آیت امن یجیب
آیت کی خصوصیات | |
---|---|
آیت کا نام | آیت امّن یّجیب |
سورہ | سورہ نمل |
آیت نمبر | 62 |
پارہ | 20 |
شان نزول | امام مہدیؑ |
محل نزول | مکہ |
موضوع | اخلاقی |
مضمون | خدا کی طرف سے پریشان انسان کی پریشانیوں کو رفع کرنا اور اس کی دعا کو قبول کرنا |
آیت اَمَّن یُّجیب سورہ نمل کی آیت نمبر 62 کا ایک حصہ ہے جس میں دعا کی استجابت اور انسان کی پریشانیوں میں خداوند عالم کو واحد مرجع اور ماوا کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔ اس عبارت میں آیا ہے کہ: "اَمَّن یُّجیبُ المُضطَرَّ اِذا دَعاہُ وَ یَکشِفُ السُّوءَ؛ کون ہے جو مضطر و بے قرار کی دعا و پکار کو قبول کرتا ہے؟"
عام طور پر آیت کے مذکورہ حصے کو "دعائے امن یجیب" سے تعبیر کی جاتی ہے اور سختیوں اور پریشانیوں میں اسے پڑھنے کی سفارش ہوئی ہے۔ "ختم امن یجیب" کے نام سے اس آیت کا ورد کرتے ہیں۔ بعض مفسرین کے مطابق یہ عبارت توحید کے بارے میں ہے جس میں مشرکین سے سوال کیا گیا ہے کہ جو ہستی پریشان حال کی دعا قبول کرتی ہے وہ بہتر ہے یا تمہارے معبود جو کسی کام نہیں آتے؟
احادیث اور شیعہ مفسرین کے مطابق یہ آیت امام مہدیؑ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور "مُضطَر" سے مراد آپؑ کی ذات ہے؛ لیکن بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ امام مہدی اس آیت کے مصادیق میں سے ایک مصداق ہے اور آیت میں تمام پریشان حال افراد شامل ہیں اور ان کو ان کی دعاؤں کے مستجاب ہونے کی بشارت دی گئی ہے۔
عام لوگوں کے یہاں اس آیت کا مقام
"اَمَّن یُّجیبُ المُضطَرَّ اِذا دَعاہُ وَ یَکشِفُ السُّوءَ؛ کون ہے جو مضطر و بے قرار کی دعا و پکار کو قبول کرتا ہے؟" سورہ نمل کی آیت نمبر 62 کا ایک حصہ ہے۔ عام طور پر آیت کے اس حصے کو دعا سے تعبیر کی جاتی ہے اور "ختم امن یجیب" کے نام سے مختلف پریشانیوں سے نجات کے لئے اس کا ورد کیا جاتا ہے۔[1] البتہ خود آیت دعا کے طور پر نہیں آیا ہے اسی لئے جب دعا کے طور پر پڑھی جاتی ہے تو "یا مَنْ یجیبُ الْمُضْطَرَّ إِذا دَعاہُ"[2] یا "يَا مَنْ يُجِيبُ دُعَاءَ الْمُضْطَرِّ" پڑھنے کی سفارش ہوئی ہے۔[3]
میرزا جواد ملکی تبریزی نے ماہ رمضان ا میں کسی قسم کی معنوی تبدیلی محسوس نہ کرنے والے شخص کے لئے سفارش کی ہے کہ وہ سختیوں اور پریشانیوں کے دور ہونے نیز اپنی اصلاح کے لئے خدا سے درخواست کریں اور زبان سے آیت امن یجیب کا ورد کریں۔[4]
مذکورہ آیت کا توحید کے ساتھ ارتباط
آیت امن یجیب میں خدا خدا کو دعا کی استجابت اور پریشانیوں کے خاتمے کا واحد مرجع معرفی کرتی ہے اور یہ مطلب بعینہ توحید کا کا مفہوم بھی ہے۔[5] آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق خدا نے اس آیت اور اس سے پہلے اور بعد میں آنے والی چند آیتیں جو "اَمَّنْ" کے ساتھ شروع ہوتی ہیں، سوالیہ انداز میں توحید کے واضح دلائل کو بیان کرتے ہوئے مشرکین کا محاکمہ کیا ہے۔[6] یہ سوال اس سلسلے میں مشرکین سے پوچھے گئے پانچ سوالوں میں سے تیسرا سوال ہے جس میں سوال ہو رہا ہے کہ: آیا جو ہستی پریشان حال کی دعا قبول کرتا ہے وہ بہتر ہے یا تہمارے معبود جو کسی کام کے نہیں ہیں؟[7]
"مُضطَر" کا مصداق
بعض شیعہ احادیث میں لفظ "مضطر" (پریشان حال) سے امام مہدیؑ مراد لیا گیا ہے۔ مثلا امام صادقؑ سے مروی ایک حدیث میں جسے کتاب تفسیر قمی میں نقل کیا گیا ہے، میں آیا ہے کہ سورہ نمل کی آیت نمبر 62 قائم آل محمدؑ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور آپؑ حقیقی مضطر ہیں جو مقام ابراہیم پر نماز کے بعد دعا کریں گے اور خدا ان کی دعا کر کے اس کی پریشانی دور کرے گا اور انہیں زمین پر خدا کا خلیفہ قرار دے گا۔[8]
نُعمانی (متوفی 360ھ) کتاب الغیبہ میں آیت امن یجیب کی تفسیر میں محمد بن مسلم کے توسط سے امام باقرؑ سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں امام فرماتے ہیں کہ سورہ نمل کی آیت نمبر 62 امام مہدیؑ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جس کے ظہور کے بعد خانہ کعبہ میں جبرئیل اور 313 اصحاب ان کی بیعت کریں گے۔[9]
شریف لاہیجی (متوفی گیارہویں صدی ہجری کے اواخر) کہتے ہیں کہ امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ سے منقول درج بالا دو احادیث کی رو سے یہ آیت قائم آل محمد(عج) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[10] دعائے ندبہ میں بھی امام مہدی(عج) کو دعا مستجاب ہونے والے مضطر کے عنوان سے یوں یاد کیا گیا ہے: "أَيْنَ الْمُضْطَرُّ الَّذِي يُجابُ إِذا دَعا؟؛ کہاں ہیں وہ مضطر جو دعا کرتے ہیں تو اس کی دعا قبول ہو جاتی ہے؟"[11]
علامہ طباطبایی (متوفی 1360ہجری شمسی) اور آیت اللہ مکارم شیرازی مذکورہ احادیث میں شأن نزول کا ذکر در واقع آیت کے مصادیق میں سے ایک مصداق بیان ہے اور مذکورہ آیت میں تمام مضطر افراد شامل ہیں۔[12] علی بن ابراہیم بھی احادیث میں مصداق کے بیان کو آیت کی تأویل یعنی باطن قرآن قرار دیتے ہیں۔[13]
اضطرار اور استجابت دعا میں رابطہ
بعض شیعہ علماء جیسے فضل بن حسن طَبرِسی (متوفی ۵48ھ)، فتح اللہ کاشانی (متوفی 988ھ) اور آیت اللہ مکارم شیرازی سورہ نمل کی آیت نمبر 62 کے ذیل میں ذکر کرتے ہیں کہ خدا سب کی دعائیں قبول کرتا ہے؛ لیکن چونکہ مضطر کی درخواست میں زیادہ طاقت اور خضوع و خشوع ہے اسلئے استجابت دعا کے لئے اضطرار کو شرط قرار دی گئی ہے۔[14] محمد سبزواری (متوفی 1368ہجری شمسی) اور علامہ طباطبایی نیز مذکورہ آیت میں اضطرار کو انسان کی حقیقی طلب کی نشانی قرار دیتے ہیں۔[15] آیت امن یجیب میں لفظ مضطر سے مراد شیعہ مفسرین کی نگاہ میں کوئی خاص شخص مراد ہے جو خاص پریشانی میں غیر خدا سے ناامید ہو کر خدا سے پناہ مانگ رہا ہے۔[16] اہل سنت علماء میں سے ثَعْلَبی،[17] زَمَخْشَری،[18] فَخْررازی[19] اور بَیْضاوی[20] بھی مضطر کے اس معنا کو قبول کرتے ہیں۔
آیا ہر مضطر کی دعا مستجاب ہوتی ہے؟
بعض شیعہ علماء جیسے فتح اللہ کاشانی وغیرہ کے مطابق مذکورہ آیت میں لفظ "مضطر" میں سارے پریشان لوگ شامل نہیں ہیں؛ کیونکہ بہت سے پریشان اور مضطر انسانوں کو دیکھتے ہیں کہ خدا دعا کی استجابت کو ان کے حق میں مصلحت نہیں سمجھتے ہیں۔[21] اہل سنت علماء میں سے بھی زمخشری،[22] فخررازی،[23] بیضاوی،[24] اور آلوسی[25] وغیرہ بھی اس نظریے کے موافق ہیں۔ شریف لاہیجی کی نگاہ میں حق بات یہ ہے کہ تمام مضطرین کی دعا قبول ہوتی ہے اور اگر کسی مضطر کی دعا قبول نہیں ہوئی ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ متعلقہ شخص اضطرار تک نہیں پہنچا ہے۔[26]
حوالہ جات
- ↑ «مصاحبہ با حضرت آیت اللہ یوسف صانعی»، ص1۵3.
- ↑ رجوع کریں: سید بن طاووس، مہج الدعوات، 1411ھ، ص342و346؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج92، ص103.
- ↑ رجوع کریں: سید بن طاووس، مہج الدعوات، 1411ھ، ص1۵1.
- ↑ ملکی تبریزی، المراقبات، 1388ہجری شمسی، ص261.
- ↑ قرشی، تفسیر احسنالحدیث، 1391ہجری شمسی۔ ج7، ص481.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371-1374ہجری شمسی، ج7، ص۵12-۵13.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371-1374ہجری شمسی، ج1۵، ص۵17.
- ↑ قمی، تفسير القمی، 1404ھ، ج2، ص129.
- ↑ النعمانی، الغيبہ، 1379ھ، ص314.
- ↑ شریف لاہیجی، تفسير شريف لاہيجى، 1373ہجری شمسی، ج3، ص43۵-436.
- ↑ رجوع کریں: قمی، مفاتیح الجنان،1387ہجری شمسی، ص728.
- ↑ طباطبایی، المیزان، 13۵0-13۵3ھ، ج1۵، ص391؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371-1374ہجری شمسی، ج1۵، ص۵21-۵22.
- ↑ قمی، تفسير القمی، 1404ھ، ج2، ص129.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1408ھ، ج7، ص3۵8؛ کاشانی، زبدة التفاسير، 1381ہجری شمسی، ج۵، ص116؛ مکارم شیرازی، پیدایش مذاہب، 1384ہجری شمسی، ص96.
- ↑ سبزواری، ارشاد الاذہان، 1419ھ، ص387؛ طباطبایی، المیزان، 13۵0-13۵3ھ، ج1۵، ص381.
- ↑ رجوع کریں: ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1366-1378ہجری شمسی، ج1۵، ص6۵؛ کاشانی، زبدة التفاسير، 1381ہجری شمسی، ج۵، ص116؛ فیض کاشانی، تفسير الصافی، 1373ہجری شمسی، ج4، ص71؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371-1374ہجری شمسی، ج1۵، ص۵20-۵21.
- ↑ ثعلبی، الکشف و البیان، 1422ھ، ج7، ص219.
- ↑ زمخشری، الکشاف، 1407-1416ھ، ج3، ص376-377.
- ↑ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج24، ص۵6۵.
- ↑ بیضاوی، انوار التنزیل، 1418ھ، ج4، ص16۵.
- ↑ کاشانی، زبدة التفاسير، 1381ہجری شمسی، ج۵، ص116.
- ↑ زمخشری، الکشاف، 1407-1416ھ، ج3، ص376-377.
- ↑ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج24، ص۵6۵
- ↑ بیضاوی، انوار التنزیل، 1418ھ، ج4، ص16۵.
- ↑ آلوسی، روح المعانی، 1420ھ، ج20، ص291.
- ↑ شریف لاہیجی، تفسير شريف لاہيجى، 1373ہجری شمسی، ج3، ص43۵.
مآخذ
- قرآن کریء، ترجمہ محمدمہدی فولادوند، تہران، دارالقرآن الکریم، 1376ہجری شمسی۔
- آلوسی، محمود بن عبداللہ، روح المعانی، محقق محمد احمد آمد و عمر عبدالسلام سلامی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1420ھ۔
- ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، گردآورندہ محمدمہدی ناصح و محمدجعفر یاحقی، مشہد، بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی، 1366-1378ہجری شمسی۔
- سید بن طاووس، علی بن موسی، مہج الدعوات و منہج العبادات، قم، دار الذخایر، 1411ھ۔
- بیضاوی، عبداللہ بن عمر، أنوار التنزیل، محقق محمد عبد الرحمان مرعشلی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1418ھ۔
- ثعلبی، احمد بن محمد، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، بہ تصحیح ابیمحمد ابن عاشور، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1422ھ۔
- زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف، گردآورندہ مصطفی حسین احمد، بیروت، دار الکتاب العربی، 1407-1416ھ۔
- سبزواری، محمد، ارشاد الاذہان، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1419ھ۔
- سیوطی، عبدالرحمن بن ابیبکر، تفسیر الدر المنثور، بیروت، دار الفکر، 1414ھ۔
- شریف لاہیجی، تفسير شريف لاہيجى، گردآورندہ جلال الدین محدث، تہران، دفتر نشر داد، 1373ہجری شمسی۔
- طباطبایی، محمد حسین، المیزان، بیروت، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، 13۵0-13۵3ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بہ تصحیح ہاشم رسولی و دیگران، بیروت، دار المعرفة، 1408ھ۔
- فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1420ھ۔
- فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی، تفسير الصافی، بہ تصحیح حسین اعلمی، تہران، مکتبة الصدر، 1373ہجری شمسی۔
- قرشی، سیدعلیاکبر، تفسیر احسنالحدیث، قم، دفتر نشر نوید اسلام، 1391ہجری شمسی۔
- قمی، شیخ عباس، مفاتیج الجنان، تہران، مشعر، چاپ اول، 1387ہجری شمسی۔
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسير القمی، بہ تصحیح طیب جزایری، قم، دار الکتاب، 1404ھ۔
- کاشانی، فتحاللہ، زبدة التفاسير، قم، مؤسسة المعارف الاسلامیة، 1381ہجری شمسی۔
- نعمانی، محمد بن ابراہيم، الغيبة للنعمانی، محقق و مصحح علیاکبر غفاری، تہران، نشر صدوھ، چاپ اول، 1379ھ۔
- «مصاحبہ با حضرت آیت اللہ یوسف صانعی»، در مجلہ حوزہ، شمارہ 32، خرداد و تیر 1368ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403ھ۔
- مكارم شيرازى، ناصر، پيدايش مذاہب، قم، مدرسہ الامام على بن ابى طالب(ع)، 1384ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیة، 1371-1374ہجری شمسی۔
- ملکی تبریزی، جواد، المراقبات، ترجمہ کریم فیضی، قم، انتشارات قائم آل محمد(ص)، 1388ہجری شمسی۔