مندرجات کا رخ کریں

آیت خلق عظیم

ویکی شیعہ سے
آیت خلق عظیم
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت خلق عظیم
سورہقلم
آیت نمبر4
پارہ29
محل نزولمکہ
موضوعاخلاق
مضمونپیامبر(ص)
مربوط آیاتسورہ آل عمران آیت نمبر 159، سورہ احزاب آیت 21


آیت خُلُقِ عظیم سورہ قلم کی چوتھی آیت ہے جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اخلاق کو عظیم قرار دیا گیا ہے۔

مسلمان مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں صبر، حلم، سخاوت اور مدارا جیسے اعلیٰ ترین انسانی اوصاف کو "خُلق عظیم" کی مثالیں قرار دیا ہے۔ امام علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرمؐ کے خُلق عظیم کو ان کا ایمان قرار دیا ہے، اور امام محمد باقر علیہ السلام نے اسے دینِ عظیم اسلام سے تعبیر کیا ہے۔

کہا گیا ہے کہ "خُلق عظیم" نبی اکرمؐ کی روح کی عظمت کی طرف اشارہ ہے۔ علامہ طباطبائی اور مرتضیٰ مطہری کے مطابق، یہ آیت خاص طور پر نبی اکرمؐ کی سماجی اخلاقیات پر دلالت کرتی ہے۔

مقام اور اہمیت

سورہ قلم کی چوتھی آیت پیغمبر اکرمؐ کی توصیف میں بیان کرتی ہے کہ (وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ [قلم: 4]"اور بے شک آپؐ اخلاق کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہیں۔") [1] شیخ طوسی اس آیت کے ذیل میں کہتے ہیں کہ جسے اللہ تعالیٰ نے "خُلق عظیم" کہہ کر سراہا ہو، اس سے بڑھ کر کوئی مدح ممکن نہیں۔[2] لبنانی شیعہ مفسر محمد جواد مغنیہ کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدؐ کے سوا کسی اور نبی کو اس طرح نہیں سراہا ہے،[3] بلکہ کسی مخلوق کو بھی ان الفاظ سے یاد نہیں کیا ہے۔[4] اس آیت کے ذیل میں مسلما ن مفسرین نے دین میں اخلاق کی اہمیت پر تفصیلی بحث کی ہے۔[5]

شانِ نزول

اس آیت کے شان نزول کے بارے کہا گیا ہے کہ نبی اکرمؐ ایک دن نجرانی کپڑے کا عباء اوڑھے ہوئے جا رہے تھے، ایک شخص نے پیچھے سے کپڑے کو کھینچا، یہاں تک کہ وہ آپؐ کی گردن میں پھنس گیا۔ اس شخص نے رسول اللہؐ سے کہا: "اے محمدؐ! مجھے بیت المال سے میرا حصہ دو!" نبی اکرمؐ نے پلٹ کر اسے دیکھا اور مسکرا دیے، پھر فوراً اسے اس کا حق دینے کا حکم دیا اور وہ دیا گیا۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔[6]

امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث[7] کے مطابق، اللہ تعالی نے اپنے نبیؐ کی تربیت کی، اور انہیں "ادبِ الٰہی" سے مؤدب کرنے کے بعد انہیں "خُلق عظیم" کے ساتھ یاد فرمایا۔ اور اسی عظیم اخلاق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے دین اور امت کی رہنمائی کا فریضہ نبی اکرمؐ کو سونپا۔[8]

خُلق عظیم کیا ہے؟

"خُلق" کا مادہ "خلقت" ہے، اور اس کا مطلب وہ صفات ہیں جو انسان کی ذات سے جدا نہیں ہوتیں۔[9] امام علی علیہ السلام کی ایک حدیث میں کہا گیا ہے کہ خُلق عظیم وہی ایمان ہے، جو چار ستونوں پر قائم ہے: صبر، یقین، عدل، اور سخاوت۔[10]

طبرسی نے زوجہ رسول جناب عائشہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرمؐ کے اخلاق کا خلاصہ سورۂ مؤمنون کی ابتدائی دس آیات میں ہے؛ اور جس کی مدحت میں اللہ تعالی نے کہا ہے کہ وہ خلق عظیم کے مرتبے پر فائز ہے، اس کے بعد پھر اور کوئی مدحت و توصیف نہیں ہوسکتی ہے۔[11] ایک اور تفسیر کے مطابق، خُلق عظیم پیغمبر اکرمؐ کی ذات میں موجود ایک ایسی خاص اخلاقی قوت، خارق العادت طاقت اور ناقابل بیان خصوصیت ہے جو نبی اکرمؐ کو وحیِ الٰہی کے قبول کے لیے تیار کرتی ہے۔[12]

نبی اکرمؐ کا سماجی اخلاق

تفسیر مجمع البیان کے مؤلف فضل بن حسن طبرسی کے مطابق، حق پر صبر، وسیع بخشش اور امور کی تدبیر، عقل کے تقاضا کے مطابق ہے، نیز مومنین کی مدد، حسد، لالچ اور دیگر برے اوصاف سے اجتناب کرنا نبی اکرمؐ کا خُلق عظیم ہے۔[13]

علامہ طباطبائی کا کہنا ہے کہ یہ آیت پیغمبر اکرمؐ کے اخلاق کو عظیم قرار دیتی ہے لیکن آیت کے مقام کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے یہ آیت پیغمبر اکرمؐ کے معاشرتی اخلاق سے مربوط ہے؛ جیسے حق پر قائم رہنا، لوگوں کی ایذا پر صبر، معاف کرنا، سخاوت، تواضع، اور درگذشت۔[14]

مرتضیٰ مطہری بھی اس آیت کو پیغمبر اکرمؐ کے معاشرتی اخلاق سے مربوط سمجھتے ہیں جو روح کی عظمت سے پیدا ہوتا ہے، جسے عظیم اخلاق کہا جاتا ہے؛ جیسے استقامت، مشکلات کا برداشت کرنا، صبر، حلم اور درگذر۔ رسول اللہ، کفار اور مشرکین کے مقابلے میں جو عکس العمل دکھاتے تھے اسے دیکھ کر پیغمبر اکرمؐ کو خلق عظیم سے تعبیر کیا ہے۔[15] شیعہ مفسر ملا فتح‌اللہ کاشانی نے بھی یہی کہا ہے کہ نبی اکرمؐ اپنی قوم کی طرف سے آنے والی وہ تکالیف برداشت کرتے تھے جو کوئی اور تحمل نہیں کرسکتا تھا۔[16]

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج24، ص371.
  2. طوسی، التبيان، دار احیاء التراث العربی، ج10، ص75.
  3. مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ھ، ج7، ص387.
  4. دیلمی، إرشاد القلوب، 1377شمسی، ج1، ص133.
  5. ایازی، تفسیرپژوہی ابوالفتوح رازی، 1384شمسی، ص148.
  6. دیلمی، إرشاد القلوب، 1377شمسی، ج1، ص133.
  7. کلینی، الکافی، چاپ اسلامیہ، ج1، ص266.
  8. منتظری، اسلام دین فطرت، 1385شمسی، ص204.
  9. مکارم شیرازی، لغات در تفسیر نمونہ، 1387شمسی، ص213.
  10. شعیری، جامع الأخبار، نجف، ج1، ص36.
  11. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج10، ص500.
  12. کریم‌پور قراملکی و اسکندرلو، «جستاری در معناشناسی و گسترہ «خلق عظیم» در قرآن کریم»، ص272.
  13. طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج10، ص500.
  14. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج19، ص369.
  15. مطہری، مجموعہ آثار. 1390شمسی، ج27. ص583.
  16. کاشانی، منہج الصادقین، تہران، ج9، ص369.

مآخذ

  • ایازی، محمدعلی، تفسیرپژوہی ابوالفتوح رازی، قم، سازمان چاپ و نشر دارالحدیث، 1384ہجری شمسی۔
  • دیلمی، حسن بن محمد، إرشاد القلوب، تہران، اسلامیہ، 1377ہجری شمسی۔
  • شعیری، محمدبن محمد، جامع الأخبار، نجف، المطبعۃ الحیدریۃ، بی‌تا.
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، 1372ہجری شمسی۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • کاشانی، ملا فتح اللہ، منہج الصادقین فی إلزام المخالفین، تہران، کتابفروشی اسلامیہ، بی‌تا.
  • کریم پور قراملکی، علی، و محمدجواد اسکندرلو، «جستاری در معناشناسی و گسترہ «خلق عظیم» در قرآن کریم»، دوفصلنامہ تفسیر پژوہی، شمارہ 12، سال ہفتم، 1398ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب،‌ الکافی، تہران. دار الکتب الاسلامیہ. 1407ھ۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، صدرا، 1390ہجری شمسی۔
  • مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم، دار الکتاب الإسلامی، 1424ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، 1371ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، لغات در تفسیر نمونہ، قم، امام علی بن ابی طالب علیہ‌السلام، 1387ہجری شمسی۔
  • منتظری، حسین علی، اسلام دین فطرت، تہران، نشر سایہ، 1385ہجری شمسی۔