آیات تیمم
| آیت کی خصوصیات | |
|---|---|
| آیت کا نام | تیمم، صَعید، مُلامَسَہ، رُخصت |
| سورہ | سورہ نساء آیت نمبر 43 اور سورہ مائدہ آیت نمبر 6 |
| پارہ | 5 اور 6 |
| صفحہ نمبر | 85 اور 108 |
| محل نزول | مدینہ |
| موضوع | فقہی |
| مضمون | تیمم کا جواز اور اس کے بعض احکام |
آیت تیمم، سورہ مائدہ کی چھٹی اور سورہ نساء کی 43ویں آیت کے آخری حصوں کو کہا جاتا ہے، اور یہ قرآن کی آیات الاحکام میں سے بھی ہیں۔ مسلمان فقہاء ان آیات سے تیمم کا حکم اخذ کرتے ہیں، جن میں وضو اور غسل کی جگہ تیمم کی اجازت اور تیمم کرنے کا طریقہ شامل ہیں۔ اس سلسلے میں مسلمان فقہاء ان آیات کی روشنی میں کہتے ہیں کہ جب بھی وضو یا غسل کے لئے پانی میسر نہ ہو یا بیماری کی وجہ سے پانی استعمال ممکن نہ ہو تو وضو اور غسل کی جگہ تیمم کیا جا سکتا ہے۔
مذکورہ آیات کے کچھ الفاظ کے معانی میں اختلاف کی وجہ سے تیمم کے طریقے اور اس کے محدودے کے بارے میں دئے گئے فتاوے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، زیادہ تر امامیہ فقہاء اس آیت کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ تیمم میں صرف چہرے کے ایک حصے (خاص طور پر پیشانی) پر مسح کرنا کافی ہے، جبکہ اہل سنت فقہاء پورے چہرے پر مسح کرنا واجب سمجھتے ہیں۔
اسی طرح امامیہ کا موقف ہے کہ آیت میں ہاتھوں پر مسح کرنے سے مراد ایک ہاتھ کی ہتھیلی کو دوسرے ہاتھ کی پشت پر کلائی سے انگلیوں کے سرے تک مسح کرنا ہے؛ لیکن بعض اہل سنت فقہاء کہتے ہیں کہ ہاتھ کی انگلیوں کے سرے سے کہنی تک مسح کرنا لازم ہے۔
متن اور ترجمہ
آیت تیمم قرآن میں دو جگہوں پر آئی ہے: ایک سورہ مائدہ کی آیت نمبر 6 کا آخری حصہ اور دوسری سورہ نساء آیت نمبر 43 کا آخری حصہ:
يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاۃَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوہِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ إِنَّ اللَّہَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا
اے ایمان والو! جب نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں اور کہنیوں سمیت اپنے ہاتھوں کو دھوؤ۔ اور سروں کے بعض حصہ کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو۔ اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو پھر غسل کرو اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی بیت الخلاء سے آیا ہو۔ یا تم نے عورتوں سے مقاربت کی ہو۔ اور پھر تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لو۔ یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پر اس سے مسح کر لو (مَل لو) اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی سختی کرے۔ وہ تو چاہتا ہے کہ تمہیں پاک صاف رکھے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دے تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو۔
يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاۃِ فَاغْسِلُوا وُجُوہَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوا وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوہِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِنْہُ مَا يُرِيدُ اللَّہُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَہِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَہُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
ایمان والو۔ نماز کے قریب مت جاؤ جبکہ نشہ کی حالت میں ہو یہاں تک کہ (نشہ اتر جائے اور) تمہیں معلوم ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ اور نہ ہی جنابت کی حالت میں (نماز کے قریب جاؤ) یہاں تک کہ غسل کر لو۔ الا یہ کہ تم راستے سے گزر رہے ہو (سفر میں ہو)۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی بیت الخلاء سے ہو کے آئے۔ یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پھر پاک مٹی سے تیمم کر لو۔ کہ (اس سے) اپنے چہروں اور ہاتھوں کے کچھ حصہ پر مسح کرلو۔ بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا ہے، بڑا بخشنے والا ہے۔
اہمیت
آیات تیمم قرآن کی آیات الاحکام میں سے ہیں، جن کی بنیاد پر مسلمان فقہاء وضو اور غسل کی جگہ تیمم کے جواز اور جن موارد میں وضو یا غسل کا امکان نہ وہاں پر نماز کے لئے تیمم کی شرطیت کو استنباط کرتے ہیں۔[1] فقہاء ان آیات کی روشنی میں تیمم کے طریقہ کار کی بھی وضاحت کرتے ہیں۔[2] چونکہ ان آیات میں وضو اور غسل کی جگہ تیمم کی اجازت دی گئی ہے اس لئے ان آیات کو آیات رخصت بھی کہا جات ہے۔[3]
تیمم جائز ہونے کے موارد
مسلمان فقہاء نے آیات تیمم کی روشنی میں ان موارد کو بیان کیا ہے جن میں وضو اور غسل کے بدلے تیمم کرنا واجب یا جائز ہے:
- بیماری کی حالت میں: آیت کی عبارت «وَإِن کنتُم مَّرْضَیٰ؛ اگر بیمار ہوں» کی بنا پر کہا گیا ہے کہ اگر مکلف بیمار ہو اور پانی کے استعمال سے اس کی صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہو، تو وہ وضو اور غسل کی جگہ تیمم کر سکتا ہے۔ref>فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج11، ص309؛ فاضل جواد، مسالک الافہام الی آیات الاحکام، 1365ش، ج1، ص63۔</ref>
- پانی میسر نہ ہو: آیت کی عبارت «فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً» کے تحت یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص حدث اصغر یا حدث اکبر کے بعد وضو یا غسل کے لیے ضروری مقدار میں پانی حاصل نہ کر سکے یا اس تک رسائی نہ ہو تو وہ وضو اور غسل کی جگہ تیمم کر سکتا ہے۔[4]
سفر
فقہاء اور مفسرین نے عبارت «أَوْ عَلَیٰ سَفَرٍ؛ یا سفر میں ہوں» کے بارے میں کہا ہے کہ سفر ایسی چیز نہیں ہے جس سے وضو یا غسل کرنا لازمی ہو، بلکہ اس کا ذکر اس لیے آیا ہے کہ سفر کے دوران کبھی ایسا ہوجاتا ہے کہ پانی تک رسائی ممکن نہیں ہوتا یا اس کے پاس پانی تو ہے لیکن اس بات کا خوف ہے کہ اگر پانی وضو یا غسل کے لئے استعمال کی جائے تو تشنگی کی وجہ سے اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں بھی مکلف وضو یا غسل کے بجائے تیمم کر سکتا ہے۔[5]
بعض الفاظ کے معنی میں اختلافِ رائے
آیت کے بعض الفاظ کے معنی میں اختلافِ رائے پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے فقہی آراء میں بھی اختلاف سامنے آیا ہے:
لامَسْتُم
لفظ "لَامَسْتُمُ" جو "لَمْس" سے ماخوذ ہے، کے بارے میں امامیہ مفسرین اور فقہاء اس بات کے معتقد ہیں کہ اس سے مراد عورتوں کو صرف چھونا نہیں ہے بلکہ یہ جنسی تعلقات سے کنایہ ہے جس کی وجہ سے غسل جنابت واجب ہوتا ہے[6] فقض فقہاء جیسے فاضل مقداد نے کتاب کَنْزُالعرفان میں اور رشید رضا نے تفسیر "المنار" میں شافعی کی طرف نسبت دی ہے کہ وہ غیر محرم مرد اور عورت کے صرف جسمانی لمس کو بھی وضو کے بطلان کا سبب سمجھتے تھے۔[7] اہل سنت کے چار فقہی پیشواؤں میں سے امام مالک بن انس کا فتویٰ بھی یہ ہے کہ اگر غیر محرم کے ساتھ عورت کا جسمانی لمس شہوت کے ساتھ ہو تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔[8]
صَعید
فقہاء کے درمیان اس بات پر بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ تیمم کس چیز پر جائز ہے، اور یہ اختلاف لفظ "صعید" کے معنی میں اختلاف کی وجہ سے ہے۔[9] شیعہ فقہاء کا ماننا ہے کہ لفظ "صعید" ہر اس چیز پر اطلاق ہوتا ہے جسے زمین کہا جا سکتا ہے، جیسے پتھر، مٹی کا ڈھیلا اور کنکریاں وغیرہ۔[10] جبکہ بعض لغت دانوں جیسے جوہری نے اس سے مراد صرف مٹی یا خاک ہی لیا ہے۔[11]
«صَعِیدًا طَیبًا» کی عبارت میں لفظ "صعید" کے ساتھ "طَیِب" کے ذکر پر علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد ایسی زمین ہے جو اپنی فطری حالت پر باقی ہو، یعنی چونا، گچ یا اسی طرح کی دوسری چیزوں میں تبدیل نہ ہوا ہو جو حرارت یا پکانے کی وجہ سے اپنی اصلی حالت کھو چکی ہو۔[12] بعض لفظ "طیب" کا مطلب "پاکیزہ" قرار دیتے ہیں اس بنا پر ان کے نزدیک جس چیز پر تیمم کی جا رہی ہو، اس کا نجس نہ ہونا شرط ہے۔[13]
تیمم کا مطلب
کچھ افراد نے آیت میں لفظ "تیمم" کو اس کے لغوی معنی یعنی "نیت" پر حمل کیا ہے۔[14] جبکہ بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ لفظ اس آیت میں اس کے شرعی معنی پر دلالت کرتا ہے[15] اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہاتھوں کو مٹی پر مارا جائے پھر انہی ہاتھوں سے چہرہ اور ہاتھوں کی پشت پر مسح کیا جائے۔[16]
تیمم کا طریقہ
مسلمان فقہاء نے «فَامْسَحُوا بِوُجُوہِکمْ وَأَیدِیکم؛ اپنے چہروں اور ہاتھوں کو [مٹی سے] مسح کرو» کی رو سے تیمم کرنے کے طریقہ اور اس کی مقدار پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔[17] اکثر امامیہ فقہاء کا موقف ہے کہ«بِوُجُوہِکمْ» میں حرف «باء» کا مطلب «بعض اور کچھ» ہے، یعنی تیمم میں چہرے کے کسی ایک حصے کو مسح کرنا کافی ہے۔[18] وہ رسول خداؐ اور ائمہ معصومینؑ کی سنت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ حصہ پیشانی ہونا چاہیے، اور پیشانی کو دونوں ہاتھوں سے ابرووں اور ناک کے اوپر تک مسح کرنا واجب ہے۔[19] امامیہ کے نزدیک پیشانی کے مسح کے بعد، ہاتھوں کی پشت پر کلائی سے انگلیوں کے سرے تک دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی کے ذریعے مسح کرنا واجب ہے۔[20]
محمد جواد مغنیہ کے مطابق اہل سنت کے چار مذاہب اور فقہائے امامیہ میں سے شیخ صدوق کا کہنا ہے کہ آیت میں چہرہ کا مطلب پورا چہرہ ہے، نہ کہ صرف ایک حصہ، اس لیے تیمم میں پورے چہرے کو، حتیٰ کہ داڑھی کو بھی مسح کرنا ضروری ہے۔[21] شافعیہ اور حنفیہ کا ماننا ہے کہ آیت میں «ہاتھ» سے مراد انگلیوں کے سرے سے لے کر کہنی تک کا حصہ ہے، یعنی وہی حصہ جو وضو میں دھونا واجب ہے، اس لیے تیمم میں بھی اسی حد تک مسح کرنا ضروری ہے۔[22] مالکیہ اور حنبلیہ کہتے ہیں کہ ہاتھ کا مسح انگلیوں کے سرے سے کلائی تک واجب اور کہنی تک مسح کرنا مستحب ہے۔[23]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ فاضل مقداد، کنز العرفان فی فقہ القرآن، 1373ش، ج1، ص27؛ ایروانی، دروس تمہیدیۃ فی تفسیر آیات الأحکام، 1428ھ، ج1، ص76۔
- ↑ فاضل جواد، مسالک الافہام الی آیات الاحکام، 1365ش، ج1، ص66-67؛ بحرانی، حدائق الناضرۃ، 1363ش، ج4، ص243-244۔
- ↑ سیوطی، الدر المنثور، دار الفکر، ج3، ص26۔
- ↑ فاضل مقداد، کنز العرفان، 1373ش، ج1، ص26۔
- ↑ محقق اردبیلی، زبدۃ البیان، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، ص19؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج11، ص310؛ طباطبایی، المیزان، 1363ش، ج5، ص226۔
- ↑ فاضل مقداد، کنز العرفان، 1373ش، ج1، ص25؛ فاضل جواد، مسالک الافہام الی آیات الاحکام، 1365ش، ج1، ص63۔
- ↑ فاضل مقداد، کنز العرفان، 1373ش، ج1، ص25؛ رشیدرضا، تفسیر المنار، 1990م، ج5، ص97۔
- ↑ آلوسی، تفسیر روح المعانی، 1415ھ، ج3، ص41؛ فاضل مقداد، کنز العرفان، 1373ش، ج1، ص25۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج5، ص120۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج5، ص118؛ سبزواری، مہذب الاحکام، دار التفسیر، ج4، ص377۔
- ↑ جوہری، صحاح اللغۃ، 1407ھ، ذیل واژہ «صعید»۔
- ↑ طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1417ھ، ج5، ص229۔
- ↑ محقق اردبیلی، زبدۃ البیان، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، ص19؛ فاضل جواد، مسالک الافہام الی آیات الاحکام، 1365ش، ج1، ص66۔
- ↑ ملاحظہ کریں: محقق اردبیلی، زبدۃ البیان، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، ص19؛ رشیدرضا، تفسیر المنار، 1990م، ج5، ص100۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج3، ص91؛ بحرانی، الحدائق الناضرہ، 1363ش، ج4، ص244۔
- ↑ عاملی، مدارک الاحکام، 1429ھ، ج2، ص175۔
- ↑ محقق اردبیلی، زبدۃ البیان، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، ص19؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج11، ص313۔
- ↑ فاضل مقداد، کنز العرفان، 1373ش، ج1، ص27؛ فاضل جواد، مسالک الافہام الی آیات الاحکام، 1365ش، ج1، ص66۔
- ↑ فاضل مقداد، کنز العرفان، 1373ش، ج1، ص27۔
- ↑ فاضل مقداد، کنز العرفان، 1373ش، ج1، ص27؛ مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ص71۔
- ↑ مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ص70۔
- ↑ مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ص70۔
- ↑ جزیری، الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، 1419ھ، ج1، ص248؛ مغنیہ، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، 1421ھ، ص70۔
مآخذ
- آلوسی، محمود بن عبداللہ، تفسیر روح المعانی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 1415ھ۔
- ایروانی، محمدباقر، دروس تمہیدیۃ فی تفسیر آیات الأحکام، قم، دار الفقہ للطباعۃ و النشر، چاپ سوم، 1428ھ۔
- بحرانی، یوسف، حدائق الناضرۃ، قم، مؤسسۃ الفکر الاسلامی، 1363ہجری شمسی۔
- جوہری، ابونصر اسماعیل بن حماد، الصحاح تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ، بیروت، دار العلم للملایین، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- رشید رضا، محمد، تفسیر المنار، مصر، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، 1990ء۔
- سبزواری، سید عبدالاعلی، مہذب الاحکام، قم، دار التفسیر، بیتا۔
- سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور، بیروت، دار الفکر، بیتا۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی التفسیر القرآن، قم، انتشارات اسماعیلیان، 1363ہجری شمسی۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1415ھ۔
- فاضل جواد، جواد بن سعید، مسالک الافہام الی آیات الاحکام، تہران، انتشارات مرتضوی، 1365ہجری شمسی۔
- فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، کنز العرفان فی فقہ القرآن، تہران، انتشارات مرتضوی، 1373ہجری شمسی۔
- فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1420ھ۔
- محقق اردبیلی، احمد بن محمد، زبدۃ البیان فی احکام القرآن، تہران، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، بیتا.
- مغنیۃ، محمدجواد، الفقہ علی المذاہب الخمسۃ، بیروت، دار التیار الجدید، 1421ھ۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی 1362ہجری شمسی۔