واقعہ اِفک صدر اسلام میں مسلمانوں کے ایک گروہ کی طرف سے ازواج رسول میں سے کسی ایک پر فحشا کی تہمت لگانے کا واقعہ ہے۔ یہ واقعہ حکومتِ نبوی کے خلاف سازش قرار دیا گیا۔ کیونکہ اس سے وہ پیغمبر اکرمؐ کی شخصیت کشی اور آپ کی قیادت کی صلاحیت کو مخدوش کرنا چاہتے تھے؛ لیکن اللہ تعالی نے آیات افک کے ذریعے ان کی سازشوں کو ناکام بنایا۔

مآخذ میں تہمت لگائے جانے والے فرد کے بارے میں دو طرح کی باتیں نقل ہوئی ہیں: اہل سنت منابع اور بعض شیعہ منابع کے مطابق آیات افک عایشہ پر تہمت لگانے کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ کہا گیا ہے کہ غَزوه بَنی‌مُصطَلِق میں عایشہ رسول اللہؐ کے ہمراہ تھی، وہ اسلامی لشکر سے پیچھے رہ گئی تھی اور صفوان بن معطَّل نامی شخص کے ساتھ آکر لشکر سے ملحق ہوئی۔ بعض منافقین نے عایشہ اور صفوان کے مابین نامشروع رابطہ ہونے کی تہمت لگائی۔ بعض شیعہ بعض محققین کا کہنا ہے کہ اس بات پر سند اور متن دونوں حوالے سے متعدد اشکالات وارد ہوتی ہیں جیسے پیغمبر اکرمؐ کا عایشہ پر سوء ظن رکھنا، کیونکہ پیغمبر اکرمؐ کی عصمت سے سازگار نہ ہونا اور اسی طرح دوسری جنگوں میں ازواج رسول کا ساتھ نہ آنا ان اشکالات میں سے ایک ہے۔

دوسری روایت کے مطابق عائشہ نے ماریہ قبطیہ پر تہمت لگائی تھی جس کی وجہ سے آیت نازل ہوئی۔ جب رسول اللہؐ کے بیٹے ابراہیم کی ولادت ہوئی تو عائشہ نے ابراہیم کو جَریح نامی کسی شخص کا بیٹا بتایا اور اس پر پیغمبر اکرمؐ نے امام علیؑ کو جریح قتل کرنے پر مامور کیا۔ جب امام علی جریح کے پاس گئے تو واقعہ جھوٹا نکلا۔ اس روایت پر بھی کئی اشکال ہیں؛ جیسے قرآنی آیات کا سازگار نہ ہونا، کسی تحقیق کے بغیر پیغمبر کی طرف سے قتل کا حکم دینا اور قذف کی حد جاری نہ کرنا اہم اشکالات میں سے ہیں۔ بعض شیعہ علما نے ان دونوں واقعات کو نہیں مانتے ہیں۔ لیکن اس بات کا ازعان کرتے ہیں کہ جس پر تہمت لگائی گئی تھی پیغمبر اکرمؐ کی خاندان سے تھا۔

ایک اور روایت کے مطابق بعض شیعہ اور اہل سنت منابع عایشہ کا ماریہ قبطیہ پر الزام لگانے کی تائید کرتے ہیں لیکن ان میں آیات افک اس بارے میں نازل ہونے کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ شیعہ علما میں آیت اللہ ابوالقاسم خوئی اور سید مرتضی عسکری آیہ افک کو ماریہ کے واقعے سے مربوط سمجھتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ حدیث افک تاریخ اسلام کے مشکل مباحث میں سے ایک ہے جو تفسیر، کلام، فقہ اور رجال کے مباحث سے مربوط ہے۔ واقعہ افک کے بارے میں بعض کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔

تاریخ اسلامی میں واقعہ افک کی اہمیت

"اِفک" (جھوٹ[1] اور تہمت[2] کے معنی میں) پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں رونما ہونے والا ایک واقعہ ہے جس میں رسول اللہؐ کی ایک زوجہ پر ناجائز تہمت لگائی گئی جس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے آیات افک (آیات ۱۱-۲۶ سوره نور) نازل کیا۔[3] کہا جاتا ہے کہ تہمت لگانے والوں کا مقصد پیغمبر اکرمؐ کی شخصیت کو بدنام کرنا تھا؛ لیکن اللہ تعالی نے ان آیات کو نازل کر کے تہمت لگانے والوں کی سرزنش کی اور سازش کو بےنقاب کیا۔[4] بعض محققوں کی نظر میں واقعہ افک پیغمبر اکرمؐ کی حکومت کے خلاف منافقین کی طرف سے کی جانے والی ایک اہم سازش تھی؛[5] جس سے پیغمبر اکرمؐ کی صداقت اور رہبری کی صلاحیت کو خدشہ دار کریں[6] اور سیاسی اور معاشرتی اعتبار سے آپ منزوی اور محدود ہوجائیں۔[7] بعض کا کہنا ہے کہ حدیث افک تاریخ اسلام میں سب سے مشکل مباحث میں سے ہے جو تفسیری، کلامی، فقهی اور رجالی علوم سے وابستہ ہے اور سیاسی اور مذہبی دلچسپی کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوچکا ہے۔[8]

آیات افک

قرآن کریم کے سورہ نور کی آیت نمبر 11 سے 26 تک میں مذکورہ واقعے میں کسی مسلمان پر لگائی گئی تہمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس ناروا عمل کی سرزنش کی گئی ہے۔[9] تفسیر المیزان کے مؤلف محمد حسین طباطبایی کا کہنا ہے کہ آیات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس فرد پر یہ تہمت لگائی گئی تھی وہ کوئی معمولی شخصیت نہیں تھی بلکہ ان کا تعلق پیغمبر اکرمؐ کے گھرانے سے تھا اور تہمت لگانے والے بھی ایک یا دو شخص نہیں تھے بلکہ پورا ایک گروہ تھا۔[10] اللہ تعالی نے مذکورہ آیات میں تہمت لگانے والوں کو سخت عذاب کا وعدہ دینے کے ساتھ ساتھ مومنین کو بھی اس قسم کی افواہ کو بغیر کسی تحقیق کے قبول کرنے پر ان کی سرزنش کی۔[11]

مذکورہ آیات کے آخری حصے میں خداوندعالم نے لوگوں کو کسی پاکدامن عورت پر فحاشی کی تہمت لگانے سے سختی سے منع کرتے ہوئے پاکدامن عورتوں کو ایسی تہمتوں سے مبراء قرار دیا ہے۔[12]

واقعہ افک کے بارے میں مختلف اقوال

واقعہ افک میں جس شخص پر تہمت لگائی گئی ہے اس کے بارے میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے۔[13] بعض شیعہ اقوال کے مطابق یہ تہمت ماریہ قبطیہ پر لگائی گئی تھی؛ لیکن اہل سنت روایات اور بعض شیعوں کے مطابق یہ الزام عائشہ پر لگائی گئی تھی۔[14] تفسیرالقمی کے مؤلف علی بن ابراهیم قمی[15] کی باتوں سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ شیعوں کے نزدیک ان آیات کا ماریہ قبطیہ کے بارے میں نازل ہونے میں کوئی اختلاف نہیں یا کم سے کم مشہور یہی ہے کہ یہ آیات ماریہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں؛[16] لیکن بعض کا کہنا ہے کہ ان آیتوں کا ماریہ کے بارے میں نازل ہونا نہ صرف مشہور ہے بلکہ قدیم علما کے ہاں آیات کا عائشہ کے بارے میں نازل ہونا مشہور تھا؛[17] جیسے کہ آٹھویں صدی ہجری کے فقیہ اور متکلم علامہ حلی ان آیات کے نزول کو عائشہ سے مربوط سمجھتے ہیں اور اس کے برخلاف کوئی اور نظریہ ہونے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔[18]

پہلا قول: عائشہ پر تہمت

چودہویں صدی ہجری کے شیعہ مفسر محمدجواد مغنیه اور اکثر مفسرین اور مورخین کے مطابق آیات افک اس واقعے سے مربوط ہیں جو [19] یا [20] کو رسول اللہؐ کی غزوہ بنی‌ مُصطَلِق سے واپسی پر پیش آیا۔[21] عائشہ کی روایت کے مطابق پیغمبر اکرمؐ ہر جنگ میں کسی ایک زوجہ کو ساتھ لے جاتے تھے اور غزوہ بنی مصطلق میں عائشہ کو ہمراہ لے گئے تھے۔[22] جنگ سے واپسی پر لشکر جب استراحت کے لئے رک گیا عائشہ رفع حاجت کے لئے لشکرگاہ سے فاصلے پر گئی اور چونکہ ان کے گلے کا ہار اسی وقت گم ہوگیا تھا اس لئے اسے ڈھونڈنے میں کچھ وقت لگ گیا۔[23] قافلہ والوں نے خیال کیا کہ آپ ہودج میں موجود ہونگی، اس لیے آگے کی طرف چل پڑے۔[24] جب واپس آئی تو قافلہ وہاں سے روانہ ہوچکا تھا۔ آپ اسی جگہ بیٹھ گئی، اس دوران صفوان بن معطَّل نامی ایک شخص وہاں پہنچ گیا جس نے حضرت عائشہ کو اپنے اونٹ پر بٹھا کر اپنے ساتھ قافلہ تک پہنچایا۔[25] سفر سے واپسی پر عائشہ بیمار ہو گئیں اور اس دوران آپ نے یہ محسوس کیا کہ پیغمبر اکرمؐ کا آپ کے ساتھ برتاؤ میں کچھ تبدیلی آئی ہے اور صفوان بن معطل کے بارے میں کچھ افواہیں لوگوں کے درمیان گردش کررہی ہیں۔[26] اس واقعے کے کچھ مدت بعد قرآن کی مذکورہ آیات نازل ہوئی اور تہمت لگانے والوں کی سرزنش کی گئی۔[27] بعض شیعہ علما نے واقعہ افک کو عائشہ پر تہمت لگانے سے مربوط جانا ہے۔ انہی علما میں سے نصر بن مزاحم نے اپنی کتاب وَقْعَةُ صِفّین میں،[28] نُعمانی نے ان سے منسوب تفسیر میں،[29] شیخ مفید نے الجَمَل میں،[30] شیخ طوسی نے التِّبیان میں،[31] طَبرِسی نے اِعلام‌الوَری میں،[32] قطب‌الدین راوندی نے فقه‌القرآن میں[33] اور مقدس اردبیلی نے زُبدةالبیان میں[34] بیان کیا ہے۔

تہمت لگانے والے

قرآن کریم کی مذکورہ آیات میں تہمت لگانے والوں کو گروہ کہا گیا ہے لیکن ان کا نام ذکر نہیں ہوا ہے؛[35] لیکن بعض مآخذ میں عبداللہ بن اُبَیّ، حسان بن ثابت اور مسطح بن اثاثہ جیسے منافقوں کو واقعہ افک کے سرغنوں میں شمار کیا گیا ہے۔[36]

عائشہ کے لئے فضیلت کی تخلیق

اهل‌سنت آیات افک کو عائشہ کی شان میں نازل ہونے کو ایک فضیلت سمجھتے ہیں۔[37] یہ بات اگرچہ اہل سنت کی مختلف روایات میں ذکر ہوئی ہے لیکن شیعہ مورخ سید جعفر مرتضی عاملی کا کہنا ہے کہ ان تمام روایتوں کی روای عائشہ ہی ہیں۔[38] بعض محققین کا کہنا ہے کہ عائشہ نے اس حادثے کو شخصی مسئلے میں تبدیل کیا ہے۔[39] اور حد سے زیادہ اپنے پر توجہ دے کر اسے اپنے لئے ایک فضیلت بنایا ہے۔[40] اسی وجہ سے شیعہ اس واقعے کی صحت میں تردید کرتے ہیں۔[41] اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ آیات افک اگر عائشہ کے بارے میں نازل ہوئیں ہوں بھی تو یہ صرف عائشہ کی پاکدامنی پر دلالت ہے اس کے لئے کوئی اور فضیلت ثابت نہیں ہوتی ہے۔[42]

دوسرا قول: ماریہ قبطیہ پر تہمت

آیات افک کا ماریہ قبطیہ سے مربوط ہونظ کی روایت روایت پہلی بار تفسیر علی بن ابراہیم قمی میں نقل ہوئی ہے۔[43] علی بن ابراہیم قمی کی امام باقرؑ سے منقول روایت کے مطابق عایشہ نے ماریہ قبطیہ پر جریح قبطی نامی شخص کے ساتھ غلط رابطہ رکھنے کی تہمت لگائی تھی۔[44] اس روایت کے مطابق حضرت عائشہ نے پیغمبر اکرمؐ سے جس وقت آپ اپنے بیٹے ابراہیم کی موت کی وجہ سے غمگین تھے، کہا آپ ان کی موت پر کیوں غمگین ہیں؟ حالانکہ وہ تو آپ کی نسل میں سے نہیں تھا بلکہ وہ تو جریح کا بیٹا تھا۔[45] اس کے بعد پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ کو جریح قتل کرنے کیلئے بھیجا۔[46] جریح کو جب حضرت علیؑ کے ارادے کا پتہ چلا تو جان بچانے کے لئے کسی درخت پر چڑھ گیا[47] اس دوران اس کا لباس بدن سے ہٹ گیا تو امام علیؑ کو پتہ چلا کہ اس شخص کا تو آلت تناسل ہی نہیں ہے۔[48] یوں ماریہ پر لگائی گئی تہمت سرے سے ہی ختم ہو گئی اور پھر آیات افک نازل ہوئیں۔[49]

کہا جاتا ہے کہ صرف شیعہ معاصر علما نے آیات افک کو ماریہ قبطیہ سے مربوط سمجھا ہے۔[50] ان علما میں سید ابوالقاسم خویی،[51] سید جعفر مرتضی عاملی[52] اور سید مرتضی عسکری[53] قابل ذکر ہیں۔ شیخ مفید نے حدیث ماریہ کے نام سے ایک رسالہ رِسالةٌ حَولَ خَبَرِ ماریة کے نام سے لکھآ ہے اس میں اس حدیث کو مسلم سمجھتے ہوئے سب علما کے ہاں اس حدیث کا ثابت ہونے کو ذکر کیا ہے؛[54] لیکن جس حدیث کو نقل کیا ہے اس میں آیات افک کے نزول کا ذکر نہیں ہے؛[55] اسی طرح بعض دیگر منابع میں بھی آیات افک کے نزول کا تذکرہ کئے بغیر واقعہ ماریہ قبطیہ ذکر ہوا ہے ان منابع میں امالی سیدِ مرتضی،[56] الهدایة الکبری،[57] دلائل‌الامامه[58] اور المناقب[59] شامل ہیں۔ اہل سنت علما نے آیات افک کے ذیل میں منافقین کی طرف سے عائشہ پر تہمت لگانے کا تذکرہ کیا ہے البتہ ماریہ پر تہمت کا واقعہ بھی اہل سنت مآخذ میں ذکر ہوا ہے۔ ان مآخذ میں صحیح مسلم،[60] الطبقات الکبری،[61] اَنساب‌الاَشراف،[62] المُستدرَکُ علی الصَّحیحَین[63] اور صَفوة الصَّفوة[64] شامل ہیں۔

دونوں اقوال پر اعتراضات

ان دونوں اقوال پر کچھ اعتراضات ہوئے ہیں اور محمدحسین طباطبایی،[65] سید محمدحسین فضل‌الله،[66] مکارم شیرازی[67] اور جعفر سبحانی[68] جیسے مفسرین نے انہی اشکالات اور اعتراضات کی وجہ سے دونوں اقوال کو رد کیا ہے۔ اور دنوں اقوال درست نہ ہونے کی وجہ سے یہ بھی احتمال دیا گیا ہے آیہ شاید کسی تیسرے شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہو۔[69] ان کے برخلاف بعض محققین کا کہنا ہے کہ دونوں واقعات صحیح بھی ہوسکتی ہیں؛ اس طرح سے کہ عائشہ کے واقعے کے بارے میں آیات افک نازل ہوئی ہیں اور ماریہ کے واقعے میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ہے۔[70]

عائشہ سے مربوط قول پر اعتراضات

شیعہ مسلمان، انبیاء کی بیویوں (یہاں تک کہ حضرت نوح کی بیوی اور حضرت لوط کی بیوی)کو زنا سے مبرا سمجھتے ہیں؛[71] لیکن ان میں سے بعض کی نظر میں آیات افک کا عائشہ مربوط ہونے میں کئی اشکالات ہیں۔[72] سید جعفر مرتضی، اس قصے کو جعلی اور اس کا مقصد عائشہ کی فضلیت ظاہر کرنا قرار دیتے ہیں[73] اس کے علاوہ بعض انہی روایت کی سند ضعیف ہیں[74] اور بعض دیگر احادیث سے متناقض بھی ہیں۔[75] انہی اشکالات میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • اس اہم کام میں چھوٹے بچے سے مشورہ لینا: ان روایات میں سے ایک میں آیا ہے کہ اس سلسلے میں پیغبمر اکرمؐ نے حضرت علیؑ اور اسامہ سے مشورہ کیا تو اسامہ نے حضرت عائشہ کے حق میں جبکہ حضرت علیؑ نے ان کی مخالفت میں رائے دی۔[76] حالانکہ اس وقت اسامہ چھوٹا بچہ تھا۔[77]
  • پیغمبر اکرمؐ کا عائشہ پر سوءظن: اہل سنت کی گزارش کے مطابق رسول اللہؐ کو عائشہ پر سوء ظن ہوا؛ لیکن ایسی بات پیغمبر اکرمؐ کی عصمت کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔[78]
  • حدّ قذف کی حد جاری نہ ہونا: قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعے سے پہلے اسلام میں قذف کی حد تشریع ہوچکی تھی؛ حالانکہ اگر عائشہ کا واقعہ صحیح ہوتا تو اس تہمت اور الزام کے پھیلنے کے دوران (ایک ماہ تقریبا) پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے تہمت لگانے والوں سے دلیل نہ مانگنا اور قذف کی حد جاری نہ کرنا ممکن نہیں تھا۔[79] البتہ تیسری صدی ہجری کے مورخ یعقوبی کے مطابق رسول اللہؐ نے تہمت لگانے والوں کو سزا دی اور قذف کرنے والوں پر حد جاری کی۔[80]
  • صفوان کا غیر شادی شدہ ہونا: اس روایت میں عائشہ نے صفوان کو ایک غیر شادی شدہ فرد معرفی کیا ہے؛ جبکہ دوسری روایات کے مطابق صفوان کی بیوی تھی اور اس کی بیوی نے رسول اللہ کے ہاں شکایت کی ہے۔[81]
  • اتنے اہم واقعے کا صرف ایک ہی راوی ہونا: سید جعفر مرتضی کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے حوالے سے نقل ہونے والی روایت میں اکثر یا شاید تمام روایات عائشہ سے نقل ہوئی ہیں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے اہم واقعے کا صرف ایک ہی راوی ہو اور کوئی دوسرا راوی نقل ہی نہ کرے؟[82]
 
کتاب حدیث‌الاِفک تألیف سید جعفر مرتضی عاملی

ماریہ سے مربوط قول پر اعتراضات

آیات افک کا ماریہ قبطیہ کے واقعے کے ساتھ مربوط ہونے کو بھی عائشہ کی روایت کی طرح نقد کیا ہے اور بعض علما نے اس پر بعض اعتراضات کئے ہیں۔[83] شیعہ مفسر سید محمد حسین فضل‌الله کا کہنا ہے کہ اس قول پر عائشہ مربوط قول سے زیادہ اشکالات ہیں۔[84] ان اشکالات میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • تہمت لگانے والوں پر حدّ قذف جاری نہ ہونا: فرض یہ ہے کہ قذف کا حکم اس واقعے سے پہلے آچکا تھا، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ رسول اللہؐ نے ماریہ پر تہمت لگانے والوں پر قذف کی حد جاری کیوں نہیں کی۔[85]
  • کسی دلیل اور تحقیق کے بغیر ملزم کو قتل کا حکم: یہ کیسے ممکن ہے کہ پیغمبر اکرمؐ الزام صحیح یا غلط ہونے پر کسی تحقیق کے بغیر ملزم کو قتل کرنے کا حکم دے؟ اس کے علاوہ ایسے گناہ کی سزا قتل بھی نہیں ہے۔[86]
  • آیات قرآن سے سازگار نہ ہونا: آیات افک سے معلوم ہوتا ہے کہ تہمت لگانے والے ایک گروہ ہے جبکہ اس روایت میں صرف عائشہ ہے۔[87]

مونوگراف

اس واقعے کے بارے میں شیعہ اور سنی علماء نے مختلف کتابیں اور مقالہ جات لکھے ہیں جن میں سے دو اہم کتابیں درج ذیل ہیں:

  • «حدیث‌ الاِفک» مصنف سید جعفر مرتضی عاملی: مصنف نے اس کتاب کو 14 باب میں تقسیم کیا ہے اور عائشہ اور ماریہ دونوں کے بارے میں منقول داستان کی تحقیق کی ہے۔[88] مؤلف نے عائشہ کے بارے میں منقول قصے کو جعلی قرار دیتے ہیں اور ماریہ والے واقعے کو درست سمجھتے ہیں اور اس بارے میں کئے جانے والے اعتراضات کا جواب بھی دیتے ہیں۔[89] اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن سنہ 1439ھ کو المرکزُ الاِسلامی لِلدِّراساتِ بیروت نے 403 صفحوں پر منتشر کیا۔[90]
  • حدیثُ الاِفک مِنِ المَنظورِ الاِعلامی مصنف علی محمود رشوان: اس کتاب کے مصنف اہل سنت ہیں اور عائشہ سے مربوط واقعے کو قبول کرتے ہیں اور ماریہ کے واقعے کی طرف انھوں نے کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔[91] یہ کتاب تین فصلوں پر مشتمل ہے۔[92] اس کتاب میں اس واقعہ کا زمان و مکان اور حالات نیز اس پر مختلف لوگوں کا موقف اور اس موضوع کے بارے میں بعض قرآنی نکات بیان ہوئے ہیں۔[93] اس کتاب کو جامعة امِّ‌القرای مکہ نے 1415ھ کو 162 صفحوں پر مشتمل منتشر کیا ہے۔[94]

حوالہ جات

  1. فراهیدی، العین، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۴۱۶.
  2. ابن‌منظور، لسان‌العرب، ۱۴۱۴ق، ج۱۰، ص۳۹۰.
  3. خراسانی و دشتی، آیه‌های نامدار، ۱۳۸۸ش، ص۳۸.
  4. منتظری، پاسخ به پرسش‌های دینی، ۱۳۸۹ش، ص۴۳.
  5. حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی‌ـ‌تفسیری حادثه افک»، ص۱۶۰.
  6. رشوان، حدیث الافک من المنظور الاسلامی، ۱۴۱۵ق، ص۱۲.
  7. جعفرنیا، «بررسی و نقد گزارش‌های حادثه افک»، ص۴۷.
  8. حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی‌ـ‌تفسیری حادثه افک»، ص۱۶۰.
  9. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص۸۹.
  10. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج15، ص 89۔
  11. مکارم شیرازی، الامثل، 1421ھ، ج11، ص 46۔
  12. سورہ نور، آیات 20 تا 26۔
  13. منتظری، پاسخ به پرسش‌های دینی، ۱۳۸۹ش، ص۴۲.
  14. منتظری، پاسخ به پرسش‌های دینی، ۱۳۸۹ش، ص۴۲.
  15. قمی، تفسیرالقمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۹.
  16. حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی‌ـ‌تفسیری حادثه افک»، ص۱۶۶.
  17. خشن، ابحاث حول السیدة عایشه، ۱۴۳۸ق، ص۲۵۸.
  18. ملاحظہ کریں: علامہ حلی، اجوبۃ المسائل المهنّائیہ، ۱۴۰۱ق، ص۱۲۱.
  19. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۴ق،‌ ج۲، ص۴۸-۵۰؛ مسعودی، التنبیه و الاشراف، مؤسسة نشر المنابع الثقافة الاسلامیه، ص۲۱۵.
  20. ابن‌اثیر، اسدالغابة، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۹.
  21. مغنیه، تفسیرالکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۴۰۳.
  22. بخاری، صحیح‌البخاری، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۱۰۱.
  23. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۲۸.
  24. ابن‌هشام، السیرة النبویة، دارالمعرفة، ج۲، ص۲۹۸.
  25. مسلم، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج۴، ص۲۱۲۹.
  26. صنعانی، المصنف، ۱۴۰۳ق، ج۵، ص۴۱۰.
  27. واحدی نیشابوری، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۳۳۲.
  28. ابن‌مزاحم، وقعة صفین، ۱۴۰۴ق، ص۵۲۳.
  29. نعمانی، رسالة المحکم و المتشابه، ۱۳۸۴ش، ص۱۵۶.
  30. شیخ مفید، الجمل، ۱۴۱۶ق، ص۱۵۷.
  31. شیخ طوسی، التبیان، ج۷، ص۴۱۵.
  32. طبرسی، اعلام‌الوری، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۱۹۷.
  33. راوندی، فقه‌القرآن، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۳۸۸.
  34. مقدس اردبیلی، زبدةالبیان، مکتبةالمرتضویة، ص۳۸۸.
  35. سوره نور، آیه ۱۱.
  36. یعقوبی، تاریخ‌الیعقوبی، دارصادر، ج۲، ص۵۳؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق،‌ ج۲، ص۶۱۴-۶۱۶.
  37. ملاحظہ کریں: فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۳، ص۳۳۸؛ ابن‌اثیر، اسدالغابة، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۱۹۱.
  38. عاملی، حدیث‌الافک، ۱۴۳۹ق، ص۹۰.
  39. جعفرنیا، «بررسی و نقد گزارش‌های حادثه افک»، ص۵۲.
  40. حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی‌ـ‌تفسیری حادثه افک»، ص۱۶۱.
  41. جعفرنیا، «بررسی و نقد گزارش‌های حادثه افک»، ص۵۲؛ حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی‌ـ‌تفسیری حادثه افک»، ص۱۶۱.
  42. حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی‌ـ‌تفسیری حادثه افک»، ص۱۶۰.
  43. حسینیان مقدم، «بررسی تاریخی‌ـ‌تفسیری حادثه افک»، ص۱۶۶.
  44. قمی، تفسیرالقمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۹.
  45. قمی، تفسیرالقمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۹.
  46. قمی، تفسیرالقمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۹.
  47. قمی، تفسیرالقمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۹.
  48. قمی، تفسیرالقمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۹.
  49. قمی، تفسیرالقمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۹۹.
  50. خشن، ابحاث حول السیدة عایشه، ۱۴۳۸ق، ص۲۵۸.
  51. خویی، صراط‌النجاة، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۴۶۳.
  52. عاملی، حدیث‌الافک، ۱۴۳۹ق، ص۳۸۱-۳۸۲.
  53. عسکری، احادیث ام‌المؤمنین عایشه، ۱۴۲۵ق، ج۲، ص۱۸۶-۱۸۷.
  54. شیخ مفید، رسالة حول خبر ماریه، ۱۴۱۳ق، ص۱۸.
  55. خشن، ابحاث حول السیدة عایشه، ۱۴۳۸ق، ص۲۵۴.
  56. سید مرتضی، امالی‌المرتضی، ۱۹۹۸م، ج۱، ص۷۷.
  57. خصیبی، الهدایة الکبری، ۱۴۱۹ق، ص۲۹۷-۲۹۸.
  58. طبری، دلائل‌الامامه، ۱۴۱۳ق، ص۳۸۶-۳۸۷.
  59. ابن‌شهر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۲۲۵.
  60. مسلم، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج۴، ص۲۱۳۹.
  61. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۱۷۲.
  62. بلاذری، انساب‌الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۴۵۰.
  63. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۱۱ق ج۴، ص۴۱.
  64. ابن‌جوزی، صفوةالصفوة، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۳۴۵.
  65. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص۸۹.
  66. فضل‌الله، تفسیر من وحی القرآن، ۱۴۱۹ق، ج۱۶، ص۲۵۲-۲۵۷.
  67. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۴ش، ج۱۴، ص۳۹۱-۳۹۳.
  68. سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۹۰ش، ج۹، ص۱۱۸.
  69. جعفرنیا، «بررسی و نقد گزارش‌های حادثه افک»، ص۴۷.
  70. خشن، ابحاث حول السیدة عایشه، ۱۴۳۸ق، ص۲۶۳.
  71. طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج۱۰، ص۵۲؛ طبرسی، جوامع‌الجامع، ۱۴۱۸ق، ج۳، ص۵۹۶.
  72. ملاحظہ کریں: عاملی، حدیث‌الافک، ۱۴۳۹ق، ص۵۵-۳۳۴؛ عسکری، احادیث ام‌المؤمنین عایشه، ۱۴۲۵ق، ج۲، ص۱۶۷-۱۸۱.
  73. عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۱۲، ص۷۷-۷۸، ۸۱، ۹۷.
  74. عاملی، حدیث‌الافک، ۱۴۳۹ق، ص۵۷-۹۰.
  75. عاملی، حدیث‌الافک، ۱۴۳۹ق، ص۹۴-۱۱۲.
  76. ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج2، ص307۔
  77. عاملی، حدیث‌الافک، ۱۴۳۹ق، ص۱۷۸-۱۸۱.
  78. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۵، ص۱۰۱؛ مکارم شیرازی، الامثل، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص۴۰.
  79. مکارم شیرازی، الامثل، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص۴۱؛ جعفرنیا، «بررسی و نقد گزارش‌های حادثه افک»، ص۵۳.
  80. یعقوبی، تاریخ‌الیعقوبی، دارصادر، ج۲، ص۵۳
  81. جعفرنیا، «بررسی و نقد گزارش‌های حادثه افک»، ص۵۸.
  82. عاملی، حدیث‌الافک، ۱۴۳۹ق، ص۹۱.
  83. خشن، ابحاث حول السیدة عایشه، ۱۴۳۸ق، ص۲۴۹.
  84. فضل‌الله، من وحی القرآن، ۱۴۱۹ق، ج۱۶، ص۲۵۵۔
  85. خشن، ابحاث حول السیدة عایشه، ۱۴۳۸ق، ص۲۵۰.
  86. فضل‌الله، من وحی القرآن، ۱۴۱۹ق، ج۱۶، ص۲۵۶.
  87. مکارم شیرازی، الامثل، ۱۴۲۱ق، ج۱۱، ص۴۱.
  88. عاملی، حدیث‌الافک، ۱۴۳۹ق.
  89. عاملی، حدیث‌الافک، ۱۴۳۹ق.
  90. عاملی، حدیث‌الافک، ۱۴۳۹ق.
  91. رشوان، حدیث الإفک من المنظور الإعلامی، ۱۴۱۵ق.
  92. ملاحظہ کریں: رشوان، حدیث الافک من المنظور الاعلامی، ۱۴۱۵ق.
  93. ملاحظہ کریں: رشوان، حدیث الافک من المنظور الاعلامی، ۱۴۱۵ق.
  94. ملاحظہ کریں: رشوان، حدیث الافک من المنظور الاعلامی، ۱۴۱۵ق.

مآخذ

  • قرآن کریم.
  • ابن‌اثیر، علی بن محمد، اسد الغابة فی معرفة الصحابه، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۹ق.
  • ابن‌جوزی، عبدالرحمن بن علی، صفوةالصفوة، قاهره، دارالحدیث، ۱۴۲۱ق.
  • ابن‌سعد، محمد، الطبقات الکبری، طائف، مکتبةالصدیق، ۱۴۱۴ق.
  • ابن‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، قم، علامه، ۱۳۷۹ق.
  • ابن‌مزاحم، نصر، وقعة صفین، قم، کتابخانه آیت‌الله مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ق.
  • ابن‌منظور، محمد بن مکرم، لسان‌العرب، بیروت، دارصادر، ۱۴۱۴ق.
  • ابن‌هشام، عبدالملک، السیرة النبویه، تحقیق مصطفی السقا و ابراهیم الابیاری و عبدالحفیظ شلبی، بیروت،‌ دارالمعرفة، بی‌تا.
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح‌البخاری، بیروت، دار طوق النجاة، ۱۴۲۲ق.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب‌الاشراف، تحقیق محمد حمید‌الله، مصر، دارالمعارف، ۱۹۵۹م.
  • جعفرنیا، فاطمه، «بررسی و نقد گزارش‌های حادثه افک»، در مجله پژوهش‌نامه تاریخ، شماره ۴۷، تابستان ۱۳۹۶ش.
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، دار الکتب العلمیه، ۱۴۱۱ق.
  • حسینیان مقدم، حسین، «بررسی تاریخی‌ـ‌تفسیری حادثه افک»، مجله تاریخ اسلام در آینه پژوهش، شماره ۷، پاییز ۱۳۸۴ش.
  • خراسانی، علی و سید محمددشتی، آیه‌های نامدار، قم، نشر جمال، ۱۳۸۸ش.
  • خشن، حسین احمد، ابحاث حول السیدة عایشة رؤیة شیعیة معاصرة، بیروت، دار روافد، ۱۴۳۸ق.
  • خصیبی، حسین بن همدان، الهدایة الکبری، بیروت، البلاغ، ۱۴۱۹ق.
  • خویی، سید ابوالقاسم، صراط‌النجاة، با حاشیه میرزا جواد تبریزی، قم، دفتر نشر برگزیده، ۱۴۱۶ق.
  • راوندی، سعید بن هبةالله، فقه‌القرآن، قم، کتابخانه آیت‌الله مرعشی نجفی، ۱۴۰۵ق.
  • رشوان، علی محمود، حدیث الافک من المنظور الاسلامی، مکه، جامعة ام‌القری، ۱۴۱۵ق.
  • سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، مؤسسه امام صادق‌(ع)، ۱۳۹۰ش.
  • سید مرتضی، علی بن حسین، امالی‌المرتضی، قاهره، دار الفکر العربی، ۱۹۹۸م.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • شیخ مفید، محمد بن نعمان، الجمل، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، ۱۴۱۶ق.
  • شیخ مفید، محمد بن نعمان، رسالة حول خبر ماریه، قم، المؤتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید، ۱۴۱۳ق.
  • صنعانی، عبدالرزاق بن همام، المصنف، هند، المجلس العلمی، ۱۴۰۳ق.
  • طایی، نجاح، سیرة السیدة العایشه، قم، دار الهدی لاحیاء التراث، ۱۴۲۷ق.
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۷ق.
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام‌الوری، قم، مؤسسه آل‌البیت، ۱۴۱۷ق.
  • طبرسی، فضل بن حسن، جوامع‌الجامع، قم، دفتر نشر اسلامی، ۱۴۱۸ق.
  • طبری، محمد بن جریر بن رستم، دلائل‌الامامة، قم، بعثت، ۱۴۱۳ق.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، بیروت،‌ دارالتراث، ۱۳۸۷ق.
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، قم، دارالحدیث، ۱۴۲۶ق.
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، حدیث‌الافک، بیروت، المرکز الاسلامی للدراسات، ۱۴۳۹ق.
  • عسکری، سید مرتضی، احادیث ام‌المؤمنین عایشه، تهران، دانشکده اصول دین، ۱۴۲۵ق.
  • علامه حلی، حسن بن یوسف، اجوبة المسائل المهنّائیة، قم، مطبعة خیام، ۱۴۰۱ق.
  • فخر رازی، محمد بن عمر قرشی طبرستانی، التفسیر الکبیر، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ق.
  • فراهیدی، خلیل بن احمد، العین، قم، دارالهجره، ۱۴۱۰ق.
  • فضل‌الله، محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دارالملاک، ۱۴۱۹ق.
  • قمی، علی ابن ابراهیم، تفسیرالقمی، قم، دارالکتاب، ۱۳۶۳ش.
  • مسعودی، علی بن الحسین، التنبیه و الاشراف، قاهره، دارالصاوی، بی‌تا (چاپ افست: قم، مؤسسة نشر المنابع الثقافة الاسلامیة، بی‌تا).
  • مسلم، ابن‌الحجاج القشیری، صحیح مسلم، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • مغنیه، محمدجواد، تفسیر الکاشف، تهران، دار الکتب الاسلامیه، ۱۴۲۴ق.
  • مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، زبدةالبیان، تهران، مکتبة المرتضویه، بی‌تا.
  • مکارم شیرازی، ناصر، الامثل فی تفسیر کتاب الله المنزل، ترجمه و تلخیص محمدعلی آذرشب، قم، مدرسه امام علی بن ابی‌طالب، ۱۴۲۱ق.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دار الکتب الاسلامیه، ۱۳۷۴ش.
  • منتظری، حسینعلی، پاسخ به پرسش‌های دینی، قم، دفتر آیت‌الله منتظری، ۱۳۸۹ش.
  • نعمانی، محمد بن ابراهیم، رسالة المحکم و المتشابه، مشهد، مجمع البحوث الاسلامیه، ۱۳۸۴ش.
  • واحدی نیشابوری، علی بن احمد، اسباب نزول القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیه، ۱۴۱۱ق.
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، تحقیق مارسدن جونس،‌ بیروت، مؤسسةالاعلمی، ۱۴۰۹ق.
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ‌الیعقوبی،، بیروت،‌ دارصادر، بی‌تا.