انصاف

ویکی شیعہ سے
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

انصاف اخلاقی فضائل میں سے ہے جس کے معنی دوسروں کے ساتھ برتاؤ میں مساوات اور عدالت سے کام لینا اور بغیر کسی امتیازی سلوک کے ہر ایک کو اس کا حق دے دینا ہے۔
انصاف کا لفظ صراحت کے ساتھ قرآن میں نہیں آیا لیکن مفسرین سماجی معاملات میں انصاف قائم کرنے کو متعدد آیات سے استنباط کرتے ہیں۔ احادیث میں عدل و انصاف‌ کو اعلی اقدار، بہترین اعمال اور مشکل ترین کام جیسے خصوصیات سے یاد کیا گیا ہے۔
انصاف کو تین قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے؛ گفتار میں انصاف، کردار میں انصاف اور قضاوت اور داوری میں انصاف۔ اسی طرح آرام و سکون، محبت اور دوستی میں اضافہ، رزق و روزی میں برکت، موت میں تأخیر اور سماجی قدر و منزلت کا حصول من جملہ عدل و انصاف کے خواص میں جانا جاتا ہے۔

تعریف

انصاف کے معنی عدالت قائم کرنا، اچھا برتاؤ اور حق کی رعایت کرنا[1] اور ظلم کا ضد[2] ہے۔ انصاف من جملہ اخلاقی فضائل میں سے ہے[3] جو دوسروں کے ساتھ برتاؤ میں مساوات کی رعایت کرنا اور بغیر کسی امتیازی سلوک کے ہر ایک کو اس کا حق دے دینے سے تعبیر ہے۔[4]
انصاف کو بے جا تعصب کے مقابلے میں قرار دیتے ہیں اس بنا پر منصف انسان اسے کہتے ہیں جو اپنے کردار اور فیصلوں میں اپنے اور اپنے اطرافیوں کی نسبت بے جا تعصب سے پرہیز کرتے ہوئے دوسروں کا حق ضایع نہ کرے۔[5] اسی طرح انصاف کو "جو خود پسند کرے اسے دوسروں کے لئے بھی پسند کرو" کے قاعدے کے ساتھ مرتبط قرار دئے گئے ہیں۔[6]

علم حقوق میں انصاف اخلاقی اصولوں پر مبنی قواعد و ضوابط کے مجموعے کو کہا جاتا ہے جو حقوق کے دیگر اصلی قوانین کے ساتھ مل کر ان کی تخصیص یا تقیید کا کام دیتے ہیں؛ مثال کے طور پر اگر عدالت مقروض کو قرض ادا کرنے کا حکم دے تو جو لوگ مالی مشکلات میں گرفتار ہیں انہیں مہلت دینا یا قرضوں کو آسان قسطوں میں ادا کرنے کا پابند بنانا انصاف کا تقاضا ہے۔[7]

عدالت اور انصاف میں فرق

عدالت اور انصاف اگرچہ بعض اوقات ایک معنی میں استعمال ہوتے ہیں لیکن ایک دوسرے کے ساتھ فرق بھی رکھتے ہیں۔ ماہر لغت ابوہلال عسکری اس بات کے معتقد ہیں کہ انصاف عموما حسی امور میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کرنے کو کہا جاتا ہے لیکن حسی اور غیر حسی دونوں امور میں ہر شخص کو اس کا حق دے دینے کو عدالت کہا جاتا ہے؛ مثلا اگر کسی شخص نے چوری کیا تو اس پر چوری کا حد جاری کرنا عدالت کا تقاضا ہے نہ انصاف کا۔[8] اسی طرح قانون کے تحت ہر شخص کو اس کا مسلمہ حق دے دینا بھی عدالت کہلاتا ہے؛ اگرچہ ممکن ہے بعض مواقع پر یہ کام سخت اور انعطاف ناپذیر ہو جبکہ انصاف میں سختی اور شدت کی بجائے رحمت اور شفت کا پہلو زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔[9]

اہمیت اور منزلت

انصاف ایک اخلاقی خصلت کے عنوان سے مختلف آیات و روایات میں مورد توجہ قرار دی گئی ہے ۔ یہ لفظ قرآن میں صراحت کے ساتھ نہیں آیا لیکن سماجی معاملات میں عدل و انصاف کی رعایت کرنے کو مفسرین متعدد آیات کے مفہوم سے استنباط کرتے ہیں۔
طبرسی سورہ شوری کی آیت نمبر 17 اور سورہ الرحمن کی آیت نمبر 9 میں لفظ "المیزان" کو لوگوں کے درمیان انصاف اور مساوات قائم کرنے کا ذریعہ قرار دیتے ہیں ۔[10] اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت نمیر 282 کے ذیل میں اقتصادی قرارداد لکھنے والے شخص میں انصاف کی موجودگی کو شرط قررا دیتے ہیں ۔[11]
مفسرین سورہ نحل کی آیت نمبر 90 میں لفظ عدل سے سماجی معاملات میں انصاف کی رعایت مراد لیتے ہیں [12] اسی طرح قرآن کی متعدد آیات میں لفظ قسط [13] سے بھی عدالت مساواتی مراد لتے ہیں جو وہی انصاف ہے ۔[14]
احادیث میں انصاف کو اعلی اقدار،[15] عقل کے سپاہی،[16] افضل ترینایمان،[17] بہترین اعمال،[18] مشکل ترین کام[19] اور مؤمن کی نشانی[20] قرار د گئی ہے۔ امام علیؐ مالک اشتر کو مصر کی گورنری پر منصوب کرتے ہوئے انصاف کی رعایت کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔[21]
اپنے آپ،[22] خداوند عالم،[23] دشمن،[24] دوست احباب، ہمسفر،[25] اور ضعیفوں[26] کے ساتھ انصاف سے کام لینا نیز رعایا کے حق میں حکام کا انصاف سے کام لینا،[27] اسی طرح مظلومین کے حق میں انصاف[28] اور دعا و مناجات میں انصاف سے کام لینا[29] ان موارد میں سے ہیں جن کے باری میں احادیث میں زور دیا گیا ہے۔

انواع

انصاف کو تین قسموں، گفتار میں انصاف، کردارمیں انصاف اور قضاوت و داوری میں انصاف میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔

  • گفتار میں انصاف: حق کو بیان کرنا اور حق کو قبول کرنا اگرچہ یہ اپنے یا اپنے قول و قبیلہ یا دوست احباب کے خلاف ہی کیوں نہ ہوگفتار میں انصاف سے تعبیر کی گئی ہے ۔ خدا سورہ انعام کی آیت نمبر 152 میں گفتار میں انصاف کی رعایت کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔ مفسرین کے مطابق اس آیت کے مفہوم میں گواہی دینا، وصیت، فتوا، اعترافات اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سب شامل ہیں ۔
  • کردار اور عمل میں انصاف: سماجی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ انصاف‌ سے کام لینا معاشرتی نقصانات میں کمی اور بہتر زندگی کے مواقع ایجاد کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔[30] امام علیؑ مالک اشتر کو خدا، لوگوں، رشتہ دراوں اور ماتحتوں کے ساتھ انصاف کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔
  • قضاوت اور فیصلوں میں انصاف: عدالتی امور میں طرفین دعوا کے ساتھ عدل و انصاف سے کام لینا دینی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے مورد تاکید قرار دئے جاتے ہیں۔ قرآن میں متعدد آیات میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی ذمہ داری اٹھانے والوں کو عدل، قسط اور انصاف کی رعایت کرنے کی سفارش کرتے ہوئے[31] حق اور عدل انصاف کی خلاف ورزی کرنے والوں کے برے انجام سے خبردار کرتے ہیں۔[32]

آثار

عدل و انصاف کے مختلف آثار اور برکات ہیں جو دنیا اور آخرت دونوں میں انسان کی فردی اور سماجی زندگی میں رونما ہوتے ہیں۔ من جملہ ان میں نفسیاتی آرام و سکون،[33] رزق و روزی میں برکت، عقلمندی، اجل اور موت میں تأخیر،[34] بہشت میں داخلہ،[35] دنیوی اور اخروی عذاب سے محفوظ ہونا،[36] محبت اور دوستی میں اضافہ اور دشمنی اور اختلافات کا خاتمہ،[37] خدا کے یہاں محبوبیت[38] اور سماجی قدر و منزلت کا حصول[39] جیسے آثار اور خواص کا نام لیا جا سکتا ہے۔

حوالہ جات

  1. واسطی، تاج العروس، ۱۴۱۴ق، ذیل واژہ نصف؛ دہخدا، لغت‌نامہ دہخدا، ۱۳۷۷ش، ذیل واژہ انصاف؛ انوری، فرہنگ بزرگ سخن، ۱۳۸۱ش، ذیل واژہ انصاف۔
  2. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۱۹۳۔
  3. نراقی، جامع السعادات، ج۱، ص۲۴۱۔
  4. راغب اصفہانی، مفردات، ۱۴۱۲ق، ذیل واژہ نصف؛ ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ق، ذیل واژہ نصف۔
  5. نراقی، جامع السعادات، ج۱، ص۴۰۲، ۴۰۴۔
  6. طوسی، الامالی، ۱۴۱۴ق، ص۵۰۸۔
  7. کاتوزیان، فلسفہ حقوق، ۱۳۸۵، ج۱، ص۱۴۵۔
  8. عسکری، معجم الفروق اللغویہ، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۸۰۔
  9. سرگذشت قانون، ۱۳۹۱ش۔
  10. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۹، ص۴۰، ۳۰۰۔
  11. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۲، ص۶۸۲۔
  12. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۲۷ ص۳۳۰-۳۳۱، ۳۵۰؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۶، ص۵۸۶؛ ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، ۱۳۸۶ش، ج۹، ص۳۶۳۔
  13. سورہ نساء، آیہ ۱۳۵؛ سورہ مائدہ، آیہ۸، ۴۲؛ سورہ انعام، آیہ۱۵۲، سورہ ہود، آیہ۸۵۔
  14. طبرانی، التفسیر الکبیر، ۲۰۰۸م، ج۲، ص۳۱۲؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱۲، ص۱۱۰؛ مراغی، تفسیر مراغی، بیروت، ج۵، ص۱۷۸۔
  15. لیثی واسطی، عیون الحکم، ۱۳۷۶ش، ص۵۱۔
  16. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۱۔
  17. لیثی واسطی، عیون الحکم، ۱۳۷۶ش، ص۱۴۲۔
  18. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۱۴۴۔
  19. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۱۴۵۔
  20. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۱۴۷۔
  21. ابن شعبہ حرانی، تحف العقول، ۱۴۰۴ق، ص۱۳۵۔
  22. تمیمی آمدی، تصنیف غرر الحکم و درر الکلم، ۱۳۶۶ش، ص۳۹۴۔
  23. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۳۵۴۔
  24. صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۱، ص۱۴۷۔
  25. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۷۱، ص۱۷۔
  26. ابن حیون، دعائم الاسلام، ۱۳۸۵ق، ج۱، ص۳۶۶۔
  27. نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج۷، ص۴۶۔
  28. صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۴۹۔
  29. ورام، مجموعۃ ورّام، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۱۰۔
  30. سورہ الرحمن، آیہ ۶۰؛ سورہ نور، آیہ ۲۲؛ لیثی واسطی، عیون الحکم، ۱۳۷۶ش، ص۲۱، ۴۵۱۔
  31. سورہ حدید، آیہ ۲۵؛ سورہ مائدہ، آیہ ۸، سورہ نساء، آیہ ۱۰۵، ۱۳۵، ۵۸؛ سورہ حجرات، آیہ ۹۔
  32. سورہ مائدہ، آیہ ۴۴، ۴۵، ۴۷۔
  33. تمیمی آمدی، غرر الحکم، ۱۴۱۰ق، ص۱۸۔
  34. دیلمی، اعلام الدین، ۱۴۰۸ق، ص۲۶۵۔
  35. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۱۰۳۔
  36. طبرسی، مکارم الاخلاق، ۱۴۱۲ق، ص۴۵۷۔
  37. لیثی واسطی، عیون الحکم، ۱۳۷۶ش، ص۲۶۔، اربلی، کشف الغمہ، ۱۳۸۱ق، ج۲، ص۳۴۹۔
  38. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۱۴۴۔
  39. میبدی، دیوان امام علی(ع)، ۱۴۱۱ق، ص۲۸۴۔

مآخذ

  • ابن حیون، نعمان بن محمد، دعائم الاسلام، مصحح آصف فیضی، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، ۱۳۸۵ھ۔
  • ابن شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول، مصحح علی اکبر غفاری، قم، انتشارات اسلامی، ۱۴۰۴ھ۔
  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت،‌ دار الفکر، ۱۴۱۴ھ۔
  • اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، مصحح ہاشم رسولی محلاتی، تبریز، بنی ہاشم، ۱۳۸۱ھ۔
  • انوری، حسن، فرہنگ بزرگ سخن، تہران، انتشارات سخن، ۱۳۹۰ش۔
  • تمیمی آمدی، عبد الواحد بن محمد، تصنیف غرر الحکم و درر الکلم، مصحح مصطفی درایتی، قم، دفتر تبلیغات، ۱۳۶۶ش۔
  • تمیمی آمدی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، مصحح سید مہدی رجائی، قم،‌ دار الکتاب الإسلامی، ۱۴۱۰ق
  • جصاص، احمد بن علی، احکام القرآن، محقق محمد صادق قمحاوی، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۵ھ۔
  • دہخدا، علی اکبر، لغت نامہ، تہران، دانشگاہ تہران، ۱۳۷۷ش۔
  • دیلمی، حسن بن محمد، أعلام الدین فی صفات المؤمنین، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، ۱۴۰۸ھ۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ قرآن، لبنان - سوریہ،‌ دار العلم- الدار الشامیۃ‌، ۱۴۱۲ھ۔
  • صالح، علی پاشا، شرگذشت قانون، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، ۱۳۹۱ش۔
  • صدوق، محمد بن علی، الخصال، مصحح علی اکبر غفاری، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۶۲ش۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ھ۔
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، التفسیر الکبیر: تفسیر القرآن العظیم، اردن،‌ دار الکتاب الثقافی، ۲۰۰۸ء۔
  • طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، قم، شریف رضی، ۱۴۱۲ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دارالثقافۃ، ۱۴۱۴ھ۔
  • عسکری، ابوہلال، معجم الفروق اللغویہ، قم، انتشارات اسلامی، ۱۴۱۲ھ۔
  • کاتوزیان، ناصر، فلسفہ حقوق، تہران، شرکت سہامی انتشار، ۱۳۸۵ش۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • لیثی واسطی، علی بن محمد، عیون الحکم و المواعظ، مصحح حسین حسنی بیرجندی، قم، دارالحدیث، ۱۳۷۶ش۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت،‌دار احیا التراث العربی، ۱۴۰۳ھ۔
  • میبدی، حسین بن معین الدین، دیوان أمیر المؤمنین علیہ‌السلام، مصحح مصطفی زمانی، قم، دار نداء الإسلام للنشر، ۱۴۱۱ھ۔
  • نراقی، مہدی، جامع السعادات، مصحح محمد کلانتر، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۹۶۷ء۔
  • نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، قم،مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، ۱۴۰۸ھ۔
  • واسطی زبیدی، سید محمد مرتضی، تاج العروس من جواہر القاموس‌، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۴ھ۔
  • ورام بن أبی فراس، مسعود بن عیسی، مجموعہ ورام، قم، مکتبہ فقیہ، ۱۴۱۰ھ۔