آداب المتعلمین (کتاب)

ویکی شیعہ سے
آداب متعلمین
مشخصات
مصنفخواجہ نصیر الدین طوسی
موضوعتعلیم و تربیت
زبانعربی
مذہبشیعہ
طباعت اور اشاعت
ناشرمؤسسہ تحقیقات و نشر معارف اہل‌ البیتؑ
سنہ اشاعتساتویں صدی ہجری


آدابُ المُتَعَلِّمین حصول علم کے آداب کے بارے میں ایک مشہور کتاب ہے جس کی نسبت شیعہ متکلم خواجہ نصیرالدین طوسی کی طرف دی جاتی ہے۔ آداب المتعلمین ہمیشہ اہل علم حضرات کی توجہ کا مرکز رہا ہے اور حوزہ علمیہ میں ادبیات عرب کی مشہور نصاب جامِعُ المُقَدَّمات کے ضمن میں وقتا فوقتا شایع ہوتی رہتی ہے۔ بعض محققین مختلف قرائن و شواہد کی بنا پر خواجہ نصیر کی طرف اس کتاب کی نسبت میں شک و تردید کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض اصل کتاب میں بھی تردید کرتے ہوئے اسے ساتویں صدی ہجری کے سنی عالم برہان‌ الدین زَرنوجی حَنَفی کی تصنیف "تعلیمُ المُتَعلِّم" قرار دیتے ہیں۔

یہ کتاب بارہ ابواب پر مشتمل ہے جس میں حصول علم کی فضیلت، متعلم کی نیت، استاد، ہم جماعت اور علم کے شعبے کا انتخاب، خدا پر توکل اور استاد سے کسب فیض کرنے کے طریقے زیر بحث لائے گئے ہیں۔

آداب المتعلمین کی مختلف شروحات اور حاشیے لکھے گئے ہیں من جملہ ان میں: سلیمان بن عبداللہ ماحوزی کی کتاب اَللُّؤلُؤ الثَّمين فی شرحِ آداب المتعلمین اور سید محمد‌ جواد ذہنی تہرانی کا فارسی ترجمہ اَنیسُ الطالبین کا نام لیا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کے مختلف نسخے ایران، پاکستان، مصر وغیرہ کے کتابخانوں میں موجود ہیں۔

اہمیت

آداب المتعلمین مختصر ہونے کے باوجود حصول علم کے آداب کے سلسلے میں موجود کتابوں میں سے ایک مشہور کتاب ہے۔[1] یہ کتاب تصنیف کے ابتدائی ایام سے ہے اہل علم حضرات کی توجہ کا مرکز بننے کی وجہ سے ہمیشہ تعلیمی نصاب میں شامل رہی ہے اور ادبیات عرب کی مشہور نصابی کتاب جامِعُ المُقَدَّمات کے ضمن میں شایع ہوتی چلی آ رہی ہے۔[2] کہا جاتا ہے کہ خواجہ نصیر‌الدین طوسی سے منسوب ہونا نیز سلیس اور جامع ہونا اہل علم کے نزدیک اس کتاب کی شہرت کا باعث بنا ہے۔[3]

مصنف

شیعہ کتاب شناس آقا‌بزرگ تہرانی کے مطابق مشہور اس کتاب کو خواجہ نصیر‌الدین طوسی (متوفی: 692ھ) کی طرف نسبت دیتے ہیں۔[4] اکثر مؤلفین جیسے بِحارُ الاَنوار کے مصنف علامہ مجلسی[5]، روضات الجَنّات کے مصنف سید محمدباقر خوانساری[6] اور ریحانَۃ الاَدَب کے مصنف مُدرِّس تبریزی [7] اس کتاب کو خواجہ نصیر طوسی کی تصنیف قرار دیتے ہیں۔ لیکن بعض محققین مختلف قرائن و شواہد کی بنا پر اس نسبت کے صحیح ہونے میں تردید کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی سلسلے میں بعض نے اس کتاب کو ساتویں صدی ہجری کے سنی عالم دین برہان‌ الدین زَرنوجی حَنَفی کی کتاب "تَعلیم المُتَعَلِّم" کی کاپی قرار دیتے ہیں۔[8] محققین کے مطابق خواجہ نصیر الدین ایک مشہور منجم ہوتے ہوئے کتاب کی پہلی فصل میں علم نجوم کی حرمت کا فتوا اور کتاب کے کسی بھی خطی نسخے میں ان کا نام نہ ہونا اس نسبت کے مشکوک ہونے کے قرائن و شواہد میں سے ہیں۔[9] کہا جاتا ہے کہ مصنف نے مضمون کے حوالے سے زرنوجی کی کتاب کے اہم ترین مطالب کو یہاں درج کیا ہے یہاں تک کہ فصول اور ابواب کے عناوین کو بھی تبدیل نہیں کیا ہے البتہ زرنوجی کی کتاب کے اکثر اشعار، حکایات اور وضاحتوں کو حذف کیا ہے۔[10] معاصر نسخہ شناس سید محمد‌ رضا حسینی جلالی نے اپنی ایک تحقیق میں زرنوجی کی کتاب کے اکثر مطالب کو بیان کیا ہے۔[11]

مضامین

آداب المتعلمین کے مصنف نے کتاب کے آغاز میں اس بات کی تصریح کی ہیں کہ حصول علم کی راہ میں طالب علموں کو درپیش دشواریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے حصول علم کے طریقہ کار کو جس طرح اپنے استاد سے سنا ہے یا مختلف کتابوں میں انہوں نے خود پڑھا ہے، کو اختصار کے ساتھ یہاں بیان کیا ہے۔[12] یہ کتاب بارہ ابواب پر مشتمل ہے:

  • پہلا باب: اس باب میں علم کی ماہیت اور حصول علم کا دوسرے تمام امور پر فوقیت کو بیان کیا ہے۔ مصنف کے مطابق احادیث اور عقل کی روشنی میں سعادت ابدی تک پہنچنے کا بہترین وسیلہ علم ہے۔[13]
  • دوسرا باب: دوسرے باب میں طالب علم کی نیت سے بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ طالب کو خدا کی خشنودی، جہالت کی نابودی اور اسلام کی بقا کی نیت سے علم حاصل کرنا چاہئے۔[14]
  • تیسرا باب: تیسرے باب میں استاد، ہم‌ جماعت اور علم کے شعبے کے انتخاب کی نوعیت میں صبر اور ثابت قدمی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس سلسلے میں مؤلف کہتے ہیں کہ طالب علم کو چاہئے بہترین علم کا انتخاب کریں جو اس کے دین اور مستقبل میں اس کے کام آئے اسی طرح مختلف اساتذہ میں سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار نیز علمی حوالے سے زیادہ قابل اور با تجربہ اساتذہ کا انتخاب کرنا چاہئے۔[15]
  • چوتھا بابا: چوتھے باب میں حصول علم کی راہ میں سنجیدگی، احتیاط اور ہمّت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے پر‌خوری اور پر خوابی سے پرہیز کرنے کی سفارش کی گئی ہے کیونکہ یہ چیزیں سستی اور تنبلی کا موجب بنتی ہیں۔[16]
  • پانچواں باب: پانچویں باب میں حصول علم کا وقت، مقدار اور پہلے درس کی ترتیب زیر بحث لائی ہے۔ مؤلف کے مطابق حصول علم کی ابتداء میں مبتدی کو چاہئے کہ وہ اتنا علم سیکھیں کہ کم از کم دو مرتبہ مراجعہ کرنے پر وہ اسے سمجھ لیں۔ اس طرح پہلی کلاس میں ایسے مطالب پر اکتفاء کیا جائے جنہیں طالب علم آسانی سے سمجھ سکیں۔[17]
  • چھٹا باب: چھٹا باب توکل کے بارے میں ہے۔ طالب علم کو اپنی توانائی رزق و روزی کی تلاش میں صرف نہیں کرنا چاہئے بلکہ حصول علم میں صبر سے کام لینا چاہئے تاکہ دنیوی لذات سے بالاتر لذات تک انسان کو رسائی حاصل ہو۔[18]
  • ساتواں باب: اس فصل کا عنوان حصول علم کا زمانہ ہے۔ مؤلف کے مطابق حصول علم کا بہترین دور جوانی کا دور ہے اور بہترین وقت سَحر اور نماز مغرب و نماز عشا کا درمیانی وقت ہے۔[19]
  • آٹھواں باب: آٹھواں باب استاد اور شاگرد کی دلسوزی اور خیرخواہی سے متعلق ہے۔ عالم کو مہربان اور خیرخواہ نیز حسد سے پرہیز کرنا چاہئے اسی طرح طالب علم کو بھی ہر قسم کی نزاع اور دشمنی سے پرہیز کرنا چاہئے۔[20]
  • نواں باب: یہ باب شاگرد کا استاد سے کسب فیض کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں ہے۔ طالب کو ہمیشہ حصول علم میں مشغول ہونا چاہئے ور ہر وقت اس کے پاس کاغذ و قلم ساتھ ہونا چاہئے تاکہ دانشمندوں سے جو بھی سنے اسے یادداشت کرے۔[21]
  • دسواں باب: دسواں باب حصول علم میں نہایت تقوا اور پرہیزگاری کی ضرورت کے بارے میں ہے۔ شاگرد چتنا متقی ہو گا حصول علم اس کے لئے آسان اور اس کے فوائد اس کے لئے زیادہ ہونگے۔[22]
  • گیارہواں باب: گیارہواں باب ان ابحاث پر مشتمل ہے جو علوم کی یادگیری اور فراموشی کا سبب بنتی ہیں۔ اس فصل میں حافظہ کی تقویت کا سب سے اہم عامل ان چیزوں کو قرار دی گئی ہیں: حصول علم میں سنجیدگی، کم‌ خوری، نماز شب اور قرآن کی تلاوت۔ اسی طرح گناہ کی کثرت اور زیادہ دنیا کی فکر کرنا علم کی فراموشی اور حافظہ کے کمزور ہونے کا سبب ہوتی ہیں۔[23]
  • بارہواں باب: بارہواں اور آخری فصل رزق‌ و روزی کے کم یا زیادہ ہونے نیز عمر کے طولانی اور مختصر ہونے کے عوامل کے بارے میں ہے۔ مصنف پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ دعا رزق و روزی میں اور نیکی انسان کی عمر میں اضافہ ہونے کا سبب ہے جبکہ گناہ خاص کر جھوٹ بولنا تنگدستی کا موجب ہے۔[24]

شرح‌ اور ترجمے

چودہویں صدی ہجری کے شیعہ کتاب شناس آقا‌بزرگ تہرانی کے مطابق کتاب آداب المتعلمین پر مختلف شروح‌ لکھی گئی ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  1. بیان الآداب تالیف: محمدمؤمن بن محمد‌قاسم جزائری شیرازی (ولادت: 1074ھ)؛[25]
  2. اَللُّؤلُؤ الثَّمين فی شرحِ آداب المتعلِّمین تالیف: ابوالحسن سلیمان بن عبداللہ ماحوزی (متوفی 1121ھ)؛[26]
  3. ہدایَۃ الطّالبین فی شرحِ آدابِ المتعلمین تالیف: سید محمود موسوی دہسرخی اصفہانی.[27]

اسی طرح اس کتاب کے مختلف ترجمے درج ذیل عناوین کے تحت شایع ہو چکے ہیں:

اشاعت

آداب المتعلمین کتاب جامع المقدمات کے ضمن میں شایع ہوتی چلی آ رہی ہے اور اس کے مختلف نسخے ایران (تہران، مشہد، قم اور ہمدان)، پاکستان، مصر وغیره میں موجود ہیں۔[33] اس کتاب کا ایک نسخہ مصری محقق یحیی خَشاب کی تحقیق کے ساتھ مجلہ "معہد المخطوطات العربیہ" میں سنہ 1376ھ کو قاہرہ میں شایع ہوا ہے۔[34] سید محمد‌ رضا حسینی جلالی نے اس کتاب کے مختلف نسخوں اور طباعتوں کی طرف استناد کرتے ہوئے سنہ 1416ھ میں اس کتاب کو مستقل طور پر جامع المقدمات سے الگ شایع کیا ہے۔[35]

حوالہ جات

  1. عطایی نظری، «نگاہی اجمالی بر آداب المتعلّمین‌ہا و جایگاہ آن در نظام اخلاقی حوزہ»، ج21، ص8.
  2. میری، «نگاہی بہ کتابہای اخلاقی ویژہ حوزویان»، ص297؛ مولوی، «آداب المتعلمین»، ص165.
  3. عطایی نظری، «نگاہی اجمالی بر آداب المتعلّمین‌ہا و جایگاہ آن در نظام اخلاقی حوزہ»، ج21، ص8.
  4. آقا‌بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج 1، ص 27.
  5. علامہ مجلسی، بحار‌الانوار، 1403ھ، ج1، ص42.
  6. موسوی خوانساری، روضات الجنات، 1390ہجری شمسی، ج6، ص304.
  7. مدرس، ریحانۃ الادب، 1395ہجری شمسی، ج2، ص91.
  8. جہانبخہجری شمسی، «درنگی دیگر در انتساب آداب المتعلمین بہ استا‌ذ البشر»، ص179-181.
  9. کتابی، «ملاحظاتی دربارہ رسالہ آداب المتعلمین و مولف آن»، ص189.
  10. «کتاب آداب المتعلمین»، سایت درس‌گفتار.
  11. حسینی جلالی، «مقدمہ بر آداب المتعلمین»، ص25.
  12. نصیرالدین طوسی، «آداب المتعلمین»، ص49.
  13. نصیرالدین طوسی، «آداب المتعلمین»، ص49-50.
  14. نصیرالدین طوسی، «آداب المتعلمین»، ص50.
  15. نصیرالدین طوسی، «آداب المتعلمین»، ص51.
  16. نصیرالدین طوسی، «آداب المتعلمین»، ص53.
  17. نصیرالدین طوسی، «آداب المتعلمین»، ص53-54.
  18. نصیرالدین طوسی، «آداب المتعلمین»، ص55.
  19. نصیرالدین طوسی، «آداب المتعلمین»، ص56.
  20. نصیرالدین طوسی، «آداب المتعلمین»، ص56.
  21. نصیرالدین طوسی، «آداب المتعلمین»، ص57.
  22. نصیرالدین طوسی، «آداب المتعلمین»، ص57.
  23. نصیرالدین طوسی، «آداب المتعلمین»، ص58-59.
  24. نصیرالدین طوسی، «آداب المتعلمین»، ص59.
  25. آقا‌بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج 3، ص 175.
  26. آقا‌بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج 18، ص 382.
  27. آقا‌بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج 25، ص 182.
  28. آقا‌بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج 4، ص 39.
  29. «تقدیم»، سایت موعود.
  30. آقا‌بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج 4، ص 73.
  31. ذہنی تہرانی، انیس الطالبین، 1370ہجری شمسی، ص4.
  32. «کتاب آداب المتعلمین»، سایت ایران‌کتاب.
  33. میری، «نگاہی بہ کتابہای اخلاقی ویژہ حوزویان»، ص297؛ مولوی، «آداب المتعلمین»، ص165.
  34. حسینی جلالی، «مقدمہ بر آداب المتعلمین»، ص24.
  35. حسینی جلالی، «مقدمہ بر آداب المتعلمین»، ص22.

مآخذ

  • آقا‌بزرگ تہرانی، محمد‌محسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الاضواء، 1403ھ۔
  • «تقدیم»، سایت موعود، تاریخ بازدید: 17 مہر 1402ہجری شمسی۔
  • حسینی جلالی، سید محمد‌رضا، «مقدمہ بر آداب المتعلمین»، در آداب المتعلمین، تحقیق محمدرضا حسینی جلالی، شیراز، کتابخانہ مدرسہ علمیہ امام عصر (عج)، چاپ اول، 1416ھ۔
  • جہانبخہجری شمسی، جویا، «درنگی دیگر در انتساب آداب المتعلمین بہ استا‌ذ البشر»، در فصلنامہ اخلاھ، شمارہ ـ 1، پاییز 1384ہجری شمسی۔
  • ذہنی تہرانی، سید محمد‌جواد، انیس الطالبین، قم، حاذھ، 1370ہجری شمسی۔
  • عطایی نظری، حمید، «نگاہی اجمالی بر آداب المتعلّمین‌ہا و جایگاہ آن در نظام اخلاقی حوزہ»، در فصلنامہ اخلاھ، شمارہ 21، پاییز 1389ہجری شمسی۔
  • علامہ مجلسی، محمد‌باقر، بحار‌الانوار، تہران، موسسہ وفا، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • «کتاب آداب المتعلمین»، سایت ایران‌کتاب، تاریخ بازدید: 22 مہر 1402ہجری شمسی۔
  • «کتاب آداب المتعلمین»، سایت درس‌گفتار، تاریخ بازدید: 23 مہر 1402ہجری شمسی۔
  • کتابی، بدر الدین،«ملاحظاتی دربارہ رسالہ آداب المتعلمین و مولف آن»، در مجلہ نامہ فرہنگ، شمارہ 28، زمستان 1376ہجری شمسی۔
  • مدرس، محمد‌علی، ریحانۃ الادب، قم، موسسہ امام صادق(َع)، 1395ہجری شمسی۔
  • موسوی خوانساری، محمد‌باقر، روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، قم، اسماعیلیان، چاپ اول، 1390ہجری شمسی۔
  • مولوی، محمد‌علی، «آداب المتعلمین»، در دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، تہران، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، چاپ دوم، 1369ہجری شمسی۔
  • میری، سید عباس، «نگاہی بہ کتابہای اخلاقی ویژہ حوزویان»، در مجلہ حوزہ، شمارہ 68 ـ 69، خرداد، تیر، مرداد و شہریور 1374ہجری شمسی۔
  • نصیر الدین طوسی، محمد بن محمد، «آداب المتعلمین»، در جامع المقدمات، تصحیح مدرس افغانی، جلد دوم، قم، موسسہ انتشارات ہجرت، بی‌تا.