غِنا گانا گانے کے معنی میں ہے اور فقہ میں گانے کے احکام کے بارے میں بحث ہوتی ہے۔ فقہا نے غنا کی مختلف تعریفیں کی ہیں۔ بعض نے ہر قسم کے گیت گانے کو غنا کہا ہے جبکہ بعض نے ایسے گانوں کو غنا کہا ہے جو باطل اور ناحق مضمون پر مشتمل اور موسیقی کے ساتھ ہو اور لہو و لعب کے محافل سے سازگار ہو۔

چودہویں اور پندرہویں صدی ہجری کے اکثر فقہا غنا کی دوسری قسم کو حرام قرار دیتے ہیں، البتہ بعض فقہاء ہر قسم کی گائکی کو حرام سمجھتے ہیں۔

فقہی تعریف

فقہا غنا کی مختلف تعریفیں کرتے ہیں۔ بعض نے صرف گائیکی کو مدنظر رکھا ہے جبکہ بعض نے گانے کے ساتھ ساتھ اس کے مضمون پر بھی توجہ دی ہے۔ علامہ حلی، محقق کَرَکی اور شہید ثانی جیسے فقہا کے نزدیک حلق میں آواز کے گھومانے اور کھینچنے کو غنا کہا جاتا ہے۔[1] شیخ طوسی اور فیض کاشانی جیسے بعض فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ غنا اس گائیکی کو کہا جاتا ہے جو باطل مضمون پر مشتمل ہو اور دھن کے ساتھ گائی گئی ہو۔[2]

فقہی احکام

بعض فقہا ہر قسم کے غنا کو حرام سمجھتے ہیں اور اس پر اجماع کا بھی دعوا کرتے ہیں؛ جن میں شیخ طوسی، شہید ثانی، صاحب جواہر، نراقی اور آیت‌ اللہ خویی وغیرہ شامل ہیں۔[3]

بعض فقہاء بذاتہ غنا کے حرام ہونے کے قائل نہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ اگر گائیکی طرب (مست کرنے والی) یا لہو و لعب کے ساتھ ہو تو حرام ہے؛ ان فقہاء میں محقق کرکی[4]، فیض کاشانی[5]، محقق سبزواری،[6] شیخ انصاری[7] اور امام خمینی وغیرہ شامل ہیں۔[8] شامل ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ فقہاء کے درمیان غنا کے حرام ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے پائے جانے والے اختلاف رائے کا سبب غنا کی تعریف کا مختلف ہونا ہے؛ کیونکہ بعض نے مطرب ہونے یا لہو و لعب کے ساتھ سازگار ہونے کو غنا کی تعریف میں شامل کرتے ہوئے غنا کو بذاتہ حرام سمجھتے ہیں۔ جبکہ بعض فقہاء مطرب ہونے اور لہو و لعب کے ساتھ سازگار ہونے کو غنا سے الگ سمجھتے ہوئے غنا کو بذاتہ حرام نہیں سمجھتے۔[9]

حلال غنا

وہ فقہا جو غنا کو بذاتہ (مطرب ہو یا نہ ہو لہو و لعب سے سازگار ہو یا نہ ہو) حرام سمجھتے ہیں انہوں نے بعض موارد کو اس حرام ہونے سے نکال دیا ہے اور حلال جانتے ہیں؛ جیسے قرآئت قرآن، دعا، مرثیہ‌خوانی اور شادی بیاہ اور عیدوں کے جشن میں غنا؛ لیکن جو بذاتہ حرام کے قائل ہیں ان کا کہنا ہے کہ غنا اگر کسی دوسرے حرام کام کے ساتھ نہ ہو جیسے؛ مطرب نہ ہونا یا لہو و لعب میں شامل نہ ہونا، اس صورت میں حلال ہے۔[10]

14ویں اور 15ویں صدی ہجری کے فقہا کا فتوا

14ویں اور 15ویں صدی ہجری کے فقہا جیسے آیت‌اللہ خامنہ‌ای، آیت‌اللہ تبریزی، آیت‌اللہ فاضل اور آیت‌اللہ مکارم، گائیکی اور میوزک میں فرق کے قائل ہیں۔غنا کو طرب اور لہو و لعب یا عیش و نوش کے مجالس سے متناسب گانے کو اور میوزک طرب آور طریقے سے بجانے اور عیش و نوش کی مجالس سے متناسب ہونے کو کہا ہے لہذا گانے اور اس کو سننے کو حرام سمجھا ہے۔[11]

اس بنا پر اکثر فقہا کہ کہنا ہے کہ اگر غنا طرب اور مجالس لہو و لعب سے مناسب نہ ہو تو حلال ہے۔ آیت‌اللہ تبریزی نے فتوادیا ہے کہ ہر وہ آواز جو حلق میں گھومائی جاتی ہے اگرچہ اس کا مضمون باطل اور ناحق نہ ہو تب بھی احتیاط واجب کی بنا پر اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔[12] اسی طرح آیت‌اللہ صافی گلپایگانی ہر قسم کی گائیکی اور موسیقی کو حرام جانتے ہیں۔[13]

غنا کے بارے میں مستقل کتابیں

"کتاب غنا و موسیقی" کے مطابق صفویہ دور میں چونکہ گائیکی سننے کا رواج عام تھا جسے موسیقی کے ساتھ گایا جاتا تھا۔ اس وقت سے فقہا نے غنا کے مسئلے پر توجہ دینا شروع کیا یہاں تک کہ اس حوالے سے مستقل کتابیں بھی لکھی گئیں۔ اس کتاب میں صفویہ دور سے اسلامی انقلاب سے پہلے تک موسیقی کے بارے میں دستیاب یا دوسری کتابوں میں مذکور لیکن غیر دسترس تمام رسالوں کی تعداد 49 بیان کی گئی ہیں۔[14] ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

درسنامہ غناء و موسیقی

یہ متن آیت‌الله خامنہ ای کے غناء اور موسیقی کے عنوان سے دیا گیا درس خارج ہے جو درس‌نامہ غناء و موسیقی کے عنوان سے نشر ہوچکا ہے۔ اس کتاب میں تقریبا سو احادیث سے استناد کرتے ہوئے غنا اور حرام موسیقی کو بیان کیا گیا ہے۔اس کتاب کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای کے نزدیک موسیقی خود سے حرام نہیں ہے بلکہ اس کے حرام ہونے کا معیار یہ ہے کہ سننے والے کو اللہ کے راستے سے گمراہ کرے۔[15] یہ کتاب سنہ 2019ء میں 560 صفحوں میں فارسی زبان میں طبع ہوئی۔[16]

حوالہ جات

  1. علامہ حلی، قواعدالاحکام، 1413ق، ج3، ص495؛ محقق کرکی، جامع‌المقاصد، 1414ق، ج4، ص23؛ شہید ثانی، الروضة البہیہ، 1410ق، ج 3، ص212.
  2. شیخ طوسی، استبصار، 1390ق، ج3، ص69؛ فیض کاشانی، وافی‌، 1406ق، ج17، ص218.
  3. یوسفی مقدم، پژوہش در غنا، 1391ش، ص19-20.
  4. محقق کرکی، جامع‌المقاصد، 1414ق، ج4، ص23.
  5. فیض کاشانی، وافی‌، 1406ق، ج17، ص218.
  6. محقق سبزواری، کفایةالاحکام، 1423ق، ج1، ص432-433.
  7. شیخ انصاری، مکاسب محرمہ، 1411ق، ج1، ص141-145.
  8. خمینی، مکاسب‌ محرمہ، 1415ق، ج1، ص299.
  9. یوسفی مقدم، پژوہش در غنا، 1391ش، ص22-31؛ قاضی‌زادہ، «غنا از دیدگاہ اسلام»، ص337-341؛ سیدکریمی، «نقد و بررسی تعاریف موجود در موضوع غناء»، ص117- 120.
  10. نوری، موسیقی و غنا‌ از دیدگاہ اسلام، 1385ش، ص239-269؛ ایزدی‌فرد، «پژوہشی تحلیلی پیرامون مبانی فقہی غناء و موسیقی»، ص74.
  11. محمودی، مسائل جدید از دیدگاہ علما و مراجع تقلید، 1385ش، ج1، ص48-54.
  12. محمودی، مسائل جدید از دیدگاہ علما و مراجع تقلید، 1385ش، ج1، ص48-54.
  13. محمودی، مسائل جدید از دیدگاہ علما و مراجع تقلید، 1385ش، ج3، ص80.
  14. مختاری و صادقی، غناء و موسیقی، 1377ش، ج3، 2039- 2041 و ج4، ص22.
  15. خامنه‌ای، غناء، ۱۳۹۸ش، ص452.
  16. خامنہ ای، غناء، 1398شمسی، مقدمه.

مآخذ

  • ایزدی‌فرد، علی‌اکبر و حسین کاویار، «پژوہشی تحلیلی پیرامون مبانی فقہی غناء و موسیقی»، فصلنامہ کاوش‌ہای دینی، شمارہ 6، پاییز و زمستان 1390ہجری شمسی۔
  • خمینی، سیدروح‌اللہ، المکاسب المحرمہ، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی (رہ)، 1415ھ۔
  • سیدکریمی، سیدعباس، «نقد و بررسی تعاریف موجود در موضوع غناء»، فصلنامہ الہیات ہنر، شمارہ2، تابستان 1393ہجری شمسی۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی،‌ الروضةُ البہیةُ فی شرحِ اللمعةِ الدمشقیہ، قم، کتابفروشی داوری، 1410ھ۔
  • شیخ انصاری، مرتضی، المکاسب المحرمة و البیع و الخیارات، قم، منشورات‌دار الذخائر،‌ 1411ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الاستبصار فیما اختَلَفَ مِنَ الاَخبار‌، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیة‌، 1390ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف،‌ قواعد الاَحکام فی معرفة الحلال و الحرام‌، تحقیق و تصحیح گروہ پژوہش دفتر انتشارات اسلامی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ، 1413ھ۔
  • فضلی، عبدالہادی و محمدہادی معرفت، بررسی فقہی پدیدہ غنا، ماہیت و حکم آن، ترجمہ مجتبی الہی خراسانی، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، 1385ہجری شمسی۔
  • فیض کاشانی، محمدمحسن،‌ الوافی، تحقیق و تصحیح ضیاءالدین حسینی اصفہانی‌، اصفہان، کتابخانہ امام امیرالمؤمنین علی(ع)، 1406ھ۔‌
  • قاضی‌زادہ، کاظم، «غنا از دیدگاہ اسلام»، فصلنامہ کاوشی نو در فقہ، شمارہ 4 و 5، تابستان و پاییز 1374ہجری شمسی۔
  • محقق سبزواری، محمدباقر بن محمدمؤمن،‌ کفایةالاحکام‌، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم‌، 1423ھ۔
  • محقق کَرَکی، علی بن حسین‌، جامع المقاصد فی شرح القواعد‌، قم، مؤسسہ آل‌البیت علیہم‌السلام‌، 1414ھ۔
  • محمودی، سیدمحسن، مسائل جدید از دیدگاہ علما و مراجع تقلید، ورامین، انتشارات علمی‌فرہنگی صاحب‌الزمان، 1385ہجری شمسی۔
  • صادقی، محسن و رضا مختاری، غناء و موسیقی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، 1377ہجری شمسی۔
  • نوری، محمداسماعیل، موسیقی و غنا از دیدگاہ اسلام، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، 1385ہجری شمسی۔
  • یوسفی مقدم، محمدصادق، پژوہش در غنا از نگاہ قرآن و روایات تفسیری، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، 1391ہجری شمسی۔