آیت قبلہ

ویکی شیعہ سے
آیت قبلہ
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت قبلہ
آیت نمبر144
پارہ2
صفحہ نمبر22
شان نزولبیت المقدس سے کعبہ کی جانب قبلہ کی تبدیلی کا اعلان
محل نزولمدینہ


آیت قبلہ سورہ بقرہ کی ۱۴۴ ویں آیت ہے کہ جس میں مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف تبدیل کرنے کا حکم بیان ہوا ہے۔ مسلمانوں کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد اس شہر کے یہودی مسلمانوں کے بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کی بنا پر مسلمانوں کو اسلام کے پاس کوئی اصلی دستور نہ ہونے کا طنز کرتے تھے۔ یہ چیز اس بات کا موجب بنی کہ پیغمبر(ص) نے مسلمانوں کیلئے کعبہ کے قبلہ ہونے کی آرزو ظاہر کی۔

سورہ بقرہ کی ۱۴۲، ۱۴۳ و ۱۵۰ویں آیات کو بھی تحویل قبلہ سے مرتبط سمجھتے ہیں۔ بعض مفسرین سورہ بقرہ کی ۱۴۲ تا ۱۴۴ ویں آیات تحویل قبلہ سے متعلق سمجھتے ہیں۔ مفسرین آیت قبلہ کے نزول کا وقت ہجرت کے بعد چھ سے لے کر انیس مہینوں کے درمیان ذکر کرتے ہیں۔ آیت قبلہ کے میں مقام نزول میں اختلاف کی بنا پر درج ذیل تین مقامات میں سے کوئی ایک ہے: مسجد ذو قبلتین، مسجد قبیلہ (بنی سالم بن عوف) اور مسجدالنبی.

خانہ کعبہ، مسجد الحرام کے درمیان

آیت اور ترجمہ

قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ﴿۱۴۴﴾
(اے رسولؐ!) تحویل قبلہ کی خاطر) تیرا بار بار آسمان کی طرف منہ کرنا ہم دیکھ رہے ہیں۔ تو ضرور اب ہم تمہیں موڑ دیں گے اس قبلہ کی طرف جو تمہیں پسند ہے۔ بس اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ دیجئے۔ اور (اے اہل ایمان) تم جہاں کہیں بھی ہو اپنے منہ (نماز پڑھتے وقت) اسی طرف کیا کرو۔ جن لوگوں کو (آسمانی) کتاب (تورات وغیرہ) دی گئی ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ (تحویل قبلہ کا فیصلہ) ان کے پروردگار کی طرف سے ہے اور یہ حق ہے۔ اور جو کچھ (یہ لوگ) کر رہے ہیں اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔ (144)

اس آیت میں قبلہ کی تبدیلی کا حکم بیان ہوا ہے۔ یہ آیت قبلہ [1] کے نام سے مشہور ہے. نیز سورت بقرہ کی ۱۴۲ویں،[2] ۱۴۳[3] اور ۱۵۰ویں [4] آیات بھی اسی عنوان سے یاد کی جاتی ہیں ۔ بعض مفسرین نے اسی سورہ کی ۱۴۲-۱۴۴ کی آیات کو قبلہ کی تبدیلی سے مربوط سمجھتے ہیں۔ [5]

قبلے کی تبدیلی کے حکم کے نازل ہونے کے بعد یہودیوں اور بعض سطحی قسم کے مسلمانوں نے اعتراض کرنا شروع کئے تو خداوند کریم نے انکے جواب میں درج ذیل آیت نازل کی:

سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُل لِّلَّـهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿١٤٢﴾
ترجمہ: عنقریب بے وقوف لوگ کہیں گے کہ ان (مسلمانوں) کو کس چیز نے روگردان کر دیا۔ اس قبلہ (بیت المقدس) سے، جس پر وہ پہلے تھے (اے پیغمبرؐ) کہہ دیجئے اللہ ہی کے لیے ہے مشرق اور مغرب بھی۔ وہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستہ کی طرف ہدایت کرتا ہے (اس پر لگا دیتا ہے)۔ (142)

شأن نزول

بیت المقدس، مسلمانوں کا قبلۂ اول

تفسیری منآخذوں کے مطابق آیت قبلہ کے نزول کا سبب مسلمانوں کے قبلے کا بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف تبدیل ہونا ہے ۔ مسلمانوں کی مدینہ ہجرت کے بعد مدینے کے یہودی مسلمانوں کو آئین اسلام کا اصلی دستور نہ ہونے پر طنز کرتے اور وہ کہتے تھے کہ اگر رسول خدا ایک علیحدہ اور جدا شریعت لے کر آیا ہے تو تو نماز میں ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر کے کیوں نماز پڑھتا ہے ۔[6] دیگر روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اور دیگر ایسے عوامل ہیں کہ جن کی وج سے رسول اللہ نے مسلمانوں کیلئے خانہ کعبہ کے قبلہ ہونے کی آرزو کی ۔لیکن بارگاہ الہی کے ادب کی خاطر اپنی اس آرزو کو زبان پر نہیں لاتے تھے ۔[7] اس آیت قَد نَرَی تَقَلُّبَ وَجهِکَ فِی السَّمَاء... میں قبلے کی تبدیلی طرف اشارہ موجود ہے ۔[8]

مفسرین رسول اللہ کے آسمان کی جانب نگاہ کرنے میں دو رائے رکھتے ہیں :

  1. رسول اللہ کو پہلے قبلہ کی تبدیلی کا وعدہ دیا چکا تھا ۔اس وجہ سے رسول اللہ آسمان کی جانب اپنا رخ کرتے اور جبرائیل کے ذریعے وحی کے منتظر رہتے ۔
  2. رسول خدا اپنی اس تمنا کو زبان پر لائے بغیر آسمان کی جانب نگاہ کرتے کیونکہ آپ کیلئے جائز نہیں تھا کہ اذن الہی کے بغیر کوئی چیز خدا سے طلب کریں ۔[9]

زمان نزول

مفسرین اس آیت کے نازل ہونے اور قبلے کی تبدیلی کے وقت کے متعلق اتفاق نظر نہیں رکھتے ہیں ۔مفسرین ہجرت کے بعد چھ[10] مہینوں سے لے کر انیس[11] مہینوں کے درمیان اس آیت کے نازل ہونے کے قائل ہیں ۔ایک جماعت ہجرت کے دوسرے سال رجب میں قبلے کی تبدیلی کی بنا پر ہجرت کے بعد صحیح ترین زمان ۱۷ ماه بعد سمجھتے ہیں ۔[12] نیز نماز صبح، ظہر یا عصر میں قبلے کی تبدیلی کا حکم آیا ۔اس میں بھی اختلاف نظر پایا جاتا ہے ۔[13]

مقام نزول

قبلے کی تبدیلی کے مقام اور اس تبدیلی کے حکم کے نافذ ہونے کی جگہ میں بھی اتفاق نظر نہیں ہے بلکہ اس سلسلے کی تاریخی روایات میں درج ذیل تین مقامات میں سے کوئی ایک مقام ہے :

مربوط لنکس

حوالہ جات

  1. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۱، ص۳۳؛ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۲۵.
  2. التبیان، ج۲، ص۳-۴؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۴۱۴.
  3. التفسیر الکبیر، ج۴، ص۱۰۷.
  4. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۲۹.
  5. الوسیط، ج۱، ص۲۹۴.
  6. طبری، جامع البیان، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۲۹؛ رازی، روض الجنان، ۱۳۷۵ش، ج۲، ص۲۰۸؛ ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۱۹۸.
  7. رازی، روض الجنان، ۱۳۷۵ش، ج۲، ص۲۰۸؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۴۲۰؛ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۴۹۰.
  8. . نک: طبری، جامع البیان، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۲۸؛ واحدی، اسباب النزول، ۱۳۸۸ق، ص۲۷؛ تفسیر قمی، ج۱، ص۶۳؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۹، ص۱۹۸؛ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۵.
  9. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۴۲۲؛ التفسیر الکبیر، ج۴، ص۱۲۲- ۱۲۳.
  10. طبری، جامع البیان، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۲۸؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۴۱۴.
  11. السمہودی، وفاء الوفاء، ۲۰۰۶م، ج۱، ص۲۷۸؛ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۳۳.
  12. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۳۱.
  13. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۱۸۶-۱۸۷؛ البغوی، تفسیر بغوی، دار المعرفہ، ج۱، ص۱۲۵.
  14. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۱۸۶؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۴۲؛ زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۲۰۲.
  15. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منوره، ۱۳۸۶ش، ص۲۶۸.
  16. ابن النجار، الدرة الثمینہ، دار الارقم، ص۱۱۵؛ ابن سید الناس، عیون الاثر، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۳۰۸.
  17. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۱۸۶؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۴۲؛ زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۲۰۲.
  18. تفسیر قمی، ج۱، ص۶۳؛ اعلام الوری، ج۱، ص۱۵۴.
  19. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۱۸۶؛ السمہودی، وفاء الوفاء، ۲۰۰۶م، ج۱، ص۲۷۸.

مآخذ

  • قرآن کریم
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، سعی جمیلہ محمد عبدالقادر، بیروت، ‌دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۸ق.
  • ابن سید الناس، عیون الاثر، بیروت، ‌دار القلم، ۱۴۱۴ق
  • ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر (تفسیر القرآن العظیم)، سعی جمیلہ مرعشلی، بیروت، ‌دار المعرفہ، ۱۴۰۹ق.
  • ابن نجار، محمد، الدرة الثمینه، سعی جمیلہ شکری، بیروت، ‌دار الارقم.
  • ابوالفتوح رازی، روض الجنان، سعی جمیلہ یاحقی و ناصح، مشہد، آستان قدس رضوی، ۱۳۷۵ش.
  • بغوی، تفسیر بغوی (معالم التنزیل)، کوشش: خالد عبدالرحمن، بیروت، ‌دار المعرفہ.
  • زمخشری، الکشاف، قم، بلاغت، ۱۴۱۵ق.
  • سمہودی، وفاء الوفاء، سعی جمیلہ محمد عبدالحمید، بیروت، ‌دار الکتب العلمیه، ۲۰۰۶م.
  • طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیرالقرآن، قم، انتشارات اسلامی، ۱۴۱۷ق.
  • طبرسی، إعلام الوری، قم، آل البیت، ۱۴۱۷ق.
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، ۱۳۷۲ش.
  • طنطاوی، سید محمد، التفسیر الوسیط، قاہرہ، ‌دار المعارف، ۱۴۱۲ق.
  • طوسی، التبیان، کوشش: العاملی، بیروت، ‌دار احیاء التراث العربی.
  • طبری، جامع البیان، سعی جمیلہ صدقی جمیل، بیروت، ‌دار الفکر، ۱۴۱۵ق.
  • فخر الرازی، التفسیر الکبیر، بیروت، ‌دار احیاء التراث العربی، ۱۴۱۵ق.
  • فخر الرازی، التفسیر الکبیر، قم، دفتر تبلیغات، ۱۴۱۳ق.
  • قائدان، اصغر، تاریخ و آثار اسلامی مکه مکرمه و مدینه منوره، تہران، مشعر، ۱۳۸۶ش.
  • قمی، تفسیر القمی، سعی جمیلہ الجزائری، قم، ‌دار الکتاب، ۱۴۰۴ق.
  • مجلسی، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق.
  • واحدی، اسباب النزول، قاہرہ، الحلبی و شرکاه، ۱۳۸۸ق.
  • یعقوبی، احمد بن یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ‌دار صادر، ۱۴۱۵ق.

بیرونی روابط