مندرجات کا رخ کریں

صلح امام حسن علیہ السلام

ویکی شیعہ سے
(صلح امام حسن سے رجوع مکرر)
شیعہ
اصول دین (عقائد)
بنیادی عقائدتوحیدعدلنبوتامامتمعاد یا قیامت
دیگر عقائدعصمتولایتمہدویت: غیبتانتظارظہوررجعتبداء • ......
فروع دین (عملی احکام)
عبادی احکامنمازروزہخمسزکاتحججہاد
غیر عبادی احکامامر بالمعروف اور نہی عن المنکرتولاتبرا
مآخذ اجتہادقرآن کریمسنت (پیغمبر اور ائمہ کی حدیثیں)عقلاجماع
اخلاق
فضائلعفوسخاوتمواسات • ...
رذائلكبرعُجبغرورحسد • ....
مآخذنہج البلاغہصحیفۂ سجادیہ • .....
اہم اعتقادات
امامتمہدویترجعتبداشفاعتتوسلتقیہعصمتمرجعیت، تقلیدولایت فقیہمتعہعزاداریمتعہعدالت صحابہ
شخصیات
شیعہ ائمہامام علیؑامام حسنؑامام حسینؑامام سجادؑامام باقرؑامام صادقؑامام کاظمؑامام رضاؑامام جوادؑامام ہادیؑامام عسکریؑامام مہدیؑ
صحابہسلمان فارسیمقداد بن اسودابوذر غفاریعمار یاسر
صحابیہخدیجہؑفاطمہؑزینبؑام کلثوم بنت علیاسماء بنت عمیسام ایمنام سلمہ
شیعہ علماادباعلمائے اصولشعراعلمائے رجالفقہافلاسفہمفسرین
مقدس مقامات
مسجد الحراممسجد النبیبقیعمسجدالاقصیحرم امام علیمسجد کوفہحرم امام حسینؑحرم کاظمینحرم عسکریینحرم امام رضاؑ
حرم حضرت زینبحرم فاطمہ معصومہ
اسلامی عیدیں
عید فطرعید الاضحیعید غدیر خمعید مبعث
شیعہ مناسبتیں
ایام فاطمیہمحرّم ، تاسوعا، عاشورا اور اربعین
اہم واقعات
واقعۂ مباہلہغدیر خمسقیفۂ بنی ساعدہواقعۂ فدکخانۂ زہرا کا واقعہجنگ جملجنگ صفینجنگ نہروانواقعۂ کربلااصحاب کساءافسانۂ ابن سبا
الکافیالاستبصارتہذیب الاحکاممن لایحضرہ الفقیہ
شیعہ مکاتب
امامیہاسماعیلیہزیدیہکیسانیہ


صُلح امام حسنؑ اس معاہدے کو کہا جاتا ہے جو امام حسنؑ اور معاویہ کے درمیان 41ھ کو منعقد ہوا۔ یہ معاہدہ فریقین کے درمیان لڑی گئی جنگ کے بعد منعقد ہوا۔ اس صلح نامے کے نتیجے میں امام حسن علیہ السلام کو خلافت سے مجبورا دست بردار ہونا پڑا۔ یہ جنگ معاویہ کی جانب سے امام حسن علیہ السلام کی بحیثیت خلیفۂ مسلمین بیعت کرنے سے انکار کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئی۔

تاریخی محققین نے امام حسن علیہ السلام کی جانب سے صلح کو قبول کرنے کے مختلف علل و اسباب بیان کیے ہیں: منجملہ ان میں امام کے اصحاب کی کمزوری اور بے وفائی، فوجی کمانڈروں کی خیانت اور خوارج کے فتنہ کا خطرہ زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ شیعہ مؤرخین کے مطابق امام حسین علیہ السلام نے امام حسن علیہ السلام کی پیروی کرتے ہوئے لوگوں کو صلح کی دعوت دی اور اس موقع پر صلح کو جنگ پر فوقیت دی۔

تاریخی مصادر کے مطابق صلح نامے کے مندرجات میں درج ذیل امور شامل تھے: کتاب و سنت پر عمل پیرا ہونا، معاویہ کے بعد کسی کو ان کا جانشین مقرر نہ کرنا، امام علی علیہ السلام کی شأن میں گستاخی اور سب و شتم سے اجتناب کرنا اور شیعیانِ علی کی جان مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرنا۔

صلح کے بعد بعض شیعہ شخصیات جیسے سلیمان بن صُرَد خزاعی اور حُجر بن عدی نے اپنی ناراضگی اور بے اطمینانی کا اظہار کیا، اور بعض نے امام علیہ السلام کو ’’مُذِلُّ المؤمنین‘‘ (اہلِ ایمان کو ذلیل کرنے والا) کہا۔ تاریخی احادیث کے مطابق معاویہ نے صلح نامے کی کسی بھی شق پر عمل نہ کیا، بہت سے شیعوں کو قتل کر ڈالا، اپنے بیٹے یزید کو اپنا ولی عہد بنایا اور امام علی علیہ السلام کو برا بھلا کہنے سے باز نہ آیا۔

اہلِ سنت ایک حدیث کی بنیاد پر جس میں رسول اللہؐ نے پیش گوئی کی تھی کہ امام حسن علیہ السلام کے ذریعے مسلمان متحد ہوں گے، انہیں ایک صلح پسند شخصیت قرار دیتے ہیں اور داخلی جنگ کے خاتمے اور صلح قبول کرنے پر ان کی تعریف کرتے ہیں۔

اہمیت

امام حسن علیہ السلام کی صلح کو ان کی زندگی کا سب سے اہم اور نازک ترین واقعہ شمار کیا جاتا ہے۔ اس صلح کے نتیجے میں آپ کو ظاہری خلافت سے دستبردار ہونا پڑا اور مختلف شخصیات کی جانب سے اسے موضوع بحث و مباحثہ اور تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔[1]

کتاب 250 سالہ انسان کے مصنف اور ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای کے بقول، امام حسن علیہ السلام کی یہ صلح آج کی دنیا میں سیاسی اور سماجی مذاکرات کے لیے ایک مرجع اور رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔[2]

مورخین کے مطابق اس صلح نامے کی شقوں نے معاویہ سے کسی بھی قسم کی رعایت یا امتیاز کو سلب کر لیا اور معاویہ کا باقاعدہ طور پر خلیفۃ المسلمین تسلیم کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا؛[3] لیکن امام علیہ السلام پر مسلط کی گئی اس صلح[4] کے نتیجے میں خلافت، خاندان رسالت سے نکل کر بنی اُمیہ کے ہاتھوں میں چلی گئی۔[5]

اہلِ سنت ایک حدیث کی بنیاد پر جس میں رسول اللہؐ نے پیش گوئی کی تھی کہ امام حسن علیہ السلام کے ذریعے مسلمان متحد ہوں گے،[6] انہیں ایک صلح پسند شخصیت قرار دیتے ہیں اور داخلی جنگ کے خاتمے اور صلح قبول کرنے پر ان کی تعریف کرتے ہیں۔[7]مختلف تاریخی منابع میں صلح امام حسن منعقد ہونے والے سال کو عامُ الجماعۃ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔[8]

مورخ قَرشی کے مطابق یہ صلح کب ہوئی؟ اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض کے مطابق یہ صلح 41ھ کو ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی تھی، جبکہ بعض اسے ربیع الثانی اور بعض جمادی الاولی میں قرار دیتے ہیں۔[9] صلح کی جگہ کے بارے میں قرشی نے معتبر منابع کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ صلح نامہ مسکن میں منعقد ہوا اور صلح کی شقوں کا اعلان اور نفاذ عراقیوں اور شامیوں کے ایک بڑے مجمع کے سامنے کیا گیا۔[10]

صلح کے بارے میں امام حسینؑ کی رائے

اہل سنت کے بعض مصادر میں امام حسین علیہ السلام کو اس صلح کے مخالف کے طور پر پیش کیا گیا ہے؛[11] حالانکہ شیعہ مؤرخین، جیسے مہدی پیشوائی اور رسول جعفریان اس بات کے قائل ہیں کہ امام حسین علیہ السلام اس موقع پر صلح کو جنگ پر فوقیت دیتے تھے اور لوگوں کو امام حسن علیہ السلام کی پیروی کی دعوت دیتے تھے۔ اسی طرح امام حسن علیہ السلام کی زندگی کے آخری دنوں تک اور ان کی شہادت کے دس یا گیارہ سال بعد تک بھی آپ اسی موقف پر قائم رہے۔[12] حتیٰ کہ جب بعض تندرو شیعہ شخصیات نے امام حسین علیہ السلام کی قیادت کا مطالبہ کیا تو آپ نے انہیں قیام سے باز رہنے کی نصیحت کی۔[13] کتاب 250 سالہ انسان کے مصنف آیت اللہ خامنہ ای کے مطابق یہ صلح، امام حسین علیہ السلام کی حمایت سے انجام پائی؛ حتیٰ کہ جب امام حسن علیہ السلام کے ایک ساتھی نے اعتراض کیا تو امام حسین علیہ السلام نے اس فیصلے کا پُرعزم انداز میں دفاع کیا۔ لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ اگر امام حسنؑ کی جگہ امام حسینؑ ہوتے تو یہ صلح انجام نہ پاتی۔[14]

معاویہ کی پیمان شکنی

کئی تاریخی مصادر میں آیا ہے کہ معاویہ نے اس صلح نامے کی شقوں پر عمل نہیں کیا۔[15] چھٹی صدی ہجری کے مورخ مقدسی کے بقول، معاویہ صلح کے بعد کوفہ آیا اور اپنی تقریر میں لوگوں سے کہا: “میں اس صلح نامے میں موجود اپنی تمام شرائط واپس لیتا ہوں اور اپنے تمام وعدوں کو توڑ دیتا ہوں۔”[16] اس نے امام علیؑ کے کئی شیعوں جیسے عمرو بن حمق اور حجر بن عدی کو قتل کر دیا[17] اور اپنے بیٹے یزید کو اپنا ولی عہد بنا دیا۔[18] ساتویں صدی ہجری کے مورخ ابن اثیر کے مطابق معاویہ نے یہاں تک کہ دارابگرد کا خراج جو صلح نامے کے مطابق امام حسنؑ کو دینا تھا، انہیں ادا نہیں کیا۔[19]

اعیان الشیعہ میں سید محسن امین کے مطابق صلح امام حسن کے ایک سال بعد معاویہ نے اپنے کارگزاروں کو حکم دیا کہ جو بھی امام علیؑ اور ان کے خاندان کی فضیلت بیان کرے، اسے سزا دی جائے۔ خطباء منبروں پر علیؑ اور اہل بیت پر لعن طعن کرتے تھے۔ کوفہ کے لوگ، چونکہ وہاں شیعوں کی تعداد زیادہ تھی، سختیوں میں مبتلا رہے۔ معاویہ نے زیاد بن سمیہ کو کوفہ اور بصرہ کا گورنر مقرر کیا تاکہ اذیت و آزار، جلاوطنی اور قتل کے ذریعے عراق سے شیعوں کو ختم کر سکے۔[20]

صلح نامہ پر ردِّ عمل

قَرشی نے اپنی کتاب حیات الإمام الحسن بن علیؑ میں تحریر کیا ہے کہ صلح امام حسنؑ کے بعد بعض شیعہ شخصیات جیسے سلیمان بن صُرَد خزاعی اور حجر بن عدی نے اس صلح نامے پر اپنی تشویش اور ناراضگی کا اظہار کیا،[21] حتیٰ کہ بعض نے امامؑ کی ملامت کی اور انہیں ”مُذِلُّ المؤمنین“ (مؤمنوں کو رسوا کرنے والا) کہا۔[22] تاہم، خوارج کے برعکس یہ ناراضگی عملی بغاوت میں تبدیل نہ ہوئی۔[[23] امامؑ نے اعتراضات اور سوالات کے جواب میں اس فیصلے کی پابندی کی ضرورت پر زور دیا اور اپنی صلح کی علت کو وہی قرار دیا جو صلح حدیبیہ کی تھی، اور اس کام کی حکمت اور فلسفے کو حضرت خضر کے ان اعمال کی حکمت اور فلسفے سے تشبیہ دی، جو انہوں نے حضرت موسیٰ کے ساتھ سفر کے دوران انجام دیے تھے۔[24]

صلح قبول کرنے کا پس منظر

چوتھی صدی ہجری کے مؤرخ ابن اعثم کوفی کے مطابق امام علیؑ کی شہادت کے بعد اہلِ عراق نے امام حسنؑ کو بیعت کی پیشکش کی، لیکن امامؑ نے یہ شرط رکھی کہ اگر میں جنگ کروں تو تم بھی جنگ کرو، اور اگر میں صلح کروں تو تم بھی صلح کرو۔[25] اس شرط کے قبول کرنے کے بعد امامؑ نے ان سے بیعت لی۔[26]

جنگ سے قبل خط و کتابت

امام حسنؑ نے ابتدا میں معاویہ کو خطوط لکھے تاکہ اسے اپنی اطاعت پر آمادہ کر سکیں،[27]لیکن یہ خط و کتابت بے نتیجہ رہی اور معاویہ نے مختلف سازشوں کے بعد امامؑ کے خلاف لشکرکشی کی۔[28] تاریخ کے محقق رسول جعفریان کے مطابق امامؑ جانتے تھے کہ معاویہ ان خطوط کے سامنے تسلیم نہیں ہوگا، مگر وہ چاہتے تھے کہ یہ خطوط ایک تاریخی دستاویز کے طور پر باقی رہیں۔[29] اس کے بعد امامؑ نے عبید اللہ بن عباس کی قیادت میں بارہ ہزار کا لشکر معاویہ کے مقابلے کے لیے روانہ کیا۔[30]

صلح کی افواہ

تیسری صدی ہجری کے مؤرخ دینوری کے مطابق معاویہ نے عبداللہ بن عامر کو ایک لشکر کے ساتھ شہر انبار کی طرف بھیجا تاکہ وہ مدائن کی جانب پیش قدمی کرے۔ امام حسنؑ نے صورتِ حال کا جائزہ لے مدائن کی طرف پیش قدمی کی۔[31] امام کا لشکر وفادار شیعوں، خوارج، دنیا پرستوں، موقع پرستوں اور قبائلی تعصب رکھنے والے افراد پر مشتمل تھا۔[32] امامؑ نے جب اپنے لشکریوں کی کمزوری دیکھی تو ساباط شہر میں قیام کیا اور خطبہ دیا۔[33] رسول جعفریان کے مطابق تمام مؤرخین، منجملہ دینوری اور بلاذری بیان کرتے ہیں کہ امامؑ نے ایسا خطبہ دیا جس سے صلح کی بو آتی تھی، اور یہی بات خوارج کی جانب سے آپ پر حملے اور لشکریوں کی بے رغبتی کا سبب بنی۔[34] تاہم رسول جعفریان اس بات کو تاریخ یعقوبی کا حوالہ دیتے ہوئے رد کرتے ہیں۔[35] تاریخ یعقوبی کے مطابق معاویہ نے مغیرہ بن شعبہ اور عبداللہ بن عامر کو امام حسنؑ کے پاس صلح کے لیے بھیجا، لیکن وہ واپس آکر خوارج کو بھڑکانے کے لیے یہ افواہ پھیلانے لگے کہ امامؑ نے صلح قبول کر لی ہے، جس سے لشکر میں اضطراب پیدا ہوا اور واقعۂ مدائن پیش آیا۔[36] شہر ساباط کے بعد جب امامؑ مدائن کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں ایک خارجی نے خنجر سے حملہ کر کے آپ کو زخمی کر دیا، اور آپ شدید زخمی حالت میں مدائن پہنچے۔[37]

جب عبید اللہ بن عباس معاویہ کے لشکر کے سامنے آیا تو معاویہ نے عبدالرحمن بن سمرہ کو ان کے پاس بھیجا، جس نے امام حسنؑ کی جانب سے صلح کے جھوٹے دعوے کے ساتھ بڑی انعامات کا وعدہ دے کر عبید اللہ کو اپنی طرف مائل کر لیا۔[38] عبید اللہ کے جانے کے بعد عراقی لشکر کی اکثریت معاویہ کے ساتھ مل گئی،[39] دوسری طرف عبید اللہ کی جگہ قیس بن سعد کو لشکر کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔[40] یعقوبی کے مطابق معاویہ ایک طرف امامؑ کے لشکر میں اپنے افراد بھیج کر یہ افواہ پھیلاتے کہ قیس بن سعد نے صلح قبول کر لی ہے اور دوسری طرف قیس کے لشکر میں یہ افواہ پھیلاتے کہ امام حسنؑ نے صلح کر لی ہے۔[41] یہاں تک کہ اس نے مدائن میں امامؑ کے سپہ سالار قیس بن سعد کے قتل کئے جانے کی جھوٹی خبر پھیلانے کے ذریعے امام کے لشکر میں مزید انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی۔[42] جعفریان کے مطابق معاویہ نے کوفہ، ساباط اور میدان جنگ میں افواہوں کے ذریعے کوفیوں کو یہ یقین دلایا کہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔[43]

صلح قبول کرنا

کتاب الارشاد میں شیخ مفید لکھتے ہیں کہ امام حسنؑ کے زخمی ہونے کے بعد کوفہ کے سرداروں نے خفیہ طور پر معاویہ کو خط لکھا اور وعدہ کیا کہ وہ یا تو امامؑ کو اس کے حوالے کر دیں گے یا انہیں قتل کر دیں گے۔[44] اسی دوران امامؑ کو اطلاع ملی کہ ان کے سپہ سالار عبید اللہ بن عباس رشوت لے کر معاویہ سے جا ملا ہے۔[45] ان واقعات کے بعد معاویہ نے امامؑ کو صلح کی تجویز کے ساتھ خط لکھا اور ساتھ ہی امام کے بعض ساتھیوں کے وہ خطوط بھی بھیجے جن میں انہوں نے بیعت اور امامؑ کو حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔[46] امامؑ نے فرمایا: "معاویہ نے ایسی تجویز دی ہے جو ہماری عزت اور مقصد کے خلاف ہے۔ اگر تم لوگ خدا کی راہ میں شہادت کے لیے تیار ہو تو ہم تلوار سے جواب دیں اور اگر زندگی اور آرام چاہتے ہو تو اس کی تجویز قبول کر لیں۔" لوگوں نے یک زبان ہو کر کہا: "ہم زندگی چاہتے ہیں۔"[47]

اہل سنت عالم ابن جوزی (وفات 654ھ) کے مطابق امام حسنؑ نے جب دیکھا کہ لوگ ان سے دور ہو گئے ہیں، اہلِ عراق میں اختلاف ہے اور کوفیوں نے ان سے غداری کی ہے، تو آپ صلح کی طرف مائل ہوئے۔[48] رسول جعفریان لکھتے ہیں کہ امامؑ چاہیں تو تھوڑے لشکر کے ساتھ لڑ کر شہید ہو سکتے تھے، لیکن آپ ایسے خونریزی کو قبول نہیں کرتے جو بے نتیجہ ہو اور جس کے اثرات نامعلوم ہوں۔ اس لیے صلح ایک بہانہ تھا تاکہ عراق کو غارتگری اور تباہی سے بچایا جا سکے۔[49] کتاب 250 سالہ انسان کے مصنف سید علی خامنہ‌ای کے مطابق قتل ہونا صرف مخصوص حالات میں شہادت کہلاتی ہے اور وہ حالات امام حسنؑ کے زمانے میں موجود نہیں تھے۔ اگر اس وقت امام قتل ہو جاتے تو وہ حقیقی معنوں میں شہید شمار نہ ہوتے۔[50] ان کے بقول اگر جنگ ہوتی تو امام حسنؑ غالباً اپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں قتل ہو جاتے اور معاویہ یہ دعویٰ کرتا کہ انہیں ان کے ساتھیوں نے قتل کیا ہے، اور یوں وہ امام علیؑ کے تمام شیعوں اور اصحاب کو ختم کر دیتا۔[51]

صلح نامہ اور اس کے شقوق

تاریخ کے محقق مہدی پیشوائی کے مطابق ہر مؤرخ نے صلح امام حسنؑ کی بعض شرائط کا ذکر کیا ہے، ان سب کو یکجا کرنے سے اس صلح نامے کی نسبتاً مکمل تصویر سامنے آتی ہے۔[52] ابن اعثم (وفات 320ھ) کے بیان کے مطابق معاویہ نے ایک خالی کاغذ پر دستخط کر کے اسے امام حسنؑ کے قاصد عبداللہ بن نوفل کے حوالے کیا تاکہ امامؑ جو شرائط چاہیں، اس میں درج کر سکیں۔[53] اس صلح نامے میں امام حسنؑ کی طرف سے رکھے گئے شروط میں سے بعض جو مختلف مصادر میں ذکر ہوئے ہیں، درج ذیل ہیں:

تاریخ کے محقق رسول جعفریان نے مختلف ماخذ کی بنیاد پر اس شرط کا بھی ذکر کیا ہے کہ معاویہ کے بعد خلافت امام حسنؑ کا حق ہو گا۔[57] بعض منابع کے مطابق امامؑ نے مزید یہ شرائط بھی رکھی تھی کہ کوفہ کے بیت المال سے پچاس لاکھ، داربگرد فارس[58] اور اہواز کے خراج سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی امام کو دی جائے۔[59] اخبار الطوال نامی کتاب میں دینوری لکھتے ہیں کہ امامؑ نے یہ بھی شرط رکھی تھی کہ ہر سال 20 لاکھ درہم ان کے بھائی امام حسینؑ کو دیے جائیں، اور عطیات اور امدادی معاملے میں بنی ہاشم کو بنی عبد شمس (بنی امیہ) پر فوقیت دی جائے۔[60] رسول جعفریان نے بعض تاریخی مصادر کی بنیاد پر صلح نامہ کی مالی شرائط کو درست نہیں مانا ہے۔[61] ابن اعثم نے خلفائے صالحین کی سیرت پر عمل کو بھی صلح نامہ کی شرائط میں شمار کیا ہے، اگرچہ یہ شرط زیادہ تر تاریخی منابع میں ذکر نہیں ہوئی۔[62]

صلح قبول کرنے کے دلائل

مورخین اور محدثین کے نزدیک امام حسنؑ کی طرف سے صلح قبول کرنے کے مختلف علل اسباب ہیں: دین کی حفاظت،[63] امامؑ اور ان کے اہل بیت کی جان کی محافظت،[64] شیعیان اہل بیت حفاظت،[65] امامؑ کے اصحاب کی کوتاہی اور سستی،[66] امامؑ کے لشکر کے کمانڈروں کی خیانت،[67] اور خوارج کا خطرہ۔[68]۔[68]

شیخ صدوق کے مطابق معاویہ نے اشعث بن قیس اور دیگر افراد کو امام حسنؑ کے قتل کے لیے 2 لاکھ درہم اور شام کی فوج کی سرداری کا لالچ دیا تھا؛ اسی لیے امامؑ اپنی حفاظت کے لیے زرہ پہنتے اور اجتماعات سے دور رہتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک نماز کے دوران آپ پر تیر چلایا گیا، مگر آپ محفوظ رہے۔ تاہم ساباط میں ایک خارجی کے ہاتھوں آپ زخمی بھی ہوئے۔[69] تیسری صدی ہجری کے مورخ دینوری نقل کرتے ہیں کہ امام حسنؑ نے حجر بن عدی کو بتایا کہ صلح کی وجہ یہ تھی کہ لوگ جنگ سے بیزار اور صلح کے خواہاں تھے، اس لیے شیعیانِ علیؑ کی جان بچانے اور قتل و غارت سے بچنے کے لیے صلح قبول کی گئی۔[70]

شیخ صدوق نے امام حسنؑ سے نقل کیا ہے کہ جنگ کے جاری رہنے کی صورت میں تمام شیعہ ختم ہو جاتے۔[71] چھٹی صدی ہجری کے مفسر ابن عربی کا کہنا ہے کہ صلح کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ امام ؑ نے دیکھا کہ خوارج ان کے گرد جمع ہو گئے ہیں؛ اگر وہ معاویہ سے جنگ کرتے تو خوارج سرزمینوں پر قابض ہو جاتے، اور اگر خوارج سے لڑتے تو معاویہ ان پر غالب آ جاتا۔[72]

تاریخ کے محقق مہدی پیشوائی کے مطابق جب امام حسنؑ اور معاویہ کی فوجوں کے مدمقابل ہونے کی خبر مشرقی روم کے حکمرانوں کو ملی، جو دونوں کے مشترکہ دشمن تھے، تو انہوں نے اسلامی سرزمینوں پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ صلح کے بعد، معاویہ کو جب روم کی فوج کی حرکت کا علم ہوا تو اس نے رومی سلطنت سے معاہدۂ صلح کیا اور ہر سال ایک لاکھ دینار دینے کا وعدہ کیا، کیونکہ وہ اتنی بڑی فوج سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔ اس لیے اگر جنگ ہوتی تو اس کا اصل فائدہ رومی سلطنت کو پہنچتا، نہ امام حسنؑ کو اور نہ معاویہ کو۔[73]

صلح امام حسنؑ کے بارے میں مکتوب آثار

شیخ راضی آل یس کے مطابق صدر اسلام کی ابتدائی صدیوں میں امام حسنؑ کی صلح کے بارے میں کئی کتابیں لکھی گئیں، لیکن آج ان کے صرف نام باقی ہیں اور متن دستیاب نہیں۔ ان کتابوں میں شامل ہیں:

  • اخبار الحسن(ع) و وفاتہ، تألیف ہَيثم بن عدی الثعلبی (207ھ)
  • قیام الحسن(ع)، تألیف ابراہیم بن محمد (283ھ)
  • صلح الحسن(ع) و معاویہ، احمد بن محمد (333ھ)
  • صلح الحسن(ع)، عبدالرحمن بن کثیر الہاشمی (جو بنی ہاشم کے موالی میں سے تھے، نسباً ان سے نہیں تھے)
  • قیام الحسن(ع)، تألیف ہشام بن محمد بن السائب۔[74]

مزید برآں، فلسفۂ صلح امام حسن مجتبی علیہ السلام از علی راجی، اور صلح الحسن علیہ السلام از راضی آل یس، اس موضوع پر موجود دیگر کتب میں شمار ہوتی ہیں۔

حوالہ جات

  1. پیشوایی، سیرہ پیشوایان، 1390ش، ص116۔
  2. خامنہ‌ای، انسان 250 سالہ، 1396ش، ص113 -117۔
  3. گروہ مؤلفان مجمع جہانی اہل بیت(ع)، پیشوایان ہدایت سبط اکبر امام حسن مجتبی(ع)، ج 4، ص196۔
  4. پیشوایی، سیرہ پیشوایان، 1390ش، ص118۔
  5. آل یاسین، صلح الحسن(ع)، 1373ش، ص39۔
  6. ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، ج‏8، ص16؛ ذہبی، تاريخ الإسلام، 1409ھ، ج4، ص7۔
  7. ابن‌عربی، احکام القرآن، 1408ھ، ج4، ص1719؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، ج8، ص16۔
  8. عسقلانی، الإصابۃ في تمييز الصحابۃ، 1415ھ، ج6، ص120؛ ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، ج8، ص21؛ شوشتری، إحقاق الحق و إزہاق الباطل‏، 1409ھ، ج33، ص542۔
  9. قرشی، حياۃ الإمام الحسن بن على(ع)، 1413ھ، ج‏2، ص231۔
  10. قرشی، حياۃ الإمام الحسن بن على(ع)، 1413ھ، ج‏2، ص230۔
  11. ابن عساکر،  تاريخ مدينۃ دمشق‏، 1415ھ، ص13، ص267؛ الطبقات الکبری، 1418ھ، ج‏10 ص331؛ ابن جوزی، تذكرۃ الخواص، 1418ھ، ص180۔
  12. جعفریان، حیات فکری و سیاسی ائمہ‏(ع)، 1381ش، ص157؛ پیشوایی، سیرہ پیشوایان، 1390ش، ص147۔
  13. جعفریان، حیات فکری و سیاسی ائمہ‏(ع)، 1381ش، ص157۔
  14. خامنہ‌ای، انسان 250 سالہ، 1393ش، ص117۔
  15. مقریزی، امتاع الاسماع، 1420ھ، ج5، ص360؛ امین، اعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج1، ص27؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ھ، ج3، ص405۔
  16. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج5، ص237۔
  17. قرشی، حياۃ الإمام الحسن بن على(ع)، 1413ھ، ج‏2، ص186۔
  18. اابن ابی الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ھ، ج16، ص17۔
  19. ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ھ، ج3، ص405۔
  20. امین عاملی، اعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج1، ص27۔
  21. قرشی، حياۃ الإمام الحسن بن على(ع)، 1413ھ، ج‏2، ص265۔
  22. قرشی، حياۃ الإمام الحسن بن على(ع)، 1413ھ، ج‏2، ص269۔
  23. جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، 1382ش، ص186۔
  24. شیخ صدوق، علل الشرایع، 1385ش، ج1، ص211۔
  25. ابن‌ اعثم کوفی، الفتوح، 1411ھ، ج4، ص283۔
  26. ابن‌ اعثم کوفی، الفتوح، 1411ھ، ج4، ص283۔
  27. اصفہانی، مقاتل الطالبيين‏، بیروت، ص63 - 68۔
  28. مفيد، الإرشاد في معرفۃ حجج اللہ على العباد، 1413ھ، ج2، ص9۔
  29. جعفریان، حیات فکری و سیاسی ائمہ‏(ع)، 1381ش، ص138۔
  30. اصفہانی، مقاتل الطالبيين‏، بیروت، ص71۔
  31. دینوری، الأخبار الطوال، 1368ش، ص216۔
  32. پیشوایی، سیرہ پیشوایان، 1390ش، ص122۔
  33. دینوری، الأخبار الطوال، 1368ش، ص216۔
  34. جعفریان، حیات فکری و سیاسی ائمہ‏(ع)، 1381ش، ص143۔
  35. جعفریان، حیات فکری و سیاسی ائمہ‏(ع)، 1381ش، ص143۔
  36. جعفریان، حیات فکری و سیاسی ائمہ‏(ع)، 1381ش، ص143۔
  37. دینوری، الأخبار الطوال، 1368ش، ص217۔
  38. بلاذری، أنساب الأشراف،1417ھ، ج3، ص 37۔
  39. جعفریان، حیات فکری و سیاسی ائمہ‏(ع)، 1381ش، ص144۔
  40. بلاذری، أنساب الأشراف،1417ھ، ج3، ص 38۔
  41. یعقوبی، تاريخ اليعقوبى، بيروت، ج2،ص214۔
  42. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص159ہجری شمسی۔
  43. جعفریان، حیات فکری و سیاسی ائمہ‏(ع)، 1381ش، ص145۔
  44. مفيد، الإرشاد في معرفۃ حجج اللہ على العباد، 1413ھ، ج2، ص12۔
  45. مفيد، الإرشاد في معرفۃ حجج اللہ على العباد، 1413ھ، ج2، ص12۔
  46. مفيد، الإرشاد في معرفۃ حجج اللہ على العباد، 1413ھ، ج2، ص13۔
  47. ابن اثیر، الکامل، 1385ھ، ج3، ص406
  48. ابن جوزی، تذكرۃ الخواص، 1418ھ، ص180۔
  49. جعفریان، حیات فکری و سیاسی ائمہ‏(ع)، 1381ش، ص150۔
  50. خامنہ‌ای، انسان 250 سالہ، 1393ش، ص118۔
  51. خامنہ‌ای، انسان 250 سالہ، 1393ش، ص122۔
  52. پیشوایی، سيرہ پيشوايان، 1390ش، ص131۔
  53. ابن‌ اعثم کوفی، الفتوح، 1411ھ، ج4، ص290۔
  54. ابن‌ اعثم کوفی، الفتوح، 1411ھ، ج4، ص290 و 291۔
  55. عطاردی، مسند الإمام المجتبى أبي محمد الحسن بن علي(ع)، 1373ش، ص322۔
  56. مفيد، الإرشاد في معرفۃ حجج اللہ على العباد، 1413ھ، ج2، ص14۔
  57. جعفریان، حيات فكرى و سياسى ائمہ(ع)، 1381ش، ص161۔
  58. ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ش، ج‏3، ص405۔
  59. دینوری، الأخبار الطوال، 1368ش، ص218۔
  60. دینوری، الأخبار الطوال، 1368ش، ص218۔
  61. جعفریان، حيات فكرى و سياسى ائمہ(ع)، 1381ش، ص161۔
  62. عطاردی، مسند الإمام المجتبى أبي محمد الحسن بن علی(ع)، 1373ش، ص322؛ کرکی حائرى‏، تسليۃ المجالس و زينۃ المجالس‏،1418ھ، ج2، ص49؛ ابن شہرآشوب، المناقب، 1379ش، ج4، ص33۔
  63. ابن عساکر، تاريخ مدينۃ دمشق‏، 1415ھ، ج13، ص280۔
  64. طبرسى، الإحتجاج على أہل اللجاج، 1403ھ، ج2، ص290۔
  65. ابن بابويہ‏، علل الشرائع‏، 1385ش، ج1، ص211۔
  66. دینوری، الأخبار الطوال، 1368ش، ص220۔
  67. علامہ مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج44، ص60؛ ابن‌عربی، احکام القرآن، 1408ھ، ج4، ص1719۔
  68. ابن‌عربی، احکام القرآن، 1408ھ، ج4، ص1719۔
  69. ابن بابويہ‏، علل الشرائع‏، 1385ش، ج1، ص220۔
  70. دینوری، الأخبار الطوال، 1368ش، ص220۔
  71. ابن بابويہ‏، علل الشرائع‏، 1385ش، ج1، ص211۔
  72. آل یاسین، صلح الحسن(ع)، 1373ش، ص39۔
  73. پیشوایی، سیرہ پیشوایان، 1390ش، ص118۔

مآخذ

  • آل یاسین، شیخ راضی، صلح الحسن(ع)، بیروت، اعلمی، چاپ اول، 1412ھ۔
  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت،‌ دار صادر، 1385ھ۔
  • ابن اعثم، محمد بن علی، الفتوح، بیروت، دارالاضواء، 1411ھ۔
  • ابن شہرآشوب، محمد بن علی‏، المناقب، قم، علامہ، 1379ہجری شمسی۔
  • ابن عساکر، ابو القاسم على بن حسن، تاريخ مدينۃ دمشق‏، بیروت، محقق عمرو بن غرامۃ العمروی، دارالفکر  للطباعۃ والنشر والتوزيع، 1415ھ۔
  • ابن‌ابی‌الحدید، عز الدین ابوحامد، شرح نہج‌البلاغہ، تصحیح، محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، کتابخانہ عمومی آیت‌اللہ مرعشی نجفی، چاپ اول، 1404ھ۔
  • ابن‌عربی، محمد بن عبداللہ، احکام القرآن، تحقیق: علی محمد بجاوی، بیروت، دارالجیل، چاپ اول، 1408ھ۔
  • ابن‌کثیر، حافظ ابن‌کثیر‏، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، بی‌تا.
  • اربلی، کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ، ناشر الرضی، بی تا، بی جا.
  • اصفہانی، ابوالفرج اصفہانى‏، مقاتل الطالبيين‏، بیروت، دارالمعرفۃ، بی‌تا.
  • امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعۃ، تحقیق حسن امین، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، چاپ اول، 1403ھ۔
  • بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق محمد باقر المحودی، بیروت، بی نا، 1398ھ۔
  • جعفری، حسین محمد، تشیع در مسیر تاریخ، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1382ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، قم، انتشارات انصاریان، 1381ہجری شمسی۔
  • خامنہ‌ای، سیدعلی، انسان 250 سالہ، تہران، موسسہ ایمان جہادی، چاپ سی و ہشتم، 1393ہجری شمسی۔
  • دینوری، احمد بن داود الدينورى، الأخبار الطوال، تحقيق عبد المنعم عامر مراجعہ جمال الدين شيال، قم، منشورات الرضى، 1368ہجری شمسی۔
  • ذہبی، محمد بن أحمد، تاریخ الإسلام و وَفیات المشاہیر و الأعلام، بیروت، دار الكتاب العربى‏، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • شوشتری، قاضى نور اللہ مرعشی، إحقاق الحق و إزہاق الباطل‏، قم، مكتبۃ آيۃ اللہ المرعشى النجفى‏، چاپ اول، 1409ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن على‏، علل الشرائع‏، قم، كتاب فروشى داورى، چاپ اول‏، 1385ہجری شمسی۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی حجج اللہ علی العباد، ترجمہ خراسانی، تہران، انتشارات علمیہ اسلامیہ، 1380ہجری شمسی۔
  • طبرسى،احمد بن على‏، الإحتجاج على أہل اللجاج، محقق محمد باقر خرسان، نشر مرتضى‏، چاپ اول، 1403ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، بیروت، دار التراث‏، چاپ دوم، 1387ھ۔
  • عسقلانی، ابن حجر، الإصابۃ في تمييز الصحابۃ، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1415ھ۔
  • عطاردی، عزيز اللہ، مسند الإمام المجتبى أبي محمد الحسن بن علي(ع)، تہران، عطارد، چاپ اول، 1373ہجری شمسی۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی‏، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • قرشی، باقرشریف، حياۃ الإمام الحسن بن علی(ع)، بیروت، دار البلاغۃ، چاپ اول، 1413ھ۔
  • قطب راوندی، سعید بن ہبہ اللہ، الخرائج و الجرائح، قم، مؤسسہ امام مہدی(عج)، 1409ھ۔
  • کرکی، سید محمد، تسليۃ المجالس و زينۃ المجالس‏، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلاميۃ، چاپ اول، 1418ھ۔
  • گروہ مؤلفان مجمع جہانی اہل بیت(ع)، پیشوایان ہدایت سبط اکبر امام حسن مجتبی(ع)، مترجم عباس جلالی، قم، مجمع جہانی اہل بیت(ع)، چاپ اول، 1385ہجری شمسی۔
  • مفيد، محمد بن محمد، الإرشاد في معرفۃ حجج اللہ على العباد، مصحح: مؤسسۃ آل البيت(ع)، قم، كنگرہ شيخ مفید، چاپ اول، 1413ق
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، اَلْبَدْءُ وَ التّاریخ‏، بی‌نام، مكتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، بی‌تا.
  • مقریزی، احمد بن علی، إمتاع الأسماع، تحقیق محمد عبد الحمید، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1420ھ۔
  • یعقوبی، احمد بن یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت،‌ دار صادر، بی‌تا.