آیت امانت

ویکی شیعہ سے
آیت امانت
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامامانت
سورہاحزاب
آیت نمبر72
پارہ22
صفحہ نمبر427
موضوععقائد
مضمونولایت اور امامت


آیۂ امانت سورہ احزاب کی بہتّرویں آیت ہے۔ اس آیت میں ایک ایسی امانت کا تذکرہ ہے جسے خدا نے انسان کو عطا کیا ہے۔ اس آیت کے مطابق خدا نے پہلے اس امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو ان چیزوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا لیکن انسان نے اسے قبول کر لیا۔ اس آیت میں مذکورہ امانت سے کیا مراد ہے؟ آسمانوں، زمین اور پہاڑوں نے اسے قبول کیوں نہیں کیا اور انسان نے کن وجوہات کی بنا پر اس امانت کو قبول کیا؟ اس سلسلے میں مسلمان مفسرین کے درمیان بہت زیادہ بحث و مباحثے ہوئے ہیں اور اس سلسلے‌ میں مختلف نظریات پیش کئے گئے ہیں۔

شیعہ تفاسیر میں منقول احادیث کے مطابق اس امانت سے مراد پیغمبر اکرمؐ اور شیعہ ائمہ کی ولایت و امامت ہے۔ لیکن اہل سنت مفسرین اس سے دینی احکام مراد لیتے ہیں۔ علامہ طباطبائی اس بات کے معتقد ہیں کہ اس آیت میں امانت سے مراد ولایت الہی ہے اور موجودات میں سے صرف انسان اس منصب کا مستحق اور لائق قرار پایا ہے؛ کیونکہ صرف انسان میں کمالات کے اعلی مرتبے تک پہنچنے کی صلاحت اور استعداد موجود ہے۔

اسلامی تعلیمات میں آیت امانت کا مقام

سورہ احزاب کی بہترویں آیت مسلمان مفسرین کی توجہ کا مرکز قرار پایا ہے۔ شیعہ‌ اور اہل سنت مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں مذکورہ امانت کے معنی اور آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کی طرف سے انکار اور انسان کی طرف سے قبول کرنے وجوہات کے بارے میں کافی بحث کی ہیں۔[1]احادیث میں بھی اس سلسلے‌ میں بحث کی گئی ہے۔[2]

اس کے‌ علاوہ مختلف عرفا اور شعراء جیسے حافظ و مولوی اور خواجہ عبداللہ انصاری وغیرہ نے بھی اس کی طرف اشارہ کئے ہیں۔

حافظ اس سلسلے میں یوں کہتے ہیں:

آسمان بار امانت نتوانست کشید قرعہ فال بہ نام من دیوانہ زدند[3]
آسمان اس امانت کے بوجھ کو نہ اٹھا سکےقرعہ اندازی مجھ دیوانہ‌ کا نام نکل آیا

مولوی نے ایک شعر میں یوں کہا ہے:

نپذیرفت آسمان بار امانت کہ عاشق بود و ترسید از خطایی[4]
آسمان نے امامت کا بوجھ نہیں اٹھایاکیونکہ یہ‌ عاشق تھا اور خطا سے ڈرتا تھا

خواجہ عبد اللہ انصاری خدا کی بارگاہ‌ میں اپنی مناجات میں یوں گویا ہیں: «الہی اگر میں امانت کا امین نہیں ہوں، تو جس وقت آپ نے یہ امانت میرے سپرد کی اس وقت آپ خود جانتے تھے کہ میں ایسا ہی ہوں»[5]

آیت اور اس کا ترجمہ

اِنّا عَرَضْنَا الْاَمانَۃَ عَلَی السَّموات وَ الْاَرْض وَ الْجِبال فَاَبَین اَن یحْمِلْنَہا وَ اَشْفَقْن مِنْہا وَ حَمَلَہَا الاِنْسان اِنَّہ کان ظَلوماً جَہولاً(احزاب/72)


ببے شک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا مگر ان سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے (بلا تامل) اٹھا لیا بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔



سورہ احزاب: آیت 72


امانت سے مراد

مسلمان مفسرین مذکورہ آیت میں لفظ "امانت" سے مختلف معانی مراد لیتے ہیں۔ من جملہ ان میں پیغمبر اکرمؐ اور شیعہ ائمہؑ کی ولایت و امامت،[6] دینی احکام،[7]انسان کی ولایت الہی،[8] عقل، لا الہ الا اللہ،[9] بدن کے اعضاء[10] اور وہ امانات جو دوسرے ہمارے پس بطور امانت رکھتیں ہیں، شامل ہیں۔[11]

شیعوں کی روائی تفسیروں میں پیغمبر اکرمؐ اور شیعہ ائمہؑ کی احادیث کی روشنی میں اس امانت سے اہل بیتؑ کی ولایت و امامت اور ان سے محبت و مودت کا اظہار کرنا مراد لیا گیا ہے۔[12]اہل‌ سنت تفاسیر میں اس امانت سے شرعی احکام مراد لیا گیا‌ ہے جسے خدا نے‌ انسان ذمے لگایا ہے۔[13] شیعہ مفسر طَبْرسی نے بھی اسی نظریے کو قبول کیا ہے۔[14]

تفسیر المیزان کے مصنف علامہ طباطبائی اس امانت سے ولایت الہی مراد لیتے ہیں جسے خدا نے انسان کے ذمہ قرار دیا ہے اور اس کی علت یہ ہے کہ تمام موجودات میں صرف انسان ہے‌ جو صحیح اعتقادات کے ساتھ عمل صالح کے ذریعے کمال کے راستے پر گامزن ہو کمالات کے ایک ایسے اعلی درجے تک پہنچ سکتا ہے جس تک کسی دوسرے موجودات کی رسائی نہیں ہوتی۔[15]

انہوں نے امام صادقؑ سے ایک حدیث نقل کی ہیں جس میں اس امانت سے امام علیؑ کی ولایت مراد لی گئی ہے،[16]اہل‌ بیتؑ کی امامت و ولایت کو انسان کی ولایت الہی کا ایک مصداق قرار دیا گیا ہے۔[17]

آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کرنا

آیت امانت کے‌ سلسلے‌ میں مفسرین کے سوالات میں سے ایک یہ ہے کہ اس امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنی پیش کرنے سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں مختلف نظریات بیان کئے گئے ہیں۔ بعض مفسرین اس سے معنای حقیقی جبکہ بعض مفسرین منعای مجازی مراد لیتے ہیں:

حقیقی معنی

شیعہ روائی تفاسیر میں مورد استناد واقع ہونے والی احادیث کے مطابق خدا نے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں سے کہا کہ محمدؐ اور ان کی اہل‌ بیتؑ میرے اولیاء، دوست اور لوگوں پر میری حجت ہیں اور کوئی مختلوق میرے نزدیک ان سے زیادہ محبوب اور عزیز نہیں ہے اور ان کی ولایت میری مخلوقات کے پاس میری امانت ہے۔ تم میں سے کون میری اس ولایت کو محمدؐ و آل محمدؑ کی بجائے اپنے لئے چاہتا ہے؟ ایسے عظیم مقام و مرتبے کو مانگنے کی نسبت انہوں نے خوف محسوس کیا۔[18]

بعض اہل‌ سنت تفاسیر میں بھی آیا ہے کہ خدا نے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں سے کہا آیا میری اس امانت (شرعی احکام) کی امانت داری کر سکتے ہو؟ انہوں‌نے کہا اس امانت داری سے ہمیں کیا ملے گا؟ خدا نے کہا اگر صحیح راہ پر گامزن رہے تو ثواب دیا جائے گا اور اگر غلط راستے کا انتخاب کرے تو عذاب میں مبتلا ہوگا۔ انہوں‌ نے شرعی احکام پر عمل پیرا ہونے میں کامیاب نہ ہونے کے خوف سے اسے قبول نہیں‌ کیا لیکن انسان نے اسے قبول کیا۔[19]

مجازی معنی

علامہ طباطبائی کہتے ہیں کہ مذکورہ تعبیر «ہم نے اس امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا" حقیقت میں انسان کی صلاحیتوں کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے صلاحتوں کے ساتھ موازنہ کرنا ہے اور مراد یہ ہے کہ یہ چیزیں اس قدر عظمت کے مالک ہونے کے باوجود خدا کی امانت یعنی ولایت کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور صرف انسان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ولایت الہی کو قبول کرنے اور کمال کے سب سے اعلی مرتبے تک جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔[20]

اہل سنت مفسر آلوسی کے مطابق خدا نے یہاں ایک تمثیل پیش کی ہے‌ تاکہ ایک طرف اس الہی امانت یعنی شرعی احکام کی عظمیت اور ان کی سختیوں کی طرف اشارہ کیا جا سکے اور دوسری طرف سے یہ بیان کرنا چاہتا ہے کہ انسان نے اپنے ارادے اور اختیار سے اس امانت کو قبول کیا ہے، کیونکہ انسان بھی آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کی طرح اس امانت کو قبول کرنے سے انکار کر سکتا تھا۔ آلوسی کے مطابق اس تمثیل کے ذریعے خدا نے ایک طرف اس الہی امانت کی عظمت بیان کی اور کہا کہ شرعی احکام اس قدر باعظمت ہیں ہیں کہ اگر آسمان، زمین اور پہاڑ جوکہ قدرت کے مظاہر ہیں، اگر درک و شعور رکھتے اور ان کو اسے قبول کرنے کا حکم دیا جاتا تو یہ‌ اسے قبول نہ کرتے۔[21]

انسان کو «ظالم» اور «نادان» کیوں قرار دیا گیا ہے؟

علامہ طباطبائی کے مطابق خدا نے اس لئے انسان کی ظلم اور جہل کی صفت کے ساتھ توصیف کی ہے کہ اس امانت کی اہمیت کو درک کئے بغیر اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھے گا اور اسے یہ معلوم نہیں‌ کہ اس صورت میں وہ کتنے خطرناک عذاب میں مبتلا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام انسان ایسے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان میں علم اور عدالت کی صلاحیت بھی موجود ہے اور ظلم اور جہالت کی قابلیت بھی۔[22] اہل سنت مفسر فخرالدین می طرف سے مطرح ہونے والے احتمالات میں سے ایک بھی یہی ہے۔[23]

اہل سنت مفسر آلوسی کے مطابق انسان کی طرف ظالم اور جاہل ہونے کی نسبت دینا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسانوں میں سے بہت سارے انسان ایسے ہونگے جو اس امانت کا وفا نہیں کریں گے اور شرعی احکام پر عمل پیرا نہیں ہونگے۔ اسی بنا پر بعد والی آیت میں آیا ہے کہ خدا منافقین اور مشرکین کو عذاب میں‌ مبتلاء کرے گا اور مؤمنین کی توبہ قبول کرے گا۔[24]

حوالہ جات

  1. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج16، ص348-349؛ طبرسی، مجمع‌البیان، 1372ہجری شمسی، 584-586؛ بہ فخرالدین رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج25، ص187-189؛ آلوسی، روح‌المعانی، 1415ھ، ج11، ص270-271۔
  2. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں : کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص413؛ بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، 1415ھ، ج1ص183-184؛ قمی، تفسیر القمی، 1363ہجری شمسی، ج2، ص198۔
  3. حافظ شیرازی، دیوان حافظ، غزل شمارۂ 184۔
  4. مولوی، کلیات شمس، 1367ہجری شمسی، ص993، غزل شمارۂ 2674۔
  5. خواجہ عبداللہ انصاری، رسالہ دل و جان، 1382ہجری شمسی، ص3۔
  6. ملاحظہ کریں: بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، 1415ھ، ج1ص183-184؛ قمی مشہدی، کنزالدقائھ، 1368ہجری شمسی، ج10، ص450-451؛ کوفی، تفسیر فرات الکوفی، 1410ھ، ص342-343۔
  7. نمونہ‌ کے لئے ملاحظہ کریں: فخرالدین رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج25، ص187؛ آلوسی، روح‌المعانی، 1415ھ، ج11، ص270؛ میبدی، کشف‌الاسرار، 1371ہجری شمسی، ج8، ص92-93۔
  8. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج16، ص349۔
  9. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج16، ص349۔
  10. طبرسی، مجمع‌البیان، 1372ہجری شمسی، ج8، ص584۔
  11. طبرسی، مجمع‌البیان، 1372ہجری شمسی، ج8، ص584۔
  12. ملاحظہ کریں: بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، 1415ھ، ج1ص183-184؛ قمی مشہدی، کنزالدقائھ، 1368ہجری شمسی، ج10، ص450-451؛ کوفی، تفسیر فرات الکوفی، 1410ھ، ص342-343؛ قمی، تفسیر القمی، 1363ہجری شمسی، ج2، ص198۔
  13. نمونہ‌ کے‌لئے ملاحظہ کریں: فخرالدین رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج25، ص187؛ آلوسی، روح‌المعانی، 1415ھ، ج11، ص270؛ میبدی، کشف‌الاسرار، 1371ہجری شمسی، ج8، ص92-93۔
  14. طبرسی، مجمع‌البیان، 1372ہجری شمسی، ج8، ص585۔
  15. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج16، ص349۔
  16. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص413۔
  17. طباطبایی، المیزان، 1417، ج16، ص354۔
  18. ملاحظہ کریں: بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، 1415ھ، ج1ص183-184؛ قمی مشہدی، کنزالدقائھ، 1368ہجری شمسی، ج10، ص450-451؛ کوفی، تفسیر فرات الکوفی، 1410ھ، ص342-343۔
  19. نمونہ‌ کے‌ لئے ملاحظہ کریں: فخرالدین رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج25، ص187؛ میبدی، کشف‌الاسرار، 1371ہجری شمسی، ج8، ص92-93۔
  20. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج16، ص349۔
  21. آلوسی، روح‌المعانی، 1415ھ، ج11، ص270۔
  22. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج16، ص350-351۔
  23. فخرالدین رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج25، ص188۔
  24. آلوسی، روح‌المعانی، 1415ھ، ج11، ص271۔

مآخذ

  • آلوسی، محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی، تحقیق علی عبدالباری عطیہ، گردآوری ابراہیم شمس‌الدین و سناء بزیع شمس‌الدین، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، 1415ھ۔
  • بحرانی، ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، تحقیق بنیاد بعثت، واحد تحقیقات اسلامی، قم، بنیاد بعثت، واحد تحقیقات اسلامی، چاپ اول، 1415ھ۔
  • حافظ شیرازی، شمس‌الدین محمد، دیوان حافظ، بی‌تا۔
  • خواجہ عبداللہ انصاری، مناجات‌نامہ خواجہ عبداللہ انصاری، تصحیح محمد حماصیان، کرمان، خدمات فرہنگی کرمان، چاپ اول، 1382ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1417ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1420ھ۔
  • فرات کوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، تحقیق و تصحیح محمد کاظم، تہران، مؤسسہ چاپ و نشر وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی‏، چاپ اول، 1410ھ۔
  • قمی مشہدی، محمد، کنز الدقائق و بحر الغرائب، تحقیق حسین درگاہی، تہران، سازمان چاپ و انتشارات وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، 1368ہجری شمسی۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیرالقمی، تحقیق طیب موسوی جزایری، قم دارالکتاب، چاپ سوم، 1363ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ
  • مولوی، جلال‌الدین محمد، کلیات شمس، تصحیح بدیع‌الزمان فروزان‌فر، تہران، امیرکبیر، 1367ہجری شمسی۔
  • میبدی، احمد، کشف الاسرار و عدۃ الابرار، بہ ہمت علی‌اصغر حکمت، تہران، امیرکبیر، چاپ پنجم، 1371ہجری شمسی۔