شعب ابی طالب میں بنی ہاشم کا محاصرہ
شعب ابی طالب میں بنی ہاشم کا محاصرہ، قریش کی طرف سے رسول اکرمؐ اور بنی ہاشم کے خلاف ایک ہمہ گیر اقتصادی، سماجی اور سیاسی بائیکاٹ تھا، جس کا مقصد مکہ میں اسلام کی دعوت کو روکنا تھا۔ قریش کے سرداروں نے ایک معاہدہ تیار کیا جس کی رُو سے محصورین (یعنی بنی ہاشم) کے ساتھ ہر قسم کے تجارتی، ازدواجی اور سماجی تعلقات منقطع کر دیے گئے۔
یہ پابندی تین سال تک جاری رہی اور بنی ہاشم کو سخت ترین مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تاریخی روایات کے مطابق رسول اللہؐ نے خبر دی کہ ایک دیمک (موریانہ) نے اس معاہدے کو چاٹ لیا ہے اور صرف "باسمک اللھم" (تیرے نام کے ساتھ اے اللہ) کا جملہ باقی رہ گیا ہے۔ جب اس واقعے کی تصدیق ہوئی تو محاصرہ ختم کر دیا گیا۔
علت اور پس منظر
ابن سعد کے مطابق حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے ہاتھوں مسلمانوں کے اچھے استقبال نے قریش کو غضبناک کر دیا اور انہوں نے رسول اللہؐ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے منصور بن عکرمہ کے قلم سے ایک معاہدہ تیار کیا اور اسے کعبہ میں آویزاں کیا، اور اس پر عمل کرنے کا عہد کیا۔[1]
معاہدے کی شرائط
اس معاہدے کے تحت، نبی اکرمؐ کے حامیوں کے ساتھ ہر قسم کی تجارتی لین دین، سماجی میل جول اور نکاح پر پابندی لگا دی گئی۔ محاصرہ ختم کرنے کی واحد شرط یہ تھی کہ رسول اللہؐ کو قریش کے حوالے کر دیا جائے تاکہ انہیں قتل کیا جا سکے۔ قریش کے تقریباً تمام سرداروں (سوائے مطعم بن عدی کے) نے اس معاہدے پر دستخط کیے۔[2] یہاں تک کہ مکہ آنے والے نئے افراد کو بھی بنی ہاشم کے ساتھ لین دین سے روکا جاتا، اور اگر کوئی شخص خلاف ورزی کرتا تو اس کا مال ضبط کر لیا جاتا۔[3]
محاصرے کے دوران بنی ہاشم کی حالت
قریش کے دباؤ کے جواب میں، ابوطالب کی دعوت پر بنی ہاشم (سوائے ابولہب اور اس کے خاندان کے) مکہ کے نواحی علاقے، شعب ابی طالب، میں منتقل ہو گئے۔[4]
مسلمانوں کو صرف ایام حج میں شعب سے باہر نکلنے اور خریداری کی اجازت ہوتی تھی۔[5] ابن سعد کے مطابق محاصرہ بعثت کے ساتویں سال محرم کے مہینے میں شروع ہوا[6] اور تین سال[7] یا بعض روایات کے مطابق چار سال[8] جاری رہا۔
یہ محاصرہ شدید سختی، بھوک اور مصائب کے ساتھ تھا۔[9] قریش خوراک کی فراہمی کو مکمل طور پر روک چکے تھے، مگر بعض افراد خفیہ طور پر کچھ مقدار میں خوراک پہنچاتے تھے۔ جیسے کہ حضرت خدیجہ(س) کے بھتیجے حکیم بن حزام[10]، ابو العاص بن ربیع[11] اور ہشام بن عمر راتوں کو گندم اور کھجوریں اونٹ پر لاد کر شعب کے قریب چھوڑ جاتے تھے۔[12]
امام علیؑ نے معاویہ کے نام لکھے گئے اپنے ایک خط میں شعب ابی طالب میں مسلمانوں کے لئے پیش آنے والے سخت حالات کا ذکر کیا ہے۔[13]
مسلمانوں کی حکمت عملی
اس محاصرے کے دوران مسلمانوں نے مختلف حکمت عملیوں کے ذریعے قریش کے دباؤ کا مقابلہ کیا۔ حضرت خدیجہ(س) کا مال، محصورین کی مالی ضروریات پوری کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔[14] اس کے علاوہ انفاق اور زکوٰۃ جیسے احکامات کے ذریعے باہمی مدد اور تعاون کو فروغ دیا گیا۔[15] بعض مشرکین خاندانی ہمدردی کی بنیاد پر خفیہ طور پر خوراک پہنچایا کرتے تھے،[16] اور امام علیؑ سمیت بعض دیگر مسلمان خفیہ طور پر محاصرے کی پابندیوں کو توڑنے میں کامبیاب بھی ہوتے تھے۔[17]
ابوطالب نبی کریمؐ کی حفاظت کے لیے پہرے دار مقرر کرنے[18] اور بعض حفاظتی اقدامات جیسے سونے کی جگہ کو تبدیل کرنے کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ کی حظافت کرتے تھے۔[19]
یہ مشکل وقت قرآنی قصص پر مشتمل آیات کے نزول کے ذریعے معنوی اور روحانی جذبات کی تقویت[20] نبی اکرمؐ اور حضرت ابوطالبؑ جیسے رہنماؤں کی ثابت قدمی،[21] اور مسلمانوں کے درمیان سماجی یکجہتی کے قیام کے ذریعے گزر گیا۔[22] مسلمانوں کا صبر اور اتحاد قریش کے سرداروں میں اختلاف کا باعث بنا اور آخر کار محاصرہ ختم ہو گیا۔[23]
محاصرے کا اختتام
بعثت کے دسویں سال، جب حکیم بن حزام نے حضرت خدیجہ(س) کے لیے خوراک بھیجنے کی کوشش کی تو ابوجہل نے مخالفت کی، جس پر قریش کے بعض سرداروں نے ابوجہل پر اعتراض اور مذمت کی۔[24] اس واقعہ نے بتدریج مشرکین میں ندامت اور بنی ہاشم کی حمایت کو فروغ دیا۔ مختلف قبائل کے درمیان غیر عادلانہ حالات پر ہونے والے اعتراضات نے معاہدہ پر دستخط کرنے والے بعض افراد کو معاہدہ ختم کرنے پر آمادہ کیا۔ ابن ہشام کے مطابق جب معاہدہ نامہ کی بررسی کی گئی تو پتہ چلا کہ دیمک نے پوری تحریر چاٹ دی تھی، صرف "باسمک اللھم" باقی رہ گیا تھا۔[25] ایک اور روایت کے مطابق رسول اللہؐ کو وحی کے ذریعے اس بات کی خبر دی گئی تھی،[26] جس پر ابو طالب نے قریش سے کہا: اگر یہ بات سچ ثابت ہو تو محاصرہ ختم کر دو، اور اگر جھوٹ ہو تو میں محمدؐ کو تمہارے حوالے کر دوں گا۔ جب واقعے کی تصدیق ہوئی، تو محاصرہ ختم کر دیا گیا۔[27]
حوالہ جات
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص163۔
- ↑ ابنکثیر، البدایہ و النہایہ، 1407ھ، ج3، ص84–86؛ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص163۔
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، موسسہ آلالبیت، ج1، ص126۔
- ↑ مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص44۔
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، موسسہ آلالبیت، ج1، ص127۔
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص163۔
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص234۔
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، موسسہ آلالبیت، ج1، ص127 و128۔
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، موسسہ آلالبیت، ج1، ص127؛ قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، 1381ش، ص114۔
- ↑ ابنہشام، السیرۃ النبویۃ، ج1، ص354۔
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، موسسہ آلالبیت، ج1، ص128۔
- ↑ ابنہشام، السیرۃ النبویۃ، ج1، ص354۔
- ↑ نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، 1404ھ، بخش 2، ص89۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، نشر دارصادر، ج2، ص31؛ عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، دارالہادی، ج3، ص196۔
- ↑ قاسمزادہ و احمدوند، «واکاوی محاصرۀ اقتصادی و اجتماعی پیامبر اکرم(ص) و پیروانش در شعب ابیطالب»، ص63۔
- ↑ ابنکثیر، البدایۃ و النہایۃ، دار الفکر، ج3، ص88۔
- ↑ اسکافی، المعیار و الموازنۃ، 1402ھ، ص89۔
- ↑ طبرسی، اعلام الوری، موسسہ آلالبیت، ج1، ص126۔
- ↑ ابنابیالحدید، شرح نہج البلاغہ، ج14، ص64۔
- ↑ سیدحسینزادہ یزدی و شریفزادہ، «سیرہ پیامبر اکرم(ص) در مقابلہ با تہدیدہای اقتصادی»، ص11۔
- ↑ ابنکثیر، البدایۃ و النہایۃ، دارالفکر، ج3، ص84۔
- ↑ زرگرینژاد، تاریخ صدر اسلام (عصر نبوت)، 1384ش، ص281–282۔
- ↑ سیدحسینزادہ یزدی و شریفزادہ، «سیرہ پیامبر اکرم(ص) در مقابلہ با تہدیدہای اقتصادی»، ص11۔
- ↑ ابنہشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفۃ، ج1، ص353۔
- ↑ ابنہشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفۃ، ج1، ص374-376۔
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص234۔
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص164۔
مآخذ
- ابنسعد، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1410ھ۔
- ابنکثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دار الفکر، 1407ھ۔
- ابنہشام، عبدالملک، السیرۃ النبویۃ، تحقیق مصطفی السقا و ابراہیم الأبیاری و عبد الحفیظ شلبی، بیروت، دار المعرفۃ، بیتا.
- اسکافی، محمد بن عبداللہ، المعیار و الموازنۃ فی فضائل الإمام أمیرالمومنین علی بن ابیطالب(ع) و بیان أفضلیتہ علی جمیع العالمین بعد الأنبیاء و المرسلین، تحقیق محمدباقر محمودی، 1402ھ۔
- بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، بیروت، دار الفکر، 1417ھ۔
- جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، تہران، نشر مشعر، چاپ نہم، 1387ہجری شمسی۔
- ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الإسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ دوم، 1409ھ۔
- زرگرینژاد، غلامحسین، تاریخ صدر اسلام (عصر نبوت)، تہران، انتشارات سمت، چاپ سوم، 1384ہجری شمسی۔
- سیدحسینزادہ یزدی سعید و محمدجواد شریفزادہ، «سیرہ پیامبر اکرم(ص) در مقابلہ با تہدیدہای اقتصادی»، اقتصاد اسلامی، شمارہ62، 1395ہجری شمسی۔
- شہیدی، سید جعفر، تاریخ تحلیلی اسلام، تہران، مرکز نشر دانشگاہی، 1390ہجری شمسی۔
- طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہدی، قم، موسسہ آلالبیت(ع) لإحیاء التراث، بیتا (نسخہ موجود در کتابخانہ مجازی فقاہت).
- قائدان، اصغر، تاریخ و آثار اسلامی مکہ و مدینہ، تہران، نشر مشعر، چاپ چہارم، 1381ہجری شمسی۔
- مقریزی، احمد بن علی، إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدۃ و المتاع، تحقیق محمد عبدالحمید نمیسی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1420ھ۔
- یعقوبی، احمدبن اسحاھ، تاریخ یعقوبی، نشر دار صادر. بیتا۔
- قاسمزادہ، افتخار و فاطمہ احمدوند، «واکاوی محاصرۀ اقتصادی و اجتماعی پیامبر اکرم(ص) و پیروانش در شعب ابیطالب»، تاریخ و سیرہ اہلبیت، شمارہ4، پاییز و زمستان 1399ہجری شمسی۔