آیت قنطار

ویکی شیعہ سے
آیت قنطار
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیہ قنطار
سورہ نساء
آیت نمبر20
پارہ4
صفحہ نمبر81
محل نزولمدینہ
موضوعفقہی
مضمونحقوق نسواں کی حمایت
مرتبط موضوعاتطلاقحق مہر


آیہ قِنطار، سورہ نساء کی آیت نمبر 20 کو کہا جاتا ہے جس میں عورتوں کو طلاق دیتے وقت حق مہر نہ دینے یا اگر دیا ہوا ہے تو اسے واپس لینے کے لئے ان پر عفت کے منافی اعمال کی تہمت لگانے سے منع کرتے ہوئے اسے آشکار ظلم اور گناہان کبیرہ میں سے قرار دیا گیا ہے۔ طلاق کے وقت حق مہر نہ دینے یا اسے واپس لینے کے لئے عورتوں پر تہمت لگانا یا انہیں تنگ کرنا دور جاہلیت کی ایک رسم تھی جو پیغمبر اکرم کی بعثت کے بعد بھی جاری تھی۔

اس آیت سے اسلام میں حقوق نسواں، زیادہ حق مہر کا جواز اور اس پر عورتوں کی مالکیت جیسے پیغامات استخراج کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح بے گناہ لوگوں کے اموال پر ناجائز قبضہ کرنے کی خاطر ان پر تہمت لگانے کو اس آیت سے استناد کرتے ہوئے ظلم کی بد ترین اقسام میں شمار کیا گیا ہے۔

اجمالی تعارف اور متن و ترجمہ

سورہ نساء کی آیت نمبر 20 کو آیہ قنطار کہا جاتا ہے۔[1]

وَ إِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدالَ زَوْجٍ مَکانَ زَوْجٍ وَ آتَیتُمْ إِحْداہُنَّ قِنْطاراً فَلا تَأْخُذُوا مِنْہُ شَیئاً أَ تَأْخُذُونَہُ بُہْتاناً وَ إِثْماً مُبینا


اور اگر تم ایک بیوی کو بدل کر اس کی جگہ دوسری لانا چاہو اور تم ان میں سے ایک کو (جسے فارغ کرنا چاہتے ہو) بہت سا مال دے چکے ہو۔ تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو کیا تم جھوٹا الزام لگا کر اور صریح گناہ کرکے (واپس) لینا چاہتے ہو۔ (سورہ نساء آیت: 20)


سبب نزول

ظہور اسلام سے پہلے یہ رسم تھی کہ جب بھی مرد اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا تو اسے تنگ کرنے[2] اور اس پر عفت کے منافی اعمال کی تہمت لگانے کے ذریعے اسے حق مہر معاف کرنے پر مجبور کرتا پھر اسے طلاق دے دیتا تھا اور اسی حق مہر کے ذریعے کسی اور عورت سے شاد کرتا تھا۔[3] یہ آیت اس رسم کی مذمت اور روک تھام کی خاطر نازل ہوئی ہے۔[4]

مضمون

شیعہ معاصر مفسر آیت اللہ مکارم شیرازی تصریح کرتے ہیں کہ آیہ قنطار عورتوں کے حقوق کی حمایت میں نازل ہوئی ہے جس میں اپنی بیویوں کو طلاق دے کر دوسری شادی کرنے والے مردوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر اپنی بیویوں سے جدا ہو کر دوسری شادی کرنا چاہتے ہیں تو کریں لیکن پہلی بیوی کے حق مہر سے کوئی چیز کم کرنے یا اگر حق مہر ادا کیا ہے تو اسے واپس لینے کا حق نہیں رکھتا؛ اگرچہ ان کا حق مہر بہت زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔[5][یادداشت 1] آیت اللہ مکارم کے مطابق اس آیت میں حقوق نسواں کے دفاع کے ساتھ ساتھ دور جاہلیت کی ایک غلط رسم کی سختی سے منع کرتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی گئی ہے۔[6]

آیہ قنطار میں دور جاہلیت میں مردوں کی طرف سے اپنی بیویوں پر عفت کے منافی اعمال کی تہمت لگانے کو مد نظر رکھتے ہوئے مذکورہ عمل کو آشکار ظلم اور بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔[7] [یادداشت 2] سورہ نساء آیت نمبر 21 میں بھی مردوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم اس طرح کے برے عمل کا کیسے ارتکاب کر سکتے ہیں جبکہ اس سے پہلے تم اور تمہاری بیویوں کے درمیان الفت و محبت قائم تھی اور ان کے ساتھ ہم بستری اور دوسری لذات اٹھاتے تھے اور کیا تم لوگوں نے صیغہ عقد کے ذریعے ان عورتوں سے مضبوط عہد و پیمان نہیں باندھا تھا؟[8]

بعض مفسرین مردوں کی جانب سے عورتوں سے حق مہر واپس لینے کو ہر صورت میں حرام قرار دیتے ہیں؛ چاہے مرد طلاق کے بعد دوسری شادی کا ارادہ رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔ اگرچہ آیہ قنطار میں حق مہر واپس لینے کو اس شخص کے لئے حرام قرار دیا گیا ہے جو دو طلاق کے بعد دوسری شادی کا ارادہ رکھتا ہے؛ لیکن شیخ طوسی، طبرسی اور محمد جواد مغنیہ جیسے فقہاء عورتوں سے حق مہر واپس لینے کو ہر صورت میں حرام قرار دیتے ہیں۔[9] معاصر قرآنی محقق محمد علی رضایی اصفہانی اس بات کے معتقد ہیں کہ آیہ قنطار میں دوسری شادی کی طراف اشارہ دور جاہلیت کی مذکورہ رسم کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے اور اصل حکم میں اس کا کوئی اثر نہیں ہے اس بنا پر حق مہر واپس لینے کی حرمت صرف دوسری شادی کا ارادہ رکھنے والے شخص سے مختص نہیں بلکہ ہر صورت میں یہ کام حرام ہے۔[10]

سورہ نساء کی انیسویں آیت (آیہ قنطار سے پہلی والی آیت) میں لوگوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ حسن معاشرت اور ان کی اچھی دیکھ بھال کی طرف ترغیب دلائی گئی ہے۔[11]

آیت کے بعض الفاظ کے معانی

قنطار کثیر مال و دولت[12] کی طرف اشارہ ہے۔[13] قنطار کی مقدار کے بارے میں اختلاف ہے۔ ابن‌ عربی نے کتاب احکام القرآن میں قنطار کے بارے میں دس مختلف اقوال نقل کیا ہے؛[14] شیخ طوسی اور طبرسی نے قنطار سے گائے کی کھال بھرا سونا یا انسان کی دیت کے برابر مال مراد لیا ہے۔[15] [یادداشت 3] چنانچہ امام باقرؑ اور امام صادقؑ سے منقول احادیث میں قنطار سے گائے کی کھال بھرا سونا مراد لیا گیا ہے۔[16]

علامہ طباطبائی اس آیت میں لفظ بُہْتان سے ہر قسم کا کلام یا عمل مراد لیتے ہیں جو انسان کو مبہوت اور متحیر کرے اور معمولا اس طرح کی باتیں جھوٹ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق مذکورہ آیت میں بہتان سے مراد جھوٹ اور تہمت لگاتے ہوئے عورتوں سے حق مہر واپس لینا ہے۔[17] فخر رازی نے اپنی کتاب، تفسیر کبیر میں لفظ بہتان اور گناہ کے معانی سے مربوط مطالب ذکر کیا ہے۔[18]

آیت کا پیغام

آیہ قنطار سے مختلف تفسیری منابع میں مختلف پیغامات اخذ کئے گئے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • اسلام حقوق نسواں کا حامی ہے۔[19] پہلی بیوی کی حق تلفی کی صورت میں مرد کو دوسری شادی سے منع کیا گیا ہے۔[20]
  • زیادہ حق مہر رکھنا جائز ہے[21] جس کی کوئی حد معین نہیں ہے۔[22]
  • حق مہر خواتین کی ملکیت ہے[23] جسے ان سے واپس لینا جائز نہیں ہے۔[24]
  • طلاق دینا اور دوسری شادی کرنا جائز ہے۔[25]
  • طلاق دینا مرد کا حق ہے ۔[26]
  • الہی قوانین کے دائرے میں مال و دولت کی کثرت پر کوئی محدودیت نہیں ہے۔[27]
  • لوگوں پر تہمت لگانے کے ذریعے ان کے اموال پر قبضہ کرنا ظلم کی بدترین اقسام میں سے ہے۔[28]

حوالہ جات

  1. مرکز فرہنگ و معارف قرآن، دائرۃ المعارف قرآن کریم، 1382ہجری شمسی، ج1، ص396۔
  2. جعفری، تفسیر کوثر، 1376ہجری شمسی، ج2، 391۔
  3. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، 1371ہجری شمسی، ج3، ص321، جعفری، تفسیر کوثر، 1376ہجری شمسی، ج2، ص391۔
  4. رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387ہجری شمسی، ج4، ص81۔
  5. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، 1371ہجری شمسی، ج3، ص322۔
  6. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، 1371ہجری شمسی، ج3، ص322۔
  7. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج3، ص322؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج3، ص41۔
  8. جعفری، تفسیر کوثر، 1376ہجری شمسی، ج2، ص391۔
  9. طوسی، التبیان، بیروت، ج3، ص151؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج3، ص41؛ مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ھ، ج2، ص282۔
  10. رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387ہجری شمسی، ج4، ص81۔
  11. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج3، ص41۔
  12. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج3، ص41؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج4، ص214۔
  13. مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ھ، ج2، ص282۔
  14. ملاحظہ کریں: ابن عربی، احکام القرآن، 1408ھ، ج1، ص366۔
  15. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج3، ص41؛ طوسی، التبیان، بیروت، ج3، ص152۔
  16. عروسی حويزی، نور الثقلین، 1415ھ، ج1، ص459۔
  17. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج4، ص257۔
  18. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج10، ص14۔
  19. مکارم شیرازی، مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، 1371ہجری شمسی، ج3، ص322؛ رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387ہجری شمسی، ج4، ص82۔
  20. قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج2، ص40۔
  21. ابن عربی، احکام القرآن، 1408ھ، ج1، ص364؛ فخررازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج10، ص13؛ قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج2، ص40۔
  22. صادقی تہرانی، ترجمان فرقان، 1388ھ، ج1، ص351۔
  23. قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج2، ص40۔
  24. رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387ہجری شمسی، ج4، ص82۔
  25. قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج2، ص39۔
  26. قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج2، ص40۔
  27. قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج2، ص40۔
  28. رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387ہجری شمسی، ج4، ص82؛ قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج2، ص40۔

نوٹ

  1. تاہم بعض مفسرین نے عورتوں کی جانب سے فحاشیت اور احکام خدا کی مخالفت کرنے کو اس حکم سے استثنا قرار دیا ہے۔(صادقی تہرانی، ترجمان فرقان، 1388ہجری شمسی، ج1، ص351۔)
  2. بعض مفسرین عورتوں سے واپس لینے والی چیز کو ظلم اور بڑا گناہ قرار دیا ہے۔(طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج3، ص41۔)
  3. اہل‌ بیتؑ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ اگر عورت کا حق مہر گائے کی کھال بھرے سونے کے برابر ہو تب بھی اسے واپس نہیں لینا چاہئے۔ اس طرح کی احادیث مصداق کے بیان میں صادر ہوئی ہیں نہ کہ قنطار کے معنی کو بیان کرنے کے لئے۔رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387ہجری شمسی، ج4، ص81۔)

مآخذ

  • ابن عربی، محمد بن عبداللہ، احکام القرآن، بیروت، دارالجیل، 1408ھ۔
  • جعفری، یعقوب، تفسیر کوثر، قم، موسسہ انتشارات ہجرت، 1376ہجری شمسی۔
  • رضایی اصفہانی، محمدعلی، تفسیر قرآن مہر، 1387ہجری شمسی، قم، پژوہشہای تفسیر و علوم قرآن، 1387ہجری شمسی۔
  • صادقی تہرانی، محمد، ترجمان فرقان: تفسیر مختصر قرآن کریم، قم، شکرانہ، 1388ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، 1412ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت،‌دار إحیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت،‌دار إحیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • قرائتی، محسن، قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، تہران، مرکز فرہنگی درس‌ہایی از قرآن، 1388ہجری شمسی۔
  • مرکز فرہنگ و معارف قرآن، دائرۃ المعارف قرآن کریم، قم، بوستان کتاب، چاپ سوم، 1382ہجری شمسی۔
  • مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم، دارالکتاب الإسلامی، 1424ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔