] کویت پر حملے کے چند اسباب جیسے: عراق و کویت کے درمیان سرحدی تنازعہ، عراقی حکومت کی ایران کے ساتھ آٹھ سالہ جنگ میں سیاسی، فوجی و اسٹریٹیجک ناکامیابیاں، ایران سے جنگ کے نتیجہ میں ہونے والے سنگین قرض بیان ہوئے ہیں۔[80]

17 جنوری 1991 ء میں متحدہ افواج نے جس کی قیادت امریکہ کے ہاتھوں میں تھی، عراق کو کویت سے نکالنے کے لئے اس پر حملہ کیا۔ متحدہ افواج نے بڑے پیمانے پر زمینی و ہوائی حملے شروع کر دیئے۔[81] 38 دن ہوائی و میزائل حملے اور عراق کے بہت سے فوجی و اقتصادی مراکز کو نابود کرنے کے بعد متحدہ افواج نے زمینی حملے شروع کئے اور چار دن میں عراقی افواج کو شکست دے کر کویت سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔[82]

عراقی فوج نے اس جنگ کے درمیان 17 بار میں 39 میزائل کے ذریعہ اسرائیل پر حملہ کیا۔[83]


عراق پر امریکی حملہ

11 ستمبر کو نیویارک شہر پر حملے کے بعد امریکیوں نے یہ القاء کرنا شروع کر دیا کہ گویا اس میں صدام کا ہاتھ ہے، حزب بعث کے ساتھ القاعدہ کا قریبی رابطہ ہے اور عراق میں قتل عام کرنے والے اسلحے موجود ہیں اور اس کے ساتھ دنیا کے عوام کے ذہنوں کو اس طرف مبذول کرکے خود کو عراق پر حملے کے لئے آمادہ کرنا شروع کر دیا۔[84] آخرکار امریکہ نے اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر 2003 ء میں عراق پر حملہ کرکے اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔[85]

گرفتاری و پھانسی

دسمبر 2003 ء میں امریکی فوج نے یہ اعلان کیا کہ ہم نے تکریت کے پاس ایک کھیت سے صدام کو گرفتار کر لیا ہے۔[86]

2005 ء میں صدام کو عدالت میں پیش کیا گیا اور کئی بار عدالت میں مقدمہ کی سماعت کے بعد، دجیل قتل عام[87] کے مقدمہ میں جس میں دجیل کے علاقہ میں قتل ہونے والے ایک سو اڑتالیس (148) لوگوں کے قتل کی سزا کے طور پر اسے پھانسی کا حکم سنایا گیا۔[88] 30 دسمبر 2006 ء[89] میں عید الاضحی کے روز صبح اسے شہر بغداد کے ایک کیمپ میں جس میں اس سے پہلے صدام نے سید محمد باقر الصدر کو پھانسی دی تھی، پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔[90]

حوالہ جات

  1. المرسومی، دراسات فی فکر القائد صدام حسین، ۲۰۰۰م، ص۱۴.
  2. ویلی، نهضت اسلامی شیعیان عراق، ۱۳۷۳ش، ص۶۹.
  3. خضر، إعدام رئیس یدایة و نهایة صدام حسین، ۲۰۰۷م، ص۷۰.
  4. ویلی، نهضت اسلامی شیعیان عراق، ۱۳۷۳ش، ص۶۹.
  5. تبرائیان، انتفاضہ شعبانیہ،‌۱۳۹۱ش، ص۷۶.
  6. تبرائیان، انتفاضہ شعبانیہ،‌۱۳۹۱ش، ص۷۸.
  7. صدام از تولدتا چوبہ دار
  8. «حیاة صدام حسین فی سطور»
  9. ویلی، نهضت اسلامی شیعیان عراق، ۱۳۷۳ش، ص۷۰.
  10. «صدام از تولد تا چوبہ دار»
  11. «صدام از تولد تا چوبہ دار»
  12. «صدام از تولدتا چوبہ دار»
  13. ویلی، نهضت اسلامی شیعیان عراق، ۱۳۷۳ش، ص۷۰.
  14. «صدام از تولد تا چوبہ دار»
  15. تبرائیان، انتفاضہ شعبانیہ،‌۱۳۹۱ش، ص۷۶.
  16. «حیاة صدام حسین فی سطور»
  17. العباسی، صفحات سوداء من بعث العراق،‌ ۱۳۶۱ش، ص ۴۹.
  18. افشون، «دین و علمانیت در ساختار حقوقی - حاکمیتی عراق»، ص۴۸
  19. فولادزاده،‌ایدئولوژی حزب سوسیالیست بعث عراق، ۱۴۱۰ق، ص۲۶.
  20. اردستانی، «صدام و حزب بعث؛ ماهیت و کنش»، ۱۳۹۰ش، ص۴۰.
  21. «حقایقی نا گفتہ از دیکتاتور سابق عراق»
  22. اردستانی، «صدام و حزب بعث؛ ماهیت و کنش»، ۱۳۹۰ش، ص۴۰.
  23. فولادزاده،‌ایدئولوژی حزب سوسیالیست بعث عراق، ۱۴۱۰ق، ص۲۹.
  24. فولادزاده،‌ایدئولوژی حزب سوسیالیست بعث عراق، ۱۴۱۰ق، ص۳۰.
  25. عاشور، الدین و التراث فی فکر الرئیس القائد صدام حسین،‌۱۹۸۸م، ص۱۸۶.
  26. الطالقانی، «دراسة حول انتفاضة صفر المجیدة عام ۱۹۷۷ میلادیة».
  27. مرکز تنظیم و نشر آثار امام خمینی، صحیفہ امام، ۱۳۷۸ش، ج۱۲، ص۲۳۳.
  28. مرکز تنظیم و نشر آثار امام خمینی، صحیفہ امام، ۱۳۷۸ش، ج۱۲، ص۲۴۴.
  29. مرکز تنظیم و نشر آثار امام خمینی، صحیفہ امام، ۱۳۷۸ش، ج۱۲، ص۲۴۴.
  30. المؤمن، سنوات الجمر، ۲۰۰۴م، ص ۱۶۴.
  31. کاظم، ارقام و آراء حول نظام البعث فی العراق، ۱۹۸۲م، ص۱۵۸.
  32. مظاهری، فرهنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۱۰۱-۱۰۲.
  33. پهلوان، «تحرکات جمعیتی در منطقہ»، ص۱۴۷.
  34. جعفریان، «تشیع در عراق و مناسبات با ایران»، ص۲۰۳.
  35. المؤمن، سنوات الجمر، ۲۰۰۴م، ص۲۷۲.
  36. المؤمن، سنوات الجمر، ۲۰۰۴م، ص۲۷۸.
  37. جعفریان، «تشیع در عراق و مناسبات با ایران»، ص۲۰۴.
  38. المرسومی، دراسات فی فکر القائد صدام حسین، ۲۰۰۰م، ص۱۹۰.
  39. المرسومی، دراسات فی فکر القائد صدام حسین، ۲۰۰۰م، ص۱۹۲.
  40. المرسومی، دراسات فی فکر القائد صدام حسین، ۲۰۰۰م، ص۱۹۲.
  41. خضر، إعدام رئیس یدایة و نهایة صدام حسین، ۲۰۰۷م، ص۶۰.
  42. MacFARQUHAR, Saddam Hussein.
  43. نعمانی، آیت الله العظمی شهید سید محمد باقر صدر، ۱۳۸۸ش، ص۵۶۰.
  44. ویلی، نهضت اسلامی شیعیان عراق، ۱۳۷۳ش، ص۸۸.
  45. ویلی، نهضت اسلامی شیعیان عراق، ۱۳۷۳ش، ص۸۸.
  46. «خسارات و تلفات ۸ سال جنگ (بخش اول: عراق)»
  47. عملیات خیبر؛ آغاز استفاده تاکتیکی رژیم عراق از جنگ‌افزارهای شیمیایی.
  48. آخرین جنایت شیمیایی عراق در مناطق غیرنظامی ایران.
  49. «خسارات و تلفات ۸ سال جنگ (بخش اول: عراق)»
  50. «حملہ شیمیایی عراق بہ ایران و مهم ترین قطع نامہ سازمان ملل»
  51. المؤمن، سنوات الجمر، ۲۰۰۴م، ص۱۶۵.
  52. الأسدی، موجز تاریخ العراق السیاسی الحدیث، ۲۰۰۱م، ص۱۰۱.
  53. ویلی،‌ نهضت اسلامی شیعیان عراق،‌ ۱۳۷۳ش، ص۸۱.
  54. الأسدی، موجز تاریخ العراق السیاسی الحدیث، ۲۰۰۱م، ص۱۰۳.
  55. المؤمن، سنوات الجمر، ۲۰۰۴م، ص۱۶۹.
  56. المؤمن، سنوات الجمر، ۲۰۰۴م، ص۱۷۰.
  57. «صدام یتحدث عن قضیة الدجیل التی أعدم بسببها».
  58. «مذبحة الدجیل»
  59. الأسدی، موجر تاریخ العراق السیاسی الحدیث، ۲۰۰۱م، ص۱۷۳.
  60. «صدام یتحدث عن قضیة الدجیل التی أعدم بسببها».
  61. «مذبحة الدجیل»
  62. خضر، إعدام رئیس یدایة و نهایة صدام حسین، ۲۰۰۷م، ص۳۱۷ .
  63. تبرائیان، انتفاضہ شعبانیہ،‌ ۱۳۹۱ش، ص۲۲۳.
  64. الاسدی، موجز تاریخ العراق السیاسی الحدیث، ۲۰۰۱م، ص۲۰۰.
  65. تبرائیان، انتفاضہ شعبانیہ،‌۱۳۹۱ش، ص۲۳۰.
  66. تبرائیان، انتفاضہ شعبانیہ،‌۱۳۹۱ش، ص۲۳۰.
  67. آل ‌طعمہ، الانتفاضہ الشعبانیہ فی کربلاء، ۱۴۳۳ق، ص۱۷.
  68. «ماجرای انتفاضہ شعبانیہ چیست؟»
  69. آل‌ طعمہ، الانتفاضہ الشعبانیہ فی کربلاء، ۱۴۳۳ق، ص۱۴۹-۱۵۶.
  70. «۸ «سال جنگ تحمیلی علیه ایران چگونہ آغاز شد؟»
  71. «آمده بودند بمانند...»
  72. جعفری، اطلس نبردهای ماندگار، ۱۳۸۹ش، ص۱۴.
  73. «حیاة صدام حسین فی سطور»
  74. «خسارات و تلفات ۸ سال جنگ (بخش دوم: ایران)»
  75. «خسارات و تلفات ۸ سال جنگ (بخش دوم: ایران)»
  76. «خسارات و تلفات ۸ سال جنگ (بخش دوم: ایران)»
  77. «خسارات و تلفات ۸ سال جنگ (بخش اول: عراق)»
  78. تبرائیان، انتفاضہ شعبانیہ، ۱۳۹۱ش، ص۱۵۷.
  79. تبرائیان، انتفاضہ شعبانیہ، ۱۳۹۱ش، ص۱۶۰-۱۶۱.
  80. کریمی، «جنگ عراق و کویت»، ج۱۱، ص۱۴۰.
  81. تبرائیان، انتفاضہ شعبانیہ، ۱۳۹۱ش، ص۱۸۳.
  82. کریمی، «جنگ عراق و کویت»، ج۱۱، ص۱۴۰.
  83. تبرائیان، انتفاضہ شعبانیہ، ۱۳۹۱ش، ص۱۸۷.
  84. امینی، «رسانہ ها و عملیات روانی؛ نبرد نیروهای ائتلاف بر ضد عراق (مارس ۲۰۰۳)»، ص۱۵۱.
  85. «حیاة صدام حسین فی سطور»
  86. خضر، إعدام رئیس، یدایة و نهایة صدام حسین، ۲۰۰۷م، ص۳۱۴.
  87. «حیاة صدام حسین فی سطور»
  88. خضر، إعدام رئیس یدایة و نهایة صدام حسین، ۲۰۰۷م، ص۳۱۷.
  89. خضر، إعدام رئیس یدایة و نهایة صدام حسین، ۲۰۰۷م، ص۳۱۸.
  90. تقدسی، «گفت و گوی «ایران» با منیر حداد قاضی دادگاه صدام: ناگفته‌های اعدام دیكتاتور».

مآخذ

  • آمده بودند بمانند ...،‌ سایت ایسنا، تاریخ درج مطلب: ۵ خرداد ۱۳۹۵ش،‌ تاریخ بازدید: ۶ تیر ۱۳۹۷ش.
  • اردستانی، حجر، «صدام و حزب بعث؛ ماهیت و کنش»، فصل نامہ تخصصی جنگ ایران و عراق، شماره۳۶، بهار ۱۳۹۰ش.
  • الأسدی، مختار، موجز تاریخ العراق السیاسی الحدیث، مرکز الشهیدین الصدرین للدراسات و البحوث، ۲۰۰۱ ء.
  • افشون، تورج، «دین و علمانیت در ساختار حقوقی - حاکمیتی عراق»، مطالعات راهبردی جهان اسلام، شماره ۶۳، پاییز ۱۳۹۴ش.
  • آل ‌طعمہ، سلمان هادی، الانتفاضہ الشعبانیہ فی کربلاء، قم،‌ کتابخانہ تخصصی تاریخ اسلام و ایران، ۱۴۳۳ق.
  • امینی، آرمین، «رسانہ ‌ها و عملیات روانی؛ نبرد نیروهای ائتلاف بر ضد عراق (مارس ۲۰۰۳ ء)»، مطالعات خاور میانہ، سال یازدهم،‌ شماره ۳و۴، پاییز و زمستان۱۳۸۳ش.
  • پهلوان، چنگیز، «تحرکات جمعیتی در منطقہ»، اطلاعات سیاسی – اقتصادی، شماره ۱۱۹، مرداد و شهریور ۱۳۷۶ش.
  • تبرائیان، صفاء الدین، انتفاضہ شعبانیہ، تهران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، ۱۳۹۱ش.
  • تقدسی، احسان، «گفت و گوی «ایران » با منیر حداد قاضی دادگاه صدام: ناگفتہ ‌های اعدام دیكتاتور»، سایت روزنامہ ایران، تاریخ درج مطلب: ۱۳خرداد ۱۳۹۶ش، تاریخ بازدید: ۶ تیر۱۳۹۷ش.
  • جعفری، مجتبی، اطلس نبردهای ماندگار، تهران، نیروی زمینی ارتش جمهوری اسلامی، ۱۳۸۹ش،
  • جعفریان، رسول،‌ «تشیع در عراق و مناسبات با ایران»، فصل نامہ مطالعات تاریخی، شماره ۱۵، ۱۳۸۵ش.
  • «حقایقی ناگفتہ از دیکتاتور سابق عراق»، سایت تاریخ، تاریخ درج مطلب: ۷ خرداد ۱۳۹۶ش، تاریخ بازدید: ۲۴ تیر ۱۳۹۷ش
  • «حملہ شیمیایی عراق بہ ایران و مهم ترین قطع نامہ سازمان ملل»، سایت ایسنا،‌ تاریخ درج مطلب: ۷ شهریور ۱۳۹۶ش، تاریخ بازدید: ۶ تیر ۱۳۹۷ش.
  • «حیاة صدام حسین فی سطور»، سایت صدام، تاریخ بازدید: ۶ خرداد ۱۳۹۷ش.
  • «خسارات و تلفات ۸ سال جنگ (بخش اول: عراق)»، سایت مرکز اسناد و تحقیقات دفاع مقدس، تاریخ درج مطلب: ۳۱ خرداد ۱۳۹۵ش، تاریخ بازدید: ۶ خرداد ۱۳۹۷ش.
  • «خسارات و تلفات ۸ سال جنگ (بخش دوم: ایران)»،‌ سایت مرکز اسناد و تحقیقات دفاع مقدس، تاریخ درج مطلب: ۶ تیر ۱۳۹۵ش، تاریخ بازدید: ۶ تیر۱۳۹۷ش.
  • خضر، هشام، إعدام رئیس یدایة و نهایة صدام حسین، الجیزه، العالمیہ، ۲۰۰۷ ء.
  • «صدام از تولد تا چوبہ ‌دار»، سایت روزنامہ ایران،‌ تاریخ درج مطلب: ۱۷ آبان ۱۳۸۵ش، تاریخ بازدید: ۶ خرداد ۱۳۹۷ش.
  • «صدام یتحدث عن قضیة الدجیل التی أعدم بسببها»، سایت مغرس، تاریخ درج مطلب: ۲۸\۱\۲۰۱۰، تاریخ بازدید: ۶ خرداد ۱۳۹۷ش.
  • الطالقانی، سید محمد، دراسة حول انتفاضة صفر المجیدة عام ۱۹۷۷ میلادیة، سایت براثا،‌ تاریخ درج مطلب: ۸\۳\۲۰۰۷ ء، تاریخ بازدید: ۶ خرداد ۱۳۹۷ش.
  • عاشور، محمود عبد الجبار، الدین و التراث فی فکر الرئیس القائد صدام حسین، بغداد، مطبعہ الرشاد، ‌۱۹۸۸ ء.
  • العباسی، عبد الحمید، صفحات سوداء من بعث العراق،‌ بی‌جا، مهارت، ۱۳۶۱ش.
  • فولاد زاده حائری، عبد الامیر، ‌ایدئولوژی حزب سوسیالیست بعث عراق، قم،‌ جنبش رانده‌ شدگان عراق، ۱۴۱۰ق،
  • کاظم،‌ فواد، ارقام و آراء حول نظام البعث فی العراق،‌ بی‌جا، مرکز الاسلامی للابحاث السیاسیہ، ۱۹۸۲م.
  • کریمی، جواد، «جنگ عراق و کویت»، دانشنامہ، تهران، بنیاد دایره المعارف اسلامی، ۱۳۸۶ش.
  • «ماجرای انتفاضہ شعبانیہ چیست؟» سایت فردا، تاریخ درج مطلب: ۱۹ شهریور ۱۳۹۲ش، تاریخ بازدید: ۶ تیر ۱۳۹۷ش.
  • «مذبحة الدجیل»،‌ سایت تراثیات، تاریخ درج مطلب: ۸ جولای ۲۰۱۶ ء، تاریخ بازدید: ۴ تیر ۱۳۹۷ش.
  • مرسومی، نوری نجم، دراسات فی فکر القائد صدام حسین، بغداد، آفاق عربیہ، ۲۰۰۰ ء.
  • مرکز تنظیم و نشر آثار امام خمینی، صحیفہ امام، تهران، مرکز تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۷۸ش.
  • مظاهری، محسن حسام،‌ فرهنگ سوگ شیعی، تهران، خیمہ، ۱۳۹۵ش.
  • المؤمن، علی، سنوات الجمر، بیروت، المرکز الاسلامی المعاصر، ۲۰۰۴ ء.
  • عمانی، محمد رضا، آیت الله العظمی شهید سید محمد باقر صدر، ترجمہ قاسم غضبان‌ پور، تهران، فرهنگ سبز، چاپ اول، ۱۳۸۸ش.
  • ویلی، جویس ان، نهضت اسلامی شیعیان عراق، ترجمہ مهوش غلامی، موسسہ اطلاعات، ۱۳۷۳ش.
  • یکتا، «کاربرد سلاحهای شیمیایی در جنگ ایران و عراق»، سایت پژوهشگاه علوم اسلامی و مطالعات فرهنگی، تاریخ بازدید: ۶ تیر ۱۳۹۷ش.
  • سال جنگ تحمیلی علیہ ایران چگونہ آغاز شد؟»، سایت تسنیم، تاریخ درج مطلب:۳۱ شهریور ۱۳۹۶ش، تاریخ بازدید: ۶ تیر ۱۳۹۷ش.
  • MacFARQUHAR, NEIL, Saddam Hussein