مختار بن ابی عبید ثقفی
![]() | |
کوائف | |
---|---|
نام | مختار بن ابو عبید ثقفی |
لقب/کنیت | کیسان/ابو اسحاق |
مشہور اقارب | سعد بن مسعود، ابو عبید ثقفی، عبداللہ بن عمر |
تاریخ پیدائش | پہلی صدی ہجری |
شہادت | 14 رمضان سنہ 67 ہجری، کوفہ |
آرامگاہ | مسجد کوفہ |
علمی معلومات | |
دیگر معلومات | |
سماجی خدمات | انتقام خون امام حسینؑ، حضرت مسلم کی حمایت |
مختار بن ابی عبید ثقفی (1۔67 ھ)، طائف کے رہنے والے اور تابعین میں سے تھے جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کے انتقام کے لئے قیام کیا۔ واقعہ کربلا کے وقت مختار نے کوفہ میں امام حسینؑ کے سفیر مسلم بن عقیل کا ساتھ دیا لیکن ان کی شہادت کے وقت وہ عبید اللہ بن زیاد کے زندان میں تھے اسی بنا پر واقعہ عاشورا میں شریک نہ ہو سکے۔
مختار نے 66 ھ میں حکومت وقت کے خلاف قیام کیا اور واقعہ عاشورا و قتل امام حسینؑ میں ملوث بہت سے مجرموں کو قتل کیا۔ مختار نے قیام کی کامیابی کے بعد کوفہ پر اپنی حکومت قائم کی اور 18 ماہ حکومت کے بعد مصعب بن زبیر کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ ان کی قبر مسجد کوفہ میں مسلم بن عقیل کی قبر کے ساتھ واقع ہے۔
مختار کی شخصیت، قیام اور ان کی کارکردگی کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں اور اس بارے میں مختلف کتابیں بھی لکھی جا چکی ہیں۔ بعض معتقد ہیں کہ انہوں نے امام حسینؑ کے خون کا انتقام لینے کے لئے قیام کیا تھا اور ان کے قیام کو امام زین العابدینؑ کی تائید حاصل تھی۔ لیکن بعض انہیں ایک قدرت طلب شخص کے طور پر پیش کرتے ہیں جنہوں نے اقتدار کے لئے قیام کیا تھا۔ ان کے بارے میں تیسرا نظریہ یہ تھا کہ اگرچہ مختار شیعہ تھے لیکن ان کی عمل مورد تائید نہیں تھی اس کے باوجود وہ اہل دوزخ نہیں ہیں۔ ان کے بارے میں مختلف آراء ان احادیث کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں جن میں بعض میں ان کی تعریف و تمجید و بعض میں مذمت کی گئی ہیں۔ بعض ماہر رجال شیعہ علماء جیسے عبداللہ مامقانی و آیت اللہ خویی تعریف و تمجید والی روایات کو ترجیح دیتے ہیں۔
نسب اور لقب
مختار بن ابی عبیدہ بن مسعود ثقفی کا تعلق قبیلہ ثقیف سے تھا۔[1] ان کے والد ابوعبید پیغمبر اکرمؐ کے اصحاب میں سے تھے[2] اور خلیفہ دوم کے زمانے میں جنگ قادسیہ میں شہید ہوئے۔[3] ان کے دادا مسعود ثقفی حجاز کے بزرگان میں سے تھے اور "عَظیمُ القَرْیَتَیْن" (مکہ و طائف کے بزرگ) کے نام سے ملقب تھے۔[4] ان کی والدہ دومہ بنت عمرو بن وہب ہیں جن کا تذکرہ ابن طیفور نے بلاغات النساء میں کیا ہے۔[5] ساتویں صدی ہجری کے مورخ ابن اثیر کے مطابق مختار صحابہ میں سے نہیں تھا۔[6] لیکن اس کے باوجود ان کی سوانح حیات صحابہ کے بارے میں لکھے گئے منابع میں بھی آئی ہے۔[7]
مختار کی کنیت ابو اسحاق[8] اور ان کا لقب کَیسان (زیرک و باہوش) ہے۔[9] اصبغ بن نباتہ سے منقول ہے کہ جب مختار بچہ تھا، امام علیؑ نے ان کو اپنے زانو پر بٹھایا اور ان کو کَیِّس کے نام سے یاد فرمایا۔[10]
قادسیہ کی جنگوں میں شرکت
مختار ہجرت کے پہلے سال پیدا ہوئے۔[11] نقل ہوا ہے کہ مختار نے 13 سال کی عمر میں قادسیہ کی جنگوں میں سے جنگ جسر میں شرکت کی۔ کم عمری کے باوجود وہ میدان جنگ میں جانا چاہتے تھے لیکن ان کے چچا سعد بن مسعود نے انہیں اس کام سے روکے رکھا۔[12] اس جنگ میں ان کے والد اور بھائی شہید ہوئے۔[13]
مختار کے چچا سعد بن مسعود حضرت علیؑ کی طرف سے مدائن میں گورنر تھے۔[14] انہوں نے خوارج کے ساتھ جنگ میں مختار کو مدائن میں اپنا جانشین مقرر کیا اور خود جنگ کیلئے نہروان کی طرف چلے گئے۔[15]
مسلم بن عقیل کی ہمراہی
شمس الدین ذہبی مطابق معاویہ کے دور میں مختار بصرہ گئے اور عوام کو امام حسینؑ کی طرف دعوت دی۔ اس وقت عبید اللہ بن زیاد معاویہ کی طرف سے بصرہ میں گورنر تھا، اس نے مختار کو گرفتار کرکے طائف طلا وطن کر دیا۔[16]
مختار کوفہ میں مسلم سفیر امام حسین کے ساتھ تعاون کرتے تھے۔ مسلم نے کوفہ میں وارد ہونے کے بعد مختار کے یہاں قیام کیا۔[17] جب عبید اللہ کو یہ خبر مل گئی تو مسلم ہانی بن عروہ کے یہاں منتقل ہو گئے۔[18] تاریخی گزارشات کے مطابق مختار نے مسلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔[19] مسلم کی شہادت کے دن مختار کوفہ سے باہر تھے وہاں انہیں مسلم کے معینہ وقت سے پہلے قیام کی خبر ملی لیکن جب وہ کوفہ پہچے تو مسلم اور ہانی شہید ہو چکے تھے۔[20]
مختار روز عاشورا کربلا میں کیوں نہیں تھے؟
مختار کے واقعہ کربلا میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ عبیداللہ ابن زیاد کی قید میں تھے۔ حضرت مسلم و ہانی بن عروہ کی شہادت کے بعد ابن زیاد مختار کو بھی شہید کرنا چاہتا تھا مگر عمرو بن حریث کی وساطت سے مختار کو امان مل گئی لیکن تازیانہ کے ذریعے مختار کی آنکھوں پر حملہ کیا اور ان کی آنکھ کو زخمی کرکے انہیں زندان میں ڈال دیا۔ یوں مختار امام حسینؑ کے قیام کے اختتام تک کوفہ میں ابن زیاد کے زندان میں تھے۔[21] واقعہ کربلا کے بعد عبداللہ بن عمر جو ان کی بہن صفیہ کے شوہر تھے،[22] کی وساطت سے یزید نے مختار کو آزاد کر دیا۔[23] واقعہ کربلا کے بعد جب اسراء کو کوفہ لایا گیا تو ابن زیاد نے امام حسینؑ کے حامیوں منجملہ مختار کو امام حسینؑ کے سر کو دکھانے کیلئے دربار میں بلایا۔ اس موقع پر مختار اور ابن زیاد کے درمیان تلخ کلمات کا تبادلہ ہوا[24] اس گزارش کے مطابق مختار عبد اللہ بن عفیف کی شہادت کے بعد قید سے آزاد ہوئے۔ البتہ عبیداللہ نے آزادی کے وقت یہ شرط باندھی کہ تین دن سے زیادہ کوفہ میں قیام نہیں کرے گا۔ ابن زیاد نے عبد اللہ بن عفیف کی شہادت کے بعد خطبہ پڑھا اور اس میں اہل بیت علیہم السلام کی برائی کی تو مختار نے اعتراض کیا تو ابن زیاد نے انہیں پھر قید میں ڈال دیا۔ لیکن پھر وہ عبد اللہ بن عمر کی وساطت سے آزاد ہوگئے۔[25]
عبداللہ بن زبیر کی بیعت
ابن زیاد کی قید سے آزادی کے بعد مختار مکہ چلے گئے اور وہاں پر عبد اللہ بن زبیر کی بیعت کی اس شرط پر کہ کاموں میں ان سے مشورت کرے گا۔[26] جب یزید کے سپاہیوں نے مکہ پر حملہ کرکے اسے محاصرے میں لیا تو مختار نے عبداللہ بن زبیر کے ساتھ یزید کی فوج سے مقابلہ کیا۔[27] لیکن جب عبداللہ بن زبیر نے خلافت کا دعوا کیا تو مختار اس سے جدا ہو گئے اور کوفہ جا کر اپنے قیام کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔[28] ابن زبیر نے عبداللہ بن مطیع کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا تو مختار نے ان سے مقابلہ کرکے کوفہ پر اپنی حکومت قائم کی۔[29]
مختار نے توابین کے قیام میں شرکت کیوں نہیں کی؟
مختار توابین کے قیام کو بے فائدہ سمجھتے تھے اس وجہ سے ان کا ساتھ نہیں دیا۔[30] مختار سلیمان بن صرد خزاعی کو جنگی فنون سے ناآشنا اور سادہ لوج سمجھتے تھے۔[31] جب مختار نے توابین کا ساتھ نہیں دیا تو توابین کے 16000 افراد جنہوں نے سلیمان بن صرد خزاعی کی بیعت کی تھی، میں سے تقریبا 4000 ہزار افراد نے بھی سلیمان سے اپنی بیعت واپس لے لی۔خطا در حوالہ: Closing </ref>
missing for <ref>
tag البتہ مختار توابین کے قیام کے دوران بھی زندان میں تھے۔[32] انہوں نے توابین کی شکست کے بعد خطوط کے ذریعے ان کے بازماندگان سے اظہار ہمدردی کیا۔[33]
توابین کے سرکردگان انہیں زندان سے طاقت کے زور پر آزاد کرنا چاہتے تھے لیکن انہوں نے ان کو منع کیا اور کہا وہ عنقریب زندان سے آزاد ہو جائیں گے۔ اس دفعہ بھی مختار عبداللہ بن عمر کے وساطت سے آزاد ہوئے۔[34]
کربلا کے ظالمین سے انتقام
سنہ 66 ہجری کو مختار نے امام حسینؑ اور آپ کے باوفا اصحاب کے خون کا بدلہ لینے کے قصد سے قیام کا آغاز کیا تو کوفہ کے شیعوں نے بھی مختار کا ساتھ دیا۔[35] مختار نے اس قیام میں دو نعروں یا لثارات الحسین اور یا منصور امت کا استعمال کیا۔[36] مختار نے اس قیام کے دوران شمر بن ذی الجوشن، خولی بن یزید، عمر بن سعد اور عبیداللہ بن زیاد جیسے کئی دوسرے افراد جو کربلا کے واقعے یا اس سے مربوط وقایع میں ملوث تھے، کو واصل جہنم کیا۔[37] اور ابن زیاد و عمر بن سعد کو سروں کو مدینہ امام سجاد علیہ السلام کے پاس بھیجا۔[38]
مختار کا امام سجادؑ سے رابطہ
امام سجادؑ کے مختار کے ساتھ رابطے کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ رجال کشی کی روایت کے مطابق، مختار نے 20000 دینار امامؑ کی خدمت میں بھیجے، امام نے اسے قبول کیا، اس کے ذریعے عقیل بن ابی طالب اور دوسرے بنی ہاشم کے خراب شدہ گھروں کی تعمیر فرمائی۔ اس کے علاوہ مختار نے 40000 درھم امام کی خدمت میں بھیجے مگر امام نے اسے قبول نہیں کیا۔[39] اسی طرح سے مختار نے 30000 درہم میں ایک کنیز خرید کر امام سجادؑ کو ہدیہ دیا جس کے بطن سے زید بن علی متولد ہوئے۔[40]
ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ کوفہ کے اشراف میں سے بعض امام سجادؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؑ سے مختار کے قیام کے متعلق سوال کیا تو آپ نے انہیں محمد بن حنفیہ کی طرف بھیجا اور فرمایا: اے میرے چچا! اگر کوئی سیاہ فارم غلام بھی ہم اہل بیتؑ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرے تو لوگوں پر واجب ہے کہ اس کی ہر ممکن حمایت کریں اس بارے میں جو کچھ مصلحت ہو انجام دیں۔ میں اس کام میں آپ کو اپنا نمائندہ قرار دیتا ہوں۔[41] آیت اللہ خوئی[42] اور عبداللہ مامقانی[43] نے قیام مختار کو امام زین العابدین کی اجازت کے ساتھ انجام پانے کی تصریح کی ہے۔
مختار کا محمد بن حنفیہ سے رابطہ
بعض روایات کے مطابق، مختار لوگوں کو محمد بن حنفیہ کی امامت کی طرف دعوت دیتے تھے۔[44] اسی سبب سے بعض انہیں کیسانیہ کا موسس اور ان کے پیروں کاروں کو کیسانیہ کہتے ہیں۔[45] آیت اللہ خوئی کے مطابق یہ بات صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ محمد بن حنفیہ نے امامت کا دعوی ہی نہیں کیا جو مختار کسی کو ان کی امامت کی دعوت دیتے۔[46] اور فرقیہ کیسانیہ مختار اور محمد بن حنفیہ کی وفات کے بعد وجود میں آیا ہے۔[47] عبداللہ مامقانی کے مطابق، مختار کے لقب کا کیسان ہونا دلیل نہیں بن سکتا ہے کہ وہ فرقہ کیسانیہ کے ماننے والے تھے۔[48]
نجات محمد بن حنفیہ
عبد اللہ بن زبیر کو جب مختار کے قیام کا پتہ چلا تو وہ محمد بن حنفیہ اور ان کے قریبی افراد پر پریشر ڈالنے لگا تاکہ اس کی بیعت کریں بصورت دیگر انہیں زندہ جلانے کی دھمکی دی۔ محمد بن حنفیہ نے مختار کو ایک خط لکھا اور اس سے مدد کی درخواست کی۔ مختار نے 400 افراد پر مشتمل ایک گروہ کو مکہ روانہ کیا اور محمد بن حنفیہ کو نجات دلائی۔[49]
مختار کے بارے میں مختلف روایات
مختار کے بارے میں موجود احادیث دو گروہ میں تقسیم ہوتی ہیں۔ ایک میں ان کی مدح سرائی تو دوسری میں ان کی مذمت کی گئی ہے۔
احادیث مدح
- امام سجادؑ سے نقل ہوا ہے کہ خدا مختار کو جزائے خیر عطا کرے۔[50]
- امام صادقؑ نے مختار کے بیٹے ابوالحکم سے جب ملاقات کی تو اس کی عزت و احترام کے بعد مختار کی تعریف کی اور فرمایا: تمہارے والد پر خدا کی رحمت ہو۔[51] عبداللہ مامقانی امامؑ کے مختار پر ترحم کو اس کے عقیدے کی صحت پر دلیل قرار دیتے ہیں۔ اس لئے کہ شیعہ مذھب میں ائمہؑ کی رضایت و خوشنودی خدا کی رضایت و خوشنودی کے تابع ہے۔ پس امام کا ترحم ایسے انسان کے لئے جو عقیدہ کے اعتبار سے منحرف ہو معقول نہیں ہے اور امام حسین علیہ السلام کے خون کا انتقام ترحم کا جواز نہیں بن سکتا ہے۔[52]
احادیث ذم
- امام باقرؑ سے روایت ہوئی ہے کہ امام سجادؑ نے مختار کے قاصد سے ملاقات نہیں کی اور اس کے بھیجے ہوئے تحفے تحائف کو واپس بھیج دیا اور اسے کذاب (جھوٹا) خطاب کیا۔ عبد اللہ مامقانی کے مطابق امام نے یہ رد عمل عبد الملک بن مروان و تقیہ کی وجہ سے ظاہر کیا۔[53]
- امام صادقؑ سے منقول ہے کہ مختار نے امام سجادؑ کی طرف جھوٹ کی نسبت دی ہے۔[54] آیت اللہ خوئی کے مطابق، یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔[55]
- امام حسنؑ ساباط میں تشریف فرما تھے تو مختار نے اپنے چچا سعد بن مسعود کو امام کو گرفتار کرکے معاویہ کے حوالے کرنے کی تجویز دی تاکہ ہمارا مقام و منصب متزلزل نہ ہو۔[56] آیۃ اللہ خویی نے اس حدیث کو مرسل ہونے کی وجہ سے اسے غیر قابل اعتماد قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تو ممکن ہے مختار اس چیز میں سنجیدہ نہ ہو بلکہ شاید وہ اپنے چچا کی رائے دریافت کرنا چاہتے تھے کہ وہ امام کے ساتھ کتنے سچے ہیں۔[57]
- ایک روایت میں آیا ہے کہ مختار اہل جہنم ہے لیکن امام حسینؑ کی شفاعت کے ذریعے نجات پائے گا۔[58] یہ حدیث بھی علم رجال کے ماہرین کے نزدیک ضعیف ہے۔[59]
- بعض روایات کے مطابق، مختار نے نبوت کا دعوت کیا تھا۔[60] عبد اللہ مامقانی کے مطابق شیعہ منابع میں ایسا کچھ بھی نقل نہیں ہوا ہے۔ مختار کی طرف یہ نسبت اہل سنت کی طرف سے دی گئی ہے۔ اس لئے کہ مختار نے ان کے بعض بزرگوں کو جو واقعہ کربلا میں آگے آگے تھے، قتل کیا ہے۔[61]
آیت اللہ خوئی نے مدح و ذم دونوں طرح کی روایات کو ذکر کرنے کے بعد مدح کی روایات کو ترجیح دی ہے۔[62]
مختار کے بارے میں نظریات
مختار کی شخصیت کے سلسلہ میں مخلتف نظریات ذکر ہوئے ہیں:
مختار اہل بیت کا انتقام لینے والے تھے
باقر شریف قرشی معتقد ہیں کہ مختار کا قیام جاہ طلبی اور ریاست طلبی کے لئے نہیں تھا۔ بلک انہوں نے اہل بیت پیغمبرؑ کے قاتلوں سے ان کے خون کا بدلہ لینے کیلئے قیام کیا تھا۔[63] نجم الدین طبسی کے بقول امام باقرؑ نے جس روایت میں مختار کیلئے طلب رحمت کی ہے وہ حدیث بہت معتبر حدیث ہے اور یہ روایت ایک طرح سے مختار کے قیام اور ان کے امام حسینؑ کے قاتلوں سے انتقام لینے کی صحت پر واضح دلیل ہے۔[64] ابن نما حلی کے بقول امام سجادؑ کا مختار کے حق میں جزائے خیر کی دعا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ امامؑ کی نگاہ میں مختار ایک نیک اور پرہیزگار شخص تھا۔[65] عبداللہ مامقانی کے مطابق مختار ائمہ معصومینؑ کی امامت کے قائل تھے اگر چہ ان کے بقول اس کی وثاقت ثابت نہیں ہے۔[66] مامقانی کے بقول علامہ حلی نے اپنی کتاب کے پہلے حصے میں مختار کا ذکر کیا ہے اور چونکہ علامہ حلی کسی غیر امامیہ کو حتی وہ کتنا مورد وثوق ہی کیوں نہ ہو اپنی کتاب میں ذکر نہیں کیا ہے۔ اس بنا پر یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ علامہ حلی کی نگاہ میں مختار شیعہ اور امامی تھے۔[67]
مختار قدرت طلب تھے
بعض معتقد ہیں کہ مختار کی زندگی کے مطالعہ اور تاریخی شواہد سے یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ مختار ایک قدرت طلب اور ریاست طلب آدمی تھے۔[68] اس نظریہ کے مطابق، مختار اہل بیت (ع) کے نام سے سوء استفادہ کرتے ہوئے اپنے مقاصد تک پہچنا چاہتے تھے۔[69] رسول جعفریان کے مطابق، یہ باتیں نا درست اور مختار کے خلاف بنی امیہ و بنی زبیر کی غلط تبلیغات کا نتیجہ ہیں۔[70]
مختار کے بارے قضاوت سے پرہیز
کتاب جامع الرواۃ میں میرزا محمد استر آبادی کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ مختار کو بدی کے ساتھ یاد نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اس سے منقول احادیث کو مورد اعتماد قرار نہیں دیتے ہیں اور آخر کار اس کے بارے میں کچھ نہیں کہتے۔[71] علامہ مجلسی مختار کے ایمان کو غیر کامل قرار دیتے ہوئے اس کے قیام کو امام سجادؑ کی اجازت کے بغیر قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان کی نظر میں چونکہ مختار نے بہت سارے اچھے اقدامات انجام دیئے ہیں اس لئے وہ عاقبت بخیر ہوئے ہیں آخر میں علامہ مجلسی مختار کے بارے میں توقف کرنے پر تصریح کرتے ہیں۔[72] علامہ شعرانی شیخ عباس قمی کی کتاب نفس المہموم کے ترجمہ دمع السجوم تحریر کرتے ہیں کہ مختار تیزہوش اور زیرک اور عرب کے شجاع ترین افراد میں سے تھے۔ وہ ان کے سلسلہ میں متناقض اخبار کو نہیں قبول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ بندوں کا اعمال کا حساب قیامت کے روز اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ لوگوں کو ان کے اعمال اور نیات کے اعتبار سے جزا دے گا اور مختار نے بھی دوسرے تمام انسانوں کی طرح سے اچھے اور برے اعمال انجام دیئے ہیں۔ وہ مختار کی داستان کے آخر میں مختار اور ان کے سات ہزار ساتھیوں کے قتل کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ان کے قتل کے بعد معاملہ اپنے پہلے کی طرف پلٹ گیا اور حکومت اہل بیت (ع) کے دشمنوں کے ہاتھوں میں چلی گئی اور مصیبت رہنے دیں۔ حتّی یقوم قائم ال محمد صلی الله علیہ و آلہ۔[73]
مختار اہل سنت علماء کی نظر میں
اہل سنت کے بعض منابع میں مختار کی طرف ناصبی و کذاب کی نسبت دی گئی ہے۔ پیغمبرؐ سے ایک حدیث منسوب ہے کہ آپ نے فرمایا: قبیلہ ثقیف سے ایک جھوٹا اور ظالم شخص آئے گا۔ اس روایت کی راوی اسماء ابوبکر کی بیٹی اور عبد اللہ بن زبیر کی ماں ہے۔[74] کہا گیا ہے کہ اس روایت جھوٹے سے مراد مختار ہیں۔[75] اس بات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ روایت میں مختار کا نام نہیں ہے بلکہ راوی نے اس کا اضافہ کیا ہے۔ اسی طرح سے یہ روایت، ان دوسری روایات سے جن میں دوسرے افراد کو جھوٹا و ظالم کہا گیا ہے، تعارض رکھتی ہے۔[76] تاریخی شواہد کے مطابق حجاج بن یوسف حضرت علیؑ اور مختار پر لعن کرنے کا حکم دیتا تھا۔[77] تقی الدین احمد مقریزی نے مختار کو خوارج میں سے قرار دیا ہے۔[78]
ازواج اور اولاد
مختار کی چار بیویاں تھیں: ام ثابت بنت سمرۃ بن جندب،[79] عمرہ بنت نعمان بن بشیر (اسلام میں پہلی خاتون جس کی گردن اڑائی گئی)[80] ام زید الصغری بنت سعید بن زید بن عمرو،[81] أم الولید بنت عمیر بن رباح۔[82] ام ثابت سے محمد و اسحاق پیدا ہوئے،[83] ام ولید سے سلمہ[84] ان کی شادی عبد اللہ بن عمر کے بیٹے عبد اللہ سے ہوئی۔[85]
ابو الحکم،[86] جبر،[87] امیہ،[88] بلال[89] و عمر (جنہیں ابو مسلم خراسانی نے ری کا گورنر بنایا تھا)[90] بھی ان کے بیٹے ہیں۔
وفات اور مقبرہ
قیام کے بعد 18 ماہ کوفہ پر حکومت کے بعد آخر کار 14 رمضان[91] سنہ 67 ہجری کو 67 سال کی عمر میں مصعب بن زبیر کے ہاتھوں قتل ہوئے۔[92] مصعب کے حکم پر مختار کا ہاتھ کاٹ کر مسجد کوفہ کی دیواروں کے ساتھ کیل لگایا گیا لیکن جب حجاج بن یوسف کوفہ پر قابض ہوا تو چونکہ وہ بھی قبیلہ ثقیف سے تھا اس بنا پر اس نے مختار کے ہاتھوں کو دفن کرایا۔[93] مختار کا مزار مسجد کوفہ سے متصل ہے اور شہید اول نے کتاب المزار میں ان کے لئے ایک زیارت نامہ ذکر کیا ہے۔[94]
مختار کے سلسلہ میں تالیفات و آثار
کتاب
مختار کے سلسلہ میں کتابیں تحریر کی گئیں ہیں۔ ان کتابوں میں ان کی شخصیت اور ان کے قیام کے اہداف و مقاصد کے بارے میں تحقیق کی گئیں ہیں۔ آقا بزرگ تہرانی نے کتاب الذریعہ میں ان کے بارے میں لکھی گئیں کتابوں کی تعداد 37 سے زیادہ ذکر کی ہیں۔[95] ان میں سے بعض یہ ہیں:
- شرح الثّار فی أحوال المختار مؤلف ابن نما حلی[96] علامہ مجلسی نے اس کتاب کو مکمل طور پر بحار الانوار کی پندرہویں جلد میں ذکر کیا ہے۔[97]
- روضۃ المجاہدین؛ فارسی میں ایسی کتاب جو مختار اور اس کے جنگی کارناموں کے بارے میں احادیث پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے مضامین نثری اور منظوم دونوں صورتوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے مؤلف واعظ ہروی ہے۔ یہ کتاب (قرن 10ھ) ایک مقدمہ 20 باب اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے جسے وہ ماہ محرم میں ممبر سے لوگوں کیلئے حکایت کرتے تھے۔ اس کتاب کی قرائت کئی مدتوں ممبروں سے پڑھا کرتے تھے یہ کتاب 520 صفحات پر مشتمل اسی نام سے انتشارات ققنوس کے توسط سے منظر عام پر آئی ہے۔
مختارنامہ
مختار نامہ، ایک ٹی وی سیریل ہے جسے مختار کی زندگی اور ان کے قیام کے حوالے سے بنایا گیا ہے۔ یہ سیریز ایران کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہو چکی ہے۔ اس کے ڈائریکٹر داود میر باقری ہیں۔ یہ سیریل ایک ایک گھنٹے کی 40 قسطوں پر مشتمل تھا۔ اس کی پہلی قسط بروز جمعہ 9 مہر ماہ سنہ 1389 جبکہ آخری قسط 7 مرداد ماہ سنہ 1390 کو ایران کے سرکاری ٹی وی کے چینل نمبر ایک پر نشر ہوئی ہے۔[98] اس سیریل میں فریبرز عرب نیا نے مختار کا کردار ادا کیا ہے۔
فوٹو گیلری
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۳۴۶۔
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۳۴۷۔
- ↑ ابن اثیر ، اسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۱۔
- ↑ ابن قتیبہ، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۴۰۰.
- ↑ ابن طیفور، بلاغات النساء، ۱۳۲۶ق، ج۱، ص۱۲۸.
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابة، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۳۴۷.
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابة، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۳۴۶و۳۴۷: ابن حجر، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۶، ص۲۷۵.
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابة، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۳۴۶.
- ↑ اخبار الدولة العباسیہ، ۱۳۹۱ق، ص۱۶۵.
- ↑ کشی، رجال الکشی، ۱۴۰۹ق، ص۱۲۷.
- ↑ أسد الغابۃ، ج۴،ص:۳۴۷
- ↑ ابن نما حلی، ذوب النضار، ۱۴۱۶ق، ص۶۱.
- ↑ ابن حجر، الاصابة، ۱۴۱۵ق، ج۷، ص۲۲۳.
- ↑ دینوری، اخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۲۰۵.
- ↑ دینوری، اخبارالطوال، ۱۳۶۸ش، ص۲۰۵.
- ↑ ذہبی، سیر اعلام النبلا، جلد۳، ص۵۴۴
- ↑ دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۲۳۱.
- ↑ دینوری، اخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۲۳۳.
- ↑ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۵۶۹؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۶، ص۳۷۶.
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۶، ص۳۷۷؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۵۶۹.
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۶، ص۳۷۷؛ ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۶، ص۲۹.
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابة، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۳۴۷.
- ↑ ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۶، ص۲۹.
- ↑ مقرم، مقتل الحسین، ۱۴۲۶ق، ص۳۴۷.
- ↑ مقرم، مقتل الحسین، ۱۴۲۶ق، ص۳۴۷.
- ↑ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج۶، ص۱۵.
- ↑ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج۶، ص۱۵.
- ↑ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج۶، ص۱۸.
- ↑ مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیة، ج۶، ص۲۰.
- ↑ ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۶، ص۲۹.
- ↑ ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۶، ص۳۵.
- ↑ ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۶، ص۳۰.
- ↑ ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۶، ص۵۱.
- ↑ ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۶، ص۵۱.
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابة، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۳۴۷.
- ↑ نگاه کنید به طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۶، ص۲۰.
- ↑ أسد الغابۃ، ج۴، ص:۳۴۷
- ↑ کشی، رجال الکشی، ۱۴۰۹ق، ص۱۲۷.
- ↑ کشی، رجال الکشی، ۱۴۰۹ق، ص۱۲۸.
- ↑ ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، دار المعرفہ، ص۱۲۴.
- ↑ بحار الأنوار، ج۴۵، ص۳۶۵
- ↑ معجم الرجال، ج۱۸ص ۱۰۰
- ↑ تنقیح المقال، ج۳ص ۲۰۶
- ↑ کشی، رجال الکشی، ۱۴۰۹ق، ص۱۲۸.
- ↑ اخبار الدولة العباسیہ، ۱۳۹۱ق، ص۱۶۵.
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۱۸، ص۱۰۱.
- ↑ معجم رجال الحدیث، ج۱۸، ۱۴۱۰ق، ص۱۰۲و ۱۰۳.
- ↑ مامقانی، تنقیح المقال، ۱۳۴۹ق، ج۳، ص ۲۰۵و۲۰۶.
- ↑ اخبار الدولة العباسیة، ۱۳۹۱ق، ص۱۰۰-۱۰۴؛ مقدسی، البداء و التاریخ، مکتبة الثقافیة الدینیة، ج۶، ص۲۱.
- ↑ رجال کشی، ص۱۲۷
- ↑ تنقیح المقال ج۳ص ۲۰۵
- ↑ تنقیح المقال ج۳ص ۲۰۵
- ↑ معجم الرجال ج۱۸ص ۹۶
- ↑ رجال کشی، ص۱۲۵، ح۱۹۸
- ↑ معجم الرجال، ج۱۸ص۹۶
- ↑ علل الشرائع، ج۱، ص: ۲۲۱
- ↑ معجم الرجال ج۱۸ص ۹۷
- ↑ تہذیب الأحکام (تحقیق خرسان)، ج۱، ص: ۴۶۶
- ↑ معجم الرجال، ج۱۸ص ۹۷
- ↑ ابن حزم، جمهرة الانساب العرب، ۱۴۰۳ق، ص۲۶۸.
- ↑ مامقانی، تنقیح المقال، ۱۳۴۹ق، ج۳، ص۲۰۵و۲۰۶.
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۰ق، ج۱۸، ص۹۵.
- ↑ قرشی، حیاة الامام الحسین (ع)، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۴۵۳-۴۵۴.
- ↑ | پایگاہ اطلاع رسانی شیخ نجم الدین طبسی
- ↑ بحار الأنوار، ج۴۵، ص ۳۴۶.
- ↑ مامقانی، تنقیح المقال، ۱۳۴۹ق، ج۳، ص۲۰۶.
- ↑ تنقیح المقال ج۳، ص ۲۰۶.
- ↑ جوانمرد ثقفی، پایگاه علمی و فرهنگی کلباسی
- ↑ جوانمرد ثقفی، پایگاه علمی و فرهنگی کلباسی
- ↑ «داستان قیام مختار داستان مبهمی در تاریخ اسلام نیست»
- ↑ اردبیلی، جامع الرواة، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۲۲۱.
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ج۴۵، ص۳۳۹.
- ↑ شعرانی، ابو الحسن، دمع السجوم ترجمہ نفس المهموم، ص۳۴۳و۳۷۳، نشر کتاب فروشی اسلامیہ،۱۳۷۴ق.
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۹۰۹.
- ↑ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۹۰۹.
- ↑ «فصل دوم: بررسي مطالب مطرح شده بر ضد مختار در كتب اهل سنت»، مؤسسہ تحقیقاتی ولیعصر.
- ↑ نگاه کنید بہ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۶، ص۱۶۸.
- ↑ إمتاع الأسماع،ج۱۴،ص:۱۵۷
- ↑ ابن قتیبہ، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۴۰۱.
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۲۶۴.
- ↑ ابن حبیب، المحبر، دار الآفاق الجدیده، ص۷۰.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۳۴۵.
- ↑ ابن قتیبہ، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۴۰۱.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۳۴۶.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۳۴۵.
- ↑ ذهبی، تاریخ الاسلام، ج۱۷، ص۱۰۵.
- ↑ ابن حزم، جمهرة الانساب العرب، ۱۴۰۳ق، ص۲۶۸.
- ↑ ابن حزم، جمهرة الانساب العرب، ۱۴۰۳ق، ص۲۶۸.
- ↑ طوسی، رجال الطوسی، ۱۳۷۳ش، ص۵۶۸.
- ↑ اخبار الدولة العباسیة، ص۲۶۲.
- ↑ المنتظم، ج۶،ص:۶۸
- ↑ أسد الغابۃ،ج۴،ص:۳۴۷
- ↑ الکامل، ج۴،ص:۲۷۵
- ↑ شهید اول، المزار، ۱۴۱۰ق، ص۲۸۴.
- ↑ غلام علی و غریب، «مختار ثقفی در گستره آثار رجالیان»، ص۷۷.
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ج ۱،ص۳۷۰.
- ↑ بحار الانوار. ج ۴۵،ص۳۴۷ ۳۹۰.
- ↑ .«مختار نامہ». سیما فیلم، ۳ آذر ۱۳۸۷.
مآخذ
- ابن اثیر، ابوالحسن علی بن محمد، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، بیروت،دار الفکر، ۱۴۰۹/۱۹۸۹.
- ابن اثیر، ابوالحسن علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت،دار صادر -دار بیروت، ۱۳۸۵/۱۹۶۵.
- ابن اعثم کوفی، احمد الکوفی، کتاب الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، ط الأولی، ۱۴۱۱/۱۹۹۱.
- ابن بابویہ، محمد بن علی علل الشرایع، کتاب فروشی داوری، قم ۱۳۸۵ش / ۱۹۶۶ م.
- ابن جوزی، أبو الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد (م ۵۹۷)، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد عبد القادر عطا و مصطفی عبد القادر عطا، بیروت،دار الکتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
- ابن حبیب، ابوجعفر محمدبن حبیب بن امیہ، کتاب المحبر، تحقیق ایلزۃ لیختن شتیتر، بیروت،دار الآفاق الجدیدۃ.
- ابن حجر، احمد بن علی العسقلانی (م ۸۵۲)،الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، تحقیق عادل احمد عبد الموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۱۵/۱۹۹۵.
- ابن حزم،: جمہرۃ أنساب العرب، تحقیق لجنۃ من العلماء، بیروت،دار الکتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۰۳/۱۹۸۳
- ابن خلدون، عبدالرحمن بن خلدون، مقدمہ ابن خلدون، ترجمہ محمد پروین گنابادی، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی،چ ہشتم، ۱۳۷۵ش.
- ابن قتیبہ ابومحمد عبداللہ بن مسلم، المعارف، تحقیق ثروت عکاشۃ، القاہرۃ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، ط الثانیۃ، ۱۹۹۲.
- ابن سعد، محمد بن سعد بن منیع الہاشمی، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت،دار الکتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۱۰/۱۹۹۰.
- ابن طقطقی، محمد بن علی بن طباطبا، الفخری فی الآداب السلطانیۃ و الدول الاسلامیۃ، تحقیق عبد القادر محمد مایو، بیروت،دار القلم العربی، ط الأولی، ۱۴۱۸/۱۹۹۷.
- ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، تحقیق سید احمد صقر، بیروت،دار المعرفۃ، بیتا.
- بینش، عبدالحسین، با کاروان حسینی(ترجمہ مع رکب الحسینی)، زمزم ہدایت، قم، ۱۳۸۶ش.
- دینوری، ابوحنیفہ احمد بن داود(م۲۸۳)اخبار الطوال، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، نشر نی، چ چہارم، ۱۳۷۱ش.
- امین، سید محسن، اعیان الشیعہ،دار التعارف، بیروت، ۱۴۰۶ق.
- بسوی، ابویوسف یعقوب بن سفیان، کتاب المعرفۃ و التاریخ، تحقیق اکرم ضیاء العمری، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، ط الثانیۃ، ۱۴۰۱/۱۹۸۱.
- البلاذری أحمد بن یحیی بن جابر(م ۲۷۹)، کتاب جمل من انساب الأشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت،دار الفکر، ط الأولی، ۱۴۱۷/۱۹۹۶.
- جمعی از نویسندگان، پیامدہای عاشورا، زمزم، قم، 1387
- خویی، ابو القاسم، ۱۳۷۲، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواہ، مرکز نشر الثقافہ الاسلامیہ، قم.
- دینوری،ابو حنیفہ احمد بن داود، الأخبار الطوال، تحقیق عبد المنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال،قم، منشورات الرضی، ۱۳۶۸ش.
- دینوری، ابو حنیفہ احمد بن داود،اخبار الطوال، ترجمہ محمود مہدوی دامغانی، تہران، نشر نی، چ چہارم، ۱۳۷۱ش.
- ذہبی، شمس الدین محمد بن احمد، سیراعلام النبلاء، مؤسسہ الرسالہ، بیروت، ۱۴۱۰، چاپ ہفتم.
- ذہبی،شمس الدین محمد بن احمد(م ۷۴۸)، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، تحقیق عمر عبد السلام تدمری، بیروت،دار الکتاب العربی، ط الثانیۃ، ۱۴۱۳/۱۹۹۳.
- زرلکی، خیرالدین، الأعلام قاموس تراجم لأشہر الرجال و النساء من العرب و المستعربین و المستشرقین، بیروت،دار العلم للملایین، ط الثامنۃ، ۱۹۸۹.
- سمعانی، أبو سعید عبد الکریم بن محمد بن منصور التمیمی،الأنساب، تحقیق عبد الرحمن بن یحیی المعلمی الیمانی، حیدر آباد، مجلس دائرۃ المعارف العثمانی.
- طبری، ابوجعفر محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، أبو جعفر محمد بن جریر الطبری (م ۳۱۰)، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت،دار التراث، ط الثانیۃ، ۱۳۸۷/۱۹۶۷.
- طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام،دار الکتب الإسلامیہ، تہران، ۱۴۰۷ ق.
- طوسی، محمد بن حسن(۴۶۰ق)، رجال طوسی، مؤسسہ نشراسلامی متعلق بہ جامعہ مدرسین، قم، ۱۳۷۳ش.
- کریوتلی، علی حسین، آینہ عصر اموی یا مختار ثقفی، ترجمہ ابو الفضل طباطبائی،تہران،پدیدہ، ۴۴۳۱ حبیبی.
- کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی- إختیار معرفۃ الرجال، مؤسسۃ نشر دانشگاہ مشہد، مشہد، ۱۴۰۹ ق،چاپ اول.
- مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال،مطبعہ المرتضویہ، نجف.۱۳۴۹ق.
- مجلسی، محمد باقر بن محمد تقی(۱۱۱۰)ق، بحار الانوار،دار إحیاء التراث العربی، بیروت ۱۴۰۳ ق.
- مجہول(ق ۳)، أخبار الدولۃ العباسیۃ و فیہ أخبار العباس و ولدہ، تحقیق عبد العزیز الدوری و عبد الجبار المطلبی، بیروت،دار الطلیعۃ، ۱۳۹۱.
- المسعودی، أبو الحسن علی بن الحسین بن علی (م ۳۴۶)، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم،دار الہجرۃ، چ دوم، ۱۴۰۹.
- مقدسی، مطہر بن طاہر، آفرینش و تاریخ، ترجمہ محمد رضا شفیعی کدکنی، تہران، آگہ، چ اول، ۱۳۷۴ش.
- مقریزی،تقی الدین أحمد بن علی(م ۸۴۵) إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدۃ و المتاع، تحقیق محمد عبد الحمید النمیسی، بیروت،دار الکتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۲۰/۱۹۹۹.
- یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت،دار صادر، بیتا.
- جزائری، نعمت اللہ بن عبد اللہ (۱۱۱۲ ق)، ریاض الأبرار فی مناقب الأئمۃ الأطہار، مؤسسۃ التاریخ العربی، بیروت، ۱۴۲۷ ق- ۲۰۰۶ م، چاپ اول.
- آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، بیروت،دار الاضواء، چاپ سوم، ۱۴۰۳ق.
- علامہ مجلسی، بحار الأنوار، تحقیق: محمد باقر محمودی/ عبدالزہراء علوی، بیروتدار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق.
- ابن شہر آشوب، معالم العلماء، مشہد، مؤسسہ آل البیتؑ، ۱۳۹۰ش.
- مہدی غلام علی، مجتبی غریب، مختار ثقفی در گسترہ آثار رجالیان، مجلہ حدیث اندیشہ، سال پنجم و ششم، شمارہ ۱۰-۱۱.
|
|