حدیث قرب نوافل

ویکی شیعہ سے
حدیث قرب نوافل
حدیث قرب نوافل
حدیث کے کوائف
صادر ازحدیث قُدسی
اصلی راویپیغمبر اکرمؐ
اعتبارِ سندصحیح لیکن بعض نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

حدیث قُرْب نَوَافِل وہ حدیث قُدسی ہے جس میں اللہ تعالی کے تقرب کا وہ مقام بیان ہوا ہے جسے مومن واجبات اور مستحبات کو انجام دیکر حاصل کرتا ہے۔

اس حدیث کے ایک فراز میں یوں آیا ہے: مومن بندہ نوافل انجام دیکر قرب الہی پاتا ہے اور اللہ اس کا کان اور آنکھ بن جاتا ہے۔ مسلمان عرفا اس تعبیر کو حقیقی قرار دیتے ہوئے نظریہ وحدت الوجود پر ایک دلیل اور فنا فی اللہ یا صفات الہی میں فنا ہونے کے لیے شاہد قرار دیتے ہیں؛ لیکن محدثین اور فقہا کا کہنا ہے کہ یہ تعبیر مجازی طور پر استعمال ہوئی ہے اور اسے مومن کے لئے الہی مدد پہنچنے کا معنی کرتے ہیں یا کوئی اور معنی۔

نام‌

حدیث قرب نوافل حدیث قدسی میں سے ایک ہے کہ جسے اللہ تعالی نے معراج پر پیغمبر اکرمؐ سے خطاب کیا ہے۔ یہ حدیث پیغمبر اکرمؐ کے ایک سوال کا جواب تھا جس میں رسول خداؐ نے اللہ کے ہاں مومن کے مقام کے بارے میں پوچھا تھا۔[1]اور «قرب نوافل» کے نام سے مشہور ہونے کا سبب یہ ہے کہ اس حدیث کے آخر میں مؤمن کا نوافل انجام دینے کو اللہ تعالی کے قرب کا باعث قرار دیا ہے اور مسلمان عرفا نے اسی جملے سے الہام لیتے ہوئے اس مقام کے لئے «قرب نوافل» کے نام دیا ہے۔[2]

حدیث کا مضمون

حدیث قرب نوافل میں اللہ کے پسندیدہ بندے کی توہین کو اللہ سے جنگ کے مترادف قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی نے حدیث قرب نوافل میں اپنے ولی اور دوست کی مدد کرنے پر ہر چیز سے زیادہ تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو مومن موت سے ڈرتا ہے اس کی موت پر جتنی تردید کرتا ہوں کسی اور چیز پر نہیں؛ کیونکہ اسے موت پسند نہیں اور مجھے اس کو ناراض کرنا پسند نہیں۔ اسی طرح اس حدیث میں آیا ہے کہ بعض مومنین کی اصلاح فقر اور غربت سے ہوتی ہے جبکہ بعض کی مالداری اور توانگری سے، اگر ان کی دوسری کوئی حالت ہوجائے تو وہ نابود ہوتے ہیں۔

حدیث قرب نوافل میں واجبات کی انجام دہی اللہ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب عمل اور تقرب الہی کا بہترین وسیلہ قرار دیا گیا ہے۔ نوافل (مستحبات) بھی تقرب کا وسیلہ قرار دئے گئے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ جو بھی کسی نافلہ (مستحب) کے ذریعے میرا یعنی اللہ کا تقرب حاصل کرے تو میں اسے چاہتا ہوں اور اس کا کان، آنکھ، زبان اور ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ سن سکے اور دیکھ سکے، اس کی بات سنتا ہوں اور جو چاہتا ہے اسے پورا کرتا ہوں۔[3]

تفسیر حدیث

عرفا کا نظریہ

مسلم عرفا نے اس حدیث کو بعض عرفانی مباحث کے لیے مستند قرار دیا ہے۔[4] ابن عربی نے اس حدیث کے الفاظ سے ان کا حقیقی معنی مراد لیتے ہوئے اسے وحدت الوجود پر شاہد قرار دیا ہے۔[5]ان کے نظرئے کے مطابق اللہ تعالی مومن کی آنکھ اور کان بنے سے مراد انسان کا اللہ تعالی کی صفات میں فنا ہونا ہے۔[6]

سید حیدر آملی نے اسے «فنا فی اللہ» اور محبوب اور حبیب کا ایک ہونے پر شاہد لیا ہے۔[7] عرفا کی نظر میں سیر و سلوک، دو مرحلوں یعنی «قرب فرایض» و «قرب نوافل» میں انجام پاتا ہے۔ امام خمینی، قرب نوافل کو اللہ کی ذات، صفات اور افعال میں فنا ہونے پر ناظر سمجھتا ہے اور قرب فرائض کو فنا کے بعد والی بقا پر تطبیق دیتا ہے۔[8]

بعض عرفا قرب فرائض کو قرب نوافل سے مرتبے میں اعلی سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں قرب فرائض کا نتیجہ اللہ کی ذات میں فنا ہونا ہے اور قرب نوافل کا نتیجہ صفات الہی میں فنا ہونے کا نام ہے۔ اسی طرح ان کے عقیدے کے مطابق قرب فرائض کے مرحلے میں انسان عروج تک پہنچتا ہے لیکن قرب نوافل کے مرحلے میں اللہ تعالی نزول کرتا ہے۔[9]

فقہا اور محدثین کا نظریہ

بعض فقہا اور محدثین کا کہنا ہے کہ حدیث کے یہ الفاظ کنایہ اور مجاز ہیں لہذا ان الفاظ کی اس طرح سے تفسیر کی جائے کہ وحدت الوجود، حلول اور فنا کی بات پیش نہ آئے۔[10]اسی لئے حدیث کے ان الفاظ کے لئے مختلف وجوہات پیش کئے ہیں؛[11]من جملہ شیخ حر عاملی نے مندرجہ ذیل وجوہات ذکر کیا ہے:

  • اللہ کی رضا کے لئے انجام پانے والے امور میں مومن کے لئے الہی امداد
  • مؤمن کے لیے اللہ کی مدد اس کے اعضا و جوارح کی مانند ہے
  • مؤمن کے اعضا و جوارح کی مانند اللہ تعالی ان کے ہاں عزیز ہونا
  • اللہ تعالی ہی مومن کے لئے تکیہ گاہ
  • اللہ کا مومن سے قریب ہونا[12]

سندِ حدیث

حدیث قرب نوافل مختصر اختلاف کے ساتھ شیعہ اور سنی مآخذ میں پیغمبر اکرمؐ سے نقل ہوئی ہے۔ اس حدیث کو اَبان بن تَغلِب نے امام باقرؑ سے اور حماد بن بشیر نے امام صادقؑ سے اور ان دونوں اماموں نے پیغمبر اکرمؐ سے نقل کیا ہے۔[13] اہل سنت کے مآخذ میں بعض راوی جیسے عایشہ،[14] میمونہ[15]اور ابوہریرہ[16] نے پیغمبر اکرمؐ سے نقل کیا ہے۔ یہ روایت مختلف اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے جن میں سے بعض اسناد کو صحیح جبکہ بعض کو ضعیف قرار دیا گیا ہے۔[17]

حدیث کا متن اور ترجمہ

متن ترجمه
لَمَّاأُسْرِی‏ بِالنَّبِی (ص‏) قَالَ یا رَبِّ مَا حَالُ اَلْمُؤْمِنِ عِنْدَک قَالَ یا مُحَمَّدُ مَنْ أَهَانَ لِی وَلِیاً فَقَدْ بَارَزَنِی بِالْمُحَارَبَةِ وَ أَنَا أَسْرَعُ شَی‏ءٍ إِلَى نُصْرَةِ أَوْلِیائِی وَ مَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَی‏ءٍ أَنَا فَاعِلُهُ کتَرَدُّدِی عَنْ وَفَاةِ اَلْمُؤْمِنِ یکرَهُ اَلْمَوْتَ وَ أَکرَهُ مَسَاءَتَهُ وَ إِنَّ مِنْ عِبَادِی اَلْمُؤْمِنِینَ مَنْ لاَ یصْلِحُهُ إِلاَّ اَلْغِنَى وَ لَوْ صَرَفْتُهُ إِلَى غَیرِ ذَلِک لَهَلَک وَ إِنَّ مِنْ عِبَادِی اَلْمُؤْمِنِینَ مَنْ لاَ یصْلِحُهُ إِلاَّ اَلْفَقْرُ وَ لَوْ صَرَفْتُهُ إِلَى غَیرِ ذَلِک لَهَلَک وَ مَا یتَقَرَّبُ إِلَیّ عَبْدٌ مِنْ عِبَادِی بِشَی‏ءٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِمَّا اِفْتَرَضْتُ عَلَیهِ وَ إِنَّهُ لَیتَقَرَّبُ إِلَیَّ بِالنَّافِلَةِ حَتَّى أُحِبَّهُ فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ کنْتُ إِذاً سَمْعَهُ اَلَّذِی یَسْمَعُ بِهِ وَ بَصَرَهُ اَلَّذِی یَبْصِرُ بِهِ وَ لِسَانَهُ اَلَّذِی ینْطِقُ بِهِ وَ یدَهُ اَلَّتِی یبْطِشُ بِهَا إِنْ دَعَانِی أَجَبْتُهُ وَ إِنْ سَأَلَنِی أَعْطَیتُهُ. جب پیغمبر اکرمؐ معراج پر تشریف لے گئے تو اس وقت فرمایا: اے میرے رب! تمہارے نزدیک مؤمن کی حالت کیسی ہے؟ اللہ تعالی نے کہا: اے محمد، جو بھی میرے کسی دوست کی توہین کرے گویا میرے ساتھ علنی جنگ کی اور میں اپنے دوست کی مدد کے لئے ہر چیز سے زیادہ تیزی کے ساتھ پہنچتا ہوں۔ میں جتنا مومن کی جان لینے میں تردید کرتا ہوں کسی اور کام میں نہیں؛ کیونکہ اسے موت پسند نہیں اور مجھے اس کی ناراحتی پسند نہیں؛ اور بتحقیق میرے مومن بندوں میں بعض ایسے ہیں جن کی اصلاح توانگری کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں کرسکتی، اور اگر انہیں کسی اور حالت میں لے آؤں تو وہ ہلاک ہوجائیں گے۔ اور میرے مومن بندوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کی اصلاح فقر اور غربت کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں کرسکتی ہے اور اگر انہیں کسی اور حالت میں لے آئیں تو نابود ہوجائیں گے؛ میرے بندوں میں سے کوئی بھی واجب سے بڑھ کر کسی اور عمل کے ذریعے میرا تقرب حاصل نہیں کرسکتا ہے؛ اور بےشک جب وہ نافلہ کے ذریعے سے میرا تقرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ اسے میں پسند کرتا ہوں جب اسے چاہتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔ جب وہ مجھے پکارے استجابت کرتا ہوں اور جب مجھ سے مانگے تو عطا کرتا ہوں۔

حوالہ جات

  1. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۵۲.
  2. مظفری، «قرب نوافل و فرائض و تطبیق آنہا بر مقامات عرفانی»، ص۷.
  3. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۵۲.
  4. آذرخشی، «جایگاہ حدیث قرب نوافل در منابع فریقین و بررسی تطبیقی رویکرد عرفا و محدثان نسبت بہ آن»، ص۱۸.
  5. ابن عربی، الفتوحات المکیہ، دارصادر، ج۲، ص۳۲۲-۳۲۳؛ ابن ترکہ، شرح فصوص الحکم، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۳۱۹.
  6. قیصرى، شرح فصوص الحکم، ۱۳۷۵ش، ص۳۵۰ و ۳۵۱.
  7. آملی، المقدمات من کتاب نص النصوص، ۱۳۵۲ش، ص۲۶۹
  8. مظفری، «قرب نوافل و فرائض و تطبیق آنہا بر مقامات عرفانی»، ص۱۱.
  9. صمدی آملی، شرح دفتر دل علامہ حسن زادہ آملی، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۳۴۵ تا ۳۴۸.
  10. موحدی، «نردبان عروج؛ گذری بر حدیث قرب نوافل»، ص۱۷۴-۱۷۷؛ غزالی، احیاء العلوم، دارالکتاب العربی، ج۱۴، ص۶۱-۶۲.
  11. مراجعہ کریں: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۴، ص۳۱-۳۲؛ مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ق، ج۱۰، ص۳۹۰-۳۹۳؛ حر عاملی، الفوائد الطوسیہ، ۱۴۰۳ق، ص۸۱-۸۲.
  12. حر عاملی، الفوائد الطوسیہ، ۱۴۰۳ق، ص۸۱-۸۲.
  13. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۵۲.
  14. طبرانی، المعجم الاوسط، ۱۴۱۵ق، ج۹، ص۱۳۹.
  15. موصلی، مسند ابی‌یعلی، ۱۴۰۸ق، ج۱۲، ص۵۲۰.
  16. بخاری، صحیح البخاری، ۱۴۰۱ق، ج۷، ص۱۹۰.
  17. آذرخشی، «جایگاہ حدیث قرب نوافل در منابع فریقین و بررسی تطبیقی رویکرد عرفا و محدثان نسبت بہ آن»، ص۱۸.

مآخذ

  • ابن ترکہ، علی بن محمد، شرح فصوص الحکم، تحقیق محسن بیدارفر، قم، انتشارات بیدار، ۱۴۲۰ھ/۱۳۷۸شمسی ہجری۔
  • ابن عربی، محمد بن علی، الفتوحات المکیہ، بیروت، دارصادر.
  • آذرخشی، مصطفی و مجید معارف، «جایگاہ حدیث قرب نوافل در منابع فریقین و بررسی تطبیقی رویکرد عرفا و محدثان نسبت بہ آن»، در پژوہش‌نامہ قرآن و حدیث، شمارہ ۷، تابستان و پاییز ۱۳۸۹شمسی ہجری۔
  • آملی، سید حیدر، المقدمات من کتاب نص النصوص، تہران، قسمت ایرانشناسی انستیتو ایران و فرانسہ پژوہشہای علمی در ایران، اول، ۱۳۵۲شمسی ہجری۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، دارالفکر للطباعۃ و النشر و التوزیع، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م (افست از نسخہ دارالطباعۃ العامرۃ باستانبول).
  • حر عاملی، محمد بن حسن، الفوائد الطوسیۃ، تصحیح مہدی لاجوردی، قم، المطبعۃ العلمیۃ، ۱۴۰۳ھ۔
  • صمدی آملی، داوود، شرح دفتر دل علامہ حسن‌زادہ آملی، نبوغ، چاپ اول، ۱۳۷۹شمسی ہجری۔
  • طبرانی، المعجم الاوسط، تحقیق قسم التحقیق بدار الحرمین، دارالحرمین للطباعۃ و النشر و التوزیع، ۱۴۱۵ھ/۱۹۹۵ء۔
  • قیصرى، داود، شرح فصوص الحکم، تہران، شرکت انتشارات علمى و فرہنگى، چاپ اول، ۱۳۷۵شمسی ہجری۔
  • غزالی، محمد بن محمد، احیاءالعلوم، بیروت، دارالکتاب العربی.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، اصول الکافی، ترجمہ سید جواد مصطفوی، تہران، کتابفروشی علمیہ اسلامیہ، ۱۳۶۹شمسی ہجری۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مظفری، حسین، «قرب نوافل و فرائض و تطبیق آنہا بر مقامات عرفانی»، در مجلہ حکمت عرفانی، شمارہ ۱۰، بہار و تابستان ۱۳۹۵شمسی ہجری۔
  • مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، بحار الأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، تصحیح محمدباقر محمودی و ہمکاران، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ء۔
  • مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، ۱۴۰۴ق/۱۳۶۳شمسی ہجری۔
  • موحدی، عبداللہ، «نردبان عروج؛‌ گذری بر حدیث قرب نوافل»، در مجلہ مطالعات عرفانی، شمارہ ۱، تابستان ۱۳۸۴شمسی ہجری۔
  • موصلی، ابویعلی، مسند ابی یعلی، تحقیق حسن سلیم اسد، دارالمأمون للتراث، ۱۴۰۸ھ/۱۹۸۸ء۔