حلیمہ سعدیہ، پیغمبر اکرمؐ کی دایہ (رضاعی ماں) ہیں، جنہوں نے ثوبیہ کے بعد حضرتؐ کو دودھ پلایا، حلیمہ نے پیغمبرؐ کو دودھ پلانے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد اپنی زندگی میں اس کی خیر و برکت کو مشاہدہ کیا۔

حلیمہ سعدیہ
قبرستان بقیع میں حلیمہ سعدیہ کا مزار
قبرستان بقیع میں حلیمہ سعدیہ کا مزار
کوائف
مکمل نامحلیمہ بنت عبداللّه بن حارث
محل زندگیاطراف مکہ
وفاتمختلف اقوال
مدفنبقیع
دینی معلومات
وجہ شہرتپیغمبر اکرمؐ کی رضاعی ماں

پیغمبر اکرمؐ ٤ یا ٥ سال کی عمر تک بنی سعد قبیلہ میں رہے۔ مورخین شق البطن یا شق الصدر کے جعلی واقعہ کو اسی زمانے سے منسوب کرتے ہیں۔ رسول خداؐ کی نگاہ میں حلیمہ کا خاص احترام تھا اور مختلف مواقع پر آپ کے لئے کریمانہ بخشش فرماتے تھے۔

خاندان

حلیمہ کے والد، ابو دویب عبداللہ بن حارث بن شجنہ سعدی، سعد بن بکر بن ہوازن کے قبیلہ سے تھے۔[1]

حلیمہ کے شوہر کا نام حارث بن عبد العزی تھا اور اس کی کنیت ابو کبشہ تھی۔ اور قریش جو پیغمبرؐ کو ابن ابی کبشہ کہتے ہیں ظاہراً اس کی وجہ یہی تھی۔[2]

حلیمہ نے ثوبیہ جو کہ ابو لہب کی کنیز تھی جس نے کچھ دن پیغمبرؐ کو دودھ پلایا تھا، اس کے بعد پیغمبر اکرمؐ کو دودھ پلانا شروع کیا۔[3]

دودھ پلانے کی روایات

اس دوران جو واقعات پیش آئے، وہ تمام منابع میں، خود حلیمہ کی زبانی نقل ہوئے ہیں۔ کیونکہ پیغمبرؐ نے دودھ پینے اور بچپن کے زمانے کو بنی سعد بن بکر بن ھوازن کے قبیلے میں گزارا اس لئے آپؐ خود کو عرب کے فصیح ترین مرد سمجھتے تھے۔ [4]

پیغمبر اسلامؐ کا بچپن

عام طور پر مکہ کے لوگ اپنے بچوں کو فصاحت سکھانے کے لئے بادیہ نشین قبیلوں کے سپرد کرتے تھے۔ جس سال قبیلہ بنی سعد میں قحط پڑا تھا، حلیمہ اپنے قبیلے کی نو عورتوں کے ہمراہ، دودھ پیتے بچوں کی تلاش میں مکہ کے امیر ترین قبیلوں کی طرف نکلیں، لیکن چونکہ آپ کی سواری قحطی اور تنگدستی کے باعث بہت نحیف اور ناتوان تھی، اس لئے دوسروں سے پیچھے رہ گئی اور دیر سے مکہ پہنچی۔ جس کے نتیجے میں، صرف عبد المطلب کا پوتا رہ گیا تھا جس کو یتیم ہونے کی وجہ سے، کسی نے دودھ پلانے کے لئے قبول نہیں کیا تھا، کیونکہ سب کو کم درآمد ہونے کا ڈر تھا۔[5] حلیمہ پیغمبر(ص) کی دایہ بن گئیں۔

حلیمہ کی زندگی میں خیر و برکت

حلیمہ نے پیغمبرؐ کو دودھ پلانے کی ذمہ داری قبول کرنے کے فوراً بعد ہی، اپنی زندگی میں خیر و برکت کے آثار مشاہدہ کئے. تنگدستی کی وجہ سے اس کا دودھ کم ہو گیا تھا اور اپنے بیٹے کو بھی مشکل سے دودھ پلاتی تھی، لیکن اس کے بعد اس کا دودھ اتنا زیادہ ہو گیا کہ محمدؐ بھی اور اس کا اپنا بیٹا بھی پیٹ بھر کر دودھ پیتے تھے، حتی کہ اس کے کمزور اور ناتوان اونٹ میں بھی اتنی طاقت آ گئی کہ وہ واپسی پر سب پر سبقت لے گیا اور سب لوگوں نے حیرت سے اس کی وجہ پوچھی تو حلیمہ نے سب کو یہی بتایا کہ یہ بنی ہاشم کے اس بچے کی وجہ سے ہے اور کئی بار اس نے اس کی طرف اشارہ کیا۔ [6]

محمدؐ کی مزید دیکھ بھال پر اصرار

جب حضرت محمدؐ دو سال کے ہو گئے تو حلیمہ نے آپؐ کو دودھ چھڑا دیا اور آپؐ کو مکہ میں اپنی مادر گرامی آمنہ بنت وھب کے پاس لے گئی۔ لیکن کیونکہ اس بچے کی وجہ سے حلیمہ کی بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بنی سعد قبیلہ کے ریوڑں کی بنسبت زیادہ با برکت ہو گیا تھا، اس لئے وہ چاہتی تھی کہ آپؐ کو اپنے پاس رکھے۔ آخر کار حلیمہ کے زیادہ اصرار، اور مکہ میں وبا پھیلی ہوئی تھی جس کے سبب آمنہ کو ڈر تھا کہ ان کا فرزند بیمار نہ ہو جائے، اسی لئے ایک بار پھر وہ بچے کو اپنے پاس لے آئی۔[7]

شق صدر کا واقعہ

کہا گیا ہے کہ جب حضرت محمدؐ حلیمہ کے پاس تھے، تو اس کے لئے ایک عجیب واقعہ پیش آیا جو شق صدر سے مشہور ہے۔ نقل ہوا ہے کہ فرشتے مرد کی شکل میں سفید لباس پہنے محمدؐ کے لئے ظاہر ہوئے، آپؐ کے سینے کو چیرا، اور آپ کے دل سے ایک سیاہ داغ باہر نکالا، اور آپ کے دل کو ایک تشت میں رکھ کر دھویا اور پھر آپ کے سینے کو جوڑ دیا۔ حلیمہ کا بیٹا (محمدؐ کا رضاعی بھائی گھر کے نزدیک یہ سب ماجرا دیکھ رہا تھا، اس نے فوراً حلیمہ کو یہ خبر پہنچائی۔[8]

حلیمہ بہت پریشان ہوئی اور وہ فوراً بچے کو پیشین گو کے پاس لے گئی تا کہ وہ اس بارے میں حکم کرے۔ پیشین گو نے بچے کی بات سننے کے بعد خبر سنائی کہ یہ بچہ آنے والے زمانے میں لوگوں کے دین کو تبدیل کرے گا۔ حلیمہ زیادہ پریشان ہو گئی اور اس نے ارادہ کیا کہ بچے کو دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لئے، مکہ اپنی والدہ کے پاس واپس لے جائے۔[9]

یہ داستان جو بیان ہوئی ہے کہ پیغمبرؐ کی زندگی میں ایسا کئی بار ہوا اس کو محققین نے مختلف دلائل کی بناء پر رد کیا ہے اور کہا ہے کہ اس بارے میں روایات بنائی گئی ہیں۔[10]

حضرت محمدؐ چار یا پانچ سال تک قبیلہ بنی سعد بن بکر میں رہے اس کے بعد حلیمہ نے آپکو اپنی والدہ اور آپ کے دادا عبد المطلب کے پاس واپس بھیج دیا۔ [11]

اسلام لانا

حلیمہ اسلام کے ظہور کے بعد پیغمبرؐ کی خدمت میں آئی اور اپنے شوہر کے ہمراہ اسلام قبول کیا اور دونوں نے پیغمبرؐ سے بیعت کی. [12]

پیغمبرؐ کا احترام

کئی سال بعد، حضرت محمدؐ اور حضرت خدیجہ کی شادی کے بعد، حلیمہ آپ کی خدمت میں مکہ گئی اور اپنی مشکلات کے بارے میں شکایت کی۔ حضرتؐ نے اس بارے میں خدیجہ سے بات کی اور خدیجہ نے اسے کچھ بھیڑیں اور اونٹ تحفے میں دیئے۔ کبھی پیغمبرؐ، احترام کی خاطر، جب حلیمہ داخل ہوتیں تو اپنی عباء کو زمین پر بچھا دیتے تا کہ وہ عباء پر بیٹھیں۔[13] جنگ حنین کے بعد جب ہوازن کو شکست کا سامنا ہوا تو، رسول خداؐ نے حلیمہ کے احترام میں، اسی طرح اس قبیلے سے جو پیوند تھا اور اپنی سوتیلی بہن شیماء کی درخواست کی بناء پر اپنے اور بنی ہاشم کے مال کا سارا حصہ، حلیمہ کو دے دیا، اور اصحاب نے بھی آپؐ کی پیروی کرتے ہوئے ایسا ہی کیا۔[14]

وفات

ایک روایت کے مطابق حلیمہ کی وفات فتح مکہ سے پہلے (رمضان سنہ 8 ہجری) میں ہوئی فتح مکہ کے بعد، جب پیغمبرؐ نے اپنی سوتیلی بہن شیماء کو دیکھا تو، حلیمہ کا حال دریافت کیا اس نے پیغمبرؐ کو حلیمہ کی موت کی خبر سنائی۔ یہ خبر سن کر پیغمبرؐ کی آنکھیں آنسو سے بھر آئیں۔ پھر آپؐ کی بہن نے کچھ ہدیہ کی درخواست کی تو پیغمبرؐ نے اس کی ضرورت کو پورا کیا۔[15]

لیکن ایک روایت یہ گواہی دیتی ہے کہ حلیمہ جنگ حنین کے بعد شوال سنہ ٨ ہجری میں جعرانہ کے مقام پر پیغمبر اکرمؐ کے پاس آئی اور رسول خداؐ نے ان کا احترام کیا۔[16] [17]

ایک روایت کے مطابق، حلیمہ نے ابو بکر اور عمر کی خلافت کا زمانہ دیکھا اور وہ دونوں آپ کا احترام کرتے تھے۔[18]

قبر مبارک

حلیمہ سعدیہ کی قبر بقیع میں

بقیع کے مشرقی حصے میں، ایک قبر تھی جو پیغمبرؐ کی دایہ حلیمہ سعدیہ سے منسوب تھی۔ پرانے منابع میں آپ کی وفات اور دفن کے مکان کے بارے میں کچھ بیان نہیں ہوا۔ صرف قاضی عیاض نے ابو بکر اور عمر کے زمانے میں آپ کو دیکھا [19] اور مقریزی کے کہنے کے مطابق جب رسول خداؐ کو حلیمہ کی وفات کی خبر ملی تو آپ بہت متاثر ہوئے۔[20]

ابن بطوطہ کی گزارش کے مطابق حلیمہ کی قبر بصرہ میں ہے، لیکن گذشتہ دہائیوں کے سفر ناموں میں [21] ذکر ہوا ہے کہ آپ کی قبر عثمان بن عفان کے راستہ میں[22] بقیع میں ہے۔ اس قبر پر، گنبد بنا ہوا تھا لیکن اس کے بنانے کی تاریخ نامعلوم ہے۔ اس بارگاہ کے اندر، ایک لکڑی کی ضریح بنائی گئی تھی۔ [23] نائب الصدر شیرازی نے سنہ ١٣٠٥ ھ میں اپنے حج کے سفر کے دوران گزارش کی ہے کہ اس قبر پر ترکی زبان کے دو شعر بھی لکھے ہوئے تھے۔[24]

حوالہ جات

  1. ابن‌اسحاق، ص ۲۵؛ ابن‌سعد، ج ۱، ص ۱۱۰؛ قس ابن‌حبیب، ص ۱۳۰؛ بلاذری، ج ۱، ص:۱۰۶ حارث‌ بن عبداللّه بن شِجْنہ
  2. دیکھئے ابن‌ حبیب، ص ۱۲۹۱۳۰؛ اسی طرح ملاحظہ کیجیے بلاذری، ج ۱، ص ۱۰۴
  3. طبری، ج ۲، ص ۱۵۸؛ ابن‌ جوزی، ج ۲، ص ۲۶۰۲۶۱
  4. ملاحظہ کریں ابن‌ ہشام، ج ۱، ص ۱۷۶؛ ابن‌ سعد، ج ۱، ص ۱۱۳؛ ابن‌ قتیبہ، ص ۱۳۲
  5. ابن‌اسحاق، ص ۲۶؛ ابن‌سعد، ج ۱، ص۱۱۰ ۱۱۱؛ بلاذری، ج ۱، ص ۱۰۶۱۰۷؛ طبری، ج ۲، ص ۱۵۸ ۱۵۹؛ ابن‌جوزی، ج ۲، ص ۲۶۱
  6. ابن ہشام، ج ۱، ص ۱۷۲۱۷۳؛ ابن‌ سعد، ج ۱، ص ۱۱۱،۱۵۱؛ بلاذری، ج ۱، ص ۱۰۷؛ طبری، ج ۲، ص ۱۵۹
  7. ابن اسحاق، ص ۲۷؛ ابن‌ ہشام، ج۱، ص۱۷۳؛ طبری، ج۲، ص۱۵۹۱۶۰؛ ابن‌ جوزی، ج ۲، ص ۲۶۲۲۶۳
  8. ابن‌ اسحاق، ص ۲۷؛ ابن‌ ہشام، ج۱، ص ۱۷۳۱۷۴؛ ابن‌ سعد، ج ۱، ص ۱۱۲؛ یعقوبی، ج ۲، ص ۱۰
  9. طبری، ج ۲، ص ۱۶۳؛ ابن‌ جوزی، ج۲، ص۲۶۷؛ ابن‌اثیر، ۱۳۹۹۱۴۰۲، ج ۱، ص۴۶۴ ۴۶۵
  10. ملاحظہ کریں ابوریہ، ص ۱۸۷۱۸۸؛ حسنی، ص۴۶؛ عاملی، ج۲، ص۱۶۷۱۷۲
  11. یعقوبی، ج ۲، ص ۱۰؛ ابن‌ قتیبہ، ص۱۳۲؛ بلاذری، ج ۱، ص ۱۰۷؛ مسعودی، تنبیہ، ص ۲۲۹،۲۳۰
  12. ابن‌جوزی، ج ۲، ص ۲۷۰
  13. ابن‌ جوزی، ج ۲، ص ۲۷۰؛ذہبی، ص ۴۸
  14. یعقوبی، ج ۲، ص ۶۳؛ مسعودی، تنبیہ، ص ۲۲۹؛ اسی طرح ملاحظہ کریں ابن‌ سعد، ج ۱، ص ۱۱۴۱۱۵
  15. ابن‌ اثیر، ۱۳۹۹۱۴۰۲، ج ۱، ص ۴۶۰
  16. ملاحظہ کریں ابن‌ اثیر، ۱۹۷۰۱۹۷۳، ج ۷، ص ۶۹
  17. قس یعقوبی، ج ۲، ص ۶۳، حلیمہ کی جگہ، شیما کا ذکر کیا ہے جو رسول خداؐ کی سوتیلی بہن تھیں۔
  18. ملاحظہ کریں ابن‌ سعد، ج ۱، ص ۱۱۴
  19. قاضی عیاض، ج۲، ص۱۱۵.
  20. مقریزی، ج۲، ص۶.
  21. ورثیلانی، ج۲، ص۵۳۹؛ جعفر خلیلی، ج۳، ص۲۸۲؛ جعفریان، ج۵، ص۴۷۸.
  22. جعفریان، ج۵، ص۴۷۸-۴۷۹.
  23. جعفریان، ج۵، ص۲۴۲.
  24. جعفریان، ج۵، ص۴۷۹.

مآخذ

  • ابن‌اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، چاپ محمد ابراہیم بنا و محمد احمد عاشور، قاہره، ۱۹۷۰-۱۹۷۳م.
  • ابن‌اثیر، الکامل فی‌التاریخ، بیروت ۱۳۸۵۱۳۸۶/ ۱۹۶۵۱۹۶۶، چاپ افست، ۱۳۹۹۱۴۰۲/ ۱۹۷۹ ۱۹۸۲م.
  • ابن‌اسحاق، سیرة ابن‌اسحاق، چاپ محمد حمیداللّه، قونیہ، ۱۴۰۱/۱۹۸۱.
  • ابن‌جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، چاپ محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
  • ابن‌حبیب، کتاب المُحَبَّر، چاپ ایلزه لیثتن اشتتر، حیدرآباد، دکن ۱۳۶۱/۱۹۴۲، چاپ افست بیروت، بی‌تا.
  • ابن‌سعد، بیروت.
  • ابن‌قتیبہ، المعارف، چاپ ثروت عکاشہ، قاہره، ۱۹۶۹م.
  • ابن‌ہشام، السیرة‌النبویۃ، چاپ مصطفی سقا، ابراہیم ابیاری، و عبدالحفیظ شلبی، بیروت: داراحیاء التراث العربی، بی‌تا.
  • احمدبن یحیی بلاذری، انساب‌الاشراف، چاپ محمود فردوس عظم، دمشق، ۱۹۹۶ق/۲۰۰۰م.
  • جعفر مرتضی عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم صلی‌اللّه‌ علیہ وآله‌وسلم، قم، ۱۳۸۵ش.
  • جعفریان، رسول، پنجاه سفرنامہ حج قاجاری، تہران، نشر علم، ۱۳۸۹ش.
  • خلیلی، جعفر، المدخل الی موسوعۃ العتبات المقدسہ، بیروت، الاعلمی، ۱۹۸۷م.
  • طبری، تاریخ، بیروت.
  • قاضی عیاض، الشفاء بتعریف حقوق المصطفی، عمان، دارالفیحاء، ۱۴۰۷ق.
  • محمدبن احمد ذہبی، تاریخ‌الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، السیرة‌النبویۃ، چاپ عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، ۱۴۱۵/۱۹۹۴.
  • محمود ابوریہ، اضواء علی‌السنۃ المحمدیۃ، او، دفاع عن‌الحدیث، قاہره: دارالمعارف، بی‌تا، چاپ افست قم، بی‌تا.
  • مسعودی، تنبیہ.
  • مسعودی، مروج، بیروت.
  • مقریزی،امتاع الاسماع، محمد عبدالحمید کی کوشش، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۲۰ق.
  • ورثیلانی، حسن بن محمد، الرحلۃ الورثیلانیہ، قاہره، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ، ۱۴۲۹ق.
  • ہاشم معروف حسنی، سیرة‌المصطفی، بیروت، ۱۴۰۶/۱۹۸۶.
  • یعقوبی، تاریخ.