حلم

ویکی شیعہ سے
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

ألحِلمُ وَ ألاناةَ تَوأمانِ تُنتِجُهَما عُلو الهِمَّةِ. (ترجمہ: صبر اور وقار دو ایسے ھمزاد ہیں جو ہمت کی بلندی سے متولد ہوتے ہیں.)

امام علیؑ، بحارالانوار ج۶۸، ص۴۲.

حلم، وہ اخلاقی فضیلت ہے کہ جس کی نسبت انسان اور خدا دونوں سے دی گئی ہے. یہ صفت انسان میں، دوسروں کے ساتھ بردباری اور زندگی میں سخت اور ناگوار حالات سے روبرو ہونے کے معنی میں ہے اور خدا کا حلیم ہونا یعنی، گناہگاروں کی سزا میں جلدی نہ کرنا جو کہ اس کے فضل کی وجہ سے ہے حالانکہ باوجود اس کے کہ وہ اس چیز کی توانائی رکھتا ہے اور سزا دے سکتا ہے. شیعہ احادیث کے مطابق، حلم باعث بنتا ہے کہ انسان اپنے کاموں میں میانہ روی اختیار کرے اور اس کے روح و روان کو سکون اور آرام ملتا ہے. عرفاء اور صوفیوں کی نگاہ میں، حلم روح کی سات صفتوں میں سے ایک اصلی صفت ہے، ایسی صفت جو کہ دوسری صفات کا سرچشمہ ہے. اور حلم حیاء، وقار اور تحمل کا منشاء ہے.

لفظی اور اصطلاحی معنی

إنْ لَمْ تَکُنْ حَلیما فَتَحَلَّمْ فَإِنَّهُ قَلَّ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ إِلاّ أَوشَکَ أَنْ یکونَ مِنْهُمْ (ترجمہ: اگر بردبار نہیں ہو خود کو بردبار کرنے کی کوشش کرو، کیونکہ بہت کم ایسے لوگ ہیں کہ جو خود کو بردبار بنانے کی کوشش کریں اور نہ بن سکیں.)

امام علیؑ، نہج البلاغہ، ترجمہ شہیدی، ص٣٩٦.

لفظ حلم، عربی مصدر ہے جس کے اصلی حروف ح ل م اور فارسی زبان میں اس کا معنی بردباری ہے. [1] اس کی مشبہ صفت حلیم ہے. حلم کا لفظی معنی بردباری کے علاوہ، تامل، اور گناہ گار کی سزا میں تاخیر کرنا، سخت غضب پر کنٹرول اور اسی طرح عقل کے معنی میں بھی ہے.[2] اور کم عقلی، کم مغزی اور بردبار نہ ہونا اس کے برعکس معانی ہیں.[3] عقل حلم کے حقیقی معنی سے نہیں ہے، لیکن چونکہ حلم کو سامنے لانے کا سبب عقل ہے، اسی لئے مجازی طور پر حلم کا معنی عقل بھی کیا گیا ہے. [4] دوسرے مفہوم جیسے صبر، وقار، عفو اور غصہ پی جانا، ان سب کا معنی بھی حلم کے نزدیک ہے، لیکن بعض نے ان مفاہیم اور حلم کے درمیان فرق بیان کیا ہے.[5]

قرآن میں

قرآن میں حلم کا لفظ استعمال نہیں ہوا، لیکن اس کا مشتق، حلیم، پندرہ بار آیا ہے.[6]قرآن میں، خدا اور انسان دونوں حلیم کی صفت سے استعمال ہوئے ہیں. گیارہ آیات میں، اس صفت کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے اور باقی آیات میں پیغمبروں جیسے، حضرت ابراہیم(ع)[7] حضرت اسماعیل(ع)[8] اور حضرت شعیب(ع) سے نسبت دی گئی ہے. [9] مفسرین نے خدا کا حلیم ہونا یعنی گناہکاروں کی سزا میں جلدی نہ کرنا کہا ہے، جو کہ اس کے فضل و کرم کی وجہ سے ہے حالانکہ وہ اس سزا دینے کی توانائی رکھتا ہے لیکن اس کے باوجود حلیم ہے. [10] حضرت ابراہیم(ع) کی حلیم ہونے کی صفت کافروں کی آزار و اذیت کے آگے صبر اور بردبار ہونے میں ملتی ہے.[11] مفسرین کے بقول، حضرت ابراہیم(ع) کو حلیم فرزند کی بشارت سنانے کا[12]معنی یہ ہے کہ یہ فرزند ایک ایسی عمر میں پہنچے گا کہ حلم اور وقار جیسی صفت اس میں ظاہر ہوں گی [13] اور یہی صفت، خدا کے سخت اور دشوار امتحان یعنی ذبح کرنے کے حکم،[14] کے مقابلے میں صبر کا باعث بنے گی.[15] سورہ ھود کی آیت ٨٧ کے مطابق کافر، اس صفت کو حضرت شعیب(ع) کے لئے استعمال کرتے تھے. بعض مفسرین نے کہا ہے کہ حضرت شعیب(ع) کا مذاق اڑانے کے لئے یہ استعمال کیا جاتا تھا اور آپکو نادان اور جاہل کہتے تھے. [16] بعض نے اس قول کے علاوہ یہ بھی کہا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ بات واقعی معنی میں استعمال ہوئی ہو، اس معنی میں کہ کافروں نے حضرت شعیب(ع) کا توحید اور عدل کی دعوت دینے کو اس کے حلیم اور رشید ہونے کے خلاف سمجھا ہے.[17] قرآن کی بعض آیات خدا اور انسان دونوں کے حلم کی گواہی دے رہی ہیں. مثلاً سورہ فرقان کی آیت ٦٣ میں لفظ ھوناً خدا کے بندوں کے حلم اور وقار کا ذکر (عباد الرحمن) جاہلوں کے ساتھ ملتے وقت کیسا ہے ہوتا ہے اس کی تفسیر کی ہے. [18] کظیم غیظ جو کہ تقریباً حلم کا مترادف ہے قرآن کریم کی آیات میں اس کو متقین اور محسنین کی صفات کہا گیا ہے.[19] اسی طرح سورہ نحل کی آیت ٦١ وَ لکِنْ یؤَخِّرُهُمْ اِلی اَجَلٍ مُسَمًّی خداوند کا حلم، ظالموں کو انکے ظلم پر سزا میں دیر کرنے پر دلالت کرتا ہے.[20] ظالموں کی سزا پر دیر کرنے پر دلالت کرتا ہے.

اسلام سے پہلے لوگوں کی نگاہ میں

حلم اسلام سے پہلے عربوں کی نگاہ میں بہت فضیلت رکھتی تھی اور اسے اپنے دین کا اہم جزء سمجھتے تھے. [21] قبیلے کے سردار کی ایک صفت، اسی طرح لوگوں کے درمیان فیصلہ اور قضاوت کرنے کی ایک لازمی شرط حلم تھی. وہ شخص سردار اور سیادت کے لائق ہوتا تھا جو اپنی قوم کی تکلیف اور اذیت کو برداشت کر سکے، اور انکی غلط اور بیہودہ رفتار سے چشم پوشی کر سکے اور جلدی غصے میں نہ آئے.[22] اس کے باوجود، بعض اوقات حلم کو ضعیف ہونے کی نشانی سمجھتے تھے. [23] گولدتسیہر،[24] اور اس کی پیروی کرتے ہوئے ایزوتسو،[25] نے زمانہ جاہلیت کے اشعار اور صدر اسلام کے متون میں دو لفظ حلم اور جہل کے استعمال کو مدنظر رکھتے ہوئے جہل کا اصلی متضاد حلم کہا ہے نہ کہ علم. اگرچہ علم بعض اوقات جہل کے مقابلے میں واقع ہوتا ہے، لیکن اس جگہ پر، جہل ثانوی معنی کے طور پر استعمال ہوا ہے. فی الواقع، حضرت پیغمبر(ص) کی بعثت سے پہلے والے دور کو جاہلیت کا دور کہنے کا مطلب نادانی کا زمانہ نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد، وہ زمانہ ہے جس میں تشدد طلبی، بی رحمی، انتقام جوئی اور خاندانی غرور حاکم تھا.[26] ان خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے، حلم کا حصول مشرک عرب کے لئے ایک دشوار کام تھا، اور اگر اسے حاصل کر بھی لیتے تو اس کی حفاظت طولانی مدت تک مشکل ہو جاتی، کیونکہ ان کے درمیان اس فضیلت کی کوئی محکم بنیاد موجود نہ تھی.[27] پیغمبر(ص) نے حلم کے معنی میں بنیادی تبدیلی ایجاد کی اور اس کو توحید جیسی محکم بنیاد پر استوار کیا. اسلام میں اہم ترین چیز جو جاہلیت کے مقابلے میں ہے، بتوں کی پرستش کا انکار، ستم گری اور غیر اخلاقی رفتار ہے. لہذا، جہل کا متضاد، پورے دین کی کی وسعت رکھنے والا معنی ہو سکتا ہے.[28]

احادیث میں

لَیسَ الْحَلیمُ مَنْ عَجَزَ فَهُجِمَ وَإِذا قَدَرَ انْتَقَمَ، إِنَّمَا الْحَلیمُ مَنْ إِذا قَدَرَ عَفا وَکانَ الْحِلْمُ غالِبا عَلی کلِّ أَمْرِهِ (ترجمہ: جب کوئی عاجزو ناتوان ہوجائے تو وہ حلیم نہ ہو اور جب توان و قدرت آ جائے تو انتقام لے وہ بردبار نہیں، بلکہ بردبار وہ ہے کہ اگرچہ قدرت رکھتا ہو لیکن معاف کرے اور بردباری اس کے تمام امور پر غالب ہو.)

امام علیؑ، غرر الحکم، ج ۵، ص۹۱.

احادیث میں حلم کظم غیظ اور نفس پر مسلط ہونے کے معنی میں ہے [29] اور نادان اور غضب حلم کے متضاد ہیں.[30] حلم کو خداوند کے چراغ سے تشبیہ دی گئی ہے، کہ جو قرب الہی تک پہنچنے والے راستے کو روشن کرتا ہے.[31] اسی طرح حلم کو بہترین عزت اور انسان کے بہترین دوست کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے.[32]اور اس کا شمار سات اجتماعی اصولوں میں کیا گیا ہے. [33] اس کے علاوہ، حلم دس اخلاقی فضیلت میں سے ایک ہے، اور رسولان الہی کی خصلت ہے، اور اسی طرح امام برحق ہونے کی ایک نشانی ہے.[34] اسی وجہ سے احادیث میں لوگوں کو حلم ورزی کی نصحیت کی گئی ہے.[35] اور ان کو کہا گیا ہے کہ اگر اس نیک خلق کے مالک نہیں ہیں تو خداوند سے اس خصلت کی درخواست کریں. [36] معصومین(ع)، نے حلم کی اصل اور اس کے لوازم اور نتائج کو بیان کرتے ہوئے، اس موضوع پر بہت زور دیا ہے. امام علی(ع) کے بیان کے مطابق، حلم کی جڑ اور اصل صبر، خاموشی اور بلند ہمتی میں ہے.[37] لیکن حلم پروردگار کی معرفت اور توحید کے اقرار کے بغیر، حاصل نہیں ہو سکتی.[38] اسی بارے میں امام صادق(ع) نے وہ جگہ جہاں انسان حلم سے کام لے اور مشکلات میں صبر و تحمل کرے کی طرف اشارہ کیا ہے.[39] احادیث کے مطابق، حلم اور کظم غیظ کے باعث انسان اپنے امور میں میانہ روی اختیار کرتا ہے اور یہ اس کے ذہنی سکون و آرامش کا باعث بنتی ہے. [40] اسی طرح انسان کے عیبوں پر پردہ ڈالتی ہے اور دنیا و آخرت میں انسان کا مقام بلند کرتی ہے.[41] بعض احادیث میں علم و ایمان کو حلم اور عقل کے درمیان رابطہ کہا گیا ہے. حلم، عقل اور علم کا نتیجہ[42]اور ان دونوں کے ارکان سے ہے.[43]اسی طرح حلم ایمان کے ارکان، [44] زاہد و اہل تقویٰ کی نشانی،[45] عدل کا ارکان اور قاضی کی ایک لازمی صفت[46] ہے اور عابدین کی شرائط میں سے ہے.[47]

حلم اخلاقی کتب میں

اخلاقی متون میں، حلم اور کظم غیظ وہ فضائل ہیں جو شجاعت کی فضیلت سے (اس کا مطلب یہ ہے کہ قوہ غضبیہ کی عقل سے فرمانبرداری) ناشی ہوتے ہیں. [48]حلم کو حسن خلق کی نشانی، اور عقل کا کمال تک پہنچنا اور اس کا غضب پر مسلط ہونے کو کہتے ہیں. نراقی کی نگاہ میں [49] حلم، شریف ترین انسانی کمال ہے، ایسا کہ علم اس کے بغیر کوئی سود نہیں رکھتا. علم اخلاق کے علماء نے حلم کو نفس کے غضب اور ناآرام ہونے کے مقابلے میں سکون اور آرامش کا معنی دیا ہے، ایسا کہ انسان بہت جلدی اور آسانی سے غضب ناک نہ ہو.[50]یحییٰ بن عدی[51] نے اس معنی کو عملی نگاہ سے دیکھا ہے اورشدید غضب کے وقت انتقام کے ترک کر دینے کو حلم کہا ہے اگرچہ انتقام لینے پر قادر ہو. حلم کے محقق ہونے کی ایک اور شرط یہ کہ حلم طاقتور انسان کی طرف سے کمزور انسان پر ہونا چاہیے، کیونکہ کمزور کا انتقام نہ لینا خوف کہلاتا ہے نہ کہ حلم. [52] راغب اصفہانی کی نگاہ میں[53]اس صفت کا کمال اس وقت ہے کہ جب انسان کے لئے غضب اور ظلم کرنے کی تمام شرائط موجود ہوں لیکن وہ پرہیز کرے. غزالی [54]اور نراقی،[55] نے حلم کو کظم غیظ سے بہتر کہا ہے. کیونکہ کظم غیظ وہی کر سکتا ہے جو ابھی حلم کے مرتبے تک نہ پہنچا ہو اور ابھی اس میں غضب ظاہر ہو سکتا ہو، لیکن وہ اس غضب کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہو. حلم عرفاء اور صوفیانہ نگاہ میں

مثنوی معنوی، دفتر اول عرفاء اور صوفیوں نے بھی حلم اور اس کی فضیلت کے بارے میں کم وبیش مطالب ذکر کئے ہیں. انہوں نے خدا کے حلم کو اس طرح بیان کیا ہے کہ عام طور پر خطا کار کو فوراً اپنے اعمال کی سزا دینے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس کے بھاگ جانے کا ڈر ہوتا ہے، اور کیونکہ خداوند اس ڈر سے منزہ ہے، اس لئے وہ گناہ کاروں کو سزا دینے میں حلم برتتا ہے اور یہی نکتہ ذات باری کے مطلق اقتدار کی علامت ہے.[56] انکے عقیدے کے مطابق، حلم روح کی سات صفات میں سے اصلی صفت ہے کہ دوسری صفات اسی سے ناشی ہوتی ہیں، جیسا کہ حلم وقار، حیاء اور دوسروں کی طرف سے پہنچنے والی اذیتوں کو سہنے کا منشا ہے.[57] سلوک کرنے والے کا آخری رتبہ، یعنی تسلیم اور رضا، بھی حلم سے ہی ناشی ہوتا ہے. [58]حلم تواضع، سخا اور حسن خلق کے ہمراہ قرب الہی کے سب سے اعلیٰ درجے تک پہنچ جاتا ہے، حتیٰ کہ اگر بندوں کا علم اور عمل کم ہو.[59] عبدالرزاق گیلانی کی نگاہ میں،[60] حلم کا اصلی کردار اور نتیجہ، انسان کو تانی (صبر) کی رحمانی صفت کی طرف دعوت دینا اور جلد بازی جیسی شیطانی صفت سے منع کرنا ہے. اس نتیجے کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سے دوسرے فوائد ناشی ہو سکتے ہیں، کیونکہ انسان کی زبانی اور عملی غلطیاں عام طور پر جلد بازی کی وجہ سے ہوتی ہیں.

حوالہ جات

  1. ابن فارس، ذیل واژه؛ بیهقی، ج ۱، ص ۳۴۰.
  2. رجوع کنید به خلیل بن احمد، ذیل واژه؛ ابن فارس، دیل واژه؛ عسکری، ص ۱۹۹ و ۲۰۰؛ راغب اصفهانی، ۱۳۳۲ش، ذیل واژه.
  3. ابن فارس، ص۱۹۹ و ۲۰۰؛ ابن منظور، ذیل واژه.
  4. راغب اصفهانی، ۱۳۳۲ش، ذیل واژه.
  5. رجوع کنید به عسکری، ص۷۴، ۱۹۷۲۰۰؛ غزالی، ج ۳، ص۱۷۵۱۷۷؛ فخررازی، ص۲۴۹؛ نراقی، ج ۱، ص۳۳۲۳۳۳
  6. رجوع کنید به محمدفؤاد عبدالباقی، ذیل واژه
  7. جوع کنید به توبه: ۱۱۴؛ هود: ۷۵
  8. رجوع کنید به صافّات: ۱۰۱
  9. رجوع کنید به هود: ۸۷
  10. رجوع کنید به طبری، ذیل بقره: ۲۲۵؛ طوسی، ذیل بقره: ۲۲۵، ۲۳۵؛ توبه: ۱۱۴
  11. رجوع کنید به طبری، توبه: ۱۱۴؛ طوسی، ذیل هود: ۷۵؛ طبرسی، ذیل توبه: ۱۱۴
  12. رجوع کنید به صافّات: ۱۰۱
  13. رجوع کنید به طبری؛ طوسی؛ طبرسی، ذیل آیه
  14. رجوع کنید به صافّات: ۱۰۲
  15. رجوع کنید به طباطبائی، ذیل صافّات: ۱۰۱
  16. رجوع کنید به طبری، ذیل آیه؛ ابن‌منظور، ذیل واژه؛ طریحی، ص۴۹۶؛ زبیدی، ذیل واژه
  17. رجوع کنید به نحّاس، ج ۳، ص۳۷۴؛ طوسی؛ طبرسی، قرطبی، ذیل آیه؛ قس طباطبائی، ذیل آیه که فقط وجه اخیر را صحیح می‌داند
  18. رجوع کنید به طبری؛ طوسی، ذیل آیه
  19. رجوع کنید به آل‌عمران: ۱۳۳۱۳۴؛ طبری؛ طوسی، ذیل آیه
  20. طبری، ذیل آیه
  21. جوادعلی، ج ۴، ص۵۷۴
  22. همان، ج ۴، ص۳۴۴، ۳۵۰، ۳۵۲
  23. گولدتسیهر، ج ۱، ص۲۰۵
  24. ولدتسیهر، ج ۱، ص۲۰۲۲۰۸
  25. گولدتسیهر، ص۲۸۳۶
  26. همان، ج ۱، ص۲۰۳، ۲۰۶
  27. ایزوتسو، ص۳۱
  28. گولدتسیهر، ج ۱، ص۲۰۷
  29. رجوع کنید به ابن‌شعبه، ص۲۲۵
  30. رجوع کنید به کلینی، ج ۱، ص۲۱، ج ۸، ص۱۴۸
  31. رجوع کنید به مصباح الشریعة، ص۱۵۴
  32. رجوع کنید به کلینی، ج ۲، ص۱۱۲، ج ۸، ص۱۹
  33. مصباح‌الشریعة، ص۶
  34. کلینی، ج ۱، ص۲۰۰، ج ۲، ص۵۶
  35. جوع کنید به ابن‌بابویه، ۱۴۱۷، ص۷۱۱
  36. کلینی، ج ۲، ص۵۶
  37. هج‌البلاغة، حکمت ۴۶۰؛ کلینی، ج ۸، ص۲۰
  38. رجوع کنید به مصباح الشریعة، ص۱۵۴
  39. رجوع کنید به همانجا
  40. رجوع کنید به کلینی، ج ۲، ص۵۱؛ مجلسی، ج ۷۵، ص۳۷۷۳۷۸
  41. نهج‌البلاغة، حکمت ۴۲۴؛ کلینی، همانجا؛ نیز رجوع کنید به ابن‌ماجه، ج ۲، ص۱۴۰۰
  42. بن‌شعبه، ص۱۵
  43. ابن‌بابویه، ۱۴۱۷، ص۴۷۸؛ ابن‌شعبه، ص۳۱۸
  44. کلینی، ج ۲، ص۴۲
  45. همان، ج ۲، ص۲۲۹؛ ابن‌بابویه، ۱۳۶۲ش، ج ۲، ص۴۸۳
  46. کلینی، ج ۲، ص۵۱؛ ابن‌شعبه، ص۱۳۵
  47. کلینی، ج ۲، ص۱۱۱
  48. غزالی، ج ۳، ص۷۰، ۱۷۶
  49. نراقی، ج ۱، ص۳۳۲
  50. رجوع کنید به مسکویه، ص۴۳؛ راغب‌اصفهانی، ۱۳۷۳ش، ص۳۴۲؛ نراقی، همانجا
  51. یحیی‌بن عدی، ص۱۲
  52. یحیی‌بن عدی، همانجا
  53. ۱۳۷۳ش، ص۲۴۳
  54. غزالی، ج ۳، ص۱۷۶
  55. نراقی، ج ۱، ص۳۳۳
  56. سمعانی، ص۲۸۰؛ ابن‌عربی، ج ۴، ص۲۴۰؛ گیلانی، ج ۲، ص۳۲۰
  57. رجوع کنید به نجم‌رازی، ص۴۲
  58. گیلانی، همانجا
  59. زالی، ج ۳، ص۵۲، به نقل از جُنَید بغدادی
  60. زالی، ج ۳، ص۵۲، به نقل از جُنَید بغدادی

مآخذ

  • قرآن.
  • نهج‌البلاغة، چاپ شیخ‌محمد عبده، بیروت، بی‌تا.
  • ابن‌بابویه، الامالی، قم ۱۴۱۷.
  • همو، کتاب الخصال، چاپ علی‌اکبر غفاری، قم ۱۳۶۲ش.
  • ابن‌شعبه، تحف‌العقول عن آل‌الرسول صلی‌اللّه علیهم، چاپ علی‌اکبر غفاری، قم ۱۳۶۳ش.
  • ابن‌عربی، الفتوحات المکیة، بیروت: دارصادر، بی‌تا.
  • ابن‌فارس.
  • ابن‌ماجه، سنن ابن‌ماجة، چاپ محمدفؤاد عبدالباقی،] قاهره ۱۳۷۳/ ۱۹۵۴، چاپ افست، بیروت، بی‌تا.
  • ابن‌منظور.
  • احمدبن علی بیهقی، تاج‌المصادر، چاپ هادی عالم‌زاده، تهران ۱۳۶۶۱۳۷۵ش.
  • جوادعلی، المفصّل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، بغداد ۱۴۱۳/۱۹۹۳.
  • خلیل‌بن احمد، کتاب‌العین، چاپ مهدی مخزومی و ابراهیم سامرائی، قم ۱۴۰۹.
  • حسین‌بن محمد راغب اصفهانی، کتاب الذریعة الی مکارم الشریعة، چاپ ابویزید عجمی، قاهره، ۱۴۰۷/ ۱۹۸۷، چاپ افست قم ۱۳۷۳ش.
  • همو، المفردات فی غریب القرآن، چاپ محمد سیدکیلانی، تهران، ۱۳۳۲ش.
  • محمدبن محمد زبیدی، تاج‌العروس من جواهرالقاموس، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۴.
  • احمدبن منصور سمعانی، روح‌الارواح فی شرح اسماء الملک الفتّاح، چاپ نجیب مایل هروی، تهران ۱۳۶۸ش.
  • طباطبائی.
  • طبرسی.
  • طبری، جامع.
  • فخرالدین‌بن محمد طریحی، تفسیر غریب‌القرآن الکریم، چاپ محمدکاظم طریحی، قم: زاهدی، بی‌تا.
  • طوسی.
  • حسن‌بن عبداللّه عسکری، معجم‌الفروق اللغویة، الحاوی لکتاب ابی‌هلال العسکری و جزءآ من کتاب السید نورالدین الجزائری، قم ۱۴۱۲.
  • محمدبن محمد غزالی، احیاء علوم‌الدین، بیروت: دارالندوة الجدیدة، بی‌تا.
  • محمدبن عمر فخررازی، شرح اسماء اللّه الحسنی للرازی، و هو الکتاب المسمی لوامع البینات شرح اسماءاللّه تعالی و الصفات، چاپ طه عبدالرؤوف سعد، قاهره ۱۳۹۶/۱۹۷۶، چاپ افست تهران ۱۳۶۴ش.
  • محمدبن احمد قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، بیروت ۱۴۰۵/۱۹۸۵.
  • کلینی.
  • عبدالرزاق‌بن محمدهاشم گیلانی، شرح فارسی مصباح‌الشریعه و مفتاح‌الحقیقه، چاپ جلال‌الدین محدث ارموی، تهران ۱۳۴۳۱۳۴۴ش.
  • مجلسی.
  • محمدفؤاد عبدالباقی، المعجم المفهرس لالفاظ القرآن الکریم، قم ۱۳۸۰ش.
  • احمدبن محمد مسکویه، تهذیب‌الاخلاق و تطهیرالاعراق، چاپ حسن تمیم، بیروت، ۱۳۹۸، چاپ افست قم ۱۴۱۰.
  • مصباح‌الشریعة، منسوب به امام جعفرصادق(ع)، بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۰/۱۹۸۰.
  • عبداللّه‌بن محمد نجم رازی، مرصادالعباد، چاپ محمدامین ریاحی، تهران ۱۳۶۵ش.
  • احمدبن محمد نحاس، معانی القرآن الکریم، چاپ محمدعلی صابونی، مکه ۱۴۰۸۱۴۱۰.
  • محمدمهدی‌بن ابی‌ذر نراقی، جامع‌السعادات، چاپ محمد کلان‌تر، نجف ۱۳۸۷/۱۹۶۷، چاپ افست بیروت، بی‌تا.
  • یحیی‌بن عدی، تهذیب‌الاخلاق، با مقدمه و تصحیح و ترجمه و تعلیق محمد دامادی، تهران ۱۳۶۵ش.
  • Ignaz Goldziher, Muslim studies, ed. S.M. Stern, translated from the German by C.R. Barber and S.M. Stern, London 1967-1971.
  • Toshihiko Izutsu, Ethico- religious concepts in the Quran, Montreal 1966.