قیام یحیی بن زید

ویکی شیعہ سے

قیام یحیی بن زید سے وہ قیام مراد ہے جو امام سجاد علیہ السلام کے پوتے یحیی بن زید نے حکومت بنی امیہ کے خلاف کیا۔ یہ قیام ولید بن یزید کی حکومت کے دوران سال ۱۲۵ ہجری قمری میں ہوا اور یہ زمانہ امامت امام صادق(ع) کے زمانے سے مصادف تھا۔ یہ قیام ایران کے شہر خراسان میں ہوا اور آخرکار یحیی بن زید اور اس کے ساتھیوں کے قتل کے ساتھ یہ قیام اپنے انجام کو پہنچا۔

بنی امیہ کے مقابلے میں شہادت یحیی مقاومت کے ایک سمبل میں تبدیل ہو گئ جس نے ابو مسلم خراسانی کے قیام میں لوگوں کو اس کا ساتھ دینے کا عزم بخشا۔ کہا گیا ہے کہ جس سال یحیی بن زید کی شہادت ہوئی اس سال جو بچہ بھی خواسان (ایران) میں پیدا ہوتا اس کا نام یحیی یا زید رکھا جاتا۔

زندگی نامہ

یحیی، زید بن علی کے بیٹے اور امام سجاد(ع) کے پوتے ہیں۔ ان کی والدہ کا نام "ریطہ" تھا جو عبداللہ بن محمد بن حنفیہ کی بیٹی تھیں۔[1] ان کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مصادر خاموش ہیں۔ ان کے سال شہادت (۱۲۵ق) اور عمر: ۱۸ سال کو دیکھتے ہوئے ۱۰۷ق کا اندازہ لگایا گیا ہے۔[2]

یحیی بن زید کی زندگی کا دورانیہ اموی خلیفوں: ہشام بن عبدالملک اور ولید بن یزید کو شامل ہے۔

ارادۂ قیام

زید بن علی کی شہادت کے ساتھ ہی یحیی نے اپنے آپ کو مخفی کر لیا تا کہ اپنے باپ کی وصیت قیام کو جاری ساری رکھ سکیں۔ [3] اس دوران بعض بزرگوں نے دلسوزی کی بنا پر انہیں قیام سے رکنے کا مشورہ بھی دیا۔ منقول ہے کہ امام صادق(ع) نے انہیں ایک خط لکھا اور ان کے باپ کی طرح قتل ہونے کی خبر سے آگاہ کیا اور قیام کرنے سے روکا۔[4] لیکن یحیی قیام کا تہیہ کر چکے تھے لہذا انہوں نے خراسان کا رخ کیا۔

سفر خراسان

قیام زید بن علی کے بعد اور ان کے قتل ہونے کے بعد ان کے ساتھی متفرق ہو گئے اور یحیی کے اطراف میں صرف دس افراد باقی رہ گئے۔

یحیی نے خراسان کا ارادہ کیا اور شروع میں مدائن کی سمت چلا اس زمانے میں شاہراہ خراسان عراق کے راستے پر واقع تھی۔[5] یہ واقعہ اس حال میں رونما ہوا تھا کہ حاکم کوفہ یوسف بن عمر، نے اس کی تلاش سے ہاتھ کھینچ لیا تھا کیونکہ گمان تھا کہ یحیی بن زید کوفیوں کے گھروں میں مخفی تھا۔[6] جب یوسف بن عمر، یحیی کے خراسان آنے سے آگا ہوا تو اس نے یہ خبر ہشام بن عبدالملک کے گوش گزار کی۔ ہشام نے والئ خراسان کو اس کے تعقب کرنے کا حکم دیا۔[7]

قید خانۂ بلخ

یحیی کچھ عرصہ بعد «حریش بن عبدالرحمن» نام کے شخص کے پاس گیا اور ہشام بن عبد الملک کی وفات تک اسکے پاس رہا اور ولید بن یزید خلافت نشین ہوا۔[8]

ولید کے تخت نشین ہونے کے بعد یوسف بن عمر نے والئ خراسان کو یحیی کے آمد و رفت کے مقامات سے آگاہ کیا اور اس نے بلخ میں حکومتی کارگزار کو حکم دیا کہ وہ حریش کو یحیی کی مخفی گاہ سے آگاہ کرنے پر اکسائے اور اس کام میں سختی کا مظاہرہ کرے۔[9] والئ بلخ نے بھی ایسا ہی کیا اور اس نے حریش کو 600 تازیانے لگوائے لیکن اس نے قسم اٹھائی اور کہا کہ بخدا! اگر یحیی میرے پاؤں تلے بھی ہو تو بھی میں اس سے اپنے پاؤں نہیں اٹھاؤں گا۔ لیکن اس کا بیٹا قریش اس شکنجے کے منظر کے دیکھنے کی تاب نہیں لا سکا اور اس نے یحیی کی مخفی گاہ سے آگاہ کر دیا۔ والی بلخ نے یحیی کو گرفتار کیا اور اسے والئ خراسان کی طرف روانہ کیا۔[10] اس نے یحیی پابند زنجیر کیا۔ جب ولید بن یزید کو اس ماجرے کا پتہ چلا تو اس نے یحیی کو امان دینے کا دستور دیا اس کے ساتھیوں کی رہائی کا پروانہ لکھا۔[11]

جب آزادی یحیی کی خبر خراسان کے شیعوں کو پہنچی تو ثروتمند شیعوں کا گروہ لوہار کے کے پاس گیا تا کہ وہ اس کی زنجیروں کو کاٹے اور انہوں نے اسے ایک بڑی رقم: ایک نقل کے مطابق ۲۰ ہزار درہم، کے بدلے میں اسے خرید لیا۔[12]) انہوں نے اس زنجیر کے حصوں کو اپنے اندر تقسیم کیا اور اس سے اپنے لئے نگینوں والی انگشتر بنوائیں۔ اس طرح انہوں نے اس شخصیت یحیی سے تبرک حاصل کیا۔[13]

آغاز قیام

آزادی یحیی کے بعد والی خراسان نے اسے دو ہزار درہم دیئے اور تجویز دی کہ وہ ولید بن یزید کے ساتھ مل جائے۔ یحیی سرخس چلا گیا۔ والی خراسان نے سرخس کے حاکم کو نامہ لکھ کر یحیی کو وہاں باہر نکالنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی طوس کے فرماندار کو لکھا کہ اگر وہ یہاں آئے تو اسے وہاں ٹھرنے نہ دے بلکہ ابر شہر یعنی نیشاپور روانہ کر دے۔[14] والی ابرشہر نے بھی ہزار درہم یحیی کو دیئے اور اسے بیہق بھیج دیا۔[15] یحیی نے اس رقم سے اسلحہ کے اسباب خریدے اور اپنے ساتھ ۷۰ افراد لے کر ابرشہر کی جانب لوٹ آیا۔ جب والی خراسان اس ماجرا سے آگاہ ہوا تو اس نے طوس و سرخس کے حاکموں کو دستور دیا کہ وہ ابرشہر کے حاکم کی مدد کو پہنچیں اور یحیی سے جنگ کریں۔ اس طرح ۱۰ ہزار افراد نے یحیی اور اسکے ۷۰ سپاہیوں کے سامنے صفیں کھیچیں۔[16] یہ یحیی کے قیام کا آغاز تھا۔

اس جنگ میں یحیی بن زید کامیاب ہوا اور عمرو بن زرارہ مارا گیا پس یحیی نے گھوڑے اور ان کے اسلحے مال غنیمت کے طور پر لے لئے۔[17]

جنگ جوزجان

اس کے بعد یحیی ہرات چلا گیا اور وہاں سے جوزجان گیا۔ والی خراسان نے اس سے مقابلے کیلئے ۸ ہزار سپاہی روانہ کئے۔[18] اسی دوران جوزجان، طالقان، فاریاب اور بلخ کے کے لوگوں کی ایک تعداد اس کے ساتھ ملحق ہوگئ۔[19] دونوں فوجیں جوزجان کے پاس «ارغوی» یا «ارعونہ» نامی دیہات کے پاس آمنے سامنے ہوئیں اور ان کے درمیان تین دن اور رات مسلسل لڑائی رہی یہانتک کہ یحیی کے تمام ساتھی مارے گئے۔[20]

شہادت یحیی

۱۲۵ ہجری کے ماہ شعبان میں جمعہ کے روز عصر کے وقت[21] عیسی کے نام سے آزاد شدہ غلام نے یحیی کی پیشانی پر تیر مارا جس کے نتیجے میں اس کی شہادت ہوئی۔ اموی لشکر کے دائیں سمت کے کمانڈر سورۃ بن محمد نے یحیی کا سر تن سے جدا کیااور اسے والئ خراسان کے پاس بھیجا۔ اس نے اسے ولید بن یزید کیلئے روانہ کیا۔[22] ولید نے حکم دیا کہ اس کے سر کو مدینہ میں اس کی ماں ریطہ کے پاس لے جائیں جب اس نے سر دیکھا تو کہا:

بہت زیادہ مدت کیلئے اسے مجھ سے دور رکھا اور اب اسے قتل کرنے کے بعد مجھے ہدیہ دے رہے ہو۔ صبح و شام اس پر اس کے باپ پر خدا کے درود و سلام ہوں۔[23]

یحیی کے جسد کو بغیر سر کے دروازہ جوزجان پر آویزاں کیا گیا۔ ابومسلم خراسانی کے قیام تک اسی طرح رہا اور اس کے بعد اس کے جسد کو اتار کر دفن کیا۔[24] دعبل خزاعی کے درج ذیل شعر میں یحیی کے مدفن کی جانب اشارہ ہے:

[25]
و اخری بارض الجوزجان محلہا و قبر بباخمری لدی الغربات

اثرات قیام

امویوں کے مقابلے میں یحیی کی شہادت مقاومت کا ایک سمبل بن گئی اور خراسان میں الرضا من آل محمد کے شعار سے ہونے والے قیام میں اس شہادت نے لوگوں میں ایک نیا جذبہ پیدا کیا۔ کہتے ہیں کہ خراسانیوں نے سات روز تک اس کا سوگ منایا اور اس سال جو بھی لڑکا پیدا ہوتا اس کا نام یحیی یا زید رکھا جاتا۔[26]

منقول ہے کہ ابو مسلم نے ان تمام افراد کو قتل کیا جنہوں نے اس کے قتل میں کسی قسم کا کردار کیا تھا۔[27]

حوالہ جات

  1. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۴۵.
  2. قرشی، حیاہ الشہید الخالد زید بن علی، ص۶۰.
  3. صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج۲، ص۶۸
  4. صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج۲، ص۶۸، بہ نقل از الحیاہ السیاسیہ و الفکریہ للزیدیہ فی المشرق الاشلامی، ص۷۷-۷۸ و الوافی بالوفیات، ج۲، ص۳۷-۳۸
  5. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۴۶.
  6. طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱۰، ص ۴۲۹۰.
  7. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۳۲۶.
  8. طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱۰، ص۴۳۳۹؛ ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۴۶-۱۴۷.
  9. طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱۰، ص۴۳۳۹.
  10. طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱۰، ص۴۳۴۰؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۴۷.
  11. طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱۰، ص۴۳۴۰.
  12. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۴۸.
  13. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۴۸.
  14. طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱۰، ص ۴۳۴؛ ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۴۸.
  15. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۴۹.
  16. طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱۰، ص ۴۳۴۱؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۴۹.
  17. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۴۹.
  18. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۴۹؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱۰، ص۴۳۴۱.
  19. انساب الاشراف، جزء سوم، ص۱۳۸۱
  20. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۵۰.
  21. ابن عنبۃ، الراغب فی تشجیر عمدۃ الطالب فی أنساب آل أبی طالب، ص ۲۵۸؛ منتخب التواریخ، ص ۳۵۵؛ طبقات ناصری، ج۲، ص۳۸۸
  22. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۵۰.
  23. معالم أنساب الطالبیین، ص۱۹۵.
  24. ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۵۰.
  25. کشف الغمہ، ج۲، ص ۳۲۳
  26. صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج۲، ص۶۹، بہ نقل از مروج الذہب، ج۳، ص۲۲۲ و سیر اعلام النبلاء، ج۵، ص۳۹۱
  27. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۱۵۰.

مآخذ

  • آل طمعہ، سید عبدالجواد، معالم أنساب الطالبیین، محقق: سلمان السید ہادی آل طعمہ، قم، نشر آیۃ اللہ العظمی المرعشی نجفی، ۱۴۲۲ق.
  • ابن عنبۃ، جمال­ الدین احمد، الراغب فی تشجیر عمدۃ الطالب فی أنساب آل أبی طالب، قم، حسنین، ۱۴۲۷ق.
  • ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، چاپ سوم، ۱۴۱۹ق.
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ، اول، بنی ہاشمی، تبریز، ۱۳۸۱ق.
  • خراسانی، محمد ہاشم، منتخب التواریخ، تہران، ۱۳۴۷.
  • صابری، حسین، تاریخ فرق اسلامی، سمت، تہران، ہفتم، ۱۳۹۰ش.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ترجمہ ابوالقاسم پایندہ، تہران، انتشارات اساطیر، چاپ چہارم، ۱۳۷۵ش.
  • قرشی، باقر شریف، حیاہ الشہید الخالد زید بن علی، بی‌جا، ماہر، ۱۴۲۹ق.
  • منہاج، سراج، طبقات ناصری تاریخ ایران و اسلام، تحقیق عبد الحی حبیبی، تہران، چاپ اول، ۱۳۶۳ش.
  • یعقوبی، احمد بن ابی اسحاق، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌ تا.