آیت خلافت انسان
آیت کی خصوصیات | |
---|---|
آیت کا نام | آیت خلافت انسان |
سورہ | بقرہ |
آیت نمبر | 30 |
پارہ | 1 |
صفحہ نمبر | 6 |
شان نزول | تخلیق انسان پر فرشتوں کا اعتراض |
محل نزول | مدینہ |
موضوع | عقیدتی |
مضمون | ملائکہ کو خلافت انسان کا اعلان |
مربوط آیات | آیت استخلاف |
آیت خلافت انسان سورہ بقرہ کی تیسویں آیت ہے جو زمین پر انسان کی خلافت اور اس کے بارے میں خدا اور فرشتوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سے متعلق ہے۔ آیت میں انسان کی خلافت کا اعلان، وجہِ خلافت کے بارے میں فرشتوں کا سوال اور انسان کی خصوصیات کے بارے میں ان کے علم کا ذریعہ اور انسان کی تخلیق میں خدا کے مقصد جیسے موضوعات کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
انسان کس کا خلیفہ اور جانشین ہے؟ اس سلسلے میں مفسرین نے تین مختلف نظریات بیان کیے ہیں: انسان زمین پر رہنے والے فرشتوں کا جانشین ہے، پچھلے انسانوں اور مخلوقات کا جانشین ہے، خدا کا جانشین ہے۔ بعض علما کے مطابق خلافت سے مراد زمین پر انسان کی حکمرانی ہے۔
زمین پر انسانوں کی طرف سے فساد پھیلانے اور خونریزی کرنے کے بارے میں فرشتے کیسے آگاہ تھے؟ اس سلسلے میں مفسرین نے کئی احتمالات بیان کیےہیں؛ ان میں سے بعض یہ ہیں: انسان کی طبیعت و فطرت کا تقاضا ہے، روئے زمین پر بسنے والے سابقہ جنّات سے موازنہ کرتے ہوئے ایسا خیال کیا گیا اور فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی خصوصیات سے آگاہ کیا۔ فرشتوں کا سوال اعتراض کے لیے نہیں تھا بلکہ وہ حقیقتِ خلافت سے آگاہ ہونا چاہتے تھے۔
قرآنی علوم کے ماہرین کے مطابق آیت کے آخری حصے میں آدم کی تخلیق کے مقصد کو بیان کیا گیا ہے اور اس کے لیے کئی مصادیق پیش کیے ہیں؛ منجملہ بعض یہ ہیں: علم و دانش، سچی اطاعت اور آدم کی نسل میں والا مقام انسانوں کا وجود۔
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۤٮِٕكَةِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً ۗ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاۤءَۚ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَـكَۗ قَالَ اِنِّىْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
(اے رسول وہ وقت یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر ایک خلیفہ (جانشین) بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا کیا تو اس میں اس کو (خلیفہ) بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا۔ حالانکہ ہم تیری حمد و ثناء کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور تیری تقدیس (پاکیزگی بیان) کرتے ہیں۔ فرمایا: یقینا میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ (سورہ بقرہ، آیت نمبر 30)
آیت کا تعارف
سورہ بقرہ کی آیت نمبر 30 خدا کی طرف سے زمین پر انسان کو خلیفہ بنانے کے اعلان اور اس خلافت کے بارے میں خدا سے فرشتوں کے سوال و جواب سے متعلق ہے۔ یہ آیت ان دس آیات کا سرنامہ ہے جن میں نظام تخلیق میں انسان کے مقام، اس کی خصوصیات، اس کی استعداد و صلاحیتوں، حقیقت خلافت اور اس کے اثرات اور زمین پر انسان کے ہبوط وغیرہ کا تذکرہ کیا گیا ہے۔[1]
آیت میں بیان شدہ مطالب
آیت کے تین حصے ہیں اور یہ تینوں حصے فرشتوں کے ساتھ خدا کی گفتگو سے متعلق ہیں۔ پہلا حصہ خدا کی طرف سے انسانی خلافت کے اعلان سے متعلق ہے، دوسرے حصے میں وجہِ خلافت کے بارے میں فرشتوں کے سوال اور آخری حصہ تخلیق انسان کے بارے میں خدا کے علم سے متعلق ہے۔
روئے زمین پر انسانی خلافت کا اعلان
اس آیت میں، خدا نے فرشتوں سے زمین پر انسان کی جانشینی کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ انسان کی جانشینی سے کیا مراد ہے؟ مفسرین نے اس کے بارے میں متعدد احتمالات پیش کیے ہیں: خدا کی جانشینی، انسانوں اور گذشتہ مخلوقات کی جانشینی، فرشتوں کی جانشینی اور خلافت یعنی انسانوں کی حکمرانی۔
- خدا کی جانشینی: بعض مفسرین کے مطابق آیت میں خلافت سے مراد زمین پر خدا کی طرف سے انسان کی جانشینی ہے[2] اور ان کی طرف سے اس مدعا کی دلیل یہ ہے کہ اللہ نے حضرت آدم کو اسمائے الہی کی تعلیم دی اور فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ آدمؑ کو سجدہ کریں۔ جس کا ذکر بعد والی آیات میں آیا ہے۔[3]
- گذشتہ انسانوں اور دیگر مخلوقات کی جانشینی: بہت سے مفسرین کا عقیدہ ہے کہ انسانوں کے لیے خدا کی طرف سے جانشینی ممکن نہیں، حتیٰ کہ یہ انبیاء کے لیے بھی ممکن نہیں؛ کیونکہ خدا کی جانشینی کا لازمہ یہ ہے کہ انسان خدا کی الوہیت میں اور زمین پر خدا کی عدم موجودگی میں اس کا جانشین بنے۔ اس کے علاوہ، وہ انسان جو خونریزی اور فساد پھیلانے کی خصوصیت رکھتا ہے وہ خدا کا جانشین بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ اسی لیے مفسرین آیت میں خلافت سے گذشتہ انسانوں اور مخلوقات کی جانشینی مراد لیتے ہیں۔ جو اس سے پہلے زمین پر رہ چکے ہیں۔[4]
- فرشتوں کی جانشینی: تفسیر مخزن العرفان کی مصنفہ سیدہ نصرت امین ابن عباس کی ایک روایت نقل کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ فرشتوں سے پہلے روئے زمین پر نسناس رہتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر ان کا جانشین بنایا ہے۔[5]
- خلافت سے مراد حاکمیت ہے: بعض مفسرین کے مطابق زمین پر خلافت انسانی سے مراد اس کی حاکمیت اور حکمرانی ہے۔[6]
انسان کو خلیفہ بنانے پر فرشتوں کا اللہ سے سوال
خدا اور فرشتوں کے درمیان ہونے والی گفتگو میں فرشتوں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ خدا نے ایک ایسے موجود کو اپنا جانشین کیوں بنایا ہے جو زمین پر فساد اور خونریزی کرے گا؟ فرشتوں کو انسانی خصوصیات کا علم کیسے ہوا؟ اس سلسلے میں مفسرین نے کئی احتمالات بیان کیے ہیں: جن میں سے ایک یہ کہ انسانوں کی مادی طبیعت ایسی ہے، دوسرا یہ کہ زمین پر رہنے والے جنّات اور دوسرے گذشتہ مخلوقات انہی صفات کے مالک تھے، تیسرا یہ کہ ان انسان کی ان خصوصیات کے بارے میں خدا نے فرشتوں کو آگاہ کیا۔ یہاں فرشتوں کا سوال معترضانہ نہیں تھا بلکہ وہ حقیقت کو جاننا چاہتے تھے۔[7]
- جنات اور زمین پر رہنے والے گذشتہ باشندوں سے موازنہ: بعض مفسرین کا خیال ہے کہ حضرت آدم سے پہلے جنّات روئے زمین پر رہتے تھے اور فساد اور خونریزی ان کی خصوصیات تھیں۔ اسی وجہ سے جنوں اور انسانوں کے کاموں کا موازنہ کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔[8]
- انسانی مادی طبیعت: علامہ طباطبائی سمیت بعض مفسرین کا خیال ہے کہ فرشتے اس بات سے آگاہ تھے کہ انسان کی سرشت میں غضب اور خواہشات دونوں شامل ہیں اور چونکہ مادی دنیا محدود ہے اور اس میں خواہشات کے پوری ہونے کے لحاظ سے تصادم برقرار رہتا ہے اور یہ چیز فساد اور خونریزی کا باعث ہے؛ اس لیے فرشتوں کی جانب سے سوال اٹھایا گیا؛ اس لیے وہ روئے زمین پر ایسے موجود کی خلافت کی وجہ کو سمجھنا چاہتے تھے۔[9] بنابرایں فرشتوں کا سوال اس لیے تھا کہ وہ کسی نامعلوم چیز کا علم حاصل کریں اور وہ ارادہ خداوندی اور مشیت الہی کو ہرگز زیر سوال نہیں کرنا چاہتے تھے۔[10]
- خدا کا فرشتوں کو آگاہ کرنا: بعض مفسرین کا خیال ہے کہ فرشتوں کے انسانی خصوصیات کے بارے میں علم کی اصل وہ سوال و جواب ہے جو ان کے اور اللہ تعالیٰ کے مابین ہوا، اللہ نے انہیں آگاہ کیا کہ اس نے انسانوں میں ایسی صفات رکھی ہیں۔ خدا کی طرف سے آگاہ ہونے کے بعد فرشتوں نے اس خلافت کی وجہ پوچھی ہے۔[11]
آدم کی تخلیق کا مقصد
قرآنی علوم کے ماہرین نے آیت کے آخری حصے کو آدم کی تخلیق کے مقصد سے تعبیر کیا ہے اور اس کے کئی مصادیق بیان کیے ہیں: علم و دانش، حقیقی اطاعت اور نسل آدم میں والا مقام انسانوں کا وجود۔
- علم و دانش: بعض مفسرین کے مطابق تخلیقِ آدم میں خدا کا ایک مقصد وہ علم و دانش ہے جو خدا نے آدم کو سکھایا؛ وہ علم ایسا تھا جو فرشتے حاصل نہیں کر سکتے تھے اور اس کا سیکھنا صرف حضرت آدمؑ کے لیے ممکن تھا اور وہ علم اتنا قیمتی تھا جوعبادت سے بھی زیادہ اہم تھا۔ ان مفسرین نے اپنے مدعا کی دلیل وہ آیات قرار دی ہے جو آیت خلافت کے بعد بیان ہوئی ہیں، جن میں آدم کے خدا کی طرف سے اسمائے الہی دریافت کرنے کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔[12]
- حقیقی اطاعت و فرمانبرداری: بعض دیگر مفسرین کے مطابق فرشتوں کی عبادت اور انسانوں کی اطاعت میں فرق پایا جاتا ہے، اور چونکہ انسان شیطانی وسوسوں اور اس کے فتنوں میں مبتلا ہوتے ہیں اس لیے ان کی اطاعت و فرمانبرداری ان فرشتوں کی عبادت سے کہیں زیادہ قیمتی ہے جنہیں اس قسم کے حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔[13]
- آدم کی نسل میں پاکیزہ انسانوں کا وجود: بعض مفسرین کے مطابق حضرت محمد (ص)، حضرت ابراہیمؑ، حضرت نوحؑ، حضرت موسیؑ، حضرت عیسیؑ نیز ائمہ معصومینؑ، شہدا اور صالحین اسی آیت کے مصادیق میں سے ہیں جو زمین پر خلافت الٰہیہ کے مستحق ہیں۔[14]
حوالہ جات
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج1، ص114؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج1، ص171۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج1، ص115؛ قرشی، تفسیر احسن الحدیث، 1375شمسی، ج1، ص91۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج1، ص172۔
- ↑ صادقی تہرانی، الفرقان، 1406ھ، ج1، ص280-283؛ مدرسی، من ہدی القرآن، 1419ھ، ج1، ص129۔
- ↑ امین، تفسیر مخزن العرفان، 1336شمسی، ج1، ص236۔
- ↑ جعفری، تفسیر کوثر، 1376شمسی، ج1، ص122۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج1، ص173۔
- ↑ سبزواری، ارشاد الاذہان، 1419ھ، ج1، ص11؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج1، ص158۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج1، ص115؛ فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج2، 385-390.
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج1، ص115۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1360شمسی، ج1، ص177؛ قرائتی، تفسیر نور، 1383شمسی، ج1، ص87۔
- ↑ انصاری، «خلافت در زمین»، ص999؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج1، ص117۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج1، ص174۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج1، ص175۔
مآخذ
- انصاری، مسعود، «خلافت در زمین»، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، تہران، انتشارات دوستان و انتشارات ناہید، 1377ہجری شمسی۔
- امین، نصرت بیگم، تفسیر مخزن العرفان در علوم قرآن، بیجا، بینا، 1336ہجری شمسی۔
- جعفری، یعقوب، تفسیر کوثر، قم، ہجرت، 1376ہجری شمسی۔
- سبزواری نجفی، محمد بن حبیب اللہ، ارشاد الاذہان الی تفسیر القرآن، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1419ھ۔
- صادقی تہرانی، محمد، الفرقان فی تفسیر القرآن بالقرآن و السنہ، قم، فرہنگ اسلامی، 1406ھ۔
- طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1390ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، 1372ہجری شمسی۔
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، 1412ھ۔
- فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1420ھ۔
- قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درسہایی از قرآن، 1383ہجری شمسی۔
- قرشی بنابی، علی اکبر، تفسیر احسن الحدیث، تہران، بنیاد بعثت، 1375ہجری شمسی۔
- مدرسی، محمدتقی، من ہدی القرآن، تہران، دار محبی الحسین، 1419ھ
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1371ہجری شمسی۔