آیت جلد

ویکی شیعہ سے
آیت جلد
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت جلد
سورہنور
آیت نمبر2
پارہ18
محل نزولمدینہ
موضوعفقہی
مرتبط موضوعاتحد زنا
مربوط آیاتآیہ جزائے فحشا


آیت جَلْد یا آیت زِنا سورہ نور کی دوسری آیت ہے جس میں زنا کار مرد اور عورت کی شرعی حد بیان کی گئی ہے۔ اس آیت میں زنا کی سزا 100 کوڑے مقرر کی گئی ہے جو مومنین کے ایک گروہ کی موجودگی میں خطا کار پر مارے جائیں گے۔ آیت میں زناکاروں کو سزا دینے کے دوران رحم کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ مجتہدین کے مطابق یہ آیت ان زانیوں کے بارے میں ہے جو غلام یا مُحْصِن(وہ شخص جو حلال طریقے سے جنسی ضروریات پوری کرسکتا ہے) نہ ہو۔ بعض مفسرین کا عقیدہ ہے کہ اس آیت نے سورہ نساء کی آیت 15 (آیت فحشاء) میں زناکار عورتوں سے متعلق حکم کو نسخ کیا ہے۔

آیت جلد کی اہمیت

سورہ نور کی دوسری آیت کو آیت "جَلد" یا آیت زنا کہا جاتا ہے۔[1] یہ آیت آیات الاحکام میں سے ایک ہے، فقہاء نے اس سے استدلال کرتے ہوئے زناکار کی سزا کا حکم بیان کیا ہے۔[2] اس آیت میں آیا ہے: الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِہِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّہِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ» زناکار عورت اور زنا کار مرد دونوں کو سو سوکوڑے لگاؤ اور خبردار دین خدا کے معاملہ میں کسی مروت کا شکار نہ ہوجانا اگر تمہارا ایمان اللہ اور روزآخرت پر ہے اور اس سزا کے وقت مومنین کی ایک جماعت کو حاضر رہنا چاہیے۔

بعض مفسرین کے مطابق اس آیت میں 3 مطالب کی اشارہ ہوا ہے:

  1. زناکار کی سزا 100 کوڑے متعین ہیں
  2. زناکار کے حق میں رحمدلی یا مروت کرنے کی ممانعت
  3. عبرت کی خاطر مومنین کا ایک گروہ سزا کی جگہ حاضر ہوں۔[3]

فقہی حکم کا استنباط

کتاب شرائع الإسلام کے مطابق 100 کوڑوں کی سزا اس زناکار مرد اور زناکار عورت کے لیے ہے جو محصن(جو حلال طریقے سے اپنی جنسی تسکین کرسکتی ہو) نہ ہو، اور اگر زنا کار محصن ہو تو اس کی سزا سنگسار (رجم) کرنا ہے۔[4]

علامہ حلی اپنی کتاب تَحریر الاَحْکام میں لکھتے ہیں کہ زناکار مرد کو برہنہ کر کے کوڑے مارا جائے؛ لیکن اس کے سر، چہرہ اور شرمگاہ کی جگہ پر کوڑا نہ لگے۔ اس عبارت: (وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِہِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّہِ؛ خبردار دین خدا کے معاملہ میں کسی مروت کا شکار نہ ہوجانا) کے مطابق کوڑے مارنے کی حالت میں شدت اور سختی برتنی چاہیے۔[5]

شیخِ طوسی نے آیت کے اس فراز: «وَ لْيَشْہَدْ عَذٰابَہُمٰا طٰائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ؛ اس سزا کے وقت مومنین کی ایک جماعت کو حاضر رہنا چاہیے۔» سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ حاکم شرع کو چاہیے کہ حد شرعی جاری کرنے کے دوران لوگوں کو اطلاع دی جائے تاکہ لوگ وہاں سزا کی جگہ حاضر ہوجائیں اور اس کے طرح کے ناروا عمل کے انجام سے عبرت حاصل کریں۔[6] مناسب یہ ہے کہ سزا کی جگہ پر مومنین اور نیک لوگ حاضر ہوں۔[7] طبرسی اپنی تفسیر مجمع البیان میں کہتے ہیں کہ مفسرین نے جملہ: (طٰائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ= مومنین کی ایک جماعت) سے استدلال کیا ہے کہ سزا کی جگہ پر دو، تین سے زیادہ لوگ حاضر ہونا چاہیے۔[8]

کہتے ہیں کہ سورہ نور کی دوسری آیت نے سورہ نساء کی آیت فحشا کے حکم کو نسخ کیا ہے؛ صاحب تفسیر المیزان سید محمد حسین طباطبائی کے مطابق آیت جلد نے سورہ نساء کی آیت فحشاء کو نسخ کیا ہے، کیونکہ سورہ نساء کی اس آیت میں آیا ہے: «اور تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں بدکاری کریں ان پر اپنوں میں سے چار گواہوں کی گواہی لو اور جب گواہی دے دیں تو انہیں گھروں میں بند کردو، یہاں تک کہ موت آجائے یا خدا ان کے لئے کوئی راستہ مقرر کردے»، [9] ان کے عقیدے کے مطابق عبارت: «أَوْ یجْعَلَ اللَّہُ لَہُنَّ سَبیلا» اس نکتے کا بیان ہے کہ یہ آیت منسوخ ہوجائے گی۔ [10]

تفسیری نکتے

شیعہ مفسر قرآن طبرسی نے اس آیت سے چند نکتے اخذ کیے ہیں:

  1. اس آیت میں زناکار غیر محصن اور آزاد کا حکم بیان ہوا ہے۔ اگر زنا کار کنیز یا غلام ہو تو سورہ نساء کی آیت25 کے مطابق اسے آزاد انسان کی نصف سزا ملے گی۔[11]. کیونکہ سورہ نساء کی آیت25 میں آیا ہے؛ پھر جب (کنیزیں تمہاری) عقد میں آگئیں تو اگر زنا کرائیں تو ان کے لئے آزاد عورتوں کے نصف کے برابر سزا ہے۔[12]
  2. اس آیت کا مخاطب ائمہؑ یا وہ لوگ ہیں جنہیں امام متعین کرتے ہیں؛ کیونکہ غیر امام یا غیر منصوب من الامام شرعی حد جاری کرنے کا حق نہیں رکھتے۔[13]
  3. اس آیت میں عبارت "الزّانیۃ" (زناکار عورت) "الزّانی" سے پہلے ذکر ہوئی ہے۔ طبرسی نے اس تقدم کی چند وجوہات بیان کی ہیں:
  • عورتوں کے لیے زنا جیسے قبیح فعل کا مرتکب ہونا مردوں کی بنسبت زیادہ بدتر ہے۔[14]
  • عورتوں میں جنسی خواہشات زیادہ پائی جاتی ہیں۔ [15]
  • زنا سے عورتیں حاملہ ہوسکتی ہیں اورحاملہ ہونا اسے زیادہ نقصان کا سبب بنتا ہے۔[16]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. خراسانی، «آیات نام‌دار»، ج1، ص 380.
  2. محقق حلی، شرائع الإسلام، ج4، ص137؛ علامہ حلی، تحریر الاحکام، 1420ھ، ج5، ص319؛ شیخ طوسی، النہایہ، 1400ھ، ص701.
  3. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج14، ص359-360.
  4. محقق حلی، شرائع الإسلام، ج4، ص137.
  5. علامہ حلی، تحریر الاحکام، 1420ھ، ج5، ص319.
  6. شیخ طوسی، النہایہ، 1400ھ، ص701.
  7. شیخ طوسی، النہایہ، 1400ھ، ص701.
  8. طبرسی، مجمع البیان، 1415ق، ج7، ص220.
  9. سورہ نساء، آیت15.
  10. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج4، ص235.
  11. طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج7، ص219.
  12. سورہ نساء، آیہ 25.
  13. طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج7، ص219.
  14. طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج7، ص219.
  15. طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج7، ص219.
  16. طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج7، ص219.

مآخذ

  • خراسانی، علی، «آیات نام‌دار»، در دائرة المعارف قرآن کریم، قم، مو‌ٔسسہ بوستان کتاب، 1382ہجری شمسی.
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ الأعلمی، چاپ دوم، 1390ھ.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، تحقیق گروہی از محققین، بیروت، موسسہ الأعلمی، چاپ اول، 1415ھ.
  • طوسی، محمد بن حسن، النہایہ فی مجرد الفقہ و الفتاوی، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ دوم، 1400ھ.
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الاحکام الشرعیہ علی مذہب الإمامیہ، تحقیق ابراہیم بہادری، قم، مؤسسہ الإمام الصادق(ع)، چاپ اول، 1420ھ.
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الإسلام فی مسائل الحرام و الحلال، تحقیق عبدالحسین محمد علی بقال، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ.
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیة، چاپ سی و دوم، 1374ہجری شمسی.