مندرجات کا رخ کریں

منبر پیغمبر اکرمؐ

ویکی شیعہ سے
(منبر پیغمبر سے رجوع مکرر)
مسجد نبوی میں منبر پیغمبر اکرمؐ کی تصویر

منبر پیغمبر اکرمؐ ایک لکڑی کا بنا ہوا مقام تھا؛ پیغمبر خداؐ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں مسجد نبوی میں اس منبر پر بیٹھ کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ رسول خداؐ نے اس منبر کو "جنت کا دروازہ" قرار دیا، جس کے پایے جنت میں ہیں۔ ایک اور حدیث میں آپؐ نے اپنے منبر کو "حوضِ کوثر" پر بتایا اور اس تعبیر کا مطلب یہ ہے کہ منبر کے قریب عبادت کرنے والا قیامت کے دن حوضِ کوثر سے سیراب ہوگا۔

منبر بننے سے پہلے، نبی مکرم اسلام خطبہ دیتے وقت مسجد میں کھجور کے تنے سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے تھے۔ جب لکڑی کا منبر بنانے کی تجویز پیش ہوئی تو آپؐ نے صحابہ سے مشورہ کیا اور یہ تجویز قبول کی گئی۔ منبر بنانے کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں: پہلی وجہ یہ کہ خطبے کے دوران مسلسل کھڑے رہنے سے آپؐ تھک جاتے تھے؛ دوسری وجہ یہ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ اور مسجد نبوی کی توسیع کے باعث خطابت کے لیے ایک بلند مقام کی ضرورت محسوس کی گئی۔

بنی عباس کے دورِ حکومت میں یہ منبر ختم ہوگیا اور لوگوں نے تبرک کے لیے اس کی لکڑی کے چھوٹے ٹکڑے کر دیے اور بعد کے ادوار میں کئی نئے منبر بنائے گئے اور اسی مقام پر رکھے گئے۔ آخرکار سنہ 998ھ میں، عثمانی سلطان نے وہاں ایک نیا منبر تعمیر کرایا۔

اہمیت اور فضیلت

روایات کے مطابق، نبی اکرمؐ نے اپنے منبر کو "جنت کا ایک دروازہ" قرار دیا ہے[1] جس کے پایے جنت میں ہیں۔[2] آپؐ اپنے گھر اور منبر کے درمیان کے حصے کو بھی "جنت کے باغوں میں سے ایک باغ" سمجھتے تھے۔[3] اس روایت کی دو قسم کی تشریحات کی گئی ہیں: ایک یہ کہ اس جگہ پر نماز اور ذکر کی کثرت انسان کو جنت میں باغ کا مستحق قرار دیتی ہے؛[4] دوسری یہ کہ بظاہر مراد یہ ہے کہ واقعتاً یہ جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔[5] ایک اور قول میں آپؐ نے اپنے منبر کو جنت کی نہروں میں سے ایک نہر پر قرار دیا ہے۔[6]

شیعہ مصادر میں منبر کے قریب نماز پڑھنے،[7] اسے ہاتھ، چہرے اور آنکھوں سے مس کرنے، اللہ کی حمد بیان کرنے اور اپنی دنیوی اخروی حاجات پیش کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔[8]

کہتے ہیں کہ جب منبر اپنی جگہ قرار دیا گیا تو نبی اکرمؐ اس پر تشریف لے گئے اور دو رکعت نماز ادا کی، پھر لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں نے یہ اس لیے کیا تاکہ تم میری نماز کا طریقہ سیکھ لو۔[9] اسی طرح آپؐ اُن لوگوں کو، جنہیں کسی حق کے دعوے پر قسم کھانی ہوتی، منبر کے قریب لے جاتے اور فرماتے کہ یہاں آکر قسم کھاؤ۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص میرے منبر کے پاس جھوٹی قسم کھائے گا، اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔[10]

درخت کے تنے کا سہارا

پیغمبر خداؐ لکڑی کا منبر بننے سے پہلے مسجد میں کھجور کے تنے سے ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے۔[11] اس عمل کے سلسلے میں بہت سی روایات سے استناد کیا گیا ہے۔[12] جب منبر بن گیا اور آپؐ نے درخت سے ٹیک لگانا چھوڑ دیا، تو اس کھجور کا تنا رویا کرتا تھا، جسے بعد میں "ستونِ حنّانہ" یعنی "گریہ کرنے والا ستون" کہا گیا۔[13]

مسجد نبوی میں منبر رسول خداؐ

بعض روایات کے مطابق، لکڑی کا منبر بننے سے پہلے، پیغمبر خداؐ کے لیے گارے (مٹی) کا ایک منبر بنایا گیا تھا۔[14] اس کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب اجنبی لوگ مسجد میں داخل ہوتے تو وہ آپؐ کو پہچان نہ پاتے، اس لیے مٹی سے ایک بلند مقام بنایا گیا تاکہ آنے والے لوگ آسانی سے آپؐ کو پہچان سکیں۔[15]

لکڑی کے منبر کی تعمیر

کہتے ہیں کہ بعض صحابہ نے پیغمبر اسلامؐ کو ایک منبر بنانے کی تجویز دی۔[16] رسول خداؐ نے مسلمانوں سے اس سلسلے میں مشورہ کیا تو لوگوں نے اسے مان لیا؛ بالآخر پیغمبر اکرمؐ نے اپنے لیے لکڑی کا ایک منبر بنانےکی اجازت دے دی۔[17]

دلیل دی جاتی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے لیے لکڑی کا منبر سنہ 7 ہجری میں بنایا گیا؛[18] کیونکہ بکثرت روایات کے مطابق سنہ 7 ہجری میں تمیم داری نے منبر رسول بنانے کی تجویز دی اور وہ اسی سال مدینہ آئے۔[19] البتہ بعض روایات کے مطابق کہا گیا ہے کہ سنہ 8 ہجری میں یہ منبر بنایا گیا ہے۔[20] بعض تاریخی مآخذ کے مطابق ایک عورت نے رسول خداؐ کو منبر رسول بنانے کی تجویز پیش کی۔[21] منبر رسول بنانے والے کے بارے میں روایات میں مختلف نام ملتے ہیں: تمیم داری، باقول، غلام (سعید بن عاص)، کلاب یا صباح غلام (عباس بن عبد المطلب) اور باقوم جس نے کعبہ کی مرمت کی نگرانی بھی کی تھی۔[22]

پیغمبر خداؐ کے لیے منبر بنانے کی چند وجوہات بیان کی گئی ہیں:

  • جسمانی تھکاوٹ: کہتے ہیں کہ نبی مکرم اسلامؐ حالت قیام میں خطبہ دیا کرتے تھے اور یہ امر آپؐ کے اواخر عمر میں تھکن کا باعث بنتا تھا، اس لیے آپؐ کے لیے منبر بنایا گیا۔[23]
  • مسلمانوں کی کثرت: مسجدِ نبوی وسیع ہو گئی تھی اور دور و دراز سے لوگ یہاں آکر حضورؐ کا خطبہ سنتے اور اسلام قبول کرتے تھے، اس لیے ایک بلند مقام کی ضرورت کا احساس کیا گیا، اس طرح آپؐ کے لیے ایک منبر بنایا گیا۔[24]

رسول خداؐ کے بعد منبرکی حالت

ابوبکر اپنے دور خلافت میں منبر رسولؐ پر ایک سیڑھی نیچے بیٹھتے تھے۔ عمر مزید ایک سیڑھی نیچے بیٹھا کرتے تھے،[25] عثمان مسند خلافت پر براجمان ہوتے ہی نبی اسلامؐ کی جگہ بیٹھے، جس پر عوام نے اعتراض کیا تو وہ صرف چند جملے کہہ کر جلد نیچے اتر آئے۔[26]

شیعہ فقیہ اور محدث محمد باقر مجلسی کی نقل کردہ حدیث کے مطابق، امام علیؑ خلافت پر فائز ہونے کے بعد بالکل اسی مقام پر بیٹھے جہاں نبی اکرمؐ کی جگہ تھی۔ لوگوں میں ہلچل مچ گئی اور امام نے اس کی وجہ پوچھی۔ لوگوں نے کہا کہ یہ اس لیے ہے کہ آپ نبی مکرم اسلامؐ کی جگہ پر بیٹھے ہیں۔ علی بن ابی طالبؑ نے پیغمبر خداؐ کے فرمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جو شخص میری جگہ پر بیٹھے اور میری طرح عمل نہ کرے، اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا۔ میں بالکل نبی خداؐ کے عمل اور کلام کے مطابق عمل کروں گا، اسی لیے میں ان کی جگہ پر بیٹھا ہوں۔[27]

زمان معاویہ تک رسول خداؐ کا منبر استعمال میں رہا[28] اور معاویہ نے اسے شام لے جانے کا ارادہ کیا لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوا۔[29] عباسی دور حکومت میں اصل منبر ٹکڑوں میں تقسیم کر کے تبرک کے طور پر رکھا گیا۔[30] گذشتہ متعدد سالوں اور صدیوں میں مختلف منبر بنائے گئے اور پیغمبر خداؐ کے منبر کی جگہ رکھے گئے۔[31] آخر کار سنہ 998ھ میں سلطان مراد عثمانی کی جانب سے ایک منبر پیغمبر اکرمؐ کے منبر کے مقام پر رکھا گیا جو آج بھی اسی جگہ موجود ہے۔[32]

حوالہ جات

  1. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص553۔
  2. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص554۔
  3. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص554۔
  4. مجلسی، ملاذ الأخیار، 1406ھ، ج9، ص20۔
  5. مجلسی، ملاذ الأخیار، 1406ھ، ج9، ص20۔
  6. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص554۔
  7. مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج96، ص334۔
  8. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص553۔
  9. بیہقی، دلائل النبوۃ، 1405ھ، ج2، ص554۔
  10. کاتب واقدی، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص192۔
  11. الأنصاری، عمارۃ وتوسعۃ المسجد النبوی الشریف عبر التاریخ، 1996ء، ص76۔
  12. جعفریان، آثار اسلامی مکّہ و مدینہ، 1387شمسی، ج1، ص221۔
  13. قطب‌الدین راوندی، الخرائج و الجرائح، 1409ھ، ج1، ص165۔
  14. وکیل، المسجد النبوی عبر التاریخ، 1988ء، ص42۔
  15. وکیل، المسجد النبوی عبر التاریخ، 1988ء، ص42۔
  16. کاتب واقدی، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص192۔
  17. کاتب واقدی، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص192۔
  18. وکیل، المسجد النبوی عبر التاریخ، 1988ء، ص42۔
  19. وکیل، المسجد النبوی عبر التاریخ، 1988ء، ص44۔
  20. مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج10، ص95۔
  21. ابن‌جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج3، ص317۔
  22. وکیل، المسجد النبوی عبر التاریخ، 1988ھ، ص44۔
  23. کاتب واقدی، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص192۔
  24. وکیل، المسجد النبوی عبر التاریخ، 1988ء، ص41۔
  25. مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج10، ص97۔
  26. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ج2، ص162۔
  27. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج38، ص77-78۔
  28. جعفریان، آثار اسلامی مکّہ و مدینہ، 1387شمسی، ج1، ص221۔
  29. طبری، تاریخ‌ الطبری، 1387ھ، ج5، ص238۔
  30. مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج10، ص97۔
  31. مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج10، ص97۔
  32. جعفریان، آثار اسلامی مکّہ و مدینہ، 1387شمسی، ج1، ص221۔

مآخذ

  • ابن‌جوزی، عبدالرحمن بن علی‏، المنتظم،‏ تحقیق محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1412ھ۔
  • الأنصاری، ناجی محمد حسن، عمارۃ وتوسعۃ المسجد النبوی الشریف عبر التاریخ، مدینہ، نادی المدینہ المنورہ الادبی، 1996ء۔
  • بیہقی، احمد بن حسین، دلائل النبوۃ، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1405ھ۔
  • جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، تہران، مشعر، 1387ہجری شمسی۔
  • صالحی دمشقی‏، محمد بن یوسف، سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1414ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم والملوک (تاریخ طبری)، تحقیق محمد أبوالفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، 1387ھ۔
  • طریحی، فخرالدین، مجمع البحرين، تحقیق احمد یوسفی اشکوری، تہران، مرتضوی، 1085ھ۔
  • قطب‌الدین راوندی، سعید بن عبد اللّٰہ، الخرائج و الجرائح، قم، مؤسسہ امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ، چاپ اول، 1409ھ۔
  • کاتب واقدی، محمد بن سعد‏، الطبقات الکبری‏، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1410ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، ملاذ الأخیار فی فہم تہذیب الأخبار، تحقیق و تصحیح مہدی رجائی‌، قم، کتابخانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، چاپ اول، 1406ھ۔
  • مقریزی، تقی‌الدین‏، امتاع الأسماع بما للنبی‏، تحقیق محمد عبدالحمید نمیسی، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1420ھ۔
  • وکیل، محمد سید، المسجد النبوی عبر التاریخ، جدہ، دار المجتمع، 1988ء۔
  • یعقوبی، احمد بن أبی‌یعقوب‏، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، چاپ اول، بی‌تا۔