استدراج

ویکی شیعہ سے

اِسْتِدْراج یا اِمْلاء یا اِمْہال سنن الہی میں سے ایک ہے جس کا معنی اللہ تعالی کا عذاب آہستہ آہستہ قریب ہونا ہے۔ استدراج کافروں اور ان گناہگاروں کے لیے ہے جو اللہ کا شکر بجا نہیں لاتے ہیں۔ روایات کی روشنی میں جس شخص کو اللہ تعالی ہمیشہ نعمتوں سے نوازتا ہے لیکن وہ شکر نہیں کرتا ہے اور اپنے گناہوں پر مصر ہے تو یہ شخص استدراج سے دوچار ہوتا ہے۔ شہید مرتضی مطہری کا کہنا ہے کہ استدراج کی سنت کے مطابق جس شخص کو نعمتوں سے نوازا جاتا ہے یہ استدراج کی دلیل نہیں ہے بلکہ ان نعمتوں کے مقابلے میں انسان کا عکس العمل استدراج کو معین کرتا ہے۔

استدراج، بتدریج اللہ کا عذاب نزدیک ہونا

امام صادقؑ کا استدراج کی وضاحت

«جب بھی کوئی بندہ گناہ کرتا ہے اور اس کے مقابلے میں نعمتیں اسے زیادہ ملتی ہیں اور وہ نعمتیں اسے استغفار کرنے سے مانع بنتی ہیں تو یہ استدراج ہے اور وہ شخص یہ نہیں جانتا ہے کہ یہ استدراج ہے اور آہستہ آہستہ اس میں مبتلا ہورہا ہے۔»

شیخ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۴۵۲.

«استدراج» ایک قرآنی اصطلاح ہے[1] اور عربی زبان میں عذاب کا آہستہ آہستہ نزدیک ہونے کے معنی میں ہے؛[2]لیکن اسلامی تہذیب میں یہ ایک الہی سنت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی لاپرواہ گناہگاروں کو آہستہ آہستہ عذاب میں مبتلا کرتا ہے؛ یعنی جتنا گناہ زیادہ کرے گا اسی حساب سے نعمتیں بھی زیادہ ملیں گی اور وہ اسی نعمت کے باعث زیادہ غرور اور غفلت میں مبتلا ہوگا اور آخرکار سخت عذاب ہوگا۔[3]

قرآن مجید میں استدراج کا مضمون «سَنَسْتَدْرِجُهُم» (بتدریج انہیں مبتلا کریں گے) کے فعل کی شکل میں دو مرتبہ بیان ہوا ہے: ایک سورہ اعراف کی آیت182 میں اور دوسرا سورہ قلم کی آیت 44 میں۔ یہ دونوں آیتیں کافروں کے بارے میں ہیں۔[4] سورہ اعراف کی 182ویں آیت میں یوں بیان ہوا ہے کہ:«اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں (نشانیوں) کو جھٹلایا ہم انہیں بتدریج (آہستہ آہستہ ان کے انجام بد کی طرف) لے جائیں گے کہ انہیں اس کی خبر تک نہ ہوگی۔»

استدراج بیان کرنے والے قرآنی مضامین

قرآن مجید کی بعض دیگر آیات میں بھی استدراج کا لفظ استعمال ہوئے بغیر استدراج کا ذکر آیا ہے[5] قرآں میں «اِملاء» (مہلت‌ دینا) اور «اِمہال» (مہلت‌ دینا) بھی سنت استدراج کو بیان کرتے ہیں۔[6]

تفسیر المیزان میں علامہ طباطبایی کے کہنے کے مطابق سورہ آل عمران کی 178ویں آیت استدراج کی سنت کو بیان کرتی ہے[7] جس میں یوں کہا گیا ہے «اور کافر یہ ہرگز خیال نہ کریں کہ ہم جو انہیں ڈھیل دے رہے ہیں (ان کی رسی دراز رکھتے ہیں) یہ ان کے لیے کوئی اچھی بات ہے یہ ڈھیل تو ہم صرف اس لئے انہیں دے رہے ہیں کہ وہ زیادہ گناہ کر لیں۔ (آخرکار) ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔ »[8]

اجتماعی استدراج

بعض محققوں کا کہنا ہے کہ قرآن مجید میں انفرادی استدراج کے علاوہ سوشل اور اجتماعی استدراج کا ذکر بھی آیا ہے۔ اس قسم کی استدراج کے لئے ذکر ہونے والی آیات میں سورہ حج آیت 48 ہے:[9] «اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جن کو میں نے مہلت دی۔ حالانکہ وہ ظالم تھیں۔ پھر میں نے انہیں پکڑ لیا اور (آخرکار) میری طرف لوٹ کر آنا ہے۔»[10]

استدراج کی علامتیں

احادیث کے مطابق بعض اوقات نعمتیں استدراج کی نشانیاں ہیں۔ کُلینی نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے کہ«جب بھی کوئی بندہ گناہ کرتا ہے اور اس کے مقابلے میں نعمتیں اسے زیادہ ملتی ہیں اور وہ نعمتیں اسے استغفار کرنے سے مانع بنتی ہیں تو یہ استدراج ہے اور وہ شخص یہ نہیں جانتا ہے کہ یہ استدراج ہے اور آہستہ آہستہ اس میں مبتلا ہورہا ہے۔»[11]

اسی طرح کافی میں ایک اور روایت نقل ہوئی ہے جس میں ایک شخص امام صادقؑ سے پوچھتا ہے: اللہ تعالی سے مال مانگا، عطا کیا، اولاد مانگی، عطا کیا، مکان مانگا، اس نے عطا کیا۔ اب مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں میری ان دعاؤں کی استجابت استدراج کی وجہ سے نہ ہو۔ امام صادقؑ نے جواب میں فرمایا کہ اگر ان نعمتوں کا شکر ادا کیا تو استدراج نہیں ہے۔[12]

چھٹی صدی ہجری کے اہل سنت مفسر اور متکلم، فخرالدین رازی کا کہنا ہے کہ گناہگار انسان کو خارق العادہ اور سخت امور انجام دینے کی طاقت ملنا استدراج کی نشانیوں میں سے ہے۔[13]

مرتضی مطہری کا کہنا ہے کہ صرف نعمتوں کا ملنا ہی استدراج کی علامت نہیں بلکہ ان نعمتوں کے مقابلے میں عکس العمل سے معلوم ہوگا کہ استدراج میں مبتلا ہیں یا نہیں۔ اگر ان نعمتوں کا شکر ادا کریں اور انہیں ایسے راستے میں خرچ کریں جس میں اللہ تعالی کی خوشنودی ہے تو یہ استدراج نہیں ہے؛ لیکن اگر ان نعمتوں کی وجہ سے مغرور ہوئے یا ان کے استعمال میں اسراف کر بیٹھے یا انہیں غیرشرعی امور میں خرچ کریں تو استدراج میں مبتلا ہونگے۔[14]

مونوگراف

فارسی زبان میں ایک کتاب استدراج، سقوط گام‌بہ گام کے نام سے استدراج کے بارے میں ایک مفصل تحقیق ہے جو مرکز فرہنگ و معارف قرآں کی طرف سے چھپ چکی ہے۔ اس کتاب میں استدراج کا معنی، استدراج کے عذاب کی شدت اور استدراج کے عوامل اور نشانیوں جیسے موضوعات پر بحث ہوئی ہے۔

حوالہ جات

  1. معموری، «بررسی سنت استدراج در قرآن و میراث تفسیری»، ص۱۰۴.
  2. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۸، ص۳۴۶.
  3. ملاحظہ کریں: مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۷، ص۳۳و۳۴.
  4. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۷، ص۳۲.
  5. معموری، «بررسی سنت استدراج در قرآن و میراث تفسیری»، ص۱۰۵.
  6. معموری، «بررسی سنت استدراج در قرآن و میراث تفسیری»، ص۱۰۵.
  7. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۴، ص۷۹.
  8. ترجمہ محمد حسین نجفی
  9. معموری، «بررسی سنت استدراج در قرآن و میراث تفسیری»، ص۱۱۵.
  10. ترجمہ محمد حسین نجفی۔
  11. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۴۵۲.
  12. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۹۷.
  13. فخرالدین رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۲۱، ص۴۳۱.
  14. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۹۰ش، ج۲۷، ص۶۲۶.

مآخذ

  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ھ۔
  • فخرالدین رازی، ابو عبداللہ محمد بن عمر، مفاتیح الغیب،‌ بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۲۰ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح علی‌ اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، صدرا، چاپ چہاردہم، ۱۳۹۰ شمسی ہجری۔
  • معموری، علی، «بررسی سنت استدراج در قرآن و میراث تفسیری»، مطالعات قرآن و حدیث، ش۱، ۱۳۸۶ شمسی ہجری۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیہ، چاپ اول، ۱۳۷۴ شمسی ہجری۔