تقوا

ویکی شیعہ سے
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

تَقوا انسانی روح کی ایک کیفیت یا حالت کو کہا جاتا ہے جو انسان کو روحانی اور اخلاقی طور پر برے کاموں سے روکتی ہے؛ چنانچہ اگر کسی گناہ کے لئے زمینہ ہموار ہوجائے تو بھی اس کی وہ روحانی حالت اسے اس گناہ میں مبتلا ہونے سے محفوظ رکھتی ہے۔ قرآن اور سنت اور علماء کے کلام میں تقوی کی بہت زیادہ اہمیت اور اس کے دنیوی اور اخروی فوائد بیان ہوئے ہیں۔ گناہوں کی بخشش، خدا کے یہاں اعمال کی قبولیت، سعادت دارین، حق و باطل کی تشخیص کی صلاحیت، رزق حلال کی فراوانی، پریشانیوں اور سختیوں سے نجات تقوا کے فوائد میں شمار کئے جاتے ہیں۔

حدیثی منابع میں تقوا کے موضوع پر موجود احادیث کے علاوہ نہج البلاغہ کی خطبہ نمبر 193 جو کہ خطبہ ہمام سے معروف ہے، میں متقین کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔

تقوا کے مختلف درجات بیان کئے گئے ہیں۔ امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث میں تقوی کے تین مرتبے ذکر کئے گئے ہیں جو یہ ہیں: عام تقوی جس میں جہنم کے عذاب سے ڈر کر محرمات سے پرہیز کی جاتی ہے، خاص تقوی انسان نہ صرف محرّمات بلکہ شُبَہات (وہ امور جن کے حرام ہونے کا احتمال دیا جاتا ہو) سے بھی پرہیز کرتا ہے اور خاص الخاص تقوی جس میں انسان نہ صرف محرمات اور شبہات بلکہ بعض حلال امور سے بھی پرہیز کرتا ہے۔

اسی طرح علمائے اخلاق احادیث کی روشنی میں انسان کے تمام اعضاء و جوارح جو گناہ کی زد میں ہوتے ہیں جیسے کان، آنکھ، زبان اور دل کے لئے اسی عضو کے تناسب سے تقوی بیان کرتے ہیں۔

مفہوم

تقوا انسانی روح کی ایک حالت کو کہا جاتا ہے جس کے ہوتے ہوئے انسان معنوی اور اخلاقی مصونیت حاصل ہوتی ہے اور یہ حالت باعث بنتی ہے کہ انسان گناه کا زمینہ ہوتے ہوئے بھی گناہ سے پرہیز کرتا ہے۔[1] لفظ "تقوا" "وَقْی" کے مادے سے "حفاظت اور مصونیت" کی معنی میں آتا ہے اور لغت میں مصونیت ذاتی اور حفظ نفس کو کہا جاتا ہے۔[2]

قرآن میں تقوا کا معنی

بعض محققین قرآن کی آیات کی روشنی میں تقوا کے چار معنی ذکر کرتے ہیں:[3]

  1. تقوا اس چیز کو کہا جاتا ہے جسے انسان اپنے اور اس چیز کے درمیان قرار دیتا ہے جس سے انسان ڈرتا ہے تاکہ وہ اس کی شر سے محفوظ رہ سکے۔[4] سورہ نحل کی آیت نمبر 81، "وَ جَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیلَ تَقِیکُمُ الْحَرَّ؛ اور ایسے پیراہن بنائے ہیں جو گرمی سے بچا سکیں اور پھر ایسے پیراہن بنائے جو ہتھیاروں کی زد سے بچا سکیں"،[5] میں تقوا اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔[6] ایزوتسو کے مطابق تقوا کا یہ معنا اسلام کے ظہور سے پہلے بھی اعراب کے یہاں استعمال ہوتا تھا۔[7]
  2. آخرت میں خدا کے عذاب اور قہر سے خوف۔[8]سورہ مائدہ آیت نمبر 2 |"وَ اتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ شَدِیدُ الْعِقَابِ؛ اور اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے"،[9] میں تقوی اسی معنی میں استمعال ہوا ہے۔[10]
  3. خدا کی اطاعت اور گناہ سے پرہیز کرنے کے معنی میں۔[11] سورہ حشر کی آیت نمبر 18 "یا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ ما قَدَّمَتْ لِغَدٍ؛ اے ایمان والو! اللہ (کی مخالفت سے) ڈرو اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل (قیامت) کیلئے آگے کیا بھیجا ہے"[12] میں تقوا اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔[13]
  4. ایک اور معنی میں تقوا انسان کی اندرونی اور نفسانی ایک حالت کو کہا جاتا ہے جس سے انسان کو خدا کی اطاعت اور معصیت کی شناخت اور بصیرت حاصل ہوتی ہے اس حالت کا حصول خدا کے اوامر اور نواہی کی پیروی اور اس پر مداومت کرنے پر موقوف ہے۔[14]
امام علی(ع)

تقوا یہ ہے کہ اگر تمہارے عمل کو ایک کھلے ہوئے برتن میں رکھ کر دنیا کے گرد چکر لگایا جائے تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں، اور اس میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے تم کو شرمندگی اور خجالت محسوس ہو۔

عیناثی، ، الاثنی عشریۃ فى المواعظ العددیۃ، 1384ہجری شمسی، ص702۔

کہا جاتا ہے کہ تقوا کے یہ چار معنی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر تقوا کے منظومے کو تشکیل دیتے ہیں؛ وہ اس طرح کہ خدا کے عذاب سے خوف (دوسرا معنا)، اس کے اوامر و نواہی کی پیروی کا موجب بنتا ہے (تیسرا معنا)، اور انسان اس کے ذریعے اپنے اور خدا کے عذاب کے درمیان حائل قرار دیتا ہے (پہلا معنا) اور خدا کے اوامر و نواہی کی پیروی رفتہ‌ موجب بنتا ہے کہ تقوا رفتہ رفتہ مؤمن کے دل میں ملکہ کی شکل اختیار کرتا ہے(چوتھا معنا)۔[15]

تقوا اور ورع میں نسبت

بعض احادیث میں تقوا اور ورع ایک دوسرے کے ساتھ ذکر ہوئے ہیں۔[16] محمد مہدی نراقی ان دونوں کو ایک دوسرے کا مترادف قرار دیتے ہوئے[17] ورع کے لئے دو معنی ذکر کرتے ہیں جو تقوا پر بھی صدق آتے ہیں: ورع کا پہلا معنا یہ ہے کہ خود کو مال حرام سے محفوظ رکھے۔ نراقی کے مطابق بعض احادیث میں تقوا بھی اسی معنی میں آیا ہے۔ ورع کا دوسرا معنا یہ ہے کہ خود کو خدا کے عذاب کے خوف اور اس کی رضایت کے حصول کے لئے تمام گناہوں سے محفوظ رکھے۔[18]

شام کے چودہوں صدی ہجری کے حنفی بعض علماء جیسے عبد القادر ملاحویش آل غازی ورع کو تقوا کا غیر اور تقوا سے بالاتر قرار دیتے ہیں۔[19] ان کے مطابق تقوا حرام سے اجتناب اور واجبات الہی کی انجام دہی کو کہا جاتا ہے جبکہ ورع اس سے بالاتر شبہات اور گناہ کے لئے زمینہ ہموار کرنے والے بعض حلال امور سے بھی اجتناب کرنے کو کہا جاتا ہے۔[20]

اہمیت

تقوا کا لفظ دینی تعلمیات میں رائج اور شایع الفاظ میں سے ہے اور قرآن میں اسم اور فعل دونوں صورتوں میں بہت زیادہ استعمال ہوا ہے۔[21] شہید مطہری کے مطابق جس قدر قرآن میں ایمان، عمل صالح، نماز اور زکات کا ذکر آیا ہے بلکہ جس قدر روزہ کا ذکر آیا ہے اس سے زیادہ تقوا کا نام لیا گیا ہے۔[22] بعض محققین کے مطابق قرآن میں تقوا کا لفظ 17 مرتبہ اس کے مشتقات اور مترادف الفاظ 200 مرتبہ سے زیاده آیا ہے۔[23] تقوا کا لفظ معصومینؑ کی احادیث میں بھی بہت زیادہ استعمال ہوا ہے۔[24] کلینی اپنی کتاب الکافی میں "بَابُ الطَّاعَۃِ وَ التَّقْوَی" کے نام سے ایک مستقل باب تقوا سے متعلق احادیث کے ساتھ مختص کئے ہیں۔[25]

نہج‌ البلاغہ میں بھی جن کلمات پر بہت زیادہ تأکید کی گئی ہے ان میں سے ایک تقوا ہے۔[26] بعض محققین کے مطابق تقوا اور اس کے مشتقات تقریبا 100 مرتبہ نہج‌ البلاغہ میں امام علیؑ کے کلیدی الفاظ کے طور پر استعمال ہوا ہے۔[27] اسلامی اخلاق کے بارے میں لکھی گئی کتابوں میں بھی تقوا اور اس کے فوائد کے بارے میں بحث کی گئی ہیں۔[28] اسی طرح صوفیوں اور عرفاء کے کلمات میں لفظ تقوا عرفانی مقامات میں شمار کئے جاتے ہیں اور ورع اور قلب کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔[29]

فقہاء کے کلمات میں بھی تقوا کی اہمیت بعض احکام کے ضمن میں بیان ہوئی ہے۔[30] من جملہ یہ کہ فقہاء کے فتوے کے مطابق نماز جمعہ کے خطبے میں تقوا کی سفارش کرنا امام جمعہ پر واجب ہے۔[31] بعض فقہاء کے مطابق اگر دو مجتہد علمی اعتبار سے مساوی ہوں تو مُقلِد پر واجب ہے ان میں سے زیادہ باتقو مجتہد کی تقلید کی جائے۔[32]

تقوا کے بارے میں قرآن و سنت اور علما کے بعض کلمات

امام علی

تقوای الہی تمہارے دلوں کی بیماری کا علاج اور بصیرت کا سبب ہے اور یہ تمہارے جسمانی بیماری کی شفایابی اور روحانی آلودگی سے پاکیزگی نیز آنکھوں کی بینائی اور پریشانیوں میں اطمینان و سکون اور تاریکی میں نور کا موجب ہے۔

صبحی صالح، نہج البلاغہ، خطبہ 198، ص312

سورہ حجرات کی آیت نمبر 13 میں تقوا الہی کو انسان کی قدر قیمت کا معیار قرار دیا گیا ہے۔[33] اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت نمبر 197 کے مطابق آخرت کے لئے بہترین زاد راہ تقوا الہی ہے۔[34] سورہ اعراف کی آیت نمر 26 میں انسان کے بدن کو ڈھانپنے والے لباس کے ذکر کے بعد تقوا کو روح کا لباس قرار دیا گیا ہے۔[35]

نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 112 میں امام علیؑ سے یوں نقل ہوا ہے کہ تقوای الہی نے خدا کے ماننے والوں کو اپنی حمایت میں لے لیا ہے اور ان کو خدا کے محرمات کے مرتکب ہونے سے محفوظ رکھا ہوا ہے اور خدا کے خوف کو ان کے دلوں میں ہمیشہ کے لئے مستقر کیا ہوا ہے۔[36] اسی طرح خطبہ نمبر 16 میں تقوا کو ایک مطیع اور فرمانبردار مرکب سے تشیبہ دی گئی ہے جو اپنے سوار کو بہشت تک پہنچا دے گا۔[37] خطبہ نمبر 189 میں آیا ہے کہ آج دنیا میں تقوا ایک حصار اور سِپَر کی مانند ہے اور کل آخرت میں یہ بہشت میں داخل ہونے کا راستہ ہے۔[38] خطبہ نمبر 228 میں تقوا کو نیکیوں کی چابی اور بہترین ذخیرہ آخرت، غلام کی قید سے آزادی اور ہر قسم کی بدبختی سے نجات کا سامان قرار دیا ہے۔[39] امام سجادؑ تقوا کو انسانی عزت و وقار تک پہنچنے کا سبب قرار دیتے ہوئے [40] صحیفہ سجادیہ کی بعض دعاؤں کے ضمن میں خدا سے تقوی الہی کی درخواست کرتے ہیں۔[41]

پیغمبر اکرمؐ سے منقل ایک حدیث میں تقوا کو تمام نیکیوں سرچشمہ قرار دیا گیا ہے۔[42] امام باقرؑ سے منقول ہے کہ خدا کے نزدیک سے سے زیادہ محبوب‌ وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ باتقوا ہو۔[43] اسی طرح ایک اور روایت میں حقیقی شیعہ ان افراد کو قرار دیا گیا ہے جو تقوای الہی کی رعایت کرتے ہیں۔[44] امام صادقؑ سے مروی ایک حدیث کے مطابق تقوا کے ساتھ تھوڑا عمل بغیر تقوا کے زیادہ عمل سے بہتر ہے۔[45]

حکیم اور ماہر لسانیات راغب اصفہانی (متوفی 396ھ) کتاب الذریعہ الی مکارم الشریعہ میں تقوا اور تزکیہ نفس کو انسان کی خلیفۃ اللہی کا اصلی شرط قرار دیتے ہیں۔[46] ابن فہد حلی کتاب عدۃ الداعی میں تقوا کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر انسان کے لئے اس دنیا میں کوئی تقوا سے زیادہ کوئی نیک، سودمند اور اعلی خصوصیت ہوتی تو خدا ضرور وحی کے ذریعے اپنے بندوں کو اس سے آگاہ کر دیتا۔[47] محمد مہدی نراقی کتاب جامع السعادات میں تقوا کو انسان کا سب سے بڑا ناجی اور سعادت دارین اور اعلی مقامات تک پہنچے کا سب سے اہم راستہ قرار دیتے ہیں۔[48] امام خمینی نیز کتاب شرح چہل حدیث میں تقوا کے بغیر انسانی کمالات اور اعلی مقامات تک پہنچنے کو ناممکن قرار دیتے ہیں۔[49]

مراتب تقوا

امام باقرؑ

خدا کی قسم ہمارا شیعہ نہیں ہو سکتا مگر وہ شخص جو تقوائے الہی اختیار کرے اور خدا کا مطیع ہو... تقوائے الہی اختیار کرو اور خدا کے لئے کام کرو۔ خدا اور کسی بھی شخص کے درمیان رشتہ داری نہیں ہے۔ بلکہ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ اور قابل احترام شخص وہ ہے جو سب سے زیادہ باتقوا ہو اور سب سے زیادہ خدا کے احکام پر عمل کرنے والا ہو۔

کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص74

بعض مفسرین بعض قرآنی آیا جیسے سورہ حجرات آیت نمبر 13 |اِنَّ اَکرَمَکُم عِندَ اللّہِ اَتقـکُم؛ بےشک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز و مکرم وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے،[50] سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تقوا کے مختلف مراتب ہیں۔[51] امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث میں تقوا کے تین مراتب ذکر ہوئے ہیں:

  1. عام تقوا: جو کہ جہنم کے عذاب کے خوف سے محرمات کو ترک کرنے کا نام ہے؛
  2. خاص تقوا: جس میں انسان نہ صرف مُحَرَّمات کو ترک کرتا ہے بلکہ شُبَہات (حرام ہونے کا احتمال دینے والی چیزیں) کو بھی ترک کرتا ہے؛
  3. خاص الخاص تقوا: اس میں متعلقہ شخص محرامات اور شبہات کے علاوہ بعض حلال امور کو بھی ترک کرتا ہے۔[52]

ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے شافعی فقیہ اور مفسر بیضاوی نے بھی تقوا کے تین مراتب ذکر کیا ہے جن میں سب سے پست درجہ شرک سے اجتناب کرنا، اس کے بعد والے رتبے میں گناہ کو ترک کرنا اور سب سے اعلی مرتبہ خدا کے مقابلے میں سر تسلیم خم کرنا اور ہر اس چیز سے اجتناب کرنا جو اسے خدا سے دور کر دے۔[53] علامہ مجلسی بھی کتاب بحار الانوار میں تقوا کے تین مرتبے بیان کرتے ہیں؛ پہلا مرتبہ صحیح اعتقادات کے ذریعے نفس کو ابدی عذاب سے محفوظ رکھنا، دوسرا مرتبہ تمام گناہوں سے اجتناب کرنا چاہے واجب کو ترک کرنا ہو یا گناہ کا مرتکب ہونا اور سب سے بالاترین مرتبہ ہر اس چیزی پرہیز کرنا جو انسان کے دل کو اپنی طرف راغب کرتی ہے اور حق تعالی سے منصرف کرتی ہے۔[54]

امام خمینی کتاب آداب الصلاۃ میں تقوا کے چار مرتبے ذکر کرتے ہیں:

  1. ظاہری تقوا: جو نفس کو ظاہری گناہوں سے محفوظ رکھنے کا نام ہے یہ عام لوگوں کا تقوا ہے؛
  2. باطنی تقوا: جو افراط و تفریط نیز اخلاق اور نفسانی غریزوں میں حد سے گزرنے سے پرہیز کا نام ہے یہ خاص افراد کا تقوا ہے؛
  3. عقل کا تقوا: جو عقل کو غیر الہی علوم میں مشغول ہونے سے محفوظ رکھنے کا نام ہے یہ اخص خواص کا تقوا ہے؛
  4. دل اور قلب کا تقوا: جو غیر اللہ کو دیکھنے اور غیر اللہ سے ہم کلام ہونے سے دل کو محفوظ رکھنے کا نام ہے یہ اولیاء الہی کا تقوا ہے۔[55]

بدن اور دل کا تقوا

علمائے اخلاق، اخلاق کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث کو مد نظر رکھتے ہوئے انسان کے اعضاء و جوارح میں سے ہر عضو کے لئے جو گناہ میں مرتکب ہونے کا خدشہ ہے، اسی سے متناسب تقوا بیان کرتے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • زبان ک تقوا: صدق گفتار،[56] زبان کا ذکر الہی میں مشغول رہنا،[57] نرمی اور ملایمت کے ساتھ گفتگو کرنا،[58] نیک گفتار، ناسزا گوئی سے زبان کو محفوظ رکھنا اور بے ہودہ باتوں کو ترک کرنا جن میں کوئی نیکی نہیں ہوا کرتی، زبان کے تقوا میں شمار ہوتے ہیں۔[59]
  • آنکھ کا تقوا: ہر اس چیز سے آنکھ بند کرنا جسے دیکھنے سے خدا نے منع کیا ہے۔[60]
  • کان کا تقوای: ہر اس چیز کے سننے سے پرہیز کرنا جس کے سننے کو خدا نے حرام قرار دیا ہے[61] اسی طرح مفید علوم کو سننا،[62] مفید دینی حکمتوں اور نجاب بخش نصیحتوں کو سننا۔[63]
  • دل کا تقوا: سورہ حج آیت نمبر 32 اور سورہ حجرات آیت نمبر 3 اسی طرح معصومینؐ کی احادیث میں انسان کے دل کو تقوا کا مقام قرار دیا گیا ہے۔[64] اسی بنا پر بعض علماء کہتے ہیں کہ تقوا ایک معنوی اور اندرونی چیز ہے جو انسان کی روح اور نفس سے مربوط ہوتی ہے۔[65] در عین حال بعض علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ دل کا تقوا یہ ہے کہ انسان کا دل ہر قسم کے شک و تردید اور شرک، کفر اور نفاق سے پاک ہو۔[66] بعض علماء دل کے تقوا کو تقوا کا سب سے اعلی مرتبہ قرار دیتے ہیں۔[67]

تقوا کے فوائد

مسلمان علماء قرآنی آیات اور معصومینؑ کی احادیث کی روشنی میں تقوا کے مختلف فوائد ذکر کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • حق و باطل کی تشخیص،[68]
  • خدا کی یہاں اعمال کی قبولیت،[69]
  • الہی تعلیمات سے بہرہ مند ہونا،[70]
  • سختیوں اور پریشانیوں سے نجات،[71]
  • ہدایت قرآن سے بہرہ مند ہونا،[72]
  • گناہوں کی بخشش،[73]
  • نجات کا حصول،[74]
  • اعلی مقام تک رسائی،[75]
  • دل کی اصلاح،[76]
  • شبہات میں پڑنے سے محفوظ رہنا،[77]
  • گناہ کی آلودگی سے پاک‌ ہونا،[78]
  • رزق حلال کا حصول،[79]
  • بہشت میں لافانی زندگی۔[80]

خطبہ متقین

خطبہ متقین نہج البلاغہ کے مشہور خطبات میں سے ہے جو متقین کے بارے میں ہے۔[81] امام علیؑ نے اپنے حقیقی پیروکاروں میں سے ایک ہَمّام کے لئی یہ خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں متقین کے تقریبا 100 سے زیادہ معنوی، فکری، اخلاقی اور عملی صفات کی نشاندہی فرمائی۔[82] نیک‌گفتار، میانہ‌روی، مفید علوم کی تلاش، سختیوں میں صبر کرنا، زبان کی حفاظت، ہر حال میں ذکر خدا میں مشغول رہنا اور تہجُّد و شب‌زندہ‌داری من جملہ ان اوصاف میں سے ہیں جنہیں اس خطبے میں امامؑ نے متقین کی طرف نسبت دی ہیں۔[83]

کتابیات

  • رسالہ تقوا: تحریر، شہید مطہری۔ یہ رسالہ آپ کی دو تقاریر پر مشتمل ہے جس میں تقوا کی ماہیت، اہمیت اور فوائد کو قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کیا ہے. یہ تقاریر سنہ 1339 سے 1341ہجری شمسی کو بعض دوسری تقاریر کے ساتھ "دہ گفتار" نامی کتاب کی شکل میں شایع ہوئی ہے۔[84]
  • تقوا، سکوی پرواز: تحریر، جلیل جلیلی۔ یہ کتاب ایک مقدمہ اور پانچ فصل پر مشتمل ہے۔ مصنف نے اس کے مقدمے میںتقوا کی تعریف اور قرآن میں اس کے استعمال کو بیان کیا ہے۔ فصل اول میں تقوا کا منشاء، فصل‌ دوم، سوم اور چہارم میں بالترتیب فردی تقوا، سماجی تقوا اور سیاسی تقوا سے بحث کی ہیں۔ فصل پنجم میں دنیا اور آخرت میں تقوا کے فوائد سے بحث کی ہیں۔ اس کتاب کی پہلی اشاعت سنہ 1400ہجری شمسی میں انتشارات دانشگاہ معارف اسلامی نے انجام دی ہے۔[85]

حوالہ جات

  1. مطہری، دہ گفتار، 1397ہجری شمسی، ص20-21۔
  2. راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، 1412ھ، ذیل واژہ «وقی»۔
  3. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: ایزوتسو، خدا و انسان در قرآن، ترجمہ احمد آرام، 1373ہجری شمسی، ص304-305؛ جلیلی، تقوا، سکوی پرواز، 1400ہجری شمسی، ص17۔
  4. ایزوتسو، خدا و انسان در قرآن، ترجمہ احمد آرام، 1373ہجری شمسی، ص305۔
  5. سورہ نحل، آیہ 81۔
  6. جلیلی، تقوا، سکوی پرواز، 1400ہجری شمسی، ص17۔
  7. ایزوتسو، خدا و انسان در قرآن، ترجمہ احمد آرام، 1373ہجری شمسی، ص304-305۔
  8. ایزوتسو، خدا و انسان در قرآن، ترجمہ احمد آرام، 1373ہجری شمسی، ص304۔
  9. سورہ مائدہ، آیہ 2۔
  10. طبری، تفسیر طبری، ج9، ص491؛ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج3، ص267۔
  11. جلیلی، تقوا، سکوی پرواز، 1400ہجری شمسی، ص17۔
  12. سورہ حشر، آیہ 18۔
  13. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1393ھ، ج19، ص217-218۔
  14. عباسی، «تقوا»، ص798۔
  15. عباسی، «تقوا»، ص799۔
  16. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص76 و 78۔
  17. نراقی، جامع السعادات، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، ج2، ص180۔
  18. نراقی، جامع السعادات، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، ج2، ص180۔
  19. ملاحویش آل غازی، بیان المعانی، 1382ھ، ج3، ص55۔
  20. ملاحویش آل غازی، بیان المعانی، 1382ھ، ج3، ص55۔
  21. مطہری، دہ گفتار، 1397ہجری شمسی، ص16۔
  22. مطہری، دہ گفتار، 1397ہجری شمسی، ص16۔
  23. عباسی، «تقوا»، ص797۔
  24. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص73؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج70، ص295؛ نوری، مستدرک الوسائل، 1408ھ، ج11، ص266۔
  25. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص73۔
  26. مطہری، دہ گفتار، 1397ہجری شمسی، ص23۔
  27. احمدیان، سعیداوی، «تحلیل معنایی درجات تقوا در نہج البلاغہ، ص69۔
  28. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: نراقی، جامع السعادات، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، ج2، ص180؛ امام خمینی، شرح چہل حدیث، 1380ہجری شمسی، ص206 و ص325۔
  29. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: ابن‌عربی، فتوحات مکیۃ، مؤسسہ آل البیت، ج2، ص157؛ عباسی، «تقوا در تصوف و عرفان»، ص803۔
  30. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج11، ص211؛ یزدی طباطبایی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص19۔
  31. نجفی، جواہر الکلام، ج11، ص211۔
  32. یزدی طباطبایی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص19۔
  33. سورہ حجرات، آیہ 13؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج22، ص210۔
  34. سورہ بقرہ، آیہ 197؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج15، ص299۔
  35. سورہ اعراف، آیہ 26؛ مطہری، دہ گفتار، 1397ہجری شمسی، ص27۔
  36. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ112، ص169؛ مطہری، دہ گفتار، 1397ہجری شمسی، ص23۔
  37. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 16، ص57؛ مطہری، دہ گفتار، 1397ہجری شمسی، ص24۔
  38. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 191، ص284۔
  39. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 230، ص351؛ مطہری، دہ گفتار، 1397ہجری شمسی، ص25۔
  40. صحیفہ سجادیہ، دعای 32، بند 19 و 20؛ زارعی، تقوا از دیدگاہ امام سجاد (ع) با تاکید بر صحیفہ سجادیہ، 1395ہجری شمسی، ص104۔
  41. صحیفہ سجادیہ، دعای 17، بند 5 و دعای 22، بند 12۔
  42. نوری، مستدرک الوسائل، 1408ھ، ج11، ص266۔
  43. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص73۔
  44. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص73۔
  45. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص76۔
  46. راغب اصفہانی، الذریعہ إلی مکارم الشریعۃ، 1414ھ، ص59۔
  47. ابن فہد حلی، عدۃ الداعی، 1407ھ، ص304۔
  48. نراقی، جامع السعادات، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، ج2، ص181۔
  49. امام خمینی، شرح چہل حدیث، 1380ہجری شمسی، ص206۔
  50. سورہ حجرات، آیہ 13۔
  51. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج28، ص115۔
  52. علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج70، ص296۔
  53. بیضاوی، انوار التنزیل واسرار التاویل، 1418ھ، ج1، ص100۔
  54. علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج70، ص136۔
  55. امام خمینی، آداب الصلاۃ، 1378ہجری شمسی، ص369۔
  56. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 193، ص303۔
  57. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 83، ص111؛ منتظری، درس‌ہایی از نہج البلاغہ، ج3، ص315۔
  58. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 193، ص305؛ مکارم شیرازی، اخلاق اسلامی در نہج البلاغہ، ج2، ص473۔
  59. رسالہ حقوق امام سجاد(ع)، ترجمہ محمدحسین افشاری، 1394ہجری شمسی، ص38۔
  60. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 193، ص303؛ مکارم شیرازی، اخلاق اسلامی در نہج البلاغہ، 1385ہجری شمسی، ج2، ص158-159۔
  61. رسالہ حقوق امام سجاد، ترجمہ محمدحسین افشاری، 1394ہجری شمسی، ص39۔
  62. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 193، ص303؛ مکارم شیرازی، اخلاق اسلامی در نہج البلاغہ، 1385ہجری شمسی، ج2، ص157۔
  63. علامہ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج96، ص7۔
  64. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: سورہ حج، آیہ 32؛ سورہ حجرات، آیہ 3؛ فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین، 1375ہجری شمسی، ج1، ص4۔
  65. طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1393ھ، ج14، ص374۔
  66. عباسی، «تقوا»، ص804۔
  67. امام خمینی، آداب الصلاۃ، 1378ہجری شمسی، ص369۔
  68. سورہ انفال، آیہ 29؛ مطہری، دہ گفتار، 1397ہجری شمسی، ص34۔
  69. سورہ مائدہ، آیہ 27؛ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج3، ص315۔
  70. سورہ بقرہ، آیہ 282؛ مطہری، دہ گفتار، 1397ہجری شمسی، ص38۔
  71. سورہ طلاھ، آیہ 3؛ سلمی، طبقات الصوفیۃ، 1424ھ، ص232۔
  72. سورہ بقرہ، آیہ 2؛ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج1، ص82۔
  73. سورہ انفال، آیہ 29؛ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1393ھ، ج19، ص316۔
  74. سورہ آل عمران، آیہ 200؛ طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1393ھ، ج2، ص57۔
  75. سورہ قمر، آیات 54-55۔
  76. نہج‌البلاغہ، تحقیق صبحی صالح، خطبہ 198، ص312؛ مطہری، دہ گفتار، 1397ہجری شمسی، ص31۔
  77. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ16، ص57۔
  78. نہج‌البلاغہ، تحقیق صبحی صالح، خطبہ 198، ص312؛ مطہری، دہ گفتار، 1397ہجری شمسی، ص31۔
  79. سورہ طلاھ، آیہ 3؛ حلی، عدۃ الداعی، 1407ھ، ص305۔
  80. سورہ آل عمران، آیہ 133؛ حلی، عدۃ الداعی، 1407ھ، ص305۔
  81. نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 193، ص303؛ مطہری، دہ گفتار، 1397ہجری شمسی، ص16۔
  82. مطہری، دہ گفتار، 1397ہجری شمسی، ص16۔
  83. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 193، ص303-307۔
  84. مطہری، دہ گفتار، 1397ہجری شمسی، ص11-12۔
  85. جلیلی، تقوا، سکوی پرواز، 1400ہجری شمسی، ص7-14۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • صحیفہ سجادیہ۔
  • ابن فہد حلی، احمد بن محمد، عدۃ الداعی، قم، دار الکتاب الإسلامی، 1407ھ۔
  • ابن‌عربی، محی‌الدین، فتوحات مکیۃ، قم، مؤسسہ آل البیت، بی‌تا۔
  • احمدیان، حمید و علی سعیداوی، «تحلیل معنایی درجات تقوا در نہج البلاغہ»، کاوشی نو در معارف قرآنی، شمارہ 1، بہار و تابستان 1391ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، شرح چہل حدیث، قم، موسسہ تنظيم و نشر آثار امام خمينى، 1380ہجری شمسی۔
  • ایزوتسو، توشیہیکو، خدا و انسان در قرآن، ترجمہ احمد آرام، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1373ہجری شمسی۔
  • بیضاوی، عبداللہ بن عمر، انوار التنزیل واسرار التاویل، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1418ھ۔
  • جلیلی، جلیل، تقوا، سکوی پرواز، قم، انتشارات دانشگاہ معارف اسلامی، 1400ہجری شمسی۔
  • راغب اصفہانی، ابوالقاسم حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، بیروت، دار القلم، 1412ھ۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، الذریعہ إلی مکارم الشریعۃ، قم، الشریف الرضی، 1414ھ۔
  • رسالہ حقوق امام سجاد(ع)، ترجمہ محمدحسین افشاری، قم، نشر مشہور، 1394ہجری شمسی۔
  • زارعی، تقوا از دیدگاہ امام سجاد (ع) با تاکید بر صحیفہ سجادیہ، 1395ہجری شمسی، ص104۔
  • سلمی، محمد بن حسین، طبقات الصوفیۃ، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1424ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ اول، 1417ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1393ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1415ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن (تفسیر طبری)، بیروت، دار المعرفۃ، 1412ھ۔
  • عباسی، بابک، «تقوا در تصوف و عرفان»، در دانشنامہ جہان اسلام، جلد 7، تہران، بنیاد دائرۃ المعارف اسلامی، 1382ہجری شمسی۔
  • عباسی، بابک، «تقوا»، در دانشنامہ جہان اسلام، جلد 7، تہران، بنیاد دائرۃ المعارف اسلامی، 1382ہجری شمسی۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، 1403ھ۔
  • فتال نیشابوری، محمد بن احمد، روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین، قم، الشریف الرضی، 1375ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1420ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، تحقیق علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، دار الكتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مطہری، مرتضی، دہ گفتار، قم، انتشارات صدرا، چاپ چہل و نہم، 1397ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، اخلاق اسلامی در نہج البلاغہ، قم، نسل جوان، چاپ دوم، 1385ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃٰ، 1374ہجری شمسی۔
  • ملاحویش آل غازی، عبدالقادر، بیان المعانی، دمشھ، مطبعۃ الترقی، 1382ھ۔
  • منتظری، حسینعلی، درس‌ہایی از نہج البلاغہ، تہران، انتشارات سرایی، 1382ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
  • نراقی، محمدمہدی، جامع السعادات، بیروت، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، چاپ چہارم، بی‌تا۔
  • نوری، حسین، مستدرک الوسائل، بیروت، مؤسسہ آل البیت، 1408ھ۔
  • نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، قم، مرکز البحوث الاسلامیۃ، 1374ہجری شمسی۔