آیت خاتمیت
آیت کی خصوصیات | |
---|---|
آیت کا نام | آیت خاتمیت |
سورہ | احزاب |
آیت نمبر | 40 |
پارہ | 22 |
محل نزول | مدینہ |
موضوع | پیغمبر اسلامؐ کی خاتمیت |
مضمون | اعتقادی |
مرتبط موضوعات | ختم نبوت |
آیت خاتمیتسورہ احزاب کی چالیسویں آیت ہے۔ یہ واحد آیت ہے جس میں صراحت کے ساتھ حضرت محمدؐ کو آخری نبی کے طور پر معرفی کی گئی ہے۔ خاتمیت یعنی حضرت محمدؐ کے ذریعے نبوت کے سلسلے کا اختتام ہونے کا عقیدہ رکھنا دین اسلام کی ضروریات اور تمام اسلامی مذاہب کا اتفاقی مسئلہ ہے۔
اس آیت کی ابتداء میں پیغمبر اکرمؐ کے لئے فرزند ذکور کی نفی کی گئی ہے، جس کے بعد آپ کی خاتمیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین مذکورہ آیت کے صدر اور ذیل میں رابطہ برقرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس آیت میں دوسروں کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی نسبی رشتہ داری کو ختم کرنے کے بعد رسالت اور خاتمیت کے ذریعے تمام مؤمنین کے ساتھ آپ کے معنوی ارتباط اور رابطے کی طرف اشارہ کی گئی ہے اور اپنے مخاطبین سے پیغمبر اکرمؐ کے مقام رسالت و رہبری کی بنیاد پر آپؐ کی اطاعت کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
بعض مفسرین نبی اور رسول میں موجود فرق کو مد نظر رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ آیت صرف ختم نبوت کی طرف اشارہ کر رہی ہے ختم رسالت کی طرف نہیں۔ پس ممکن ہے حضرت محمدؐ کے بعد کوئی اور رسول آئے۔ مفسرین اس ابہام کو دور کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ نبی کا مہفوم رسول کو بھی شامل کرتا ہے؛ کیونکہ ہر رسولی نبی بھی ہے۔ اس بنا پر ختم نبوت کے ساتھ رسالت کا بھی خاتمہ ہو گا۔
اہمیت
سورہ احزاب کی چالیسویں آیت کو آیت ختم نبوت یا آیت خاتم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔[2] اس آیت کو پیغمبر اسلامؐ کی خاتمیت پر سب سے واضح اور آشکار دلیل قرار دی گئی ہے[3] اسی طرح یہ آیت حضرت محمدؐ کی مخصوص خصوصیات میں سے ایک خصوصیت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جو کہ آپ کے توسط سے نبوت اور رسالت کے سلسلے کا ختم ہونا ہے۔[4]
پیغمبر اسلام کی خاتمیت تمام مسلمانان کا اجماعی مسئلہ ہے[5] اور تمام اسلامی مذاہب اسے دین اسلام کی ضروریات میں سے قرار دیتے ہیں۔[6] اسی طرح اس آیت کو واحد آیت قرار دی گئی ہے کہ جس میں پیغمبر اسلامؐ کا نام مبارک یعنی محمد اور لقب یعنی خاتم النبیین ہونا ذکر ہوا ہے۔[7]
متن و ترجمہ
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِکُمْ وَلَٰکِنْ رَسُولَ اللہ وَخَاتَمَ النَّبِیینَ ۗ وَکَانَ اللہ بِکُلِّ شَیءٍ عَلِیمًا
محمد (صلی اللہ علیہ و آلہٰ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں۔ ہاں البتہ وہ اللہ کے رسول(ص) اور خاتم النبیین(ص) (سلسلۂ انبیاء کے ختم کرنے والے اور مہرِ اختتام) ہیں اور خدا ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے۔
سورہ احزاب: آیت 40
شأن نزول
اس آیت کی شأن نزول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ آیت پیغمبر اسلامؐ کی زید بن حارثہ (پیغمبر اکرمؐ کا منہ بولا بیٹا) کی مطلقہ بیوی زینب بنت جَحْش کے ساتھ شادی کے بعد نازل ہوئی، بعض لوگوں من جملہ منافقین[8] نے پیغمبر اکرمؐ کے اس کام سے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کی؛[9] کیونکہ زمانہ جاہلیت میں منہ بولے بیٹے اور اصلی بیٹے میں کوئی فرق نہیں ہوا کرتا تھا۔[10] خدا نے اس آیت کو نازل کرنے کے ذریعے زمانہ جاہلیت کے اس غلط رسم کے ساتھ مقابلہ کیا[11] اور یہ بتا دیا کہ زید کو پیغمبر اکرمؐ کا منہ بولا بیٹا بنانا صرف اس کے مقام و مرتبے میں اضافے کے لئے تھا[12] اور منہ بولا بیٹا کسی صورت میں حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہو سکتا؛ جس طرح منہ بولا باپ بھی حقیقی باپ کی طرح نہیں ہوا کرتا۔[13] خدا نے مذکورہ آیت میں پیغمبر اکرمؐ اور عام لوگوں کے درمیان ایک مخصوص رابطے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔[14]
آیت کے ابتدائی اور انتہائی حصے میں رابطہ
آیت کے ابتدائی حصے میں پیغمبر اکرمؐ کا دوسرے مردوں کے ساتھ نسبی رابطے کی نفی کرنے کے بعد خدا کی طرف سے آپ کی نبوت اور رسالت کے عہدے نیز آپ کے خاتم النبیین ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[15] بعض مفسرین اس آیت کی ابتدائی اور انتہائی حصے کی درمیان رابطے کے بارے میں کہتے ہیں کہ خدا نے اگرچہ پیغمبر اکرمؐ اور دوسرے مردوں کے درمیان نسبی رشتہ داری کو نفی کیا ہے لیکن نبی اور رسول ہونے کی بنا پر آپؐ اور امت کے درمیان ایک معنوی رابطے کو ثابت کرتا ہے۔[16] اس سے مشابہ ایک تعبیر میں پیغمبر اکرمؐ کو تمام مؤمنوں کا معنوی والد قرار دیا گیا ہے؛ کیونہ آپ تمام انبیاء کا وارث اور خاتم ہوگا۔[17] اس بنا پر رسول خداؐ اور امت کے مردوں کے درمیان اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ آپ کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئیں گے،[18] نسبت اور قرابت باپ اور بیٹے کی طرح ہے کیونکہ اس بیٹے کے لئے اپنے باپ کے سوا اس کا کوئی اور سہارا نہیں بن سکتا اسی طرح امت کا سہار بھی پیغمبر اکرمؐ کے سوا کوئی اور نہیں ہوگا۔[19]
بعض مفسرین اس بات کے قائل ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ اور دوسرے مردوں کے درمیان نسبی رشتہ داری کو نفی کرنے کے بعد آپ کی رسالت اور خاتم النبیین ہونے کی طرف اشارہ کرنا حقیقت میں یہ بتانے کے لئے ہے کہ رسول خداؐ کی اطاعت اور پیروی نسبی رشتہ داری کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ یہ اطاعت پیغمبر اکرمؐ کی مقام نبوت اور رسالت کی وجہ ہے۔[20]
خاتم کا مفہوم
قراء سبعہ میں سے بعض نے "خاتم" کے تاء کو کسرہ(زیر) کے ساتھ یعنی "خاتِم"[21] جبکہ بعض جیسے عاصم[22] اور دوسرے قراء[23] نے اسے تاء کے فتحہ(زبر) کے ساتھ تلفظ کی ہیں۔ خاتَم تاء کے فتحے کے ساتھ، کے معنی یہ ہے کہ پیغمبر اسلامؐ اللہ کے آخری نبی ہیں[24] اور خاتِم تاء کے کسرہ کے ساتھ، کے معنی یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نبوت کے سلسلے کو ختم کرنے والے ہیں۔[25] بعض مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ اس سلسلے میں خاتم کے تاء میں فتحہ اور کسرہ کے درمیان کوئی خاص فرق نہیں ہے اور دونوں صورتوں میں ایک ہی مفہوم ادا کرتا ہے۔[26]
بعض مفسرین کا یہ عقیده ہے کہ خاتم اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعے کسی اور چیز کے خاتمے کا اعلان کیا جاتا ہے اس معنا میں خاتم، مہر کے مترادف ہے جس کے ذریعے خط وغیرہ کے خاتمے کا اعلان کیا جاتا ہے اس کے بعد اس میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی ہے۔[27] دوسری طرف سے پرانے زمانے میں مہر لگانے کا ایک وسیلہ انگوٹھی ہوا کرتی تھی اس بنا پر انگوٹھی کو بھی خاتم کہا جاتا ہے۔[28] حتی مہر کی علامت سے عاری انگوٹھیوں کو بھی خاتم کہا جاتا ہے۔[29] اسی بنا پر بعض مفسرین یہ گمان کرتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں پیغمبر اسلامؐ کا خاتم الابیناء ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اللہ کے آخری نبی ہیں بلکہ یہاں خاتم الانبیاء سے مراد انبیاء کی زینت کے عنوان سے آنحضرتؐ کے مقام و مرتبے کی طرف اشارہ کرنا مقصد ہے۔ انگوٹھی اور لفظ خاتم کے درمیان رابطے کی علت اور فلسفے کو مد نظر رکھتے ہوئے مفسرین اس تفسیر کو رد کرتے ہیں۔[30]
ختم نبوت و رسالت
بعض اوقات مذکورہ آیت کے مہفوم[31] حتی اصل خاتمیت کے بارے میں تردید کا اظہار کیا جاتا ہے۔[32] بعض مفسرین کو یہ ابہام ہے کہ خدا نے اس آیت میں پیغمبر اکرمؐ کے آخری نبی ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے لھذا ممکن ہے آپ آخری رسول نہ ہو۔[33] مفسرین اس ابہام کے جواب میں کہتے ہیں کہ رسول کی نسبت نبی کا مفہوم عام ہے جب پیغمبر خاتم نبی ہیں تو خاتم رسول بطریق اولی ہوگا۔[34] کیونکہ رسالت انبیاء کی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ اس بنا پر جب پیغمبر اسلامؐ خاتم النبیین ہوگا تو خاتم المرسلین بطریق اولی ہونگے۔ یعنی آپ نبی ہونے کے اعتبار سے غیبی امور سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں اسی طرح رسول ہونے کے اعتبار سے خدا کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔[35] البتہ رسول اور نبی کے دیگر معانی بھی ذکر کئے گئے ہیں۔[36]
اولاد رسول اور آیت کے مفہوم میں تضاد اور حسنینؑ کا مقام
ایک طرف آیت خاتمیت میں صراحتاً پیغمبر خداؐ کے مذکر اولاد ہونے کی نفی کی گئی ہے تو دوسری طرف رسول خداؐ کے اولاد ذکور میں قاسم، عبداللہ اور ابراہیم کا نام لیا جاتا ہے اسی طرح امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو بھی پیغمبر اکرمؐ کے فرزند قرار دئے جاتے ہیں، جو آپس میں سازگار نہیں ہے۔[37]بعض مفسرین در بالا ابہام کے جواب میں کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں لفظ "رجال" آیا ہے جس کس معنی مرد کے ہیں اور اس میں وہ بچے شامل نہیں ہوتے جو بچپنے میں اس دنیا سے جا چکے ہیں۔[38] اسی طرح حسنینؑ بھی مذکورہ آیت کے نازل ہوتے وقت بلوغت کی حد تک نہیں پہنچے تھے۔[39] دوسرے لفظوں میں اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ تمہارے بالغ مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں۔[40]
حسنینؑ کے بارے میں یہ جواب بھی دیا جاتا ہے کہ یہ دو ہستیاں پیغمبر اکرمؐ کے بالواسطہ اولاد ہیں جبکہ آیت میں بلاواسطہ اولاد کی نفی کی گئی ہے۔[41] بعض کہتے ہیں آیت میں پیمغبر اکرمؐ کو تمہارے یعین امت کے مردوں میں سے کسی کے والد نہ ہونے کی بات کی گئی ہے جبکہ پیغمبر اکرمؐ خاندان اہل بیتؑ کے مردوں کے والد ہونے کی نفی نہیں ہوئی ہے۔[42] یہ تعبیر آیت مباہلہ سے بھی سمجھ میں آیت ہے جس میں امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو "ابنائنا" یعنی ہمارے بیٹے، کہا گیا ہے۔[43]
بعض اہل سنت مفسرین کے مطابق اگر پیغمبر اکرمؐ کی کوئی بالغ اور شائستہ اولاد ذکور ہوتے تو آپؐ کے بعد وہ ضرور نبوت کے مقام پر فائر ہوتے اس بنا پر خدا نے پیغمبر اکرمؐ کے لئے ایسے کسی فرزند کی نفی کرتے ہوئے اپنے حبیب کو آخری پیغمبر اور رسول قرار دیا ہے۔[44]
حوالہ جات
- ↑ «لوحات الخطاط الباکستانی حافظ نجم محمود»، منتدیات ورد للفنون۔
- ↑ خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج1، ص89۔
- ↑ قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج7، ص375۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج8، ص567؛ مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج6، ص226۔
- ↑ مغنیہ، تفسیر الکاشف، 1424ھ، ج6، ص225۔
- ↑ علامہ حلی، واجبالاعتقاد، 1374ہجری شمسی، ص52؛ سبحانی، «خاتمیت و مرجعیت علمی امامان معصوم»، ص59؛ مصباح، راہنماشناسی، 1376ہجری شمسی، ص177؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج17، ص341۔
- ↑ قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج7، ص375۔
- ↑ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج15، ص431۔
- ↑ طوسی، التبیان، بیروت، ج8، ص346؛ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج22، ص12–13۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج17، ص336؛ حسینی ہمدانی، انوار درخشان، 1404ھ، ج13، ص127۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج17، ص336؛ حسینی ہمدانی، انوار درخشان، 1404ھ، ج13، ص127۔
- ↑ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج3، ص544۔
- ↑ قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج7، ص376۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج17، ص337۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج17، ص344–345۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج17، ص337؛ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج3، ص544۔
- ↑ خطیب، التفسیر القرآنی للقرآن، بیروت، ج11، ص726۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج17، ص337۔
- ↑ فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج25، ص171۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج8، ص: 567۔
- ↑ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج22، ص13؛ طیب، اطیب البیان، 1369ہجری شمسی، ج10، ص509۔
- ↑ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1364ہجری شمسی، ج14، ص196؛ قمی مشہدی، کنز الدقائھ، 1368ہجری شمسی، ج10، ص398؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج15، ص432۔
- ↑ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج22، ص13؛ ثعلبی، الکشف و البیان، 1422ھ، ج8، ص51؛ عاملی، تفسیر عاملی، 1360ہجری شمسی، ج7، ص183۔
- ↑ شبر، الجوہر الثمین، 1407ھ، ج5، ص150؛ عاملی، تفسیر عاملی، 1360ہجری شمسی، ج7، ص183۔
- ↑ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج22، ص13؛ ثعلبی، الکشف و البیان، 1422ھ، ج8، ص51؛ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1364ہجری شمسی، ج14، ص196۔
- ↑ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج15، ص432؛ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1364ہجری شمسی، ج14، ص196؛ مطہری، خاتمیت، 1380ہجری شمسی، ص14۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج17، ص338–339۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج17، ص339۔
- ↑ ابنمنظور، لسان العرب، 1414ھ، ج12، ص163؛ زبیدی، تاج العروس، بیروت، ج16، ص190۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج17، ص340–341۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج17، ص338، 340–341۔
- ↑ قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 1364ہجری شمسی، ج14، ص196–197۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج17، ص338۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج17، ص338۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج16، ص325۔
- ↑ قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج7، ص376۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج17، ص337۔
- ↑ طوسی، التبیان، بیروت، ج8، ص346؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج16، ص325؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج17، ص336۔
- ↑ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج3، ص544؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج16، ص325؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج17، ص337۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج16، ص325۔
- ↑ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج3، ص544۔
- ↑ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج3، ص544۔
- ↑ ابوالفتوح رازی، روض الجنان، 1408ھ، ج15، ص431–432۔
- ↑ بیضاوی، أنوار التنزیل، 1418ھ، ج4، ص233؛ قمی مشہدی، کنز الدقائھ، 1368ہجری شمسی، ج10، ص398؛ ثعلبی، الکشف و البیان، 1422ھ، ج8، ص51؛ شبر، الجوہر الثمین، 1407ھ، ج5، ص150؛ زمخشری، الکشاف، 1407ھ، ج3، ص544۔
مآخذ
- ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دارالفکر للطباعۃ و النشر و التوزیع، 1414ھ۔
- ابنکثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1419ھ۔
- ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، آستان قدس رضوی، 1408ھ۔
- ازہری، محمد بن احمد، تہذیب اللغہ، بیروت،دار احیاء التراث العربی، بیتا۔
- بیضاوی، عبداللہ بن عمر، أنوار التنزیل و أسرار التأویل، بیروت،دار إحیاء التراث العربی، 1418ھ۔
- ثعلبی، احمد بن محمد، الکشف و البیان المعروف تفسیر الثعلبی، بیروت،دار إحیاء التراث العربی، 1422ھ۔
- حسینی ہمدانی، سید محمد، انوار درخشان، تحقیق محمد باقر بہبودی، تہران،کتابفروشی لطفی، 1404ھ۔
- خرمشاہی، بہاءالدین، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، تہران، نشر دوستان، 1377ہجری شمسی۔
- خطیب، عبدالکریم، التفسیر القرآنی للقرآن، بیروت،دار الفکر العربی، بیتا۔
- زبیدی، محمد بن محمد، تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت، دارالفکر، بیتا۔
- زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الأقاویل فی وجوہ التأویل، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ سوم، 1407ھ۔
- سبحانی، جعفر، «خاتمیت و مرجعیت علمی امامان معصوم علیہمالسلام»، کلام اسلامی، ش55، پاییز 1384ہجری شمسی۔
- سبزواری نجفی، محمد، ارشاد الاذہان الی تفسیر القرآن، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، 1419ھ۔
- شبر، عبداللہ، الجوہر الثمین فی تفسیر الکتاب المبین، کویت، شرکۃ مکتبۃ الالفین، 1407ھ۔
- صاحب بن عباد، اسماعیل، المحیط فی اللغہ، تحقیق محمدحسن آلیاسین، بیروت، عالم الکتب، بیتا۔
- طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1390ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفۃ، 1412ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت،دار إحیاء التراث العربی، بیتا۔
- طیب، عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات اسلام، چاپ دوم، 1369ہجری شمسی۔
- عاملی، ابراہیم، تفسیر عاملی، تہران، کتابفروشی صدوھ، 1360ہجری شمسی۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، واجب الاعتقاد علی جمیع العباد، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، 1374ہجری شمسی۔
- فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت،دار إحیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
- فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، قم، نشر ہجرت، چاپ دوم، بیتا۔
- فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی، تفسیر الصافی، تہران، مکتبۃ الصدر، چاپ دوم، 1415ھ۔
- قرائتی، محسن، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درسہایی از قرآن، 1388ہجری شمسی۔
- قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لأحکام القرآن، تہران، ناصر خسرو، 1364ہجری شمسی۔
- قمی مشہدی، محمد بن محمدرضا، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1368ہجری شمسی۔
- «لوحات الخطاط الباکستانی حافظ نجم محمود»، منتدیات ورد للفنون، تاریخ درج مطلب: 23 اوت 2010؛ تاریخ بازدید: 8 اردیبہشت 1401ہجری شمسی۔
- مصباح، محمدتقی، راہ و راہنماشناسی(بخش 4 و 5 معارف قرآن)، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، قم، 1376ہجری شمسی۔
- مطہری، مرتضی، خاتمیت، تہران، صدرا، 1380ہجری شمسی۔
- مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم، دارالکتاب الإسلامی، 1424ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔