حدیث من عرف نفسہ
حدیث مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ میں معرفت نفس کو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور شناخت کا پیش خیمہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ حدیث پیغمبر خداؐ سے منقول ہے، جس میں آپؐ نے فرمایا: «جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا.»
حدیث من عرف نفسه فقد عرف ربه | |
---|---|
حدیث کے کوائف | |
موضوع | معرفت نفس و اللہ تعالیٰ |
شیعہ مآخذ | مصباح الشریعہ، غرر الحکم و درر الکلم |
مشہور احادیث | |
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل |
شیعہ اور سنی مآخذ حدیثی میں پیغمبر اسلامؐ اور حضرت علیؑ سے یہ حدیث روایت کی گئی ہے۔ شیعہ علماء اس حدیث کو بے حد اہمیت دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس حدیث کا مضمون و مفہوم آسمانی مقدس کتب میں بھی آیا ہے، منجملہ قرآن مجید کی چند آیتیں اس حدیث کے مفہوم کو بیان کرتی ہیں۔ مسلمان دانشوروں نے اس کی مختلف تفسریں بیان کی ہیں۔ شیعہ علما کی اکثریت کی تفسیر کےمطابق خصوصیاتِ انسان کی شناخت، اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ بنتی ہے؛ کیونکہ انسان کی خصوصیات اور اللہ تعالیٰ کی خصوصیات ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔ مثلا انسان ممکن الوجود ہے اور سراپا محتاج مخلوق ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات واجب الوجود اور بے نیاز ہے۔ بعض دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہ حدیث برہان نظم پر دلالت کرتی ہے کیونکہ انسانی جسم و روح میں موجود خاص نظم بتاتا ہے کہ کوئی نظم دینے والا ہے جس نے ایسا انتظام کر رکھا ہے۔
متن حدیث
حدیث «مَن عَرَفَ نَفسَه۔۔» ایک ایسی مشہور و معروف حدیث ہے[1] جس میں شناخت نفس کو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور شناخت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ اصل حدیث یہ ہے: «مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ»؛ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، اُس نے یقینا اپنے رب کو پہچان لیا۔ یہ حدیث پیغمبر اسلامؐ [2] اور حضرت علی(ع) [3]دونوں سے منقول ہے۔
اہمیت اور مقام
مسلم دانشوروں کے نزدیک یہ حدیث بے انتہاء اہمیت کی حامل حدیث ہے اور انہوں نے اس سے متعلق مختلف مطالب بیان کیے ہیں۔ مثال کے طور پر ملا صدرا نے اسے معرفت نفس کے لیے برہان کے طور پر بیان کیا ہے اور اثبات و شناخت خدا کے سلسلے میں اس حدیث کو برہان صدیقین کے بعد نہایت مضبوط برہان قرار دیا ہے۔[4] ملا صدرا نے اس بات کا دعویٰ بھی کیا ہے کہ احادیث اور روایات کے مطابق اس حدیث کا مضمون و مفہوم آسمانی مقدس کتب میں بھی ذکر ہوا ہے۔[5] علامہ مجلسی نے بھی حدیث «من عرف نفسه» کو صُحُف حضرت ادریس سے نقل کیا ہے.[6]
اس حدیث کی تشریح و تفسیر میں چند مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔[7] ان تفاسیر میں منجملہ «الرسالة الوجوديۃ في معنى قوله(ص): من عرف نفسه فقد عرف ربه» ہے جسے محیی الدین عربی [8] نے تحریر کی ہے۔ «شرح حدیث من عرف نفسه» نامی کتاب کو محمد غزالی[9] نے تحریر کیا ہے اور شیخ محمود شبستری نے حدیث نفس کی تفسیر میں کتاب «مرآت المحققین در معنای من عرف نفسه» لکھی ہے.[10]
حدیث کی مختلف تفسیریں اور تشریحات
علما نے حدیث «من عرف نفسه فقد عرف ربه» کے مختلف معانی اور تشریحات بیان کی ہیں۔[11] حسن زادہ آملی نے اس حدیث کے 90 سے زیادہ معانی بیان کیے ہیں۔[12]
حدیث کی بعض تشریحات یہاں بیان کی جاتی ہیں:
- خصوصیاتِ انسانی کی شناخت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی جاسکتی ہے
بہت سے شیعہ اور سنی علما کے باور کےمطابق انسان کی خصوصیات اللہ تعالیٰ کی خصوصیات کے مد مقابل میں ہیں، اس مطلب کو پیش نظر رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ انسان میں اللہ تعالیٰ کی مخالف خصوصیات پائی جاتی ہیں؛ لہذا ایک کی خصوصیات کی پہچان کے ساتھ دوسرے کی خصوصیات خود بخود سمجھ میں آتی ہیں۔ مثال کے طور پر انسان کا وجود حادث(پہلے نہیں تھا بعد میں وجود میں آیا) ہے، وہ ممکن الوجود، کمزور(خلق الانسان ضعیفا) اور سراپا محتاج مخلوق ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات قدیم(ازلی) ہے وہ واجب الوجود ہے، طاقتور اور ہر چیز سے بے نیاز ذات ہے۔[13]
عبد اللہ جوادی آملی نے اس تشریح کو غیر صحیح یا انتہائی سطحی تفسیر سے قرار دی ہے۔[14]
- اس حدیث سے برہان نظم سمجھ میں آتا ہے
ناصر مکارم شیرازی کے مطابق "حدیث نفس" برہان نظم کی طرف اشارہ کرتی ہے؛ انسانی روح اور جسم میں موجود حیرت انگیز حقائق اور پوشیدہ رازیں ہمیں اللہ تعالیٰ کے وجود کی خبر دیتے ہیں۔ کیونکہ کائنات پر حاکم دقیق، عجیب اور حیران کن نظم و ضبط کا سرچشمہ اس عالَم کے مبداء یعنی اللہ کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہی ہوسکتی۔[15] بعض علما کا کہنا ہے کہ اس حدیث سے متعلق قرآنی آیات اور دیگر احادیث ملاحظہ کریں تو یہ تفسیر درست اور یہ معنی نہایت مناسب معلوم ہوتی ہے۔[16]
- جس طرح حقیقت نفس کی مکمل شناخت ممکن نہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ماہیت اور حقیقت کا بھی مکمل ادراک ممکن نہیں
شیعہ اور اہل سنت علما نے حدیث نفس کی اس تفسیر کی وضاحت کرتے ہوئے یہ احتمال پیش کیا ہے: چونکہ انسان اپنی حقیقت کا مکمل ادراک نہیں کرسکتا لہذا کیونکر وہ خدا کی حقیقت کی شناخت حاصل کر سکتا ہے۔ یہ بھی محال اور ناممکن ہے۔[17] سید محمد حسین طباطبائی نے اس تفسیر کو ان آیات اور روایات کے مد مقابل قرار دیا ہے جن میں خود شناسی کو خدا شناسی کا پیش خیمہ قرار دیا گیا ہے۔[18] محمدتقی مجلسی کا کہنا ہے: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حدیث نفس کی یہ تفسیر سنائی غزنوی کے اس شعر کے تناظر میں بیان کی گئی ہے:[19]
ای شده از نهاد خود عاجز | کی شناسی خدای را هرگز | |
چون تو در نفس خود زبون باشی | عارف کردگار چون باشی |
یعنی جو انسان اپنے آپ کی شناخت حاصل نہیں کرسکتا وہ کیسے اپنے رب کو پہچانے گا؟ً!
- تہذیب نفس اور باطنی پاکی سے دل کی آنکھیں اللہ کی طرف کھل جاتی ہیں
کبھی انسان خود شناسی کے راستے سے علم حصولی اور استدلال کے ذریعے اللہ کی شناخت حاصل کرلیتا ہے؛ جبکہ کبھی ریاضت اور سیر و سلوک کے ذریعے خدا کی معرفت حاصل کر لیتا ہے۔ حدیث نفس کی یہ دونوں تفسیر ہوسکتی ہیں۔ البتہ جوادی آملی نے دوسری تفسیر کو پہلی تفسیر کی نسبت زیادہ گہرا اور عمیق قرار دیا ہے۔[20]
حدیث کا سندی جائزہ
حدیث «من عرف نفسه» کے معتبر ہونے یا اس کے عدم اعتبار کے سلسلے میں شیعہ اور سنی علما میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ شیعہ محدثین اور محققین کی کثیر تعداد نے اس کے معتبر ہونے کو قبول کیا ہے۔[21] علامہ طباطبائی اور جوادی آملی کے نزدیک یہ حدیث مشہور احادیث میں شامل ہے۔[22] کتاب "دانشنامہ عقائد اسلامی" کے مصنفین کے باور کے مطابق اس حدیث کی سند اہل بیتؑ تک نہیں پہنچ پاتی لہذا یہ حدیث مرسل ہے؛ البتہ چونکہ اس حدیث کا مضمون و مفہوم قرآن کی بعض آیات میں بھی آیا ہے اس لیے اس کا سندی جائزہ لینے کی ضرورت نہیں۔[23] اہل سنت علما میں سے سیوطی وغیر نے اس حدیث کو صحیح احادیث میں شمار نہیں کیا ہے۔[24] اہل سنت کے بعض علما جیسے ابن تیمیہ نے اسے جعلی حدیث قرار دی ہے۔[25]
حدیث کے مآخذ
حدیث «من عرف نفسه» امامیہ کی کتب اربعہ اور اہل سنت کے صحاح ستہ میں نقل نہیں ہوئی ہے؛ لیکن کچھ دیگر منابع مثلا امام صادقؑ سے منسوب کتاب "مصباح الشریعہ"اور[26] ابن ابی جمہور احسائی نے اپنی کتاب «عوالی اللئالی العزیزیۃ» میں پیغمبر اکرمؐ سے اسے نقل کی ہے۔[27] ابو عثمان عمرو بن جاحظ کی کتاب «مطلوب کل طالب»، [28] ابو الفتح آمدی کی کتاب «غرر الحکم و درر الکلم» [29] اور لیثی واسطی کی کتاب «عیون الحکم و المواعظ»[30] میں اس حدیث کو امام علیؑ سےنقل کیا ہے۔
حدیث کا قرآنی آیات کے ساتھ رابطہ
بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ حدیث «من عرف نفسه» کا قرآن کی چند آیتوں کے ساتھ معنی کے اعتبار سے رابطہ قائم ہے۔ علامہ طباطبائی نے مندرجہ ذیل چند آیات کو معرفت نفس کے سلسلے کی آیات قرار دی ہے اور اسی ضمن میں حدیث کو نقل کیا ہے: «عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ»[31](ترجمہ: (اے ایمان والو!) تم اپنی فکر کرو)۔ «سَنُرِیهِمْ آیاتِنَا...فِی أَنفُسِهِمْ»[32] (ترجمہ: ہم عنقریب اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی)۔ «وَ فِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ، وَ فِي أَنْفُسِكُم»[33] (اور زمین میں اہل یقین کے لیے نشانیاں ہیں اور خود تمہاری ذات میں بھی)۔[34] اسی طرح ملا صدرا، علامہ طباطبائی اور جوادی آملی نے بھی اس آیت: «نَسُوا اللَّـهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ»[35] (ترجمہ: جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں خود فراموشی میں مبتلا کردیا) کے ضمن میں اسی حدیث کے بارے میں گفتگو کی ہے۔[36] پانچویں صدی ہجری کے اہل سنت مفسر قرآن ابوالحسن علی واحدی نے سورہ بقرہ کی آیت 130[37] کے ذیل میں اس حدیث کو بیان کیا ہے۔[38]
حدیث نفس سے مشابہت رکھنے والی احادیث
روائی مآخذ میں چند دیگر احادیث بھی نقل ہوئی ہیں جو مفہوم کے لحاظ سے حدیث «من عرف نفسه» سےمشابہت رکھتی ہیں۔ مثلا حدیث نبوی میں آیا ہے کہ ایک شخص نے پیغمبر خداؐ سے سوال کیا: اے رسول خداؐ! اللہ کی معرفت کیسے حاصل ہوگی؟پیغمبر خداؐ نے فرمایا: اپنے نفس کی شناخت کے ذریعے۔[39][یادداشت 1] اسی طرح امام علی(ع) سے منقول ہے: «مجھے تعجب ہے اس شخص پر جسے اپنے نفس کی شناخت حاصل نہیں اسے کیسے اللہ کی معرفت ہوگی؟!»[40][یادداشت 2][41]
نوٹ
حوالہ جات
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۶، ص۱۶۹؛ جوادی آملی، توحید در قرآن، ۱۳۹۵ہجری شمسی، ص۱۸۱.
- ↑ جعفر بن محمد(منسوب)، مصباحالشریعه، ۱۴۰۰ھ، ص۱۳؛ ابن ابی جمهور، عوالی اللئالی العزیزة، ۱۴۰۵ھ، ج۴، ص۱۰۲؛ فخررازی، تفسیر کبیر، ۱۴۲۰ھ، ج۱، ص۹۱، ج۹، ص۴۶۰ و ج۳۰، ص۷۲۱.
- ↑ جاحظ، مطلوب کل طالب، ۱۳۷۴ہجری شمسی، ص۷۱؛ تمیمی آمدی، غرر الحکم و درر الکلم، ۱۴۱۰ھ، ص۵۸۸؛ لیثی واسطی، عیون الحکم و المواعظ، ۱۳۷۶ہجری شمسی، ص۴۳۰؛ ابن ابیالحدید، شرح نهج البلاغه، ۱۴۰۴ھ، ج۲۰، ص۲۹۲(ابن ابی الحدید نے اس حدیث کو نہج البلاغہ کے کلمات قصار کی فہرست میں بیان کیا ہے).
- ↑ ملاصدرا، شواهد الربوبیه، ۱۳۶۰ہجری شمسی، ص۴۶.
- ↑ ملاحظہ کریں: ملاصدرا، اسرار الآیات، ۱۳۶۰ہجری شمسی، ص۱۳۳.
- ↑ علامه مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۹۲، ص۴۵۶.
- ↑ ملاحظہ کریں: محمدی ریشهری و همکاران، دانشنامه عقاید اسلامی، ۱۳۸۶ہجری شمسی، ج۴، ص۱۵۱-۱۵۳.
- ↑ حسنزاده آملی، هزار و یک کلمه، ۱۳۸۱ہجری شمسی، ج۳، ص۱۹۷.
- ↑ محمدی ریشهری و همکاران، دانشنامه عقاید اسلامی، ۱۳۸۶ہجری شمسی، ج۴، ص۱۵۳.
- ↑ محمدی ریشهری و همکاران، دانشنامه عقاید اسلامی، ۱۳۸۶ہجری شمسی، ج۴، ص۱۵۲.
- ↑ ملاحظہ کریں: مجلسی، لوامع صاحبقرانی، ۱۴۱۴ھ، ج۱، ص۱۱۵-۱۱۹؛ سیوطی، الحاوی للفتاوی، ۱۴۲۴ھ، ج۲، ص۲۸۸-۲۹۱.
- ↑ حسنزاده آملی، هزار و یک کلمه، ۱۳۸۱ہجری شمسی، ج۳، ص۲۰۰-۲۱۶.
- ↑ شیعہ علما کی کتب جاننے کے لیے ملاحظہ کریں: ابن میثم بحرانی، شرح بر صد کلمه امیرالمؤمنین، ۱۳۷۵ہجری شمسی، ص ص۳۲۶و۳۲۷(شرح عبدالوهاب)؛ مجلسی، لوامع صاحبقرانی، ۱۴۱۴ھ، ج۱، ص۱۱۸ و ۱۱۹؛ علامه مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ھ، ج۹، ص۲۵۷؛ مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۲ہجری شمسی، ج۳، ص۳۰؛ اہل سنت علما کی کتب جاننے کے لیے ملاحظہ کریں: واحدی، الوسیط، ۱۴۱۶ھ، ج۱، ص۱۹۸؛ فخررازی، تفسیر کبیر، ۱۴۲۰ھ، ج۱، ص۹۱، ج۹، ص۴۶۰؛ ابن تیمیه، مجموع الفتاوی، ۱۴۱۶ھ، ج۹، ص۲۹۷؛ نووی، فتاوی النووی، ۱۴۱۷ھ، ص۲۴۸؛ سیوطی، الحاوی للفتاوی، ۱۴۲۴ھ، ج۲، ص۲۹۰.
- ↑ جوادی آملی، توحید در قرآن، ۱۳۹۵ہجری شمسی، ص۱۴۷.
- ↑ مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، ۱۳۷۷ش، ج۱، ص۳۲۸.
- ↑ محمدی ریشهری و همکاران، دانشنامه عقاید اسلامی، ۱۳۸۶ہجری شمسی، ج۴، ص۱۵۵.
- ↑ ابن تیمیه، مجموع الفتاوی، ۱۴۱۶ق، ج۹، ص۲۹۸؛ سیوطی، الحاوی للفتاوی، ۱۴۲۴ھ، ج۲، ص۲۹۰؛ مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۲ہجری شمسی، ج۴، ص۱۵۳و۱۵۴ و ج۶، ص۶۱.
- ↑ طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۷ھ، ج۶، ص۱۶۹-۱۷۰.
- ↑ مجلسی، لوامع صاحبقرانی، ۱۴۱۴ھ، ج۱، ص۱۱۸.
- ↑ جوادی آملی، توحید در قرآن، ۱۳۹۵ہجری شمسی، ص۱۴۵-۱۵۰.
- ↑ محمدی ریشهری و همکاران، دانشنامه عقاید اسلامی، ۱۳۸۶ہجری شمسی، ج۴، ص۱۴۹ و۱۵۰.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۶، ص۱۶۹؛ جوادی آملی، توحید در قرآن، ۱۳۹۵ہجری شمسی، ص۱۸۱.
- ↑ محمدی ریشهری و همکاران، دانشنامه عقاید اسلامی، ۱۳۸۶ہجری شمسی، ج۴، ص۱۴۹ و۱۵۰.
- ↑ سمعانی، قواطع الادله، ۱۴۱۸ھ، ج۲، ص۶۰؛ نووی، فتاوی النووی، ۱۴۱۷ھ، ص۲۴۸؛ سیوطی، الحاوی للفتاوی، ۱۴۲۴ھ، ج۲، ص۲۸۸.
- ↑ ابن تیمیه، مجموع الفتاوی، ۱۴۱۶ھ، ج۱۶، ص۳۴۹.
- ↑ مصباحالشریعه، ۱۴۰۰ھ، ص۱۳.
- ↑ ابن ابی جمهور، عوالی اللئالی العزیزة، ۱۴۰۵ھ، ج۴، ص۱۰۲.
- ↑ جاحظ، مطلوب کل طالب، ۱۳۷۴ہجری شمسی، ص۷۱؛ ابن میثم بحرانی، شرح بر صد کلمه امیرالمؤمنین، ۱۳۷۵ہجری شمسی، ص۱۰۳و۳۲۶.
- ↑ تمیمی آمدی، غرر الحکم و درر الکلم، ۱۴۱۰ھ، ص۵۸۸.
- ↑ لیثی واسطی، عیون الحکم و المواعظ، ۱۳۷۶ہجری شمسی، ص۴۳۰.
- ↑ سوره مائده، آیه ۱۰۵.
- ↑ سوره فصلت،آیه ۵۳.
- ↑ سوره ذاریات، آیه20 و21.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۶، ص۱۶۵تا۱۷۰
- ↑ سوره حشر، آیه ۱۹.
- ↑ ملاصدرا، اسرار الآیات، ۱۳۶۰ہجری شمسی، ص۱۶۳؛ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۶، ص۱۶۵؛ جوادی آملی، توحید در قرآن، ۱۳۹۵ہجری شمسی، ص۱۴۵و۱۸۱.
- ↑ «وَ مَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْراهيمَ إِلاَّ مَنْ سَفِهَ نَفْسَه»؛ (ترجمہ: اور ملت ابراہیم سے اب کون انحراف کرے گا سوائے اس شخص کے جس نے اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کیا؟!)
- ↑ واحدی، الوسیط، ۱۴۱۶ھ، ج۱، ص۱۹۸.
- ↑ ابنابیجمهور، عوالی اللئالی العزیزة، ۱۴۰۵ھ، ج۱، ص۲۴۶.
- ↑ تمیمی آمدی، غرر الحکم و درر الکلم، ۱۴۱۰ھ، ص۴۶۱؛ لیثی واسطی، عیون الحکم و المواعظ، ۱۳۷۶ہجری شمسی، ص۳۲۹.
- ↑ ان جیسی دیگر احادیث سے آشنائی کے لیے رجوع کریں: سیدمرتضی، امالی المرتضی، ۱۹۹۸ء، ج۱، ص۲۷۴؛ جعفر بن محمد(منسوب)، مصباح الشریعه، ۱۴۰۰ھ، ص۱۳؛ شعیری، جامع الاخبار، انتشارات حیدریه، ص۴.
مآخذ
- ابن ابی جمهور، محمد بن زین الدین، عوالی اللئالی العزیزة فی الأحادیث الدینیة، قم، دار سیدالشهداء، چاپ اول، 1405ھ.
- ابن ابیالحدید، عبدالحمید بن هبةالله، شرح نهج البلاغه، قم، کتابخانه آیت الله مرعشی نجفی، چاپ اول، 1404ھ.
- ابن تیمیه، احمد بن عبدالحلیم، مجموع الفتاوی، تحقیق عبدالرحمن بن محمد بن قاسم، مدینه منوره، مجمع ملک فهد، 1416ھ.
- ابن حجر هیتمی، احمد بن محمد، الفتاوی الحدیثیة، بیروت، دارالفکر، بیتا.
- اله بداشتی، علی، «بررسی و تحلیل حدیث تلازم معرفت نفس و معرفت رب از دیدگاه عالمان شیعه»، فصلنامه جستارهایی در فلسفه و کلام، ش۸۸، بهار و تابستان 1391ہجری شمسی.
- بغوی، حسین بن مسعود، تفسیر البغوی(معالم التنزیل)، بیروت، داراحیاءالتراث العربی، چاپ اول، 1420ھ.
- تمیمی آمدی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، تحقیق و تصحیح سید مهدی رجائی، قم، دارالکتب الاسلامیة، چاپ دوم، 1410ھ.
- جاحظ، عمرو بن بحر، مطلوب کل طالب، شرح و تفسیر رشیدالدین وطواط، تصحیح محمود عابدی، تهران، بنیاد نهج البلاغه، 1374ہجری شمسی.
- جعفر بن محمد(منسوب)، مصباح الشریعه، بیروت، اعلمی، چاپ اول، 1400ھ.
- جوادی آملی، عبدالله، توحید در قرآن(تفسیر موضوعی قرآن، ج۲)، تحقیق و تنظیم حیدر علی ایوبی، قم، نشر اسراء، چاپ هشتم، 1395ہجری شمسی.
- حسنزاده آملی، حسن، هزار و یک کلمه، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ دوم، 1381ہجری شمسی.
- خوارزمی، موفق بن احمد، مناقب، تحقیق شیخ مالک محمودی، قم، مرکز نشر اسلامی(جامعه مدرسین)، چاپ دوم، 1411ھ.
- سفیری، شمس الدین، شرح البخاری (المجالس الوعظیة في شرح أحادیث خیر البریة ص)، تحقیق احمد فتحی عبدالرحمن، بیروت، دار الکتب العلمیه، چاپ اول، 1425ھ.
- سمعانی، ابومظفر منصور بن محمد، قواطع الادله فی الاصول، بیروت، دار الکتب العلمیه، چاپ اول، 1418ھ.
- سیدمرتضی، علی بن حسین، امالی المرتضی، قاهره، دارالفکر، چاپ اول، 1998ء.
- سیوطی، جلال الدین، الحاوی للفتاوی، بیروت، دارالفکر، 1424ھ.
- شعیری، محمد بن محمد، جامع الاخبار، انتشارات حیدریه، نجف، چاپ اول، بیتا.
- طباطبایی، سیدمحمد حسین، ترجمه تفسیر المیزان، ترجمه سیدمحمدباقر موسوی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1374ہجری شمسی.
- طباطبایی، سیدمحمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسه اعلمی، چاپ دوم، 1390ھ.
- طباطبایی، سیدمحمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامى جامعه مدرسين حوزه علميه قم
، چاپ پنجم، 1417ھ.
- علامه مجلسی، محمد باقر، مرآة العقول فی شرح اخبار آل الرسول، تحقیق و تصحیح سید هاشم رسولی محلاتی، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ دوم، 1404ھ.
- فخررازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر(مفاتیح الغیب)، بیروت، دار احیاءالتراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ.
- قاری، ملاعلی، اسرار المرفوعة فی اخبار الموضوعة، تحقیق محمد صباغ، بیروت، دارالامانة- مؤسسة الرسالة، بیتا.
- قاری، ملاعلی، الاسرار المرفوعة فی اخبار الموضوعة، تحقیق محمد صباغ، بیروت، دارالامانه-مؤسسه الرساله، بیتا.
- لیثی واسطی، علی بن محمد، عیون الحکم و المواعظ، قم، دارالحدیث، چاپ اول، 1376ہجری شمسی.
- مازندرانی، محمد صالح بن احمد، شرح الکافی(الاصول و الروضه)، تحقیق و تصحیح ابوالحسن شعرانی، تهران، المکتبه الاسلامیه، چاپ اول، 1382ہجری شمسی.
- مجلسی، محمد تقی، لوامع صاحبقرانی(شرح فقیه)، قم، مؤسسه اسماعیلیان، چاپ دوم، 1414ھ.
- محمدی ریشهری، محمد و همکاران، دانشنامه عقاید اسلامی، ترجمه گروهی از مترجمان، قم، دارالحدیث، 1386ہجری شمسی.
- مکارم شیرازی، ناصر، اخلاق در قرآن، قم، مدرسه الامام علی بن ابیطالب(ع)، چاپ اول، 1377ہجری شمسی.
- ملاصدرا، محمد بن ابراهیم، اسرار الآیات، تهران، انجمن حکمت و فلسفه، 1360ہجری شمسی.
- ملاصدرا، محمد بن ابراهیم، شواهد الربوبیه، تصحیح جلال الدین آشتیانی، تهران، مرکز نشر دانشگاهی، 1360ہجری شمسی.
- نووی، محیی الدین یحیی بن شرف، فتاوی النووی(مسائل المنثورة)، تحقیق و تعلیق محمد حجار، بیروت، دار البشائر الاسلامیة، چاپ ششم، 1417ھ-1996ء.
- واحدی، علی بن احمد، الوسیط فی تفسیر القرآن المجید، تحقیق محمد حسن ابوالعزم زفیتی، قاهره، وزارةالاوقاف، چاپ اول، 1416ھ.