آیات نشوز

ویکی شیعہ سے
آیات نشوز
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت نشوز
سورہنساء
آیت نمبر34 اور 128
پارہ5
صفحہ نمبر84 و 99
موضوعفقہی
مربوط آیاتالرجال قوامون علی النساء


آیات نشوز، سورہ نساء کی آیت نمبر 34 و 128 کا کچھ حصّہ ہے جن میں نُشوز اور اس کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ نشوز یعنی وہ نافرمانی جو ہمسر کے وظائفِ شرعی کو انجام دینے کے سلسلے میں کی جاتی ہے۔ سورہ نساء کی 34ویں آیت نشوزِ عورت اور 128ویں آیت نشوز مرد کے سلسلے میں ہے۔ ان آیت کے بارے میں تفاسیر کے علاوہ فقہی کتابوں میں بھی بحث کی جاتی ہے۔

فقہاء سورہ نساء کی 34ویں آیت سے استناد کرتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ کسی خاتون کے ناشزہ ہونے کی صورت میں پہلے تو شوہر اسے نصیحت کرے لیکن اگر اس کا فائدہ نہ ہو تو اس صورت میں بستر پہ اس کی طرف پشت کرکے سوئے یا اپنا بستر الگ کر لے اور اگر اس سے بھی فائدہ نہ ہو تو اسے بہت ہلکی سی جسمانی تنبیہ کر سکتا ہے۔

آیت نمبر 128 کی بنیاد پر اگر شوہر ناشز ہو جائے لیکن بیوی اپنی ازدواجی زندگی کو برقرار رکھنا چاہتی ہے تو وہ محبت اور عطوفت کے ذریعہ اپنی ازدواجی زندگی کو بچائے اور بعض حقوق سے چشم پوشی کرے۔

متن اور ترجمہ

متن ترجمه
وَاللَّـاتِی تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُ‌وهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِ‌بُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيهِنَّ سَبِيلًا إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيّاً كَبِيرً‌ا[؟؟](سوره نساء/34) اور جن عورتوں کی نافرمانی کا خطرہ ہے انہیں موعظہ کرو، انہیں خوابگاہ میں الگ کردو اور مارو اور پھر اطاعت کرنے لگیں تو کوئی زیادتی کی راہ تلاش نہ کرو کہ خدا بہت بلند اور بزرگ ہے۔


متن ترجمه
...اوَ إِنِ امْرَ‌أَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَ‌اضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيهِمَا أَن يصْلِحَا بَينَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيرٌ وَأُحْضِرَ‌تِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ وَ إِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرً‌ا [؟؟](سوره نساء:128) اور اگر کوئی عورت شوہر سے حقوق ادا نہ کرنے سے یا کنارہ کشی کرنے سے طلاق کا خظرہ محسوس کرے تو دونوں کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ کسی طرح آپس میں صلح کر لیں کہ صلح میں بہتری ہے اور بخل تو ہر نفس کے ساتھ حاضر رہتا ہے اور اگر تم اچھا برتاؤ کرو گے اور زیادتی سے بچوگے تو خدا تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔


شأن نزول

سورہ نساء کی درج بالا دونوں آیات (34 و 128) کے لئے الگ الگ شأن نزول بیان ہوئی ہیں جو درج ذیل ہیں:

34ویں آیت کا شأن نزول

مفسرین کے مطابق سوره نساء کی آیت نمبر 34 پیغمبر اسلامؐ کے ایک صحابی سعد بن ربیع اور ان کی زوجہ کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔[1] سعد کی زوجہ نے ان کی نافرمانی کی جس کے نتیجہ میں سعد نے انہیں مارا تھا۔ اسی بنا پر ان کی زوجہ اپنے باپ کے ساتھ پیغمبراکرمؐ کے پاس گئیں اور سعد کی شکایت کی۔ جب پیغمبر اکرمؐ نے قصاص کا حکم دیا تو اس نے قصاص سے چشم پوشی کر لیا اور یہ آیت نازل ہوئی۔[2]۔

128ویں آیت کا شأن نزول

کتاب تفسیر قمی کی ایک روایت کے مطابق جو اس آیت کے شأن نزول کے سلسلے میں نقل ہوئی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے صحابی رافع بن خدیج جن کی دو بیویاں تھیں، ایک سن رسیدہ اور دوسری جوان۔ کسی اختلاف کی وجہ سے اس نے اپنی سن رسیدہ زوجہ کو طلاق دے دیا اور عدّت کے زمانے میں ہی اس سے کہا کہ اگر تم چاہو تو ہم اپنا جھگڑا ختم کر سکتے ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اگر میں اپنی جوان بیوی کو تم پر مقدم کروں تو تمہیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ لیکن اگر جدائی چاہتی ہو تو عدت تمام ہونے تک صبر کرو۔ اس کی زوجہ نے پہلے والے مشورہ کو قبول کر لیا اور آپس میں صلح و مفاہمت کر لیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی [3]۔

آیت کا فقہی نقطہ نظر

فقہاء، احکام نشوز کے لئے سورہ نساء کی 34ویں اور 128ویں آیت کے مضمون سے استفادہ کرتے ہیں۔[4]۔ نشوز یعنی ہمسر کی نسبت اپنے وظیفہ شرعی کو انجام نہ دینا۔[5]

34ویں آیت، ناشزہ عورت اور اس کے تئیں شوہر کی ذمہ داری کو بیان کر رہی ہے۔ فقہاء نے اس آیت کی بنا پر یہ فتوی دیا ہے کہ کسی خاتون کے ناشزہ ہونے کی صورت میں، پہلے تو شوہر اسے نصیحت کرے لیکن اگر اس کا فائدہ نہ ہو تو اس صورتحال میں خواب گاہ میں اس کی طرف پشت کر کے سوئے یا اپنا بستر الگ کر لے اور اگر اس بھی فائدہ نہ ہو تو اسے بہت ہلکی سی جسمانی اذیت دے سکتا ہے۔[6]

128ویں آیت، مَردوں کے نشوز ہونے کے سلسلے میں ہے کہ جس کی بنیاد پر فقہاء فرماتے ہیں کہ اگر شوہر ناشز ہو جائے لیکن بیوی اپنی ازدواجی زندگی کو برقرار رکھنا چاہتی ہے تو وہ محبت اور عطوفت کے ذریعہ اپنی ازدواجی زندگی کو بچائے اور بعض حقوق سے چشم پوشی کرے اور اس کے ذریعہ طلاق سے بچ سکتی ہے۔[7]۔

کلمہ ضرب (مارنا) کے معنی

شیعہ اور اہلسنت مفسرین اور فقہاء کی نظر میں سورہ نساء کی 34ویں آیت میں کلمہ ضرب مارنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔[8]۔ البتہ مارنے کے بھی کچھ شرائط و قوانین معین کئے ہیں جیسے کہ اس طرح مارا جائے کہ جس میں صرف اصلاح کا پہلو ہو اور کسی بھی طرح کا انتقام اور رنجش کا جزبہ نہ ہو[9] اور مارنے کی کیفیت بھی بہت ہی آہستہ ہو۔[10] اس کے باوجود بھی آیت‌ الله معرفت کہ جو دور حاضر کے محققِ قرآن ہیں وہ عورتوں کو مسواک کی لکڑی سے مارنے یا ان کو مطلقاً نہ مارنے یا ان کی عظمت و کرامت کا تحفظ کرنے جیسے دلائل سے استفادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ آیت نسخ ہو گئی ہے۔[11] ان کے مطابق اس آیت میں نسخ تمہیدی سے استفادہ کیا گیا ہے۔[12] نسخ تمہیدی یعنی شارع مقدس بعض رسومات جاہلیت کو ختم کرنے کے لئے پہلے تو ایسا حکم دیتے ہیں جو معاشرہ کے مطابق ہو پھر کچھ مدت گزر جانے کے بعد اسے نسخ کر دیتے ہیں۔[13]۔

حوالہ جات

  1. طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۸ھ، ج۳، ص۶۸.
  2. شیخ طوسی، التبیان، دار إحياء التراث العربی، ج۳، ص۱۸۹؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۸ھ، ج۳، ص۶۸.
  3. قمی، تفسیر قمی، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۱۵۴.
  4. مثال کے طور پر، مراجعہ کیجئے محقق اردبیلی، زبدۃ ‌البیان، المكتبۃ المرتضويۃ لإحياء الآثار الجعفريۃ، ص۵۳۶-۵۳۸؛ نجفی، جواهرالکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۱، ص۲۰۵-۲۰۸؛ صدوق، من لا یحضره الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ج۳، ص۵۲۰-۵۲۱؛ شهید ثانی، مسالک الافهام، ۱۴۱۳ھ، ج۸، ص۳۵۵-۳۶۳.
  5. شهید ثانی، الروضۃ البهیۃ، ۱۳۸۶ھ، ج۵، ص۴۲۷؛ محقق حلی، مختصرالنافع، ۱۴۱۰ھ، ص۱۹۱.
  6. ملاحظہ کریں: نجفی، جواهرالکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۱، ص۲۰۵-۲۰۷؛ شهید ثانی، مسالک الافهام، ۱۴۱۳ھ، ج۸، ص۳۵۶-۳۵۷.
  7. برای نمونہ، نگاه کنید بہ نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۱، ص۲۰۷-۲۰۸؛ شهید ثانی، مسالک الافهام، ۱۴۱۳ھ، ج۸، ص۳۶۳.
  8. مثال کے طور پر دیکھئے طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۲ش، ج۲، ص۶۹؛ ابوالفتوح رازی، روض‌ الجنان، ۱۴۰۸ھ، ج۵، ص۳۵۰؛ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۴، ص۳۴۵؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۳، ص۳۷۲؛ فخر رازی، تفسیر الکبیر،‌۱۴۲۰ھ، ج۱۰، ص۷۲؛ صدوق، من لا یحضره الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ج۳، ص۵۲۱؛ شهید ثانی، مسالک، ۱۴۱۳ھ، ج۸، ص۳۵۶.
  9. نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۱، ص۲۰۷؛ خوانساری، جامع ‌المدارک، ۱۳۶۴ش، ج۴، ص۴۳۷؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، ۱۳۹۰ھ، ج۲، ص۲۷۳.
  10. مکارم شیرازی، احکام خانواده، ۱۳۸۹ش، ص۲۱۹.
  11. معرفت، شبهات وردود حول القران الكریم، ۱۳۸۸ش، ص۱۵۸.
  12. معرفت، شبهات و ردود حول القرآن الكریم، ۱۳۸۸ش، ص۱۵۸.
  13. احمدی ‌نژاد، فاطمہ و دیگران، «معنا شناسی نسخ تدریجی، مشروط و تمهیدی از منظر آیت ‌الله معرفت»، ص۱۸.

مآخذ

  • ابو الفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، تهران، بنیاد پژوهش های اسلامی، ۱۴۰۸ھ۔
  • احمدی ‌نژاد، فاطمہ و دیگران، «معنا شناسی نسخ تدریجی، مشروط و تمهیدی از منظر آیت‌الله معرفت»، تحقیقات علوم قرآن و حدیث، شماره ۱، بهار ۱۳۹۷ہجری شمسی.
  • امام خمینی، سید روح ‌الله، تحریر الوسیلۃ، نجف اشرف، مطبعۃ الآداب، چاپ دوم، ۱۳۹۰ھ۔
  • خوانساری، سید احمد، جامع‌ المدارک، تهران، مکتبۃ الصدوق، ۱۴۰۵ھ۔
  • شهید ثانی، زین ‌الدین بن علی، مسالک‌الافهام، قم، موسسہ المعارف الاسلامیہ، ۱۴۱۳ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضره الفقیہ، قم، انتشارات اسلامی، ۱۴۱۳ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار إحياء التراث العربی، بےتا.
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، ۱۴۰۸ھ۔
  • طیب اصفهانی، عبدالحسین، اطیب البیان، تهران، اسلام، ۱۳۷۸ہجری شمسی.
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت،‌ دار احیا التراث العربی، ۱۴۲۰ھ۔
  • قمی، علی بن ابراهیم، تفسیر قمی، قم، دار الکتاب، ۱۴۰۴ھ۔
  • محقق اردبیلی، احمد بن محمد، زبدۃ‌ البیان فی احکام القرآن، تهران، المكتبۃ المرتضويۃ لإحياء الآثار الجعفريۃ، بےتا.
  • معرفت، محمد هادی، شبهاتٌ و ردودٌ حولَ القرآن الکریم، قم، موسسه التمهید، ۱۳۸۸ہجری شمسی.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تهران، دار الكتب الاسلاميہ، ۱۳۷۴ہجری شمسی.
  • مکارم شیرازی، ناصر، احکام خانواده، قم، امام على بن ابى طالب عليہ السلام‌، چاپ دوم، ۱۳۸۹ہجری شمسی.
  • نجفی، محمد حسن، جواهر الکلام، قم، موسسه نشر اسلامی، ۱۴۱۷ھ۔