آیت ود

ویکی شیعہ سے
آیت ودّ
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت ودّ
سورہمریم
آیت نمبر96
پارہ16
شان نزولپیغمبر اکرمؐ کی دعا مستجاب ہونا، مؤمنین کے دلوں میں امام علیؑ کی محبت قرار دینا۔
محل نزولمدینہ
موضوعمحبت مؤمنین


آیت وُدّ، سورہ مریم کی 96ویں آیت ہے جس میں اللہ تعالی کی طرف سے لوگوں کے دلوں میں مؤمنین کی محبت قرار دیئے جانے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ بعض شیعہ اور اہل سنت مفسرین اس آیت کی شأن نزول کو امام علیؑ قرار دیتے ہیں۔ بعض احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے خدا سے مؤمنین کے دلوں میں امام علیؑ کی محبت اور منافقین کے دلوں میں آپ کی ہیبت اور عظمت قرار دینے کی درخواست کی تھی۔ اس درخواست کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔

اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ خدا نے اہل ایمان یا منافقین کے دلوں میں مؤمنوں کی محبت ودیعت کی ہے اور یہ محبت یا اسی دنیا میں ہے یا آخرت میں۔ بعض مفسرین اس آیت کی تفسیر میں پیش آنے والے اختلاف کو اس کے اطلاق کے ذریعے قابل جمع قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ اس آیت کا اعلی ترین مصداق امام علیؑ ہے جن کی محبت خدا نے مؤمنین کے دلوں میں ودیعت کی ہیں اور دوسرے مرحلے میں یہ آیت حتی بعد والی نسلوں اور زمانوں میں آنے والے تمام مؤمنوں اور صالحوں کو بھی شامل کرتی ہے۔

آیت کا متن اور ترجمہ

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا ﴿۹۶﴾


بےشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے۔ ان کیلئے عنقریب خدائے رحمن (لوگوں کے دلوں میں) محبت قرار دے گا۔ (مریم، ۹۶)



سورہ مریم: آیت 96


اجمالی تعارف

سورہ مریم کی آیت نمبر 96 کو آیت ود کہا جاتا ہے۔ لفظ ود محبت کے معنی میں ہے جیسے والدین کی محبت اپنی اولاد کی نسبت۔[1] اس آیت میں خدا کی طرف سے ایک وعدہ دیا گیا ہے کہ عنقریب ایمان لانے اور عمل صالح انجام دینے والوں کی محبت لوگوں کے دلوں میں قرار دی جائیگی؛[2] کیونکہ جب خدا کسے سے محبت کرتا ہے تو اس کی محبت آسمان اور زمین والوں کے دلوں میں بھی پھیلا دیتا ہے۔[3]

شأن نزول

آیت ود کی شأن نزول کو امام علیؑ[4] اور آپ کی ولایت قرار دی گئی ہے[5] اور اس حوالے سے بہت ساری احادیث فریقین (شیعہ اور اہل سنت) کے منابع میں ذکر ہوئی ہیں۔[6] بعض محققین کے مطابق مذکورہ احادیث میں امیر المؤمنین حضرت علیؑ کو بطور مثال ذکر کیا گیا ہے ورنہ یہ آیت تمام ائمہ معصومینؑ کی ولایت کو شامل کرتی ہے۔[7] شیعہ متقدم علماء میں سے علی بن ابراہیم قمی اور عیاشی اپنی تفسیری کتب میں امام صادقؑ سے ایک حدیث نقل کرتے هیں جس میں پیغمبر اکرمؐ امام علیؑ کے حق میں دعا کرتے ہیں اور بلند آواز کے ساتھ یہاں تک کہ لوگ آپ کی آواز کو سن لیتے ہیں[8] خدا سے مؤمنین کے دلوں میں حضرت علیؑ کی محبت قرار دینے اور منافقین کے دلوں میں آپ کی ہیبت اور عظمت قرار دینے کی درخواست کرتے ہیں۔ اس دعا کے بعد یہ آیت نازل ہوتی ہے۔[9]

بعض اہل‌ سنت علماء بھی اس آیت کے شأن نزول کو امام علیؑ قرار دیتے ہیں؛[10] [یادداشت 1] اہل سنت منابع میں نقل ہونے والے آحادیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ کو مذکورہ دعا کے مضامین کی تعلیم دی جس کے بعد مذکورہ آیت نازل ہوئی؛[12] البتہ بعض اہل سنت مفسرین اس آیت کے شأن نزول کو مہاجرین حبشہ[13] یا عبدالرحمن بن عوف[14] قرار دیتے ہیں۔

تفسیر

آیت جو درحقیقت گذشتہ آیات کا خلاصہ اور کچھ نئے نکات کا مجموعہ ہے[15]،اس کی تفسیر میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔[16] شیعہ مفسر اور کتاب مجمع البیان کے مولف طبرسی اس بات کے معتقد ہیں کہ بعض مفسرین اس قانون میں تمام مؤمنین کو شامل قرار دیتے ہیں جس کے مطابق اللہ تعالی نے لوگوں[17] یا اہل ایمان[18] کے دلوں کو ان کی طرف راغب کیا ہے تاکہ اس کے ذریعے کسی حد تک ان کی فضیلت اور اخلاق کی قدردانی ہو۔[19] اس کے مقابلے میں بعض مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ اس آیت سے مراد مخالفین اور دشمنوں کے دلوں میں مؤمنین کی محبت قرار دینا ہے؛[20] اگرچہ مؤمنین کے آپس میں ایک دوسرے کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت قرار دینا بھی اس میں شامل جو ان کے درمیان وحدت اور ان کی طاقت کا باعث ہے۔[21] یہ محبت جہاں قرار دی گئی ہے اس حوالے سے بعض کہتے ہیں اسی دنیا میں یہ محبت قرار دی گئی ہے[22] جبکہ بعض کے مطابق یہ محبت آخرت میں قرار دی جائیگی۔[23]

علامہ طباطبائی کے مطابق یہ تمام تفاسیر اس آیت میں موجود اطلاق کے ذریعے قابل جمع ہیں اور حقیقت میں ان کے درمیان کوئی اختلاف اور تضاد نہیں ہے[24] وہ اس طرح کہ اس آیت کے مصادیق میں سے اعلی مصداق یہ ہے کہ یہ آیت امام علیؑ کی شأن میں نازل ہوئی ہے اور خدا نے ان کی محبت مؤمنوں کے دلوں میں قرار دی ہے[25] لیکن دوسرے مرحلے میں اس میں حتی بعد کی نسلوں اور زمانوں میں آنے والے تمام مؤمنین اور صالحین بھی شامل ہیں۔[26]

آیت کا مفہوم

تفسیری منابع میں اس آیت سے مختلف مفاہیم مراد لئے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • ایمان اور عمل صالح لوگوں کے یہاں محبوب ہونے کا باعث ہے اور خدا کا وعدہ تخلف ناپذیر ہے۔[27]
  • آیت کا مفہوم عام ہے اور اس میں تمام مؤمنین شامل ہیں۔[28]
  • محبوب ہونا خدا کے ہاتھ میں ہے اور حقیقت میں یہ خدا کی رحمت ہے جو مؤمنین اور صالحین کو نصیب ہوئی ہے۔[29]
  • ایمان بغیر عمل اور عمل بغیر ایمان کے کارساز نہیں ہے۔[30]

متعلقہ صفحات

نوٹ

  1. رضایی اصفہانی معاصر مفسر قرآن اپنی تفسیر میں اہل سنت کے بعض منابع کا نام لیتے ہیں جن میں مذکورہ آیت کے شأن نزول کو امام علیؑ قرار دیتے ہیں من جملہ ان میں تفسیر ثعلبی، کشاف زمخشری، تفسیر قرطبی، تذکرہ سبط بن الجوزی، تفسیر نیشابوری، روح المعانی آلوسی و الدر المنثور سیوطی شامل ہیں۔[11]

حوالہ جات

  1. جصاص، احکام القرآن، ۱۴۰۵ق، ج۵، ص۴۸۔
  2. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۴، ص۱۱۳۔
  3. طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، ج۷، ص۱۵۴۔
  4. ابوحمزہ ثمالی، تفسیر القرآن الکریم، ۱۴۲۰ق، ص۲۴۳؛ جعفری، تفسیر کوثر، ۱۳۷۶ش، ج۶، ص۵۴۸۔
  5. حویزی، تفسیر نور الثقلین، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۳۶۳۔
  6. نمونے کے لئے رجوع کریں: کوفی، تفسیر فرات الکوفی، ۱۴۱۰، ص۲۴۸؛ حسکانی، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۴۶۴؛ جرجانی، درج الدرر فی تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۸۳؛ فیض کاشانی، تفسیر الصافی، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۲۹۷؛ بروجردی، تفسیر جامع، ۱۳۶۶ش، ج۴، ص۲۷۲۔
  7. شکوری، تفسیر شریف لاہیجی، ۱۳۷۳ش، ج۳، ص۴۵۔
  8. عیاشی، تفسیر عیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۲، ص۱۴۲۔
  9. قمی، تفسیر القمی، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۵۶۔
  10. واحدی، الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۶۹۰؛ حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱، ج۱، ص۴۶۴؛ ماتریدی، تأویلات أہل السنۃ، ۱۴۲۶ق، ج۷، ص۲۶۳؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، ۲۰۰۸م، ج۴، ۲۲۷؛ جرجانی، درج الدرر، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۸۳۔
  11. رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، ۱۳۸۷ش، ج۱۲، ص۳۹۲۔
  12. رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، ۱۳۸۷ش، ج۱۲، ص۳۹۲؛ طبرسی، تفسیر جوامع الجامع، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۴۱۱۔
  13. آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۴۵۸۔
  14. واحدی، الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۶۹۰۔
  15. مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۳، ص۱۴۴۔
  16. عاملی، تفسیر عاملی، ۱۳۶۰ش، ج۶، ص۸۵۔
  17. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۸۲۲؛ ابن قتیبہ، تفسیر غریب القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۳۴۔
  18. ابن ہائم، التبیان فی تفسیر غریب القرآن، ۱۴۲۳ق، ص۲۲۵؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۱۶، ص۱۰۰۔
  19. مغنیہ، التفسیر الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۲۰۱۔
  20. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۸۲۲۔
  21. رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، ۱۳۸۷ش، ج۱۲، ص۳۹۳؛ مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۳، ص۱۴۴۔
  22. طبرانی، التفسیر الکبیر، ۲۰۰۸م، ج۴، ص۲۲۷؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۱۶، ص۱۰۰۔
  23. ماتریدی، تأویلات أہل السنۃ، ۱۴۲۶ق، ج۷، ص۲۶۳؛ میبدی، کشف الاسرار، ۱۳۷۱ش، ج۶، ص۸۴۔
  24. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۴، ص۱۱۳۔
  25. جعفری، تفسیر کوثر، ۱۳۷۶ش، ج۶، ص۵۴۸۔
  26. مکارم، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۳، ص۱۴۴-۱۴۵۔
  27. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۸ش، ج۵، ص۳۱۴۔
  28. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۸۲۲؛ ابن قتیبہ، تفسیر غریب القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۳۴؛ ابن ہائم، التبیان فی تفسیر غریب القرآن، ۱۴۲۳ق، ص۲۲۵؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۱۶، ص۱۰۰۔
  29. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۸ش، ج۵، ص۳۱۴۔
  30. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۸ش، ج۵، ص۳۱۴۔

مآخذ

  • آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، تحقیق علی عبدالباری عطیہ، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۱۵ق۔
  • ابن قتیبہ، عبداللہ بن مسلم، تفسیر غریب القرآن، بیروت، دار و مکتبۃ الہلال، ۱۴۱۱ق۔
  • ابن ہائم، احمد بن محمد، التبیان فی تفسیر غریب القرآن، بیروت، دار الغرب الإسلامی، ۱۴۲۳ق۔
  • ابوحمزہ ثمالی، ثابت بن دینار، تفسیر القرآن الکریم، بیروت، دار المفید، ۱۴۲۰ق۔
  • بروجردی، محمدابراہیم، تفسیر جامع، تہران، کتابخانہ صدر، چاپ ششم، ۱۳۶۶ش۔
  • جرجانی، عبدالقاہر بن عبدالرحمن، درج الدرر فی تفسیر القرآن العظیم، عمان اردن، دار الفکر، ۱۴۳۰ق۔
  • جصاص، احمد بن علی، احکام القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۵ق۔
  • جعفری، یعقوب، تفسیر کوثر، قم، مؤسسہ انتشارات ہجرت، ۱۳۷۶ش۔
  • حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۱۱ق۔
  • حویزی، عبدعلی بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، قم، اسماعیلیان، چاپ چہارم، ۱۴۱۵ق۔
  • رضایی اصفہانی، محمدعلی، تفسیر قرآن مہر، قم، پژوہش‌ہای تفسیر و علوم قرآن، ۱۳۸۷ش۔
  • شکوری، محمد بن علی، تفسیر شریف لاہیجی، تہران، دفتر نشر داد، ۱۳۷۳ش۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، ۱۳۹۰ق۔
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، التفسیر الکبیر: تفسیر القرآن العظیم، اربد اردن، دار الکتاب الثقافی، ۲۰۰۸م۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر جوامع الجامع، قم، حوزہ علمیہ قم، مرکز مدیریت، ۱۴۱۲ق۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفۃ، ۱۴۱۲ق۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • عاملی، ابراہیم، تفسیر عاملی، تہران، کتاب‌فروشی صدوق، ۱۳۶۰ش۔
  • عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، تحقیق ہاشم رسولی محلاتی، تہران، المطبعۃ العمیۃ، ۱۳۸۰ق۔
  • فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی، تفسیر الصافی، تہران، مکتبۃ الصدر، چاپ دوم، ۱۴۱۵ق۔
  • قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درس‌ہایی از قرآن، ۱۳۸۸ش۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، ۱۳۶۳ش۔
  • کوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۱۰ق۔
  • ماتریدی، محمد بن محمد، تأویلات أہل السنۃ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، منشورات محمد علی بیضون، ۱۴۲۶ق۔
  • مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم، دار الکتاب الإسلامی، ۱۴۲۴ق۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ دہم، ۱۳۷۱ش۔
  • میبدی، احمد بن محمد، کشف الاسرار و عدۃ الابرار، تہران، امیرکبیر، چاپ پنجم، ۱۳۷۱ش۔
  • واحدی، علی بن احمد، الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز، بیروت، دار القلم، ۱۴۱۵ق۔