والدین کے حقوق
والدین کے حقوق، ان حقوق کو کہا جاتا ہے جو والدین کی نسبت اولاد پر واجب ہیں۔ ان حقوق کی رعایت کرنا خدا کے اہم احکامات میں سے ہیں اور حقوق اللہ کے بعد اولاد پر سب سے زیادہ حق ان کے والدین کا ہوتا ہے۔
دینی متون میں والدین کے ساتھ نیکی سے پیش آنا، ان کا احترام اور ان کی اطاعت کرنا نیز ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا من جملہ والدین کے حقوق میں شمار کئے گئے ہیں جن کی رعایت کرنا اولاد پر فرض ہے۔ قرآن میں نہ صرف والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور ان کے ساتھ بدسلوکی اور سختی سے پیش آنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ والدین کے سامنے تواضع اور فروتنی کا اظہار کرنے نیز ان کی وفات کے بعد ان کے حق میں دعا اور استغفار کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ چودہ معصومینؑ کی احادیث میں والدین کے ساتھ نیکی سے پیش آنے کو خدا کے نزدیک پسندیدہ اعمال اور شیعوں کی خصوصیات میں شمار کیا گیا ہے۔
شیعہ فقہاء کے مطابق جن موارد میں والدین کی نافرمانی ان کی ناراحتی اور اذیت کا سبب ہو وہاں اولاد پر ان کی اطاعت کو واجب ہے مگر یہ کہ والدین اولاد کو خدا کی معصیت انجام دینے کا حکم دے۔ اسی طرح فقہاء کے مطابق صاحب استطاعت اولاد پر نیازمند والدین کا نفقہ بھی واجب ہے۔
حقوق والدین کی اہمیت
وَاعْبُدُوا اللَّـہَ وَلَا تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا
(ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو۔)
سورۂ نساء، آیۂ 36، ترجمۂ محمد حسین نجفی
والدین کے حقوق کی رعایت کرنا خدا کے اہم احکامات میں سے ہے[1] اور اولاد پر حقوق اللہ کے بعد سب سے زیادہ حق ان کے والدین کا ہی ہوتا ہے۔[2] والدین پر احسان اور ان کے ساتھ نیکی سے پیش آنا من جملہ والدین کے حقوق میں شمار کیا گیا ہے،[3] اور قرآن میں مختلف مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک اختیار کرنے کی تأکید کی گئی ہے۔[4] قرآن و سنت میں مکررا والدین کے حقوق کی رعایت کرنے کی تاکید اور وہ بھی خدا کی عبادت و بندگی نیز کفر و شرک سے اجنتاب کرنے کے حکم کے فورا بعد[5] والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم دینا اخلاقی اور شرعی حوالے سے اس مسئلے کی اہمیت پر واضح دلیل ہے۔[6]
شیعہ اور اہل سنت حدیثی منابع میں جہاں والدین کے مقام و مرتبے کی اہمیت پر تاکید کرتے ہوئے اس موضوع پر مستقلا بحث کی گئی ہے[7] وہاں والدین کے حقوق کی رعایت نہ کرنا اور ان کی نافرمانی کرنے کو حرام اور گناہان کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔[8]بعض دوسرے ادیان جیسے عہد عتیق وغیرہ میں بھی والدین کے احترام کا حکم دیا گیا ہے۔[9]
والدین کے حقوق
دینی متون میں والدین کے ساتھ نیکی سے پیش آنا، ان کا احترام کرنا[10]، ان کی اطاعت کرنا[11] اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا[12] من جملہ اولاد پر والدین کے حقوق میں شمار کیا گیا ہے۔
رسول خداؐ سے کسی نے پوچھا: اولاد پر والد کے کیا حقوق ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ان کا نام لے کر نہ پکارا جائے، ان کے آگے آگے راستہ نہ چلے، ان سے پہلے نہ بیٹھیں اور کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے لوگ اس کے والد کو گالیاں دیں۔
کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص158۔
احسان اور احترام
والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کا احترام کرنا اولاد پر والدین کے حقوق میں سے ہیں۔[13] شیخ حُر عاملی نے کتاب وسائل کے ایک حصے کو حقوق والدین کے ساتھ مختص کرتے ہوئے اس سلسلے میں وارد ہونے والی احادیث کو نقل کیا ہے۔[14]
چودہ معصومینؑ کی احادیث کے مطابق ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا خدا کے نزدیک سب سے پسندیده اعمال[15] اور شیعوں کی خصوصیات میں سے ہیں۔[16] اسی طرح خدا کی خشنودی اور ناراضگی والدین کی خشنودی اور ناراضگی پر موقوف ہے۔[17] والدین کے ساتھ نیک سلوک روا رکھنے میں کسی قسم کا بہانہ قابل قبول نہیں ہے۔[18]
پیغمبر اکرمؐ کی سیرت میں بھی ملتا ہے کہ آپ اپنی رضاعی ماں کا بہت احترام کرتے تھے[19] اور جو لوگ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرتے آپ ان کا بھی احترام کرتے تھے۔[20] اس بنا پر مسلمانوں کو والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور والدین کی دیکھ بھال میں سختیوں اور تکلیفوں کو برداشت کرنے کا حکم دیا گیا ہے؛[21] اگرچہ والدین مشرک [22] یا برے ہی کیوں نہ ہوں۔[23]
احسان کے مصادیق
سورہ اِسراء کی 23ویں اور 24ویں آیت میں والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دینے کے بعد اس کے بعض مصادیق کو بھی بیان کیا گیا ہے؛ اس سلسلے میں «اُف» کہنے کو سختی سے پیش آنے کی سب سے چھوٹی مثال قرار دیتے ہوئے اس سے ممانعت کی گئی ہے۔[24] اسی طرح بوڑھے والدین کے ساتھ نہ صرف بدسلوکی کرنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ ان کے سامنے تواضع اور فروتنی سے پیش آنے نیز اولاد کی دیکھ بھال اور تربیت کے حوالے سے برداشت کئے گئے تکلیفوں اور سختیوں کے بدلے میں ان کی زندگی اور وفات کے بعد ان کے حق میں دعا اور استغفار کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔[25]
احادیث میں بھی حقوق والدین کے کچھ مصادیق ذکر کئے گئے ہیں؛ من جملہ یہ کہ والدین کو ان کا نام لے کر نہ پکارا جائے، ان سے آگے آگے راستہ نہ چلیں، ان سے پہلے اور ان کی طرف پشت کر کے نہ بیٹھیں۔[26] اسی طرح اگر والدین اپنی اولاد کو بلائیں تو جلدی سے ان کی خدمت میں پہنچ جائیں، حتی اگر نماز کی حالت میں بھی کیوں نہ ہوں[27] اور اگر والدین کے رفتار و گفتار ان کی مرضی کے برخلاف ہو تو بھی ان کے سامنے چہرہ بگاڑنے یا ان کو برا بھلا کہنے سے پرہیز کریں۔[28] والدین کی رازداری کا تحفظ[29] اور ان کا شکریہ ادا کرنا[30] بھی من جملہ والدین پر احسان کے مصادیق میں شمار کئے جاتے ہیں۔
وَقَضَیٰ رَبُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلَاہُمَا فَلَا تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیمًا وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا
(ترجمہ: اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے تک پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو۔ اور ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور ان کے سامنے مہر و مہربانی کے ساتھ انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور کہو اے پروردگار تو ان دونوں پر اسی طرح رحم و کرم فرما جس طرح انہوں نے میرے بچپنے میں مجھے پالا( اور میری پرورش کی)۔)
سورۂ اسراء، آیۂ 23-24، ترجمۂ محمد حسین نجفی
اطاعت اور نفقہ
والدین کی اطاعت کرنا اولاد کے ذمے والدین حقوق میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے،[31] مگر یہ کہ والدین اولاد کو شرک یا گناہ کی انجام دہی کا حکم دے۔ (ان صورتوں میں والدین کی اطاعت واجب نہیں ہے)[32]چودہ معصومینؑ کی احادیث میں والدین کی فرمان برداری کو اولاد کے ایمان[33] اور عقل مندی[34] کی نشانی قرار دی گئی ہے۔
شیعہ فقیہ میرزائے قمی کے مطابق والدین کی اطاعت کا واجب ہونا چہ بسا شیعہ فقہاء کا اجماعی فتوا ہے۔[35] ان کے مطابق والدین راضی نہ ہو تو مباح امور کی انجام دہی بھی اولاد کے لئے جائز نہیں ہے مگر یہ کہ اس کام کا انجام نہ دینا اولاد کے نقصان میں ہو۔[36]
بعض فقہاء جیسے صاحب جواہر، سید محسن حکیم اور ناصر مکارم شیرازی اس بات کے معتقد ہیں کہ اولاد پر والدین کی اطاعت کا واجب ہونا ان موارد میں ہے جہاں پر اولاد کی نافرمانی والدین کے لئے اذیت کا سبب ہو۔[37]
والدین کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کی مالی ضرورتوں کو پورا کیا جائے۔[38] فقہاء کے مطابق اگر والدین محتاج ہوں تو اولاد پر استطاعت کی صورت میں والدین کا نفقہ اور اخراجات واجب ہیں۔[39]
اسی طرح قرآن کی بعض آیات[40] میں اولاد کے لئے سفارش کی گئی ہے کہ وہ اپنی مالی وصیتوں میں والدین کے لئے بھی حصہ قرار دے اور اپنے اموال میں سے والدین پر انفاق کیا جائے۔[41]
والدین کے مرنے کے بعد ان کے حقوق
دینی متون میں اولاد کو والدین کے مرنے کے بعد بھی ان کے اوپر احسان کرنے کی سفارش کی گئی ہے؛[42] اس سلسلے میں والدین کے نام قرآن کی تلاوت کرنے، ان کے حق میں طلب مغفرت کرنے، ان کے نام صدقہ دینے، ان کے قرضوں کو ادا کرنے، ان کے دوستوں کا احترام کرنے، ان کے قریبی افراد کے ساتھ صلۂ رحمی کرنے[43] اور ان کی طرف سے نماز، روزہ اور حج وغیرہ انجام دینے کے ذریعے والدین کے مرنے کے بعد بھی ان کے حق میں احسان اور نیکی انجام دی جا سکتی ہے۔[44]
فقہی کتابوں میں والد کے نماز اور روزوں کی قضا بجا لانا سب سے بڑے بیٹے پر واجب قرار دیا گیا ہے۔[45]بعض مراجع تقلید جیسے آیت اللہ خامنہای، مکارم شیرازی اور نوری ہمدانی ماں کو بھی اس حکم میں شامل سمجھتے ہیں۔[46] صحیفۂ سجادیہ میں دعا کے ضمن میں والدین کی بنسبت اولاد کی بعض ذمہ داریوں اور وظائف کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔[47]
حقوق والدین کی رعایت پر تأکید کا فلسفہ
علامہ طباطبائی قرآن میں والدین پر احسان کرنے کی تأکید کا فلسفہ یوں بیان کرتے ہیں کہ والدین اور اولاد کے درمیان عاطفی رابطہ نسل نو اور نسل گذشتہ نیز خاندان کے افراد کے درمیان مستحکم رابطے کا سبب بنتا ہے۔ اہم سماجی اکائی کے عنوان سے خاندان کے افراد میں مضبوط رابطہ انسانی معاشرتی اور سماجی رابطوں کے استحکام کا موجب بنتا ہے۔[48]
شیعہ عالم دین ابن مسکویہ (320-420ھ) اس سوال کے جواب میں کہ کیوں دینی تعلیمات میں والدین کے ساتھ احسان کرنے اور ان کے حقوق کی رعایت کرنے کی تاکید ہوئی ہے جبکہ والدین پر اولاد کے حقوق کی رعایت کرنے کے حوالے سے ایسی تاکید دیکھنے کو نہیں ملتی؟ کہتے ہیں کہ والدین اپنی اولاد کو اپنے سے جدا تصور نہیں کرتے اس بنا پر والدین جس طرح اپنے آپ سے محبت کرتے ہیں اپنی اولاد سے بھی محبت رکھتے ہیں اور ان کی ترقی کو گویا اپنی ترقی شمار کرتے ہیں، لیکن اولاد والدین کی نسبت ایسا تصور نہیں رکھتے ہیں۔[49]
پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور کہا: کوئی ایسا برا کام اس دنیا میں نہیں ہے جسے میں نے انجام نہ دیا ہو، آیا میرے لئے توبہ اور واپسی کا کوئی راستہ ہے؟ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا آیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہیں؟ اس شخص نے کہا ہاں میرے والد زندہ ہیں، پیغمیر اکرمؐ نے فرمایا جاؤ جا کر اپنے والد کے ساتھ نیکی کرو۔ جب وہ شخص آپؐ کے پاس سے رخصت ہوا تو آپؐ نے فرمایا اے کاش اس کی والدہ زندہ ہوتی۔
کوفی اہوازی، الزہد، 1399ق، ص35۔
والدہ کے حقوق پر خصوصی توجہ
احادیث میں والدہ کے حقوق پر خصوصی توجہ اور تاکید کی گئی ہے[50] اور والدین کے حقوق میں زیادہ حصہ والدہ کے ساتھ مختص کیا گیا ہے؛[51] یہاں تک کہ والدہ کے حقوق کی ادائیگی کو غیر ممکن قرار دیا گیا ہے۔[52] پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں والدہ کے حقوق کی رعایت کرنے کو گذشتہ گناہوں کا کفارہ قرار دیا گیا ہے۔[53]
سورہ احقاف کی آیت نمبر 15 میں والدین کے ساتھ احسان کرنے کی سفارش اور اس کا فلسفہ بیان کرنے کے بعد صرف والدہ کی زحمات اور تکلیفوں کو یاد کیا گیا ہے۔ مسلمان علماء اور دانشوروں کے مطابق یہ چیز والدہ کے حقوق کی ادائیگی پر زیادہ تاکید اور سفارش شمار ہوتی ہے۔[54] امام سجادؑ رسالۃ الحقوق میں حمل اور بچپنے کے دوران والدہ کی جانب سے برداشت کی جانے والی زحمات اور سختیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اولاد کو بطور خاص والدہ کی ان زحمتوں کی قدردانی کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔[55]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ سپاہ پاسداران، معارف قرآن، 1378ش، ج2، ص78۔
- ↑ رشید رضا، تفسیر المنار، 1414ق، ج8، ص186؛ فضل اللہ، من وحی القرآن، 1419ق، ج7، ص259۔
- ↑ ابوالسعود، تفسیر ابیالسعود، 1983م، ج3، ص198۔
- ↑ ملاحظہ کریں: سورۂ عنکبوت، آیۂ 8؛ سورۂ اَحقاف، آیۂ 15۔
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ 83؛ سورہ نساء، آیہ 36؛ سورہ اَنعام، آیہ 151؛ سورہ اِسراء، آیہ 23۔
- ↑ شاہعبدالعظیمی، تفسیر اثنی عشری، 1363ش، ج7، ص355۔
- ↑ نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص157؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج71، ص22؛ بخاری، صحیح بخاری، 1422ق، ج8، ص2؛ مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج8، ص1۔
- ↑ ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص278؛ بخاری، صحیح بخاری، 1422ھ، ج8، ص4۔
- ↑ ملاحظہ کریں: کتاب مقدس، سفر لاویان، فصل 19، آیہ 3؛ سفر خروج، فصل 20، آیہ 12؛ سفر تثنیہ، فصل 5، آیہ 16۔
- ↑ ابوالسعود، تفسیر ابیالسعود، 1983م، ج3، ص198۔
- ↑ عباسنژاد، روانشناسی و علوم تربیتی، 1384ش، ص81۔
- ↑ عباسنژاد، روانشناسی و علوم تربیتی، 1384ش، ص81۔
- ↑ ابوالسعود، تفسیر ابیالسعود، 1983م، ج3، ص198؛ عباسنژاد، روانشناسی و علوم تربیتی، 1384ش، ص81۔
- ↑ شیخ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1409ق، ج21، ص505۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص158، بخاری، صحیح بخاری، 1422ق، ج8، ص2۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص74۔
- ↑ ترمذی، سنن الترمذی، 1403ق، ج3، ص 207؛ کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص428۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص162۔
- ↑ ابوداوود، سنن ابوداوود، 1410ق، ج2، ص507-508۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص161۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص162؛ شیخ صدوق، مَن لا یَحضُرُہ الفقیہ، 1413ق، ج4، ص407 و 408۔
- ↑ بخاری، صحیح بخاری، 1422ق، ج8، ص4۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص162۔
- ↑ فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ق، ج20، ص324۔
- ↑ سورہ اسراء، آیہ 23ـ24۔
- ↑ ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص158-159؛ شیخ صدوق، مَن لا یَحضُرُہ الفقیہ، 1413ق، ج4، ص372؛ بخاری، الادب المفرد، 1409ق، ص30۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج71، ص37۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص 349؛ شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث، ج6، ص467۔
- ↑ رجوع کنید بہ کلینی، الکافی، 1407ق، ج6، ص503؛ شیخ صدوق، مَن لا یَحضُرُہ الفقیہ، 1413ق، ج4، ص372۔
- ↑ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ق، ج1، ص 258۔
- ↑ عباسنژاد، روانشناسی و علوم تربیتی، 1384ش، ص81۔
- ↑ سورہ عنکبوت، آیہ 8؛ سورہ لقمان، آیہ 13-14؛ عباسنژاد، روانشناسی و علوم تربیتی، 1384ش، ص81۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص158۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص22۔
- ↑ میرزای قمّی، جامع الشتات، 1413ق، ج1، ص240۔
- ↑ میرزای قمّی، جامع الشتات، 1413ق، ج1، ص240۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1404ق، ج21، ص23؛ حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، 1416ق، ج7، ص169؛ مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ق، ج1، ص494۔
- ↑ عباسنژاد، روانشناسی و علوم تربیتی، 1384ش، ص81۔
- ↑ نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: امام خمینی، نجاۃ العباد، 1422ق، ص382؛ صافی گلپایگانی، جامع الاحکام، 1417ق، ج2، ص104۔
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ 180 و 215۔
- ↑ شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث، ج2، ص108۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص 159 و 163۔
- ↑ رجوع کنید بہ کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص159 و 163؛ طبرسی، مجمع البیان، 1382ش، ج6، ص632۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص 159، حدیث 7۔
- ↑ محقق حلّی، شرائع الإسلام، 1408ق، ج4، ص19۔
- ↑ ملاحظہ کریں: بنیہاشمی، توضیحالمسائل مراجع، 1424ق، ج1، ص761 و 162؛ خامنہای، اجوبۃ الاستفتائات، 1424ق، ص110۔
- ↑ امام سجاد(ع)، صحیفۃ سجادیہ، 1376ش، ص116-118۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1417ق، ج7، ص374 و ج13، ص80۔
- ↑ مسکویہ، تہذیب الأخلاق، 1426ق، ص233۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص159ـ160۔
- ↑ حاکم نیشابوری، دارالمعرفۃ، ج4، ص150۔
- ↑ ابنأبیجمہور، عوالی اللئالی، 1405ق، ج1، ص269۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج2، ص162۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1373ش، ج17، ص40؛ ابنمفلح، الآداب الشرعیۃ و المنح المرعیۃ، 1424ق، ج1، ص338۔
- ↑ شیخ صدوق، مَن لا یَحضُرُہ الفقیہ، 1413ق، ج2، ص621۔
مآخذ
- قرآن کریم، اردو ترجمہ محمد حسین نجفی۔
- کتاب مقدس۔
- ابوالسعود، محمد بن محمد، تفسیر ابیالسعود، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ اول، 1983ء۔
- ابوداوود، سلیمان بن اشعث، سنن ابوداوود، چاپ سعید محمد لحام، بیروت، 1410ھ۔
- ابنأبیجمہور، محمد بن زین الدین، عوالی اللئالی العزیزیۃ فی الأحادیث الدینیۃ، محقق و مصحح: مجتبی عراقی، قم، دار سید الشہداء للنشر، چاپ اول، 1405ھ۔
- ابنشعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسول(ص)، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1404ھ۔
- امام خمینی، روحاللہ، نجاۃ العباد، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(قدس سرہ)، تہران، چاپ اول، 1422ھ۔
- امام سجاد(ع)، علی بن الحسین، صحیفۃ سجادیہ، قم، دفتر نشر الہادی چاپ اول، 1376ہجری شمسی۔
- بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، محقق: محمد زہیر، دمشق، دار طوق النجاۃ، چاپ اول، 1422ھ۔
- بخاری، محمدبن اسماعیل، الادب المفرد، المحقق: محمد فؤاد عبد الباقی، بیروت، دار البشائر الإسلامیہ، چاپ سوم، 1409ھ۔
- بنیہاشمی خمینی، سید محمدحسین، توضیحالمسائل مراجع، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ ہشتم، 1424ھ۔
- ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، بیروت، چاپ عبدالوہاب عبداللطیف، 1403ھ۔
- حاکم نیشابوری، محمدبن عبداللّہ، المستدرک علی الصحیحین، بیروت، دارالمعرفۃ، بیتا۔
- حکیم، سید محسن، مستمسک العروۃ الوثقی، مؤسسۃ دار التفسیر، قم، چاپ اول، 1416ھ۔
- خامنہای، سید علی، اجوبۃ الاستفتائات، قم، دفتر معظم لہ، چاپ اول، 1424ھ۔
- رشید رضا، محمد، تفسیر المنار، لبنان، دار المعرفۃ، چاپ اول، 1414ھ۔
- سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، معارف قرآن، تہران، پژوہشکدہ تحقیقات اسلامی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، چاپ چہارم، 1378ہجری شمسی۔
- شاہعبدالعظیمی، حسین، تفسیر اثنی عشری، تہران، میقات، چاپ اول، 1363ہجری شمسی۔
- شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع) چاپ اول، 1409ھ۔
- شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، محقق و مصحح: لاجوردی، مہدی، تہران، نشر جہان، چاپ اول، 1378ھ۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، من لا یحضرہ الفقیہ، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق: احمد قصیرعاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا۔
- صافی گلپایگانی، لطفاللہ، جامع الاحکام، انتشارات حضرت معصومہ(س)، قم، چاپ چہارم، 1417ھ۔
- طباطبائی، محمدحسین طباطبائی، المیزان فی تفسیرالقرآن، بیروت 1390ـ1394/ 1971ـ1974۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، با مقدمۂ محمد جواد بلاغی، ، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1382ہجری شمسی۔
- عباسنژاد، محسن، قرآن، روانشناسی و علوم تربیتی، مشہد، بنیاد پژوہشہای قرآنی حوزہ و دانشگاہ، چاپ اول، 1384ہجری شمسی۔
- فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر)، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
- فضل اللہ، محمدحسین، من وحی القرآن، بیروت، دار الملاک، چاپ اول، 1419ھ۔
- کلینی، محمدبن یعقوب، الکافی، تحقیق: علیاکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، 1401ھ۔
- کوفی اہوازی، حسین بن سعید، الزہد، تحقیق غلامرضا عرفانیان، قم، المطبعۃ العلمیۃ، 1399ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
- محقق حلّی، نجم الدین، شرائع الإسلام فی مسائل الحلال و الحرام، محقق و مصحح: بقال، عبد الحسین محمد علی، مؤسسہ اسماعیلیان، قم، چاپ دوم، 1408ھ۔
- مسکویہ، احمد بن محمد، تہذیب الأخلاق و تطہیر الأعراق، بی جا، طلیعۃ النور، چاپ اول، 1426ھ۔
- مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، بیروت، دارالفکر، بیتا۔
- مکارم شیرازی، ناصر، استفتائات جدید، محقق و مصحح: علیاننژادی، ابوالقاسم، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی طالب(ع)، چاپ دوم، 1427ھ۔
- میرزای قمّی، ابوالقاسم، جامع الشتات فی أجوبۃ السؤالات، محقق و مصحح: مرتضی رضوی، تہران، مؤسسہ کیہان، چاپ اول، 1413ھ۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، محقق و مصحح: قوچانی، عباس، آخوندی، علی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔