روز عرفہ
روز عَرَفَہ ماہ ذوالحجہ کے نویں اور عید الاضحی سے پہلے والے دن کو کہا جاتا ہے۔ شیعہ فقہ کے مطابق حاجیوں کیلئے اس دن ظہر سے لے کر مغرب تک عرفات میں ٹھہرنا ضروری ہے۔ عرفہ کا دن مسلمانوں کے ہاں بافضیلت ترین دنوں میں سے ایک ہے۔ احادیث میں اس دن کے حوالے سے مختلف اعمال ذکر ہوئے ہیں جن میں سے افضل ترین عمل دعا اور استغفار کرنا ہے۔ اس دن امام حسینؑ کی زیارت بھی مستحب موکد ہے۔ اس کے علاوہ دعائے عرفہ بھی اس دن کے مستحب اعمال میں شامل ہے جس پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔
وجہ تسمیہ

"عَرَفَہ" عربی زبان کا لفظ ہے جو مادہ "ع ر ف" سے کسی چیز کے آثار میں تفکر اور تدبر کے ساتھ اس کی شناخت اور ادراک کے معنی میں آتا ہے۔ [1] عرفہ کا نام سرزمین عرفات (مکہ مکرمہ کی وہ جگہ ہے جہاں حاجی ٹھہرتے ہیں) سے ماخوذ ہے اور عرفات کو اس لئے عرفات کہا جاتا ہے کہ یہ پہاڑوں کے درمیان ایک نمایاں اور شناختہ شدہ زمین ہے۔[2]
مکہ مکرمہ سے متعلق آثار کی تحقیق کے سلسلے میں قدیم تاریخ جیسے "اخبار مکہ" میں اس کے بارے میں آیا ہے کہ سرزمین عرفات کو کبھی عرفہ بھی کہا جاتا ہے۔ دسویں صدی ہجری میں زندگی بسر کرنے والے مکی تاریخ دان سخاوی کا کہنا ہے کہ لفظ "عَرَفات" لفظ "قَصَبات" کی طرح جمع ہے اور ہر جز کو عرفہ کہا جاتا ہے جبکہ پورے علاقے کو عرفات کہا جاتا ہے۔[3]
اہمیت اور فضیلت
- روز عرفہ مناسک حج کے آغاز کا دن ہے۔ اس دن حاجی میدان عرفات میں جمع ہو کر دعا اور استغفار کے ساتھ حج جیسے فریضے کی ادائیگی کی توفیق نصیب ہونے پر خدا کا شکر بجا لاتے ہیں۔ اس دن کی اہمیت کے پیش نظر معصومینؑ سے اس دن کے مخصوص اعمال، دعائیں اور مناجات وارد ہوئے ہیں۔[4] ان میں سے مشہور ترین دعا، دعائے عرفہ امام حسینؑ ہے جو دعائے عرفہ کے نام سے مشہور ہے۔ شیعیان جہان اپنے امام کی اقتداء میں میدان عرفات اور دنیا کے دیگر مقامات پر اس دن اس دعا کے پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایک اور دعا بھی اس دن پڑھنے کی تاکید ہوئی ہے جو امام سجادؑ سے وارد ہوئی ہے۔ [5]
- بہت ساری احادیث میں اس دن کو گناہوں کی مغفرت کا خصوصی دن قرار دیا گیا ہے۔[6]
- یہ دن دعائیں قبول ہونے کا دن ہے۔[7]
- ائمہ معصومین اس دن کیلئے ایک خاص احترام کے قائل تھے اور لوگوں کو اس دن کی اہمیت سے روشناس کراتے اور انہیں اس دن کے اعمال کی طرف متوجہ کراتے تھے اور کبھی بھی کسی سائل کو خالی ہاتھ واپس نہیں بھیجتے تھے۔[8]
فقہی احکام
- شیعہ فقہ کے مطابق حاجیوں پر ذوالحجہ کی نویں تاریخ کو ظہر سے مغرب تک میدان عرفات میں توقف کرنا واجب ہے۔ یہ توقف حج کے ارکان میں سے ہے۔ یعنی اگر کوئی حاجی عرفات نہ جائے اور وہاں کچھ وقت توقف نہ کرے تو اس کا حج باطل ہے۔ [9]
- اہل سنت کے مذاہب اربعہ عرفات میں توقف کے وقت میں اختلاف نظر رکھتے ہیں:
- دسویں ذوالحجہ، مغرب سے عید کی صبح ہونے تک؛
- نویں ذوالحجہ کی صبح سے لے کر عید کی صبح تک؛
- نویں ذوالحجہ ظہر سے عید قربان کی صبح تک۔[10]
روز عرفہ کے مستحب اعمال
روز عرفہ کے بہت زیادہ مستحب اعمال احادیث میں وارد ہوئے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:
- احادیث کے مطابق دعا اور استغفار روز عرفہ کے بافضیلت ترین اعمال میں سے ہیں۔ [11] دعاؤں میں دعائے عرفہ کے پڑھنے کی بہت سفارش ہوئی ہے۔
- غسل کرنا۔ [12]
- زیارت امام حسینؑ۔ [13]
- منا میں بیتوتہ کرنا یعنی شب عرفہ کو غروب سے لے کر صبح تک منا میں ٹھہرنا۔ [14]
- صدقہ دینا۔[15]
- روزہ رکھنا۔[16]
متعلقہ مضمون
حوالہ جات
- ↑ راغب اصفہانی، مفردات، ص560۔
- ↑ قریشی، التحقیق لکلمات القرآن الکریم، ج8، ص120۔
- ↑ سخاوی، البدانیات، ص225۔
- ↑ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ج2، 542 و 543۔
- ↑ الصحیفۃ السجادیۃ، ص: 210۔
- ↑ کلینی، الکافی ج : 4 ص : 146 و 541۔
- ↑ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ج 2، ص 211۔
- ↑ من لایحضرہ الفقیہ،ج 2، ص 211۔
- ↑ موسوی شاہرودی، جامع الفتاوی مناسک حج، ص 173 و 174۔
- ↑ نک: حج و عمرہ در آینہ فقہ مقارن، ص 237 و 238؛ الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، ج 1، ص 278۔
- ↑ عاملی، وسائل الشیعہ، ج13، ص559 و560۔
- ↑ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ج 1، ص 77۔
- ↑ کلینی، الکافی،ج 4، ص 580؛ عاملی، وسائل الشیعہ، ج14، ص459؛ قمی، عباس؛ مفاتیح الجنان، ص 451
- ↑ صدوق، معانی الاخبار، ص296۔
- ↑ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ج3، ص113۔
- ↑ شیخ طوسی، الإستبصار، ج2، ص133۔
مآخذ
- صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، انتشارات جامعہ مدرسین قم، 1413 ق۔
- صدوق، معانی الأخبار، انتشارات جامعہ مدرسین قم، 1361ش۔
- طوسی، الإستبصار،دار الکتب الإسلامیہ تہران، 1390ھ۔
- قمی، عباس، مفاتیح الجنان، ترجمہ ہادی اشرفی تبریزی، قم، آیین دانش، بیتا
- موسوی شاہرودی، سید مرتضی، جامع الفتاوی مناسک حج(با روشی جدید مطابق با فتاوای دہ تن از مراجع عظام تقلید)، نشر مشعر، تہران، 1428ھ۔
- امام، سید الساجدین، علی بن الحسین علیہما السلام، الصحیفۃ السجادیۃ، دفتر نشر الہادی، قم - ایران، اول، 1418ھ۔
- عاملی،شیخ حر، وسائل الشیعۃ، مؤسسہ آل البیت علیہمالسلام قم، 1409ھ۔
- سخاوی، محمد بن عبد الرحمن، البلدانیات، مصحح: حسام بن محمد قطان،دار العطاء، ریاض، 1422ھ۔
- فاکہی، محمد بن اسحاق، أخبار مکۃ فی قدیم الدہر و حدیثہ، مکتبہ الاسدی - مکہ مکرمہ، چاپ: چہارم، 1424ھ۔