تواضع

ویکی شیعہ سے
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

تواضع، انکساری کے معنی میں ایک اخلاقی صفت ہے جس کے بارے میں قرآن، حدیث اور اخلاقی و عرفانی کتابوں میں بہت تاکید ہوئی ہے۔ اس لفظ کو اسلامی اخلاق میں بڑا مقام حاصل ہے اور اس کو محض ایک اچھی صفت سے بالاتر قرار دیا ہے۔ دینی کتابیں تواضع کے نمونوں سے بھری پڑی ہیں اور بہت ساری شخصیات اس صفت کی وجہ سے مشہور ہوئے ہیں۔

جس طرح سے والدین، مومنین، استاد اور شاگرد کے سامنے تواضع کرنے کی تاکید ہوئی ہے اسی طرح بعض دوسرے افراد جیسے متکبر اور کافر کے سامنے تواضع کرنے سے منع بھی ہوئی ہے۔ اسی طرح فقیر کا امیر کے سامنے اس کی ثروت کو دیکھ کر تواضع کرنے کو ناپسند قرار دیا ہے۔

إِنَّ فِى السَّماءِ مَلَکَینِ مُوَکَّلَینِ بِالعِبادِ، فَمَن تَواضَعَ لِلّهِ رَفَعاهُ وَمَن تَکَبَّرَ وَضَعاهُ (ترجمہ: آسمان پر دو فرشتے انسان کے لیے موکل ہیں، اور جو بھی انسان اللہ کے لیے تواضع کرے گا اس کو اوپر لے جاینگے اور جو بھی تکبر کرے گا اس کو خوار و ذلیل کرینگے۔)

مآخذ، کافى، ج۲، ص۱۲۲۔

عربی لغت اور اصطلاح

تواضع عربی زبان میں انکساری اور اپنے آپ کو خوار و ذلیل کرنے کے معنی میں آیا ہے۔[1] قرآن کریم میں تواضع کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے لیکن دوسرے بعض الفاظ ہیں جو اسی معنی میں آئے ہیں؛ جیسے خشوع، [2] خشیت، [3] إخبات، [4] ذلّت [5] و اخفض جناح. [6]

لسانیات کے بعض ماہرین ان الفاظ کے درمیان ظریف فرق کے قائل ہوئے ہیں، مثال کے طور پر تواضع توانائی اور طاقت کے ہمراہ ہے، «تذلّل» دوسروں کے سامنے ناتوانی کی حکایت کرتا ہے، جیسا کہ اپنے نوکروں کے سامنے تواضع ناتوانی کی وجہ سے نہیں ہے۔ اسی طرح کہا گیا ہے تواضع انسان کے اخلاق اور ظاہری افعال سے مربوط ہے جبکہ «خشوع»انسان کے جوارح اور باطن سے مربوط ہے اور یہ بات مشہور ہے کہ «إذَا تَوَاضَعَ القَلْبُ خَشَعَتِ الْجَوَارِحُ»، یعنی جب دل تواضع کرنے لگے تو جوارح پر خشیت طاری ہوتی ہے۔ یہ جملہ اسی بات پر دلالت کرتا ہے۔[7] یا تواضع زبان اور کردار کے ساتھ ہے جبکہ «خشوع» دل اور آنکھ سے۔[8]اس لفظ کا معنی تمام اخلاقی سیسٹم میں تقریبا یکسان ہے اور کسی تعریف کا محتاج نہیں ہے، اگرچہ بعض اسلامی کتابوں میں اس کے لئے مختلف تعریفیں بھی کی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے: «تواضع، یعنی اس مقام پر راضی ہونا جس سے اوپر کا آپ مستحق ہیں۔». [9]بعض تعریفیں جو تواضع کے لئے ذکر ہوئی ہیں وہ تکبر کے مقابلے میں بیان ہوئی ہیں۔[10]

مسلمانوں کا دینی اخلاق اور تواضع

أَشرَفُ الخَلائِقِ التَّواضُعُ وَالحِلمُ وَلینُ الجانِبِ۔ (ترجمہ: سب سے اچھا اخلاق، تواضع، حلم اور نرمی سے برتاو کرناہے۔)

امام علیؑ، غررالحکم، ج۲، ص۴۴۲

مسلمانوں کے دینی اخلاق میں تواضع کو بڑا مقام حاصل ہے اور اس کو صرف ایک اچھی صفت سے بالاتر قرار دیا ہے۔ قرآن میں تواضع کی اہمیت اور قرآن کی صریح آیات میں اس کو تکبر اور جاہلیت کی فخر فروشی کے مقابلے میں قرار دینے سے ہی اس کے معنی کو سمجھا جاسکتا ہے۔ جاہلیت کے دور میں تواضع اور انکساری شریف لوگوں کی صفات میں شمار نہیں ہوتی تھی یہاں تک کہ بعض تو بت پرستی کو بھی اسی حد تک مناسب سمجھتے تھے جو ان کے غرور کے ضد میں نہ ہو۔[11] اس کے مقابلے میں جو کچھ قرآنی تعلیمات سے ہمیں ملتا ہے وہ اللہ کے سامنے ہر قسم کے تکبر کی نفی اور اس کے بعد انسانوں کے ساتھ بھی تکبر سے اجتناب کرنا ہے۔ اسی کے پیش نظر قرآن مجید میں تکبر کو بے ایمان اقوام کی صفت قرار دیا ہے۔[12]اس سے یہ نتیجہ ملتا ہے کہ تواضع، جو کہ تکبر کا متضاد ہے اس کا ایمان سے بڑا گہرا رابطہ ہے اور ایمان کے اصلی عوامل میں سے ایک ہے۔[13] یہ نکتہ لفظ «اسلام» میں واضح ہے جس کا معنی ہی تواضع کے ساتھ اللہ تعالی کے حضور تسلیم ہونا ہے۔[14]

قرآن اور تواضع

سورہ احزاب کی آیت نمبر 35 میں - بعض مفسروں نے خشوع[15]‌‌ کو جو تواضع سے معنی کیا ہے -مومنین کی صفات میں سے شمار ہوئی ہے۔ اسی طرح سورہ فرقان کی آیت نمبر 63، میں جب «عبادالرحمن»، کی صفات بیان ہوئی ہیں کہ وہ زمین پر آہستہ قدم رکھتے ہیں۔اس صفت کو بعض مفسروں نے دوسرے انسانوں کے مقابلے میں تواضع کرنے سے تفسیر کیا ہے۔[16]تواضع اور ایمان کے باہمی رابطے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل تواضع تو اللہ تعالی کی عظمت کے سامنے انکساری اور عاجزی دکھانا ہے اور انسانوں کے سامنے تواضع بھی اسی کا ایک کرشمہ ہے۔[17]

پیامبر اسلامؐ جو کہ سب کے لئے نمونہ ہیں[18] ان کو بھی قرآن مجید میں مومنین کے سامنے خَفْضِ جناح کا حکم ہوا ہے۔ [19] اور اسی سے تواضع کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

روایات اور تواضع

ثَلاثٌ تـُورِثُ المَحَبَّه:
الـدَیـنُ
وَ التَّـواضُعُ
وَ البَذلُ۔
 (ترجمہ: تین چیزیں محبت بڑھاتی ہیں: قرض دینا، تواضع اور خرچ کرنا)

مآخذ، تحف العقول، ص ۳۱۶

پیغمبر اکرمؐ کی سیرت میں تواضع کے بارے میں بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں ان میں ایک میں یوں بیان ہوا ہے کہ آنحضرتؐ کو بچپنے سے ہی تواضع پسند تھی اور اللہ کے حضور تواضع کرتے ہوئے کبھی بھی کسی جگہ ٹیک لگا کر نہیں بیٹھتے تھے اور غلاموں کی طرح کا کھانا کھاتے تھے۔[20]شیعہ ائمہ معصومینؑ کی تواضع کے بارے میں بھی بہت ساری گزارشات ملتی ہیں۔ دوسرے پیغمبروںؑ کی اس خصوصیت کے بارے میں بھی اشارہ ہوا ہے؛ جیسا کہ ایک روایت کے مطابق اللہ تعالی نے حضرت موسی سے کہا: تمہیں اس لئے نبوت پر انتخاب کیا کیونکہ لوگوں میں آپ سے زیادہ متواضع کوئی نہیں تھا۔[21] دینی متون تواضع کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں اور بہت سارے دینی علما اور بزرگان اس صفت سے آراستہ تھے۔[22] اسی طرح پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ سے بہت ساری روایات بھی تواضع کے بارے میں نقل ہوئی ہیں۔ نہج البلاغہ [23] کے خطبہ متقین میں تواضع کو متقی لوگوں کی صفات میں سے شمار کیا ہے اور امام باقرؑ کی ایک حدیث میں اصلی شیعہ کی علامت تواضع اور خشوع کو قرار دیا گیا ہے۔[24]

اللہ کی عظمت کے سامنے انکساری

احادیث میں اللہ تعالی کی عظمت کے سامنے انکساری کرنے کی تاکید ہوئی ہے اور یہ تواضع اور ایمان کے باہمی رابطے کی علامت ہے؛ مصباح الشریعۃ [25]میں آیا ہے کہ تواضع کی حقیقت کو صرف اللہ کی وحدانیت سے مقرب بندے ہی سمجھ سکتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالی کی عظمت کے سامنے تواضع کرنا ہی نماز جیسی عبادتوں کی قبولیت کی شرط ہے۔[26]اور امام صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں تواضع کو عبادت کہا ہے۔[27]

نماز اور حج جیسی واجب عبادتیں بھی قرآنی آیات کے مطابق تکبر دور کرنے اور انسان میں تواضع ایجاد کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔[28] اسی طرح شیعہ ائمہؑ سے منقول دعاؤں میں تواضع ان امور میں سے ہے جس کی مومنین اللہ تعالی سے درخواست کرتے ہیں۔[29]

مومن کے سامنے تواضع

ایک حدیث کے مطابق مومن کے سامنے تواضع کرنا اور فخرفروشی سے اجتناب کرنا دوسرے مومن کی ذمہ داری بنتی ہے۔[30] مومن کسی بھی چیز کی قدر و قیمت اور معیار کو اللہ تعالی سے دوری اور نزدیکی سے پرکھتا ہے۔ اور دنیوی نعمتوں کی قدر و قیمت کو آخرت سے معین کرتا ہے، جس کے نتیجے میں زاہدانہ زندگی کو انتخاب کرتے ہوئے سب سے فقیر انسان کی طرح زندگی بسر کرتا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ کی سیرت اور کردار میں بھی یہ چیز واضح طور پر نظر آتی ہے۔[31]

آثار تواضع

إِنَّ مِنَ التَّواضُعِ أَن یَرضَى الرَّجُلُ بِالمَجلِسِ دونَ المَجلِسِ وَأَن یُسَلِّمَ عَلى مَن یَلقى وَأَن یَترُکَ المِراءَ وَإِن کانَ مُحِقّا وَلایُحِبَّ أَن یُحمَدَ عَلَى التَّقوى۔ (ترجمہ: تواضع یہی ہے کہ مجلس کے آخر میں رہے، ہر کسی کو سلام کرے، بحث کرنے کو ترک کرے اگرچہ حق اس کے ساتھ ہو، اور اپنی پرہیزگاری کی تعریف کو پسند نہ کرے۔)

مآخذ، بحار الأنوار، ج۷۵، ص۱۱۸

احادیث کے مطابق، تواضع کا عقل اور علم سے رابطہ ہے۔[32]ایک حدیث نبویؐ کے مطابق اللہ تعالی سے علم طلب کرنے سے انسان میں تواضع بڑھ جاتی ہے۔[33] اور امام کاظم علیہ السلام کی ایک حدیث میں تواضع کو عقل کی سواری کہا گیا ہے۔[34]

حدیث میں تواضع کی دوسری آثار میں سے ایک دنیا اور آخرت میں بزرگی کا حاصل ہونا ہے۔ اور یہ حدیث «مَنْ تَوَاضَعَ لِلّهِ رَفَعَهُ اللّهُ (جو بھی اللہ کے لیے تواضع کرے اللہ اسے بلندی عطا کرے گا۔)» پیغمبر اکرمؐ سے مختلف صورتوں میں حدیث کی کتابوں میں ذکر ہوئی ہے۔ اور اسی مضمون کی دوسری احادیث ائمہ معصومینؑ سے بھی نقل ہوئی ہیں۔[35]

ممنوع تواضع

جس طرح سے والدین،[36] مؤمنین [37] اور استاد و شاگرد [38] کے سامنے تواضع کرنے کی تاکید ہوئی ہے، بعض افراد؛ جیسے متکبروں اور کافروں کے سامنے تواضع کرنے سے منع بھی ہوئی ہے۔[39] اسی طرح فقیر کا امیر کے سامنے اس کی ثروت کو دیکھ کر تواضع کرنے کو ناپسند قرار دیا ہے۔[40]

تواضع کی نشانیاں

بعض احادیث میں تواضع کی نشانیوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جن میں سے بعض یہ ہیں: سلام میں پہل کرنا، مجلس کے آخر میں بیٹھ جانا، نوکروں کے ساتھ کھانا کھانا، کھانے اور لباس پہنے میں تجملات سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے آپ کو سختی میں نہ ڈالنا۔[41]

حوالہ جات

  1. فَراہیدی، ذیل «وضع»؛ زوزنی، ج ۲، ص ۸۵۸؛ ابن منظور، ذیل «وضع»
  2. مراجعہ کریں: سورہ مؤمنون: آیہ ۲
  3. مراجعہ کریں۔ سورہ فاطر: آیہ ۲۸
  4. مراجعہ کریں۔ سورہ ہود: آیہ ۲۳
  5. مراجعہ کریں۔ سورہ مائدہ: آیہ ۵۴
  6. مراجعہ کریں: سورہ شعراء: آیہ ۲۱۵
  7. مراجعہ کریں: مفردات راغب اصفہانی، ص ۲۸۱؛ عسکری، ص ۱۲۲، ۲۱۵ـ۲۱۶
  8. نحاس، ج ۴، ص ۴۴۲
  9. مراجعہ کریں: راغب اصفہانی، وہی مآخذ؛ علم الہدی، ج ۲، ص ۲۶۶
  10. مراجعہ کریں: طوسی، ج ۲، ص ۴۴۴
  11. ایزوتسو، ص ۲۸۷
  12. نحل: ۲۲ـ ۲۳؛ مؤمنون: ۴۶
  13. مراجعہ کریں، ایزوتسو، ص ۲۸۵ـ ۳۱۱
  14. مراجعہ کریں: طبری؛ فضل بن حسن طبرسی؛ قرطبی، سورہ بقرہ:آیہ۱۱۲ کے ذیل میں
  15. مراجعہ کریں: طوسی؛ فیض کاشانی، ۱۴۱۶، ذیل آیہ
  16. مراجعہ کریں: طبری؛ طوسی؛ طباطبائی، اسی آیت کے ذیل میں؛ تواضع سے مربوط دوسرے الفاظ کے لئے انہی تفاسیر کی طرف مراجعہ کریں، سورہ حج: آیت نمبر 34 کے کے ذیل میں
  17. مصباح الشریعہ، ص ۷۲ـ۷۳؛ خمینی، ج ۴، ص ۳۴۰
  18. سورہ احزاب: ۲۱
  19. سورہ شعراء: ۲۱۵
  20. مجلسی، ج ۱۵، ص ۳۶۶، ج ۱۶، ص ۲۶۱؛ مزید تفصیلات کے لیے مراجعہ کریں: ابن ماجہ، ج ۱، ص ۴۰۳، ج ۲، ص ۱۳۹۸ـ ۱۳۹۹؛ بخاری جعفی، ج ۷، ص ۱۹۰؛ کلینی، ج ۲، ص ۱۲۲؛ فیض کاشانی، ۱۴۰۳، ج ۴، ص ۱۵۱ـ۱۵۲؛ مجلسی، ج ۱۶، ص ۱۹۹، ۲۷۷ـ ۲۷۸
  21. مجلسی، ج ۱۳، ص ۷؛مراجعہ کریں: نہج البلاغہ، خطبہ ۱۹۲؛ مجلسی، ج ۱۴، ص ۲۷۸
  22. مراجعہ کریں: کلینی، ج ۲، ص ۱۲۳؛ علی بن حسن طبرسی، ص ۴۰۰؛ فیض کاشانی، ۱۴۰۳، ج ۶، ص ۲۲۴؛ مجلسی، ج ۲۲، ص ۴۲۱، ج ۴۱، ص ۵۴ ـ۵۹، ج ۴۴، ص ۱۹۱، ج ۴۶، ص ۹۵، ج ۴۹، ص ۱۰۴، ج ۶۳، ص ۴۰۷
  23. نہج البلاغہ، خطبہ ۱۹۳
  24. مراجعہ کریں: علی بن حسن طبرسی، ص ۱۲۱؛ مجلسی، ج ۷۵، ص ۱۷۵، اسی طرح: مجلسی، ج ۱۰، ص ۴۰۵
  25. مصباح الشریعہ، ص ۷۳
  26. مجلسی، ج ۱۳، ص ۳۳۸
  27. وہی مآخذ، ج ۷۵، ص ۲۴۷
  28. مراجعہ کریں: فضل بن حسن طبرسی،سورہ بقرہ: آیہ ۴۵ کے ذیل میں؛ نہج البلاغہ، خطبہ ۱۹۲
  29. مراجعہ کریں: ابن طاووس، ج ۱، ص ۲۵۹؛ حلّی، ص ۲۶۲، ۳۲۷
  30. مراجعہ کریں: نہج البلاغہ، خطبہ ۱۹۳؛ ابن ماجہ، ج ۲، ص ۱۳۹۹؛ مسلم بن حجاج، ج ۸، ص ۱۶۰
  31. مراجعہ کریں: کلینی، ج ۲، ص ۱۲۲، ج ۸، ص ۱۶۹؛ ورّام، ج ۱، ص ۲۰۰؛ مجلسی، ج ۱۶، ص ۱۹۹
  32. اس بارے میں احادیث کیلیے مراجعہ کریں: کلینی، ج ۱، ص ۴۸؛ مجلسی، ج ۱، ص ۱۳۱، ۱۳۶، ۱۴۰، ۱۵۳، ۱۵۸، ۱۷۵ـ۱۷۶
  33. مجلسی، ج ۲، ص ۳۴
  34. مجلسی، ج ۱، ص ۱۳۶
  35. مسلم بن حجاج، ج ۸، ص ۲۱؛ ترمذی، ج ۳، ص ۲۵۴؛ مجلسی، ج ۵، ص ۳۲۴، ج ۱۸، ص ۴۱۷، ج ۲۱، ص ۳۰۴، ج ۴۹، ص ۱۲۹، ج ۵۶، ص ۱۵۱، ۱۹۱
  36. مراجعہ کریں:الفقہ المنسوب للامام الرضا علیہ السلام، ص ۳۳۴
  37. فیض کاشانی، ۱۴۰۳، ج ۶، ص ۲۲۱
  38. حرّ عاملی، ج ۱، ص ۴۷۵
  39. مراجعہ کریں:ورّام، ج ۱، ص ۲۰۱؛ فیض کاشانی، ۱۴۰۳، ج ۶، ص ۲۲۲
  40. مراجعہ کریں: نہج البلاغہ، ص ۵۰۸؛ راغب اصفہانی، ص ۲۸۶
  41. مراجعہ کریں: کلینی، ج ۲، ص ۱۲۳، ۶۴۶؛ مجلسی، ج ۲، ص ۵۵، ۱۳۱ـ ۱۳۲، ج ۵۹، ص ۲۹۱


مآخذ

  • قرآن.
  • نہج البلاغۃ، چاپ صبحی صالح، قاہرہ ۱۴۱۱/۱۹۹۱.
  • ابن طاووس، اقبال الاعمال، چاپ جواد قیومی اصفہانی، قم ۱۴۱۴ـ۱۴۱۵.
  • ابن ماجہ، سنن ابن ماجۃ، استانبول ۱۴۰۱/۱۹۸۱.
  • ابن منظور، لسان‌العرب، چاپ على شيرى، بيروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
  • توشیہیکو ایزوتسو، مفاہیم اخلاقی ـ دینی در قرآن مجید، ترجمہ فریدون بدرہ‌ای، تہران ۱۳۷۸ ش.
  • محمدبن اسماعیل بخاری جعفی، صحیح البخاری، استانبول ۱۴۰۱/۱۹۸۱.
  • محمدبن عیسی ترمذی، سنن الترمذی، ج ۳، چاپ عبدالرحمان محمد عثمان، بیروت ۱۴۰۳.
  • محمدبن حسن حرّعاملی، الفصول المہمۃ فی اصول الائمۃ، چاپ محمدبن محمدحسین قائینی، قم ۱۳۷۶ ش.
  • رضی الدین علی بن یوسف حلّی، العدد القویۃ لدفع المخاوف الیومیۃ، چاپ مہدی رجائی، قم ۱۴۰۸.
  • مصطفی خمینی، تفسیر القرآن الکریم: مفتاح احسن الخزائن الالہیۃ، تہران ۱۳۷۶ ش.
  • حسین بن محمد راغب اصفہانی، الذریعۃ الی مکارم الشریعۃ، چاپ علی می‌رلوحی فلاورجانی، اصفہان ۱۳۷۵ ش.
  • حسین بن احمد زوزنی، کتاب المصادر، چاپ تقی بینش، تہران ۱۳۷۴ ش.
  • طباطبائی، محمدحسين، الميزان فى تفسيرالقرآن، بيروت ۱۳۹۰ـ۱۳۹۴/ ۱۹۷۱ـ۱۹۷۴.
  • علی بن حسن طبرسی، مشکاۃ الانوار فی غررالاخبار، چاپ مہدی ہوشمند، قم ۱۴۱۸.
  • طبرسی، فضل‌بن حسن، مجمع‌البيان فى تفسيرالقرآن، چاپ ہاشم رسولى محلاتى و فضل‌اللہ يزدى طباطبائى، بيروت ۱۴۰۸/۱۹۸۸.
  • طبری، محمدبن‌جرير، جامع‌البيان‌عن‌تأويل آى‌القرآن، مصر۱۳۷۳/۱۹۵۴.
  • طوسی، محمدبن‌حسن، التبيان‌فى‌تفسيرالقرآن، چاپ احمد حبيب قصيرعاملى،بيروت ]بى‌تا.[.
  • حسن بن عبداللّہ عسکری، معجم الفروق اللغویۃ، الحاوی لکتاب ابی ہلال العسکری و جزءاً من کتاب السید نورالدین الجزائری، قم ۱۴۱۲.
  • علی بن حسین علم الہدی، رسائل الشریف المرتضی، چاپ مہدی رجائی، رسالۃ ۲۴: «الحدود و الحقائق»، قم ۱۴۰۵ـ۱۴۱۰.
  • خلیل بن احمد فراہیدی، کتاب العین، چاپ مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، قم ۱۴۰۹.
  • الفقہ المنسوب للامام الرضا علیہ السلام، و المشتہرب فقہ الرضا، مشہد: مؤسسۃ آل البیت، ۱۴۰۶.
  • محمدبن شاہ مرتضی فیض کاشانی، تفسیرالصافی، چاپ حسین اعلمی، تہران ۱۴۱۶.
  • ہمو، المحجۃ البیضاء فی تہذیب الاحیاء، چاپ علی اکبر غفاری، بیروت ۱۴۰۳/ ۱۹۸۳.
  • محمدبن احمد قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، بیروت ۱۴۰۵/ ۱۹۸۵.
  • کلینی، محمدبن يعقوب، الكافى، چاپ على‌اكبر غفارى، بيروت ۱۴۰۱.
  • مجلسی، محمدباقربن محمدتقى، بحارالانوار، بيروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳.
  • مسلم بن حجاج، الجامع الصحیح، بیروت: دارالفکر، بی‌تا.
  • مصباح الشریعۃ، منسوب بہ امام جعفر صادق (ع)، بیروت: مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۰/۱۹۸۰.
  • احمدبن محمد نحاس، معانی القرآن الکریم، چاپ محمدعلی صابونی، مکہ ۱۴۰۸ـ ۱۴۰۹.
  • مسعودبن عیسی ورّام، تنبیہ الخواطر و نزہۃ النواظر المعروف بمجموعۃ ورّام، چاپ علی اصغر حامد، تہران، ۱۳۷۶.

بیرونی رابط