آیت محاربہ

ویکی شیعہ سے
آیت محاربہ
قرآن کا ایک قدمی نسخہ آیہ محاربہ، خط کوفی میں
قرآن کا ایک قدمی نسخہ
آیہ محاربہ، خط کوفی میں
آیت کی خصوصیات
آیت کا ناممحاربہ
سورہسورہ مائدہ
آیت نمبر33
پارہ6
صفحہ نمبر106
شان نزولعُرَینیان یا ڈاکو
محل نزولمدنی
موضوعفقہی
مضمونمعاشرے میں خوف و ہراس پیدا کرنے والوں کے بارے میں۔
مرتبط موضوعاتمحارب کی سزا کی نوعیت


آیہ محاربہ، سورہ مائدہ کی آیت نمبر 33 کو کہا جاتا ہے جس میں ان اشخاص کی سزا کا بیان آیا ہے جو خدا اور رسول خداؐ سے جنگ کرتے ہیں۔ اکثر مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ آیت تازہ مسلمان ہونے والے مشرکین کے ایک گروہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے کچھ مسلمانوں کو قتل کر کے ان کے اونٹوں کی چوری کی تھی جس پر پیغمبر اکرمؐ نے اس آیت کے مطابق ان کو سزا دی۔

فقہ میں اس آیت سے محاربہ کے احکام استنباط کئے جاتے ہیں۔ فقہاء ایسے شخص کو محارب قرار دیتے ہیں جو اسلحے کے بل بوتے پر کھلم کھلا چوری کرے یا لوگوں کو یرغمال بنائے۔ ایسے شخص کے لئے اس آیت میں چار قسم کی سزائیں تعیین کی گئی ہیں جن میں قتل، صلب (صلیب پر لٹکانا)، مخالف سمت سے ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کو کاٹنا اور جلا وطنی شامل ہیں۔ بعض فقہاء اس بات کے قائل ہیں کہ قاضی ان چار سزاؤں میں سے کسی ایک کو نافذ کرنے کا اختیاز رکھتا ہے لیکن بعض دوسرے فقہاء کا کہنا ہے کہ جرم کی نوعیت کو مد نظر رکھتے ہوئے قاضی جرم کے تناسب سے مذکورہ سزاؤں میں سے کسی ایک یا چند سزاؤں کو نافذ کر سکتا ہے۔

متن اور ترجمہ

«إِنَّمَا جَزَاء الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللہ وَرَسُولَہُ وَيَسْعَوْنَ فِي الأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُواْ أَوْ يُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيہِمْ وَأَرْجُلُہُم مِّنْ خِلافٍ أَوْ يُنفَوْاْ مِنَ الأَرْضِ ذَلِكَ لَہُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَہُمْ فِي الآخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِيمٌ»(33)


بے شک جو لوگ خدا اور رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرنے کے لیے دوڑتے پھرتے ہیں، ان کی سزا یہ ہے کہ (1) انہیں قتل کر دیا جائے۔ (2) یا سولی پر چڑھا دیا جائے۔ (3) یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں۔ (4) یا جلا وطن کر دیئے جائیں۔ یہ تو ہوئی ان کی رسوائی دنیا میں اور آخرت میں ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔



سورہ مائدہ: 33


شأن نزول

اکثر مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ آیہ مُحاربہ عُرَینیان؛[1] یعنی مشرکین کا ایک گروہ جنہوں نے مدینہ جا کر اسلام قبول کیا تھا[2] اور مدینہ کا آب و ہوا ان کے لئے سازگار نہ ہونے کی بنا پر پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے کسی خواشگوار آب و ہوا والی جگہ پر ان کو ٹھرایا گیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد بعض مسلمانوں کو قتل کرکے ان کے اموال کو لوٹنے کے بعد مرتد ہو کر وہاں سے فرار ہو گئے۔[3] علامہ طباطبائی کے مطابق امام علیؑ نے پیغمبر اکرمؐ کے حکم پر انہیں گرفتار کر کے آپؐ کی خدمت میں پیش کیا۔[4] اس موقع پر آیہ محاربہ نازل ہوئی اور پیغمبر اکرمؐ نے اس آیت کے مطابق ان کو سزا دی۔[5] بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عرینیان نے فقط چوری کی تھی اسی بنا پر پیغمبر اکرمؐ نے مذکورہ آیت کے مطابق ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئے تھے۔[6] عرینیان کی داستان کتاب کافی میں امام صادقؑ سے نقل ہوئی ہے۔[7]

آیہ محاربہ کے شأن نزول‌ کے بارے میں بعض دیگر احتمالات بھی دئے گئے ہیں؛[8] فخر رازی کے مطابق یہ آیت بنی‌ اسرائیل کے بارے میں نازل ہوئی ہے، چونکہ انہوں نے مفسدین کو قتل کرنے میں زیادہ روی کی تھی۔[9] اسی طرح بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت راہزنوں، حج اور زیارتی قافلوں کو لوٹنے والے مشرکین اور عہد شکن افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[10] علامہ طباطبائی کے مطابق اس آیت کے شأن نزول کے بارے میں نقل ہونے والی احادیث اہل سنت کی صحاح ستہ میں بھی مختصر فرق کے ساتھ نقل ہوئی ہیں۔[11]

تفسیر

سورہ مائدہ کی 33ویں آیت، آیہ محاربہ کے نام سے مشہور ہے۔[12] مفسرین کے مطابق جو شخص اسلامی معاشرے میں نا امنی اور قتل و غارت‌ کا مرتکب ہو محارب کہلاتا ہے؛[13] کیونکہ محارب نے در حقیقت رسول خداؐ کے ساتھ اعلان جنگ کیا ہے۔[14] آیہ محاربہ کے تحت محارب کو چار طریقوں میں سے کسی ایک طریقے پر سزا دی جائے گی:[15]

قتل(جان سے مار دینا) یہ سزا اس شخص کے لئے ہے جس نے محاربہ کے ساتھ کسی انسان کو قتل بھی کیا ہو۔[16] نویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ اور مفسر فاضل مقداد اس بات کے معتقد ہیں کہ مقتول کے ورثاء کی جانب سے معاف کئے جانے کی صورت میں بھی محارب کی سزا ساقط نہیں ہوگی اس بنا پر محارب کو ہر صورت میں قتل کیا جائے گا۔[17]

صلب (صلیب کی شکل میں لٹکانا) یہ سزا اس محارب کیلئے ہے جس نے کسی انسان کو قتل کر دینے کے ساتھ چوری بھی کی ہو۔[18] فضل بن حسن طبرسی چھٹی صدی ہجری کے شیعہ فقیہ اور مفسر اس بات کے معتقد ہیں کہ محارب کو جان سے مار دینے کے بعد 3 دفعہ لٹکایا جائے گا۔[19] کتاب کشف الاسرار کے مطابق محارب کو جان سے مارنے کے 3 دن پہلے یا بعد میں سولی پر لٹکایا جائے گا اور اس کی تشخیص امام کے ذمے ہے۔[20]

ہاتھ اور پاؤں کو کاٹ دینا یہ سزا اس شخص کی ہے جس نے محاربہ کے ساتھ فقط چوری کی ہو۔[21] امام صادقؑ نے ہاتھ پاؤں سے مراد دائیں ہاتھ اور بائیں پاؤں لیا ہے۔[22] اسی طرح بعض نے ہاتھ پاؤں کی چار انگلیوں کو کاٹنا مراد لیا ہے۔[23] ہاتھ پاؤں کاٹنے کی سزا اس وقت ہے جب چوری کا مال چوری کے حد نصاب تک پہنچ جائے۔[24]

جلاوطنی یا زندان یہ اس شخص کی سزا ہے جس نے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلایا ہو۔[25] بعض مفسرین "أَو ینفَوا مِنَ الأَرضِ" (یعنی اپنے شہر سے نکال باہر کرنا) سے جلاوطنی اور بعض اس سے زندان اور قید کرنا مراد لیا ہے۔[26] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ جلاوطنی کی صورت میں محارب کو ایسے شہروں میں نہیں بھیجا جائے گا جہاں مشرکین موجود ہوں۔[27] جناب فاضل مقداد کی کتاب کنز العرفان میں اہل سنت کے شافعی مذہب کے بانی امام شافعی سے منقول ہے کہ: جس محارب کو جلاوطن کیا گیا ہے اس کے ساتھ کسی قسم کا تجارتی لین دین، تعاون اور رہن سہن برقرار نہیں کیا جائے گا۔[28]

مسلمان مفسرین کے مطابق مذکورہ سزائیں جرم کی نوعیت کے حساب سے معین کی گئی ہیں؛[29] امام باقرؑ اور امام صادقؑ سے بھی اسی طرح کی احادیث نقل ہوئی ہیں۔[30] بعض مفسرین محارب کی سزا کی نوعیت کو حاکم شرع[31] یا امام معصوم[32] کی صوابدید پر چھوڑتے ہیں۔ آیہ محاربہ کے مطابق مذکورہ سزائیں اسی دنیا سے مربوط ہیں اور محارب آخرت میں عذاب سے محفوظ نہیں رہے گا۔[33]

توبہ

مفسرین کے مطابق اگر محارب گرفتار ہونے سے پہلے توبہ کر لے تو اس کی سزا ختم ہو گی۔[34] دسویں صدی ہجری کے اہل سنت محدث سیوطی کے مطابق حارث بن بدر نے مصر میں اسلحہ کے زور پر لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کے بعد اپنے اس کام سے توبہ کی تھی جس کے بعد لوگوں نے اسے پکڑ کر امام علیؑ کے پاس لے آیا اور امام علیؑ نے اس کی توبہ سے اطمینان حاصل کرنے کے بعد اسے امان نامہ عطا کیا۔[35] البتہ محارب کی طرف سے توبہ کرنے کی صورت میں صرف وہ جرائم معاف ہونگے جو صرف محاربہ کی حد تک ہو لیکن اگر اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا کسی کا مال چوری کیا ہو تو توبہ کے باوجود بھی جرم سے متناسب سزا دی جائے گی۔[36] اسی طرح گرفتار ہونے کے بعد توبہ کرے تو بھی اس کی سزا ختم نہیں ہوگی۔[37]

فقہی استعمال

فقہی کتابوں میں محارب کا حکم آیہ محاربہ کے تناظر میں بیان ہوا ہے۔ فقہاء کے مطابق جو شخص کھلے عام اسلحے کے زور پر کسی کا مال چھین لے یا لوگوں کو یرغمال بنائے تو یہ شخص محارِب شمار ہوگا۔[38] محاربہ ثابت ہونے کے مختلف شرائط ہیں جن میں اسلحہ اٹھانا، لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کا قصد رکھنا اور محارب کا فاسد ہونا شامل ہیں۔[39]

بعض فقہاء نے محارب کے مختلف مصادیق بیان کئے ہیں جن میں: اہل ذمہ، مرتد، راہزن اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے والا شخص شامل ہیں۔[40] اسی طرح بعض فقہا محاربہ کو مسلمانوں کے ساتھ جنگ قرار دیتے ہیں۔[41]

تخییر یا ترتیب

آیہ محاربہ میں محارب کے لئے چار سزاؤں کا ذکر آیا ہے؛[42] لیکن فقہاء کے درمیان محارب کی سزا کی نوعیت میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے؛[43] شیخ صدوق،[44] شیخ مفید،[45] علامہ حلی،[46] اور امام خمینی[47] ان سزاؤں کے انتخاب میں تخییر کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ قاضی کو اختیار ہے ان میں سے جو بھی انتخاب اور نافذ کرے۔

ان کے مقابلے میں شیخ طوسی، محمد‌ حسن نجفی، صاحب ریاض اور آیت اللہ خویی اس بات کے معتقد ہیں کہ محارب کی سزا اس کے جرم کی نوعیت سے ترتیب وار نافذ ہوگی۔[48]

حوالہ جات

  1. نمونہ کے لئے رجوع کریں:‌ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص291؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج11، ص345۔
  2. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص291؛ خواجہ عبداللہ انصاری، کشف الاسرار، 1371ش، ج3، ص103۔
  3. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص291؛ خواجہ عبداللہ انصاری، کشف الاسرار، 1371ش، ج3، ص103۔
  4. طباطبایی، تفسیر المیزان، 1390ش، ج5، ص331۔
  5. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص291؛ خواجہ عبداللہ انصاری، کشف الاسرار، 1371ش، ج3، ص103؛ فخررازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج11، ص345؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج4، ص359۔
  6. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص291؛ طباطبایی، تفسیر المیزان، 1390ش، ج5، ص326۔
  7. کلینی، الکافی، 1407ق، ج7، ص245۔
  8. رجوع کریں: طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص291؛ خواجہ عبداللہ انصاری، کشف الاسرار، 1371ش، ج3، ص103؛ فخررازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج11، ص345۔
  9. فخررازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج11، ص345۔
  10. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص291؛ خواجہ عبداللہ انصاری، کشف الاسرار، 1371ش، ج3، ص103؛ فخررازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج11، ص345۔
  11. طباطبایی، تفسیر المیزان، 1390ش، ج5، ص333۔
  12. صالحی نجف‌آبادی، «تفسیر آیہ محاربہ و احکام فقہی آن»، ص65۔
  13. طباطبایی، تفسیر المیزان، 1390ش، ج5، ص326؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص292۔
  14. طباطبایی، تفسیر المیزان، 1390ش، ج5، ص326۔
  15. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص292؛ خواجہ عبداللہ انصاری، کشف الاسرار، 1371ش، ج3، ص103۔
  16. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص292؛ خواجہ عبداللہ انصاری، کشف الاسرار، 1371ش، ج3، ص103۔
  17. فاضل مقداد، کنز العرفان، 1373ش، ج2، ص352۔
  18. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص292۔
  19. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص292۔
  20. خواجہ عبداللہ انصاری، کشف الاسرار، 1371ش، ج3، ص102۔
  21. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص292۔
  22. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص292۔
  23. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ش، ج4، ص360۔
  24. شہید ثانی، شرح لمعہ، 1410ق، ج9، ص256۔
  25. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ق، ج6، ص357۔
  26. سید قطب، فی ضلال القرآن، 1425ق، ج2، ص880۔
  27. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ق، ج6، ص357؛ فخررازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج11، ص347۔
  28. فاضل مقداد، کنز العرفان، 1373ش، ج2، ص352۔
  29. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص292؛ خواجہ عبداللہ انصاری، کشف الاسرار، 1371ش، ج3، ص103۔
  30. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص292۔
  31. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج11، ص346۔
  32. طباطبایی، تفسیر المیزان، 1390ش، ج5، ص331۔
  33. سورہ بقرہ، آیہ 33۔
  34. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج3، ص292؛ طباطبایی، تفسیر المیزان، 1390ش، ج5، ص328۔
  35. سیوطی، الدر المنثور، 1404ق، ج2، ص279۔
  36. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ق، ج4، ص168؛ صالحی نجف‌آبادی، «تفسیر آیہ محاربہ و احکام فقہی آن»، ص79۔
  37. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ق، ج4، ص168۔
  38. مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، 1431ق، ص475۔
  39. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ق، ج3، ص511-524۔
  40. شیخ طوسی، المبسوط، 1387ق، ج8، ص47۔
  41. صالحی نجف‌آبادی، «تفسیر آیہ محاربہ و احکام فقہی آن»، ص61۔
  42. سورہ مائدہ، آیہ33۔
  43. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ق، ج3، ص558۔
  44. شیخ صدوق، المقنع، 1415ق، ص450۔
  45. شیخ مفید، المقنعہ، 1413ق، ص804۔
  46. علامہ حلی، مختلف الشیعہ، 1413ق، ج9، ص258۔
  47. خمینی، تحریرالوسیلہ، مطبوعات دارالعلم، ج2، ص493۔
  48. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعزیرات‌، 1427ق، ج3، ص562۔

مآخذ

  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، آستان قدس رضوی، 1408ھ۔
  • خواجہ عبداللہ انصاری، عبداللہ بن محمد، کشف الأسرار و عدۃ الأبرار، تہران، امیرکبیر، 1371شمسی۔
  • خمینی، روح‌اللہ، تحریرالوسیلۃ، قم، موسسہ مطبوعات دارلعلم، چاپ اول، بی‌تا۔
  • سیوطی، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، 1404ھ
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن نورالدین علی، شرح لمعہ، الروضۃ البہیۃ فی شرح المعۃ الدمشقیۃ، تحقیق کلانتر، قم، داوری، 1410ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی الفقہ الإمامیہ، تصحیح و تحقیق سید محمدتقی کشفی، قم، المکتبۃ الرضویہ لإحیاء الآثار الجعفریہ، چاپ سوم، 1387ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعہ، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، المقنع، قم، موسسہ امام ہادی(ع)، چاپ اول، 1415ّھ۔
  • صالحی نجف‌آبادی، نعمت‌اللہ، «تفسیر آیہ محاربہ و احکام فقہی آن»، در مجلہ نامہ مفید، شمارہ 9، 1376شمسی۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، 1372شمسی۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1390ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعہ فی أحکام الشریعہ، قم، جامعہ مدرسین، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت، دار احیاء التراث العربی،‌ 1420ھ۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، کنز العرفان فی فقہ القرآن، تہران، مرتضوی، 1373شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح غفاری و آخوندی، تہران، مکتب الإسلامیۃ، 1407ھ۔
  • مشکینی، مصطلحات الفقہ و اصطلاحات الاصول، بیروت منشورات الرضا، چاپ اول، 1431ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق و تصحیح عبدالحسین محمدعلی بقال، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، 1371شمسی۔
  • موسوی اردبیلی، سید عبدالکریم، فقہ الحدود و التعزیرات‌، قم، مھ۔سسۃ النشر لجامعۃ المفید رحمہ اللہ‌، چاپ دوم، 1427ھ۔