اسلاف پیغمبر کا ایمان
اسلاف پیغمبر کا ایمان، سے مراد حضرت محمدؐ کے آبا و اجداد کے موحد ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ شیعہ اور بعض اہل سنت علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ آپؑ کے آبا و اجداد سب کے سب موحد اور یکتا پرست تھے۔ اس نظریے کے ماننے والوں کے مطابق بہت ساری آیات اور احادیث اس چیز کے اوپر دلالت کرتی ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ غیرمشرک اسلاف کے صلب سے دنیا میں آئے ہیں اسی بنا پر یہ حضرات آزر جو کہ مشرک تھا کو حضرت ابراہیم کا والد ماجد نہیں مانتے ہیں۔
بعض اہل سنت علماء حضرت ابراہیم کی زندگی میں آزر کے کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کے اسلاف میں مشرک بھی موجود تھے۔
اہمیت اور مقام
پیغمبر اکرمؐ کے اسلاف کا یکتا پرست یا مشرک ہونا اسلامی مذاہب کے درمیان اختلافی مسائل میں سے ہے۔[1] اس سلسلے میں کئی کتابیں اور مقالات تحریر کئے جا چکے ہیں اس کے علاوہ مختلف کتابوں میں اس بحث کے لئے علیحدہ ابواب یا فصول بھی مختص کئے گئے ہیں۔[2] اہل سنت عالم دین جلال الدین سیوطی (متوفی: 911ھ) نے اس سلسلے میں مختلف کتابیں تحریر کی ہے۔[3]
کیا پیغمبر اکرمؑ کے تمام آبا و اجداد موحد تھے؟
شیخ صدوق (متوفی: 380ھ) کہتے ہیں کہ ہمارا اعتقاد ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے آبا و اجداد حضرت آدم سے لے کر عبد اللہ تک سب کے سب مسلمان (عام معنی میں یا خدا کے سامنے تسلیم خم کے معنی میں) تھے۔[4] شیخ مفید (متوفی: 413ھ) کے مطابق تمام اہل حق اس بات پر متفق ہیں کہ پیغمبر اکرمؑ کے اسلاف حضرت آدم تک سب کے سب موحد اور خدا پر ایمان رکھتے تھے۔[5] اہل سنت مفسر آلوسی (متوفی: 1270ھ) اس عقیدے کو شیعوں کے ساتھ مختص ہونے کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فخر رازی نے مکمل تحقیق کئے بغیر اس عقیدے کو صرف شیعوں کے ساتھ مختص قرار دیا ہے۔[6]
شیعہ متکلمین نصیر الدین طوسی (متوفی: 672ھ) اور علامہ حلی (متوفی: 726ھ) نے تجرید الاعتقاد اور اس کی شرح میں تمام انبیا کے اسلاف کو ہر قسم کی پلیدی اور رجس سے مبرا ہونے کو ضروری قرار دیا ہے۔[7] اسی طرح اشعری مذہب کے متکلم علاء الدین قوشچی (متوفی: 879ھ) نے تجرید الاعتقاد کی شرح میں لکھا ہے کہ انبیا کے اسلاف کو شرک سے مبرا ہونا چاہئے۔[8]
دلائل
قرآنی آیات
- آیہ تقلبک فی الساجدین: اہل سنت عالم دین فخر رازی کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کے اسلاف کے ایمان کو ثابت کرنے کے لئے رافضہ (شیعہ) اس آیت سے استناد کرتے ہیں۔[9] شیخ طوسی (متوفی: 460ھ) کہتے ہیں کہ ابنعباس کے مطابق اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ دنیا میں آنے تک پاک اور منزہ اصلاب سے ایک دوسرے میں منقل ہوا ہے۔[10] فضل بن حسن طبرسی (متوفی: 548ھ) اپنی کتاب مجمع البیان میں ساجد یعنی خدا کے سامنے سجدہ ریز ہونے کو پیغمبر اکرمؐ کے اسلاف کی صفت قرار دیتے ہیں۔[11]
- سورہ بقرہ آیت نمبر 128 میں حضرت ابراہیم کی دعا: حضرت ابراہیم نے اپنی اولاد کے مسلمان ہونے کی دعا کی اور سورہ زخرف کی آیت نمبر 30 میں اس دعا کو مستجاب قرار دی گئی ہے۔ پیغمبر اکرمؐ کے تمام اسلاف حضرت ابراہیم کی نسل سے ہیں اور پیغمبر اکرمؐ خود بھی اپنے آپ کو اس آیت کا مصداق قرار دیتے تھے۔[12]
احادیث
«ایمان اجداد پیغمبر» نامی مقالے کے مقالہ نگار نے اس سلسلے میں موجود احادیث کو پانچ گروہوں میں تقسیم کیا ہے:
- وہ احادیث جن میں پیغمبر اکرمؐ کے اسلاف کے ایمان کی تصریح کی گئی ہے۔
- وہ احادیث جن میں کہا گیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ پاک اصلاب اور ارحام سے اس دنیا میں آئے ہیں۔
- وہ احادیث جن میں پیغمبر اکرمؐ کے خاندان کو بہترین گروہ اور خاندان میں سے قرار دیا گیا ہے۔
- وہ احادیث جن میں پیغمبر اکرمؐ کو انبیا کے اصلاب میں سے قرار دیتی ہیں۔
- وہ احادیث جن میں تصریح کی گئ ہے کہ جس صلب سے پیغمبر اکرمؐ دنیا میں آئے ہیں اس پر جہنم کی آگ حرام ہے۔[13] مثال کے طور پر الکافی میں آیا ہے کہ جہنم اس پشت، شکم اور دامن پر حرام ہے جس سے پیغمبر اکرمؐ اس دنیا میں آئے ہیں اور آپ کی کفالت کی ہے۔[14] اسی طرح امالی شیخ طوسی میں پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے: میرا نطفہ صلب آدم سے میرے جد امجد تک ہمیشہ پاک و منزہ اصلاب اور ارحام میں منتقل ہوتا رہا ہے اور ہرگز جاہلیت کی نجاست سے آلودہ نہیں ہوا ہے۔[15]اس طرح کی احادیث اہل سنت مآخذ میں بھی نقل ہوئی ہیں۔[16]
انبیا کی دعوت کی قبولیت ان کے اسلاف کے موحد ہونے پر موقوف ہے
شیعہ مفسر ابوالفتوح رازی کے مطابق عقلی طور پر تمام انبیا کے اسلاف موحد تھے؛ کیونکہ انبیا کی دعوت کو ان چیزوں سے مبرا ہونا چاہئے جن سے لوگ متنفر ہوتے ہیں ورنہ ان چیزوں کی وجہ سے لوگ ان کی دعوت کو قبول کرنے سے اجتناب کریں گے[17] اور انبیا کی دعوت کے مقابلے میں لوگ کہیں گے کہ خود آپ کی اسلاف مشرک تھے۔[18] اسی طرح خدا نے مشرکین کو نجس قرار دیا ہے؛ اس بنا پر یہ بات معقول نہیں ہے کہ جس شخص کو نجس لوگوں کو پاک کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے خود نجس زادہ ہو۔[19]
آزر اور بعض احادیث سے استناد کرتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ کے اسلاف کے ایمان میں تردید
اشعری مذہب کے متکلم فخر رازی (متوفی: 606ھ) تمام انبیا کے اسلاف کے موحد ہونے کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس عقیدے کو شیعوں کے ساتھ مختص قرار دیتا ہے۔[20] سلفی عالم دین ابن تیمیہ (متوفی: 728ھ) نیز اپنی کتاب مجموع الفتاوی میں پیغمبر کرمؐ کے اسلاف کو کافر قرار دیتا ہے۔[21] رشید رضا (متوفی: 1935م) نیز اس بات کے معتقد ہیں کہ انبیاء کے اسلاف کے موحد اور پاک ہونے کا عقیدہ قرآن اور صحیح احادیث کے ظاہر سے متصادم ہے۔[22]رشید رضا بعض احادیث جن کا مفہوم پیغمبر اکرمؐ کے والد ماجد کا کافر اور جہنمی ہونا ہے، سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ممکن ہے بعض انبیاء کے اسلاف مشرک ہوں۔[23] اسی طرح پیغمبر اکرمؐ کے اسلاف کے موحد ہونے کے مخالفین اس بات کے معتقد کہ چونکہ آزر حضرت ابراہیم کے والد بت پرست تھے پس تمام انبیاء کے اسلاف موحد نہیں تھے۔[24]
اس کے مقابلے میں اسلاف انبیاء کے موحد ہونے کے قائلین آزر کو حضرت ابراہیم کے چچا اور سرپرست مانتے ہیں نہ والد۔[25] تفسیر المیزان کے مصنف علامہ طباطبائی (متوفی: 1360ہجری شمسی) حضرت ابراہیم کے والد کو آزر کے علاوہ کوئی اور شخص قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ حضرت ابراہیم نے بڑاپے میں اپنے والد کے لئے طلب مغفرت کی ہیں[26] اور انہوں نے اس دعا میں "اَب" کی تعبیر کی بجائے "والد" کی تعبیر استعمال کی ہیں۔[27]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ مدنی بجستانی، «ایمان اجداد رسولخدا»، ص162۔
- ↑ مدنی بجستانی، «ایمان اجداد رسولخدا»، ص188۔
- ↑ مدنی بجستانی، «ایمان اجداد رسولخدا»، ص166۔
- ↑ شیخ صدوق، الاعتقادات، 1413ھ، ص110۔
- ↑ شیخ مفید، تصحیح اعتقادات الامامیہ، 1413ھ، ص139۔
- ↑ آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج4، ص184۔
- ↑ علامہ حلی، کشف المراد، 1422ھ، ص472۔
- ↑ قوشچی، شرح تجرید العقائد، منشورات رضی، ص359۔
- ↑ فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج24، ص537۔
- ↑ شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج8، ص68۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج7، ص356۔
- ↑ مدنی بجستانی، «ایمان اجداد رسولخدا»، ص170-171۔
- ↑ مدنی بجستانی، «ایمان اجداد رسول خدا»، ص175-176۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص446، ح21۔
- ↑ شیخ طوسی، الأمالی، 1414ھ، ص500، ح1095۔
- ↑ طبرانی، المعجم الکبیر، 1415ھ، ج11، ص362؛ الحلبی، السیرۃ الحلبیۃ، 2006م، ج1، ص44؛ الہیثمی، مجمع الزوائد، 1414ھ، ج7، ص86۔
- ↑ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1376ہجری شمسی، ج7، ص340۔
- ↑ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1376ہجری شمسی، ج7، ص340۔
- ↑ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1376ہجری شمسی، ج7، ص340۔
- ↑ ملاحظہ کریں: فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج13، ص31-34۔
- ↑ ابنتیمیہ، مجموع الفتاوی، 1416ھ، ج1، ص144۔
- ↑ رشیدرضا، المنار، 1990م، ج7، ص451-454۔
- ↑ رشیدرضا، المنار، 1990م، ج7، ص451۔
- ↑ رشیدرضا، المنار، 1990م، ج7، ص449۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1371ہجری شمسی، ج7، ص164-165۔
- ↑ سورہ ابراہیم، آیہ41۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1371ہجری شمسی، ج7، ص164-165۔
مآخذ
- ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، تصحیح یاحقی، محمدجعفر یاحقی، بنیاد پژوہش ہای اسلامی آستان قدس رضوی، مشہد مقدس، 1376ہجری شمسی۔
- آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، تحقیق: علی عبدالباری عطیہ، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1415ھ۔
- ابنتیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، مجموع الفتاوی، تحقیق: عبدالرحمان بن محمد بن قاسم، مدینہ، مجمع الملک فہد، 1416ھ۔
- الحلبی الشافعی، علی بن ابراہیم، السیرۃ الحلبیۃ، تحقیق: عبداللہ محمد الخلیلی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، 2006م۔
- رشیدرضا، محمد، تفسیر المنار، مصر، الہیئۃ المصریۃ للکتاب، 1990م۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، 1413ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دار الثقافہ، 1414ھ۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق: احمد قصیر عاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا۔
- طبرانی، ابوالقاسم، المعجم الکبیر، تحقیق: حمدی بن عبدالمجید السلفی، قاہرہ، مکتبۃ ابن تیمیہ، 1415ھ۔
- شیخ مفید، محمد بن محمد، تصحیح اعتقادات الامامیۃ، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، 1413ھ۔
- طباطبائی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان، 1371ہجری شمسی۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1415ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، تصحیح: حسن حسنزادہ آملی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ نہم، 1422ھ۔
- فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1420ھ۔
- قوشچی، علاءالدین، شرح تجرید العقائد، قم، منشورات رضی-بیدار-عزیزی، بیتا۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
- مدنی بجستانی، سید محمود، «ایمان اجداد رسول خدا»، فصلنامہ میقات حج، ش44، تابستان 1382ہجری شمسی۔
- الہیثمی، علی بن ابیبکر، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، تحقیق: حسام الدین قدسی، قاہرہ، مکتبۃ القدسی، 1414ھ۔