تعبد

ویکی شیعہ سے

تَعَبُّد ایک دینی اصطلاح ہے جس کے معنی ہیں مومنین کا احکام الہی کی واقعی مصلحت کو جانے بغیر اس کے سامنے مکمل تسلیم ہونا۔ وہ تمام عبادتیں جو تعبد اور صرف تسلیم کی بنیاد پر انجام دی جاتی ہیں ایک قسم کا امتحان الہی ہیں جس کے ذریعے حقیقی اور غیر حقیقی مومن میں تمییز کی جاسکتی ہے۔

شرعی احکام میں تعبد درکار ہونے کے مسئلے پر اسلامی تمام مذاہب متحد القول ہیں اور بغیر تعبد کے دین کا تصور بھی ممکن نہیں۔ اس کے باوجود مسلمان دانشوروں کا ماننا ہے کہ احکام کی علت کا علم نہ ہونا ان کے بے علت ہونا مراد نہیں ہے۔ شیخ صدوق نے اپنی کتاب عِلَلُ‌الشَّرایع میں فلسفہ احکام کو بیان کرنے کی حد المقدور کوشش کی ہے۔ شرعی احکام کے اسنتباط میں تعبد کا مسئلہ اہمیت کا حامل ہے اور اس کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے۔

علم(سائنس) و دین کے مابین رابطے کی بحث میں تعقل اور تعبد اہم ابحاث میں سے ہیں۔ مسلمان محققین کہتے ہیں کہ تعبد کا مطلب عقلانیت کی مکمل چھٹی کرنا یا اس سے ہاتھ اٹھانا نہیں؛ کیونکہ استدلال، تعقل اور تفکر دین کے بنیادی اصولوں میں شامل ہیں۔

بعض روشن خیال لوگ کہتے ہیں کہ تعبد مرحلہ فکر میں عقلانیت کے ساتھ اور مرحلہ عمل میں انسانی آزادی کے ساتھ متصادم ہے۔ بعض محقیین کے مطابق روشن خیالوں کی اس بات میں تناقض پایا جاتا ہے؛ کیونکہ وہ لوگ ایک طرف سے دین و تعبد کے مابین رابطے کا انکاری نہیں ہیں اور دوسری طرف سے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ دینی مفاہیم کی تفسیر تعبد کی بنیاد پر نہ ہو۔ روشن خیال لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انبیائے الہی کی باتوں کو تعبداً ماننا جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنے کے مانند ہے جو عقلی اعتبار سے اشکال سے خالی ہے۔

"تعبد و عقلانیت" فارسی زبان میں لکھی ایک کتاب ہے جسے محمد جعفری نے تعبد و عقلانیت کے موضوع پر تحریرکی ہے۔

اسلامی مباحث میں تعبد کی اہمیت

تَعَبُّد ایک فقہی اور اخلاقی اصطلاح ہے جس کے معنی ہیں مومنین کا اللہ تعالیٰ کے فرامین کے سامنے سر تسلیم خم کرنا۔[1] اس اصطلاح کے مطابق مومنین اللہ کے فرامین و دستورات کی واقعی مصلحتوں کو جانے بغیر بھی ان پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔[2] کہا جاتا ہے کہ شریعت اور دین کی بنیاد میں تعبد کا عنصر موجود ہے[3] اس لحاظ سے تعبد اور توحید دو ناقابل تفکیک چیزیں ہیں۔[4] تعبد و تسلیم کو اسلام کی روح اور دینداری کی بنیاد سمجھا جاتا ہے[5] اسی طرح تعبد سے خالی دین گویا حقیقت سے عاری دین ہے۔[6]

اسلام کے تمام مذاہب کے مطابق احکام شرعی میں تعبد کا عنصر ایک اٹل امر ہے۔[7] سرحدِ تعبد سے عبور دین کی نابودی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔[8] تعبد، دو اہم چیزوں پر استوار ہے ایک بینش یعنی اللہ کے تمام احکام میں مصلحت و حکمت کی موجوگی کا ایمان و یقین اور دوسری چیز اپنے خالق و معبود کے ساتھ والہانہ رابطہ اور عشق ہے۔[9] ہر متفکر موحد کے لیے تعبد ایک ناگزیر چیز ہے اور الہی عقلِ کُل کو اپنی فکر پر ترجیح دیتا ہے۔[10]

تعبد کا فلسفہ

احکام الہی کی علت و حکمت سے لاعلمی ان کا بے علت ہونا ہرگز مراد نہیں،[11] امام رضاؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندے شرعی احکام کی بجاآوری میں تعبد کا لحاظ رکھیں کیونکہ اللہ کی جانب سے تشریع کردہ تمام اوامر و نواہی مصالح و مفاسد کے حامل ہوتے ہیں اور ان کی انجام دہی اور ترک کرنے میں بندگان خدا کی مصلحت درکار ہوتی ہے اور ان کی زندگی دستورات الہی کے تعبد سے منسلک ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی جانب سے مصلحت تعبد کے علاوہ ان افعال کے مصالح و مفاسد پر بھی توجہ ہوتی ہے۔ [12] اس کے باوجود اسلام میں دیگر آسمانی ادیان کی مانند کچھ ایسے احکام بھی ہیں جن کا فلسفہ انسان کو معلوم نہیں۔[13] مومنین کی خصلت یہ ہے کہ وہ فلسفہ احکام کو جانے بغیر تعبد کی بنیاد پر احکام الہی کو بجا لاتے ہیں۔[14] جن عبادتوں اور اعمال کا فلسفہ تشریع معلوم نہیں؛ انہیں بجالانا ایک قسم کا امتحان الہی ہے جس کے ذریعے سے حقیقی اور غیر حقیقی مومن کی پہچان ہوتی ہے۔[15]

شیخ صدوق نے اپنی کتاب عِلَلُ‌الشَّرایع میں فلسفہ احکام بیان کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔[16] عباس علی عمید زنجانی کہتے ہیں کہ شاید شیخ صدوق (متوفیٰ:381ھ) پہلے محدث اور فقیہ ہیں جنہوں نے فلسفہ احکام بیان کیا ہے۔[17] عمید زنجانی کا مزید کہنا ہے کہ شیعہ فقہاء نے فقہی مباحث میں قیاس آرائی سے دور رہنے اور تعبدی پہلو کمزور ہونے سے بچنے کے لیے علل الشرائع میں منقول احادیث کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے۔[18] لیکن خود عمید زنجانی اس نقطہ نظر کو قرآن سے متصادم طریقہ سمجھتے ہیں کیونکہ خود قرآن مجید میں بھی کچھ احکام الہی کا فلسفہ اور ان کے نفع یا نقصان کے سلسلے میں بیان ملتا ہے۔[19]

شیعہ متکلم اور فلسفی محمد تقی جعفری بھی اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ شریعت میں بیان شدہ عبادی پہلو کے احکام کا ٹھوس فلسفہ ہوتا ہے اور غیر عبادی احکام بھی عقل سلیم کے ساتھ سازگار اور قابل فہم ہوا کرتے ہیں۔[20] ان تمام باتوں کے باوجود بعض علما کا کہنا ہے کہ بہت سی اسلامی تعلیمات کو صرف تعبد کی بنیاد پر قبول کرلینا چاہیے؛ ان کے فلسفہ و حکمت کے بارے میں ہم لاعلم ہیں۔[21]

تعبد اور عقلانیت

مسلمان دانشوروں کے مطابق جو تعبد دین اسلام میں ہے وہ عقلی معیارات کے عین مطابق ہے؛ چنانچہ مسئلہ تقلید جو کہ خالص تعبدی پہلو کا حامل ہے اسے بھی تحقیق اور تعقل ہی کی بنیاد قبول کیا جاتا ہے[22] بنابر ایں تعبد کے معنی عقلانیت کی مکمل طور پر چھٹی کرنا نہیں؛ کیونکہ دین کے بنیادی اصول و عقائد استدلال اور تعقل کی بنیاد پر استوار ہیں۔[23] شیعہ فلسفی اور مفسر قرآن محمد حسین طباطبائی کے مطابق بعض ادیان کے پیروکار اپنے دین میں کچھ غیر عقلی مسائل کو پیش کرتے ہیں اور مسئلہ تعبد کو عقلی لحاظ سے غیر ممکن قرار دے کر ان کی توجیہ کرتے ہیں۔[24] علامہ طباطبائی ان کی اس بات کو تناقض کی شکار سمجھتے ہیں کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف سے تو دین کی حقانیت کو عقل کے ذریعے ثابت کیا جاتا ہے اور دوسری طرف سے اس بات کے قائل ہوجائیں کہ دین میں عقل سے متصادم چیزیں موجود ہوں؟![25]

تعقل و تعبد دو ایسے اہم موضوعات ہیں جن کو عقل و وحی کے مابین رابطے اور علم (سائنس) و دین کے مابین رابطے کی بحث میں پیش کیے جاتے ہیں۔[26] محققین کا کہنا ہے کہ فہم دین کے سلسلے میں تعقل کو جبکہ دین پر عمل کرنے کے سلسلے میں تعبد درکار ہونا چاہیے۔[27] اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دین کے اصول اور اس کے بنیادی عقائد کو عقلی بنیادوں پر ماننا چاہیے یہاں تعبد کی کوئی گنجائش نہیں۔[28] بعض محققین کے مطابق اہل سنت مذہب کی چار فرقوں میں تقسیم اور افتراق کی بنیادی ان کے بعض پیشواؤں کی جانب سے عقلیت پسندی پر مبنی نقطہ نظر رکھنے اور دیگر بعض پیشوا تعبدی نقطہ نظر کے حامل ہونے کی وجہ سے ہے۔[29]

تعبد اور استنباط احکام شرعی

تعبد جو کہ تعقل کے مقابلے میں مستعمل ہے وہ شرعی احکام کے استنباط میں حاکم اصول و ضوابط میں سے ایک ہے۔[30] تعبد اور تعقل کی سرحدوں کا تعین احکام شرعی کے اہم مباحث میں شمار کرتے ہیں۔[31] بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ تعبد کا دائرہ کار صرف عبادات تک محدود ہے جبکہ یہ معاملات کو شامل نہیں ہوتا۔[32] اس لیے فقہاء کو چاہیے کہ احکام معاملات کے معیار و ملاک کو احادیث سے اخذ کریں۔[33] عمید زنجانی کے مطابق، شیعہ فقہ میں، تعبد و تعقل میں کوئی تضاد نہیں یہ ایک حل شدہ مسئلہ ہے؛ کیونکہ شیعہ فقہا تعبد کو صرف منصوص احکام کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں؛ منصوص احکام سے مراد وہ احکام ہیں جن کی بنیاد میں کوئی دلیل قرآنی یا روائی موجود ہو اور تعقل کو غیر منصوص احکام اور احکام حکومتی سے مخصوص سمجھتے ہیں۔[34]

کتاب تعبد و عقلانیت؛ قلمی اثر: جعفری

مونوگراف

تعبد کے موضوع پر فارسی زبان میں درج ذیل کتابیں لکھی گئی ہیں:

  • «تعبد و تعقل در فقہ اسلامی» مولف: محمد تقی جعفری: یہ کتاب سنہ 1994ء میں قم سے شائع ہوچکی ہے۔[35]
  • «تعبد و عقلانیت» مولف: محمد جعفری: اس کتاب کو "اندیشہ جوان" نامی پبلشرز نے سنہ 2023ء کو 168 صفحات میں شائع کیا ہے۔[36] تعبد کی تعریف، اس کے مختلف پہلو اور تعبد و عقلانیت کی مابین نسبت اور رابطہ اس کتاب کی اہم مباحث ہیں۔[37]

حوالہ جات

  1. مظفر، اصول الفقه، 1370شمسی، ج1، ص66۔
  2. مظفر، اصول الفقه، 1370شمسی، ج1، ص66۔
  3. عمید زنجانی، دانشنامه فقه سیاسی، 1389شمسی، ج1، ص201۔
  4. عمید زنجانی، دانشنامه فقه سیاسی، 1389شمسی، ج1، ص201۔
  5. مصباح یزدی، بر درگاه دوست، 1382شمسی، ص85۔
  6. امامی، «روشنفکران دینی و مدرنیزاسیون فقه»، ص219۔
  7. قانت، «تعبد و تعقل در احکام شرعی از دیدگاه مذاهب اسلامی»، ص42۔
  8. مصباح یزدی، بر درگاه دوست، 1382شمسی، ص94۔
  9. اکبری، احکام آموزشی دختران، 1387شمسی، ص22-23۔
  10. عمید زنجانی، دانشنامه فقه سیاسی، 1389شمسی، ج1، ص201۔
  11. جعفری، «جایگاه تعقل و تعبد در معارف اسلامی»، ص81-82۔
  12. شیخ صدوق، علل الشرایع، 1385ھ، ج2، ص592۔
  13. مصباح یزدی، بر درگاه دوست، 1382شمسی، ص85۔
  14. رضایی اصفهانی، مباحث اعتقادی، 1391شمسی، ص98۔
  15. رضایی اصفهانی، مباحث اعتقادی، 1391شمسی، ص99۔
  16. جعفری، «جایگاه تعقل و تعبد در معارف اسلامی»، ص81-82۔
  17. عمید زنجانی، قواعد فقه، 1388شمسی، ج3، ص357۔
  18. عمید زنجانی، قواعد فقه، 1388شمسی، ج3، ص357۔
  19. عمید زنجانی، قواعد فقه، 1388شمسی، ج3، ص357۔
  20. جعفری، «جایگاه تعقل و تعبد در معارف اسلامی»، ص81-82۔
  21. جعفری، «جایگاه تعقل و تعبد در معارف اسلامی»، ص69۔
  22. غرویان، «میزگرد جایگاه عقل در دین»، ص14۔
  23. جعفری، «مسئله تعبد و چالش‌های عقلانی فرارو»، ص106۔
  24. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج3، ص323-324۔
  25. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج3، ص323-324۔
  26. لطفی، «تعقل و تعبد در احکام شرعی»، ص328۔
  27. لطفی، «تعقل و تعبد در احکام شرعی»، ص340۔
  28. مطهری، مجموعه آثار، 1389شمسی، ج3، ص59۔
  29. امامی، «جدال تعبد و تعقل در فهم شریعت(1)»، ص190۔
  30. عمید زنجانی، دانشنامه فقه سیاسی، 1389شمسی، ج1، ص201۔
  31. لطفی، «تعقل و تعبد در احکام شرعی»، ص325۔
  32. معرفت، «اقتراح»، ص26؛ قانت، «تعبد و تعقل در احکام شرعی از دیدگاه مذاهب اسلامی»، ص42۔
  33. معرفت، «اقتراح»، ص27۔
  34. عمید زنجانی، دانشنامه فقه سیاسی، 1389شمسی، ج2، ص571۔
  35. جعفری، عبد و تعقل در فقه اسلامی، شناسنامه کتاب۔
  36. جعفری، تعبد و عقلانیت، شناسنامه کتاب۔
  37. جعفری، تعبد و عقلانیت، فهرست کتاب۔

مآخذ

  • اکبری، محمود، احکام آموزشی دختران، قم، فتیان، 1387ہجری شمسی۔
  • امامی، مسعود، «روشنفکران دینی و مدرنیزاسیون فقه»، در مجله فقه اهل‌ بیت(ع)، شماره 39 و 40، زمستان 1383ہجری شمسی۔
  • امامی، مسعود، «جدال تعبد و تعقل در فهم شریعت(1)»، در مجله فقه اهل‌ بیت(ع)، شماره 46، تابستان 1385ہجری شمسی۔
  • جعفری، محمد، «مسئله تعبد و چالش‌ های عقلانی فرارو»،‌ در مجله قبسات، شماره 100، تابستان 1400ہجری شمسی۔
  • جعفری، محمد، تعبد و عقلانیت، تهران، کانون اندیشه جوان، 1402ہجری شمسی۔
  • جعفری، محمد تقی، «جایگاه تعقل و تعبد در معارف اسلامی»، در مجله حوزه، شماره 49، فروردین و اردیبهشت 1371ہجری شمسی۔
  • جعفری، محمد تقی، تعبد و تعقل در فقه اسلامی، قم، کنگره بزرگداشت شیخ انصاری، 1373ہجری شمسی۔
  • حاجی‌ صادقی، عبد الله، «تقابل‌های دروغین و ساختگی، تعقل یا تعبد»، در مجله مربیان، شماره 30، زمستان 1387ہجری شمسی۔
  • رضایی اصفهانی، محمد علی، مباحث اعتقادی، قم، نسیم حیات، 1391ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، قم، کتاب‌ فروشی داوری، 1385ھ۔
  • طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1417ھ۔
  • عمید زنجانی، عباس علی، دانشنامه فقه سیاسی، تهران، انتشارات دانشگاه تهران، 1389ہجری شمسی۔
  • عمید زنجانی، عباس علی، قواعد فقه، تهران، سمت، 1388ہجری شمسی۔
  • غرویان، محسن، «میزگرد جایگاه عقل در دین»، در مجله معرفت، شماره 61، دی ماه 1381ہجری شمسی۔
  • قانت، عبدالباسط، «تعبد و تعقل در احکام شرعی از دیدگاه مذاهب اسلامی»، در مجله مطالعات تقریبی مذاهب اسلامی، شماره 51، بهار و تباستان 1398ہجری شمسی۔
  • لطفی، اسدالله، «تعقل و تعبد در احکام شرعی»، در مجله فقه، شماره 7 و8، بهار و تابستان 1375ہجری شمسی۔
  • مجتهد شبستری، نقدی بر قرائت رسمی از دین، تهران، طرح نو، 1379ہجری شمسی۔
  • مصباح یزدی، محمد تقی، بر درگاه دوست، قم، انتشارات مؤسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی(ره)، 1382ہجری شمسی۔
  • مطهری، مرتضی، مجموعه آثار، تهران، صدرا، 1389ہجری شمسی۔
  • مظفر، محمد رضا، اصول الفقه، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1370ہجری شمسی۔
  • معرفت، محمد هادی، «اقتراح»، در مجله نقد و نظر، شماره 5، زمستان 1374ہجری شمسی۔