صلہ رحم

ویکی شیعہ سے
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

صِلِۂ رَحِم، رشتہ داروں سے اسلامی تعلیمات اور اخلاق کے مطابق رابطہ رکھنے، مدد کرنے اور ان سے ملاقات کرنے کو کہا جاتا ہے۔ قرآن اور احادیث میں صلہ رحمی کی بہت تاکید ہوئی ہے اور قرآن میں قطع رحمی کرنے والے کو خسارت کرنے والے[1] اور لعنت ہونے ہونے والوں[2] میں سے قرار دیا ہے۔اور روایات میں بھی صلہ رحمی کو ایمان کے بعد بہترین عمل، قیامت میں سب سے پہلے بولنے والا، مومن کی بہترین صفت اور عمر لمبی ہونے کا سبب دیا ہے۔ حدیث قدسی کے مطابق صلہ رحمی اللہ کی رحمت ہے اور جو بھی اسے ترک کرے گا وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہوگا۔ صلہ رحم کبھی واجب ہے اور کبھی مستحب۔ قطع رحم یعنی رشتہ داروں سے رابطہ کاٹنا گناہان کبیرہ میں سے ایک ہے یہاں تک کہ وہ رشتہ دار بداخلاق اور گناہگار ہی کیوں نہ ہو۔ اسلام میں اس صلہ رحم کو مختلف مناسبتوں پر زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جیسے عید کے دنوں میں ایک دوسرے سے ملاقات اور ایک دوسرے کے ہاں جانا یہ صلہ رحمی کی ایک مثال ہے۔

مفہوم‌شناسی

صلہ رحم کی اصطلاح دو الفاظ «صِلِہ» اور «رَحِم» سے تشکیل پایی ہے صلہ کا معنی دو چیزیں آپس میں ملنے کو کہا جاتا ہے۔[3] اور رَحِم، ماں کے پیٹ میں ہونے والی بچہ دانی کو کہا جاتا ہے کہ جہاں بچہ ہوتا ہے۔[4] رحم، «صلہ رحم» میں رشتہ داری کے لئے استعارہ کے طور پر استعمال ہوا ہے۔[5]

اصطلاح میں صلہ رحم رشتہ داروں سے ملنے اور ان کی مدد کرنے کو کہا جاتا ہے۔[6][7] ہدیہ، شادی بیاه اور گواہی وغیرہ کی بحث میں صلہ رحمی کا ذکر ہوا ہے۔ اللہ تعالی کے بعض نام اور صفات جیسے رحمن اور رحیم کے اصلی حروف رحم کے ساتھ ایک ہیں اور ایک ہی لفظ سے بنے ہیں۔ ایک حدیث قدسی میں آیا ہے: «میں رحمن خدا ہوں اور میں نے رَحِم کو خلق کیا ہے اور اس کا نام اپنے نام سے رکھا ہے؛ پس جو بھی صلہ رحمی کرنے گا اس کو اپنی رحمت سے متصل کر دونگا اور جو بھی قطع رحمی کرے کرے اسے اپنی رحمت سے دور کر دونگا۔»[8]

رشتہ داری کا دائرہ

صلہ رحمی اور طولانی عمر

امام صادقؑ فرماتے ہیں: ما نَعلَمُ شَیئا یزیدُ فِی العُمرِ اِلاّ صِلَةَ الرَّحِمِ، حَتّی اِنَّ الرَّجُلَ یکونُ اَجَلُهُ ثَلاثَ سِنینَ فَیکونُ وَصولاً لِلرَّحِمِ فَیزیدُ اللّه فی عُمرِهِ ثَلاثینَ سَنَةً فَیجعَلُها ثَلاثا وَ ثَلاثینَ سَنَةً، وَ یکونُ اَجَلُهُ ثَلاثا وَ ثَلاثینَ سَنَةً فَیکونَ قاطِعا لِلرَّحِمِ، فَینقُصُهُ اللّه ثَلاثینَ سَنَةً وَ یجعَلُ اَجَلَهُ اِلی ثَلاثِ سِنینَ«صلہ رحمی کے علاوہ کسی اور چیز کا ہمیں علم نہیں جو (مستقیم)عمر کو زیادہ کرتی ہو۔ یہاں تک کہ اگر کسی کی عمر صرف تین سال باقی رہی ہو اور وہ صلہ رحمی کرنے والا ہو تو اللہ تعالی اس کی عمر میں تیس سال اور اضافہ کرتا ہے اور 33 سال زندہ رہتا ہے۔ اور کبھی کسی عمر 33 سال باقی ہے لیکن رشتہ دار سے رابطہ کاٹنے کی وجہ سے عمر کم ہوتی ہے اور تین سال کے بعد موت آجاتی ہے۔

کافی، اصول کافی، ج ۲، ص۱۵۲، ح ۱۷

عرفی حوالے سے رشتہ داری دو قسم کی ہے:

  • نسبی رشتہ داری جو خون اور رحم کے ذریعے سے ایجاد ہوتی ہے، جیسے ماں، باپ، اولاد، بھائی، بہن، چچا، پھوپھی، ماوں، خالہ، داد، دادی، اور تمام نسبی رشتہ داروں کی اولاد۔[9] اس قسم کے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنا واجب ہے اور اگر انہیں کوئی چیز ہدیہ کے طور پر دی جائے تو واپس لینا جائز نہیں ہے۔
  • سببی رشتہ داری شادی کے ذریعے سے وجود میں آتی ہے؛ جیسے میاں بیوی اور ان دونوں کے رشتہ داروں کے درمیان کی رشتہ داری۔ لیکن کیا ان رشتہ داروں کے ساتھ بھی صلہ رحمی واجب ہے یا نہیں اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔سانچہ:مدرک[10]

رشتہ داروں میں سے والدین کا مقام قرآن مجید میں بہت اہمیت کا حامل ہے اور اللہ تعالی نے اپنی اطاعت اور توحید پر ایمان کا حکم دینے کے بعد والدین پر احسان کرنے کا حکم دیتے ہوا فرمایا ہے: وَقَضَیٰ رَ بُّک أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِیاهُ وَبِالْوَالِدَینِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا یبْلُغَنَّ عِندَک الْکبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ کلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْ هُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا کرِ یمًا ترجمہ: اور آپ کے پروردگار کا فیصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اور اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوجائیں تو خبردار ان سے اُف بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان سے ہمیشہ شریفانہ گفتگو کرتے رہنا۔[11]

روحانی رشتہ دار

  • پیغمبر اکرمؐ اور انکی اہل بیتؑ: بعض روایات میں رشتہ داروں سے ارتباط اور صلہ رحمی کے علاوہ ائمہؑ سے رابطہ رکھنے کا حکم ہوا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ نے بھی ایک روایت میں فرمایا ہے: میں اور علی اس امت کے باپ ہیں۔[12]
  • دینی علما: دینی مآخذ میں دینی علما سے رابطہ قائم کرنے کی بھی تاکید کرتے ہیں اور اس رابطے کیلیے بہت زیادہ ثواب قرار دیا ہے۔[13]
  • مومن بھائی: اگلے مرتبے میں دینی بھائی سے رابطہ قایم کرنے کا کہا گیا ہے:اِنّما المِؤمنونَ إخوةٌ.[14] امام صادقؑ فرماتے ہیں: مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں؛ اگر ان میں سے کسی ایک کو تکلیف پہنچے تو اس کی وجہ سے دوسرے رات کو آرام نہیں کرتے ہیں۔[15]

اہمیت

صلہ رحمی، رشتہ داروں کا احترام اور ان کی مدد کرنے پر قرآن کی مختلف آیات اور معصومینؑ کی متعدد احادیث میں زیادہ تاکید ہوئی ہے:

  • وَاتَّقُوا اللَّـهَ الَّذِی تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ کانَ عَلَیکمْ رَقِیبًا ترجمہ: اور اس خدا سے بھی ڈرو جس کے ذریعہ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کی بے تعلقی سے بھی- اللہ تم سب کے اعمال کا نگراں ہے۔[16]
  • تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّـهَ وَ بِالْوَالِدَینِ إِحْسَانًا وَ ذِی الْقُرْبَیٰ وَ الْیتَامَیٰ وَالْمَسَاکینِ وَ قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا ترجمہ: خبردار خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ قرابتداروں یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا. لوگوں سے اچھی باتیں کریں۔[17]
  • وَلَا یأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنکمْ وَالسَّعَةِ أَن یؤْتُوا أُولِی الْقُرْبَیٰ وَالْمَسَاکینَ وَ الْمُهَاجِرِینَ فِی سَبِیلِ اللَّـهِ ترجمہ: اور خبردار تم میں سے کوئی شخص بھی جسے خدا نے فضل اور وسعت عطا کی ہے یہ قسم نہ کھالے کہ قرابتداروں اور مسکینوں اور راہِ خدا میں ہجرت کرنے والوں کے ساتھ کوئی سلوک نہ کرے گا۔[18] ان کے علاوہ کئی دوسری آیات بھی موجود ہیں۔[19][20][21][22][23]

ایک موضوع کو قرآن میں بار بار تکرار کرنا اس کی اہمیت کی دلیل ہے۔ قرآنی آیات کے مطابق قیامت میں صلہ رحمی کے بارے میں سوال پوچھا جائے گا اور قطع رحمی کرنے والے ملعون جانے گئے ہیں اور اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کے کان اور آنکھ کو حقیقت کی پہچان سے محروم کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اہل بیتؑ کی روایات اور سیرت میں بھی رشتہ داروں کی مدد، انکی حمایت اور ان سے محبت کرنا واضح اور آشکار ہے۔ اور رشتہ داروں سے تعلقات ختم کرنے کی بڑی شدت سے منع کی گئی ہے۔ شیعہ روایات میں قطع رحمی کو معاشرہ اور افراد کا اللہ تعالی کی رحمت سے دوری کا سبب قرار دیا گیا ہے۔[24]

روایات کے مطابق اللہ تعالی کی نظر میں صلہ رحمی کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اگر کوئی فاسق بھی اپنے رشتہ داروں سے اچھا رابطہ رکھے تو اللہ تعالی اس کی بھی روزی میں اضافہ کرتا ہے؛ جبکہ اس کے مقابلے میں اگر کوئی نماز اور روزہ کا پابند شخص رشتہ دار سے رابطہ کاٹے تو آخرت کی عذاب کے علاوہ اس کی عمر اور روزی میں میں کمی آجائے گی۔[25] علامہ مجلسی نے بحار الانوار کی جلد نمبر17 میں صلہ رحمی کے بارے میں 110 احادیث اور والدین اور اولاد کے حقوق کے بارے میں 102 روایات جمع کی ہے۔

اسلام میں صلہ رحمی پر تاکید کے راز

اسلام میں رشتہ داری سے رابطہ برقرار رکھنے کی تاکید کی علت یہ ہے کہ اقتصادی، نظامی، معنوی اور اخلاقی حوالے سے ایک عظیم معاشرے کا قیام، اس کی اصلاح، تقویت، تکامل، ترویج اور ترقی کے لئے چھوٹے مجموعوں کی اصلاح ضروری ہے جس سے بڑا معاشرہ خود بخود درست ہوگا۔ اسی حوالے سے اسلام نے ایسے چھوٹے مجموعوں کی اصلاح کا حکم دیا ہے جن کی مدد اور ترقی سے لوگ غافل نہیں ہیں؛ اور صلہ رحمی میں ایسے افراد کی تقویت کا حکم ہوتا ہے جنکا خون ان کی رگوں میں جاری ہے اور ایک ہی گھرانے کے افراد ہیں اور جب یہ گھرانہ اور چھوٹا مجموعہ قوی اور مضبوط ہوگا تو بڑا معاشرہ بھی خود بخود ترقی کے راستے پر گامزن ہوگا۔ بعض لوگوں کے عقیدے کے مطابق احادیث میں آیا ہے کہ: صلہ رحمی سے شہر آباد ہوتے ہیں۔ اور یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔[26]

حضرت فاطمہ زہراؑ کے مشہور خطبے میں نسل زیادہ ہونے کو صلہ رحمی واجب ہونے کی دلیل اور فلسفہ کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔[27]

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ رشتہ داروں کی ملاقات سے محبت ایجاد ہونے کے علاوہ انسانی اعصاب پر بھی بہت اثر کرتی ہے اور یہ عمر اور سلامتی میں اضافہ اور اسٹرس میں کمی کا باعث بنتی ہے۔[28]

صلہ رحمی کے آثار

صلۂ رحمی کے نتائج اور آثار میں سے بعض دنیا سے اور بعض آخرت سے مربوط ہیں۔ انہی میں سے بعض نتائج مندرجہ ذیل ہیں:

  • اللہ سے دوستی اور محبت[29]
  • اللہ کی حمایت[30]
  • عاقبت بخیر ہونا[31]
  • برے انجام سے روکنا[32]
  • بلا کی دوری[33]
  • حساب کتاب میں آسانی [34]
  • پل صراط سے بآسانی عبور کرنا[35]
  • گناہوں سے روکنا[36]
  • گناہوں کا کفارہ[37]
  • نعمتوں کی حفاظت[38]
  • بہشتی ہونا[39]
  • اعمال کی پاکیزگی[40]
  • فقر کی دوری اور روزی میں اضافہ[41][42]
  • حاجت روایی[43]
  • آسائشوں کی زکات[44]
  • کینہ سے دوری[45]
  • دنیا میں ہی اجر[46]
  • سو شہیدوں کا ثواب[47]
  • خوش اخلاقی[48]
  • گناہوں کی بخشش[49]
  • روح اور جان میں طراوت[50]
  • عمر طولانی ہونے کا اہم عامل[51][52]
  • معاشرے کی رونق[53]
  • موت میں آسانی[54]

قطع رحمی کے آثار

قطع رحمی گناہان کبیرہ میں سے ہے اور قرآن اور روایات میں اس سے سختی کے ساتھ منع ہوئی ہے اور اسے اللہ سے شرک کرنے کے برابر قرار دیا ہے،[55] ان آثار میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

  • اللہ کی لعنت[56]
  • دنیوی سزا میں جلدی ہونا[57]
  • بہشت سے دوری[58]
  • دوسروں کاموں میں منافع نہ ہونا[59]
  • رحمت کے فرشتوں کا مدد نہ کرنا[60]
  • معاشرے میں ثروت برے لوگوں کے ہاتھ آنا[61]
  • وہ اور اس کے رشتہ داروں کا رحمت الہی سے محروم ہونا:[62]

صلہ رحمی کے درجے

امام علیؑ کی وصیت

وعلیکم بالتواصل والتباذل وایاکم والتدابر و التقاطع... (ترجمہ: اور تم پر لازم ہے کہ محبت اور دوستی کو مضبوط بناؤ اور انفاق اور بخشش کو مت بھولو، اور ایک دوسرے سے دوری اور رابطہ کاٹنے سے اجتناب کرو۔)

سید رضی، نہج البلاغہ، نامہ شمارہ۴۷

صلہ رحمی کبھی واجب[63] اور کبھی مستحب ہے۔ دور یا نزدیک کا رشتہ حکم میں موثر ہے۔ سلام کرنا، ایک دوسرے کی خبر لینا، رفت و آمد، ایک دوسرے کی مالی اور جانی (تیمارداری) تعاون کرنا[64] اور ایک دوسرے کی آبرو اور عزت کا خیال رکھنا صلہ رحمی کے مصادیق میں سے ہیں۔ قطع رحمی کے بھی درجے اور مرتبے ہیں اور اس کا معیار عرف ہے۔[65][66][67]

بعض فقہا تو اس حد تک کہتے ہیں کہ اگر بعض رشتہ داروں کے گھر جانے سے وہ ناراض ہوتے ہیں یا جانے والے کی اہانت ہوتی ہے تب بھی صلہ رحمی ساقط نہیں ہوتی ہے اور کسی اور طریقے سے ارتباط کو قائم کرنا ضروری ہے۔[68][69]

مالی صلہ رحمی

مالی امور میں رشتہ داروں کو ترجیح دینے کا حکم ہوا ہے۔ قرآن مجید نے رشتہ داروں کی مالی مدد کو مالی حقوق شمار کیا ہے اور رشتہ داروں کی مدد کو حق قرار دیا ہے: «و آتِ ذَا القُربی حَقَّهُ و المِسکینَ».[70] امام علیؐ فرماتے ہیں: جس کو اللہ تعالی کی طرف سے کوئی مال مل جائے تو اپنے رشتہ داروں کو بھی اس مال سے مدد کرنی چاہیے۔[71]

گناہگار رشتہ داروں سے رابطہ

اگر رشتہ داروں میں سے کوئی گناہگار اور دینی مسائل کی نسبت بے توجہ ہو تو صرف ایک صورت میں اس سے رابطہ قطع کرسکتے ہیں جب یہ احتمال دیا جائے کہ اس طرح کرنے سے وہ گناہ کرنے سے اجتناب کرے گا۔[72]

استثنا

صِلُوا أرحامَکم و بِرّوا بِإخوانِکم وَ لَو بِحُسنِ السَّلامِ وَ رَدِّ الجَوابِ (ترجمہ: صلہ رحمی کرو اور دینی بھائیوں سے نیکی کرو اگرچہ اچھا سلام کرنے اور اس کا جواب دینے کی حد تک ہی ہو۔)

کلینی، الکافی ج ۲، ص۱۵۷

اسلام نے ان کافر اور مشرک رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنے کا حکم نہیں دیا ہے جو اسلام کے ساتھ برسر پیکار ہیں۔ اس بارے میں قرآن پاک کا ارشاد ہے:مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ ترجمہ: «نبی اور صاحبانِ ایمان کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے حق میں استغفار کریں چاہے وہ ان کے قرابتدار ہی کیوں نہ ہوں جب کہ یہ واضح ہوچکا ہے کہ یہ اصحاب جہّنم ہیں».[73] یہ واضح سی بات ہے کہ استغفار کرنا اور دعا کرنا بھی صلہ رحمی کے مصادیق میں سے ہے۔ سورہ توبہ میں ذکر ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنے چچا کے لئے استغفار کر کے صلہ رحمی انجام دیا، لیکن اس کے بعد انہیں پتہ چلا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو آپ نے ان سے بیزاری کا اعلان کرتے ہوئے قطع رحمی کیا۔[74]

عصر جدید اور صلہ رحمی

صلہ رحمی اور طولانی عمر

پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں: جو بھی مجھے ایک چیز کی ضمانت دے میں اسے چار چیزوں کی ضمانت دیتا ہوں۔ وہ صلہ رحمی انجام دے؛ تو اللہ اسے محبت، روزی میں اضافہ، عمر طولانی کرے گا اور جس بہشت کا وعدہ دیا ہے اس میں داخل کرے گا۔

مجلسی، بحار الانوار، ج ۷۴، ص۹۳)

رشتہ داروں کا باہمی رابطہ چھوٹے گھرانوں کے لئے مدد اور تعاون کا باعث ہے کیونکہ ہر فرد شادی کرنے کے بعد رشتہ داروں کی مالی اور عاطفی تعاون سے بے نیاز نہیں ہے۔ اور صلہ رحمی حقیقت میں اپنے رشتہ داروں کی تمام تر حمایت اور معاشرے کی سلامتی اور امنیت کیلیے تعاون کرنا ہے۔ گزشتہ ایام میں گھرانے وسیعے ہوتے تھے اور کئی نسلوں تک مشترک زندگی گزارتے تھے لیکن آج کل اجتماعی اور اقتصادی تبدیلیوں کو وجہ سے ماضی کے وسیع گھرانے ختم ہوتے ہوئے مرد، عورت اور بچوں پر مشتمل چھوٹے گھرانے تشکیل پائے جو صنعتی دور کے ساتھ زیادہ مناسب ہے۔

عصرِ حاضر میں بڑھتی ہوئی شہری آبادی اور فاصلوں کا کم ہونے کی وجہ سے چھوٹے گھرانوں کی تشکیل نے بڑے گھرانوں کو ختم کردیا اور رشتہ داروں کا باہمی رابطہ بھی ماضی کی نسبت بہت کم ہوتا نظر آرہا ہے۔ ٹی وی، انٹرنٹ، ٹبلٹ اور موبایل وغیرہ نے تو ایک دوسرے کے شانہ بشانہ بیٹھے ہوئے آدمیوں کو بھی ایک دوسرے سے دور کردیا ہے۔

مغربی دنیا میں فردگرائی کے افکار کی وجہ سے رشتہ داروں سے رابطے کی قدر کم یا بالکل بے قدر ہوگیا ہے۔ بچے بالغ ہونے کے بعد والدین سے الگ ہوتے ہیں؛ اور اس جدائی کی وجہ سے رابطہ سرد ہوتا ہوا بعض اوقات ایک دوسرے کی موت پر غمگین تک بھی نہیں ہوتے ہیں۔

اولڈ ایج ہوم، اور دیگر بچوں کی پرورش کے لئے بنائے گئے ادارے انہی روابط کے آثار میں سے ہیں۔ایسے معاشرے میں جہاں مامتا اور محبت کے بغیر بچہ بالغ ہوتا ہے تو وہاں پر آئے دن قتل اور جرائم بڑھتے جاتے ہیں۔[75]

صلہ رحمی اور کتابیں

اخلاق کے بارے میں لکھی گئی کتابیں جیسے جامع السعادات، معراج السعادہ، قلب سلیم،... وغیرہ میں ایک باب صلہ رحمی کے بارے میں بھی لکھا گیا ہے۔ اور ان کتابوں کا اردو میں ترجمہ بھی موجود ہے۔ ان کے علاوہ بعض مستقل کتابیں بھی صلہ رحمی پر لکھی گئی ہیں۔

حوالہ جات

  1. الَّذِينَ يَنقُضُونَ عَہْدَ اللَّہ مِن بَعْدِ مِيثَاقِہِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّہُ بِہِ أَن يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَئِكَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ۔ ترجمہ: جو خدا کے ساتھ مضبوط عہد کرنے کے بعد بھی اسے توڑ دیتے ہیں اور جسے خدا نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹ دیتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقتا خسارہ والے ہیں۔ بقرہ: ۲۷
  2. «فہل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض و تقطعوا ارحامکم اولئک الذین لعنہم اللہ فآصمہم و اعمی ابصار ہم»۔ ترجمہ: تو کیا تم سے کچھ بعید ہے کہ تم صاحبِ اقتدار بن جاؤ تو زمین میں فساد برپا کرو اور قرابتداروں سے قطع تعلقات کرلو۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کردیا ہے اور ان کی آنکھوں کو اندھا بنادیا ہے (سورہ محمد، آیہ ۲۲ و ۲۳ )
  3. لغت نامہ دہخدا، ج۷، ص۱۰۵۱۹.
  4. لغت نامہ دہخدا، ج۱۴، ص۲۰۵۷۲.
  5. مستدرک سفینہ البحار، ج۴، ص۱۱۲.
  6. لغت نامہ دہخدا، ج۷، ص۱۰۵۱۹.
  7. طاہری خرم آبادی، صلة الرحم و قطیعتہا، ص۱۲، مؤسسہ نشر اسلامی، ۱۴۰۷ق
  8. أنا الرحمنُ خلقتُ الرَّحم و شققتُ لها اسماً من اسمی فَمَن وَصَلَها وَصَلْتُه وَ مَنْ قَطَعَها قَطَعْتُه؛ بحارالانوار ج۴۷ ص۱۸۷
  9. سایت پاسخگو
  10. *جو لوگ کسی واسطے کے بغیر ماں باپ سے منسوب ہوتے ہیں جیسے بہن بھائی، اور جو واسطے کے ذریعے ان سے منسوب ہوتے ہیں جیسے پوتا اور چچازاد۔
    • جو لوگ نسبی رشتہ داری یا شرعی احکام کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ شادی نہیں کر سکتے ہیں وہ ایک دوسرے کے ارحام میں سے ہیں۔ ان کے مقابلے میں جن سے شریعت میں شادی ممنوع نہیں جیسے چچازاد وغیرہ تو وہ ایک دوسرے کے ارحام شمار نہیں ہوتے ہیں۔
    • ارحام، صرف ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو کتاب میراث کی طبقہ بندی میں مدنظر مصادیق سمجھے جاتے ہیں۔
    • ارحام ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جنکا چوتھا جد مشترک ہو یعنی چار نسلوں کے بعد آپس میں مل جاتے ہیں۔ اسی لیے بھائی اور بہن، ان کی اولاد، چچااور اس کی اولاد، پھوپھی اور اس کی اولاد، ماموں اور اس کی اولاد، خالہ اور اس کی اولاد اور تمام وہ لوگ جو اس سلسلے میں کوئی نہ کوئی نسبت رکھتے ہیں خواہ ان سے شادی کرنا جائز ہو یا نہ ہو ایک دوسرے سے ارث لیتے ہوں یا نہ ہوں دور کے رشتہ دار ہوں یا نزدیک کے ان سب کو ارحام کہا جاتا ہے۔
  11. سورہ اسراء آیہ نمبر 23۔ اور دوسری آیات کے لئے مشاہدہ کریں:رعد۲۱و۲۲و۲۳و۲۴، انعام ۱۵۱، بقرہ ۱۷۷، نساء ۸، مجادلہ ۲۲.
  12. عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۹۱
  13. حضرت رسول اکرمؐ فرماتے ہیں:مَا مِن مُوْمِن یقْعُدُ سَاعَة عِنْدَ العَالِم الاَّ نَاداه رَبُّه : جَلَسْت الی حَبِیبِی ؟ وَعِزَّتِی و جَلاَلِی لاَسْکنْتُک الجَنَّة مَعَه۔ یعنی جو بھی مومن کسی عالم کے پاس ایک لمحہ بیٹھ جاتا ہے تو اللہ تعالی کی طرف سے اسے ندا آتی ہے: کیا میرے حبیب کے پاس بیٹھے ہو؟ مجھے اپنی عزت اور جلالت کی قسم تجھے جنت میں اس کا ہمنشین بنا دونگا۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے: حُضُورُ مَجْلِس عَالِم، أفْضَل مِن حُضُورِ أَلْف جَنَازَة، وَ مِن عِیادَة ألْف مَرِیض، وَ مِن قِیام ألْف لَیلَة، وَ مِن صِیام ألْف یوْم ؛ ان اللهَ یطَاع بِالعِلْم، ویعْبَدُ بِالعِلْم، وَ خَیرُ الدُّنْیا وَ الا خِرَة مَع العِلْم : یعنی عالم کی مجلس میں حاضر ہونا ہزار تشییع جنازہ، ہزار مریضوں کی عیادت، ہزار راتوں کی شب بیداری اور ہزار دن روزہ رکھنے سے بہتر ہے؛ کیونکہ علم ہی کے طفیل اللہ تعالی کی عبادت اور اطاعت ہوتی ہے اور دنیا و آخرت کی خیر و نیکی علم سے مربوط ہے۔»
  14. حجرات/۱۰
  15. کافی، ج۲، ۱ص۱۶۵
  16. سورہ نساء: آیہ 1
  17. سورہ بقرہ: آیہ 83
  18. سورہ نور: آیہ 22
  19. وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِکوا بِهِ شَیئًا وَ بِالْوَالِدَینِ إِحْسَانًا وَ بِذِی الْقُرْبَیٰ وَ الْیتَامَیٰ وَ الْمَسَاکینِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبَیٰ وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَ ابْنِ السَّبِیلِ وَمَا مَلَکتْ أَیمَانُکمْ إِنَّ اللَّـهَ لَا یحِبُّ مَن کانَ مُخْتَالًا فَخُورًا اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی شے کو اس کا شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرو اور قرابتداروں کے ساتھ اور یتیموں, مسکینوں, قریب کے ہمسایہ, دور کے ہمسایہ, پہلو نشین, مسافر غربت زدہ, غلام و کنیز سب کے ساتھ نیک برتاؤ کرو کہ اللہ مغرور اور متکبر لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔(سورہ نساءآیہ۳۶)
  20. ...أُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلی بِبَعْضٍ فی کتابِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بِکلِّ شَیءٍ عَلیمٌ۔۔۔اور قرابتدار کتابِ خدا میں سب آپس میں ایک دوسرے سے زیادہ اوّلیت اور قربت رکھتے ہیں بیشک اللہ ہر شے کا بہترین جاننے والا ہے.(سورہ انفال،آیہ۷۵۔)
  21. وَ أُولُوا الْأَرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلی بِبَعْضٍ فی کتابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنینَ وَ الْمُهاجِرینَ إِلاَّ أَنْ تَفْعَلُوا إِلی أَوْلِیائِکمْ مَعْرُوفاً کانَ ذلِک فِی الْکتابِ مَسْطُوراًاور مومنین و مہاجرین میں سے قرابتدار ایک دوسرے سے زیادہ اولویت اور قربت رکھتے ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا چاہو تو کوئی بات نہیں ہے یہ بات کتابِ خدا میں لکھی ہوئی موجود ہے۔ (سورہ احزاب، آیہ6 )
  22. فَهَلْ عَسَیتُمْ إِن تَوَلَّیتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ وَ تُقَطِّعُوا أَرْحَامَکمْ۔ أُولَـئِک الَّذِینَ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فَأَصَمَّهُمْ وَ أَعْمَی أَبْصَارَهُمْ تو کیا تم سے کچھ بعید ہے کہ تم صاحبِ اقتدار بن جاؤ تو زمین میں فساد برپا کرو اور قرابتداروں سے قطع تعلقات کرلو یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کردیا ہے اور ان کی آنکھوں کو اندھا بنادیا ہے۔ (سورہ محمد،آیہ ۲۲،۲۳)
  23. یسْأَلُونَک مَاذَا ینفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَیرٍ فَلِلْوَالِدَینِ وَالْأَقْرَ بِینَ وَالْیتَامَیٰ وَالْمَسَاکینِ وَابْنِ السَّبِیلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَیرٍ فَإِنَّ اللَّـهَ بِهِ عَلِیمٌ پیغمبر یہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ راسِ خدا میں کیا خرچ کریں تو آپ کہہ دیجئے کہ جو بھی خرچ کرو گے وہ تمہارے والدینً قرابتدرً ایتامً مساکین اور غربت زدہ مسافروں کے لئے ہوگا اور جو بھی کار خیر کروگے خدا اسے خوب جانتا ہے۔ (سورہ بقرہ، آیہ،۲۱۵)
  24. روی عن النبی(ص): لَا تَنْزِلُ الرَّحْمَةُ عَلَی قَوْمٍ فِیهِمْ قَاطِعُ الرَّحِمِ: اللہ تعالی اپنی رحمت کو اسی قوم سے روکتا ہے جو رشتہ داروں سے رابطہ کاٹنے والی ہے۔ (مستدرک الوسایل ج۱۵ ص۱۸۴)
  25. بحارالانوار، ج۷۱، ص۱۳۵،ح ۸۸ و ص۱۳۸،ح ۱۰۷
  26. . قست “اہمیت صلہ رحم در اسلام: مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ج ۱، ص۱۵۶- ۱۵۸
  27. فِی خُطْبَةِ فَاطِمَةَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیهَا فَرَضَ اللَّهُ صِلَةَ الْأَرْحَامِ مَنْمَاةً لِلْعَدَد. (بحارالانوار ج۷۱ ص۹۴)
  28. سایت شبستان
  29. پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں: جو بھی مجھے ایک چیز کی ضمانت دے میں اسے چار چیزوں کی ضمانت دیتا ہوں۔ وہ صلہ رحمی انجام دے؛ تو اللہ اسے محبت، روزی میں اضافہ، عمر طولانی کرے گا اور جس بہشت کا وعدہ دیا ہے اس میں داخل کرے گا۔بحار الانوار، ج ۷۴، ص۹۳
  30. کسی نے آنحضرتؐ سے عرض کیا: میرے کچھ رشتہ دار ہیں جن سے میں رابطے میں ہوں لیکن وہ مجھے ہمیشہ تکلیف پہنچاتے ہیں: اب میں چاہتا ہوں کہ ان سے دور ہوجاوں تو آپؐ نے فرمایا: جس نے تجھے محروم رکھا اسے محروم نہ کر؛ جو تم سے جدا ہوا اس سے تعلق ختم نہ کرنا، جس نے تجھ پر ستم ڈھایا اسے معاف کر، اگر ایسا کیا تو اللہ تعالی تمہارا حامی ہوگا۔بحار الانوار، ج ۷۴، ص۱۰۰
  31. پیامبر اکرمؐ:اَلصَّدَقَةُ عَلی وَجْهِها وَاصْطِناعُ الْمَعْروفِ وَ بِرُّ الْوالِدَینِ وَصِلَةُ الرَّحِمِ تُحَوِّلُ الشِّقاءَ سَعادَةً وَتَزیدُ فِی الْعُمْرِ وَ تَقی مَصارِ عَ السُّوءِ؛ ترجمہ: درست صدقہ، والدین سے نیکی اور صلہ رحمی بدبختی کو خوشبختی میں تبدیل کرتے ہیں اور عمر کو زیادہ کرتے ہیں اور برے حادثات سے روکتے ہیں۔نہج الفصاحہ، ح ۱۸۶۹
  32. نہج الفصاحہ، ح ۱۸۶۹
  33. اصول کافی، ج ۲ ص۱۵۰
  34. امام صادقؑ: صلہ رحمی، موت کو ٹالتی ہے؛ گھر میں محبت ایجاد کرتی ہے، قیامت کے دن حساب میں آسانی کرتی ہے؛ اور گناہوں کو کم کرتی ہے۔ پس اپنے رشتہ داروں سے رابطہ قایم کرو اور اپنے بھائیوں سے نیک سلوک کرو اگرچہ اچھی طرح سے سلام کرنے اور اس کا جواب دینے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو بحار الانوار، ج ۷۴، ص۹۴
  35. امام باقرؑ نے پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث نقل کی ہے: «پل صراط کے دونوں طرف امانت اور صلۂ رحمی ہے۔ پس جس نے لوگوں کی امانت میں خیانت نہیں کی اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک کیا تو وہ اس پل سے آسانی کے ساتھ عبور کرتا ہوا بہشت میں داخل ہوگا۔لیکن جس نے امانت میں خیانت کی اور رشتہ دار سے رابطہ قطع کیا اس کا کوئی اور عمل اس کے کام نہیں آیا گااور وہ جہنم میں پھینکا جائے گا۔بحارالانوار، ج۷۱، ص۱۱۸.
  36. بحار الانوار، ج ۷۴، ص۹۴
  37. امام علیؑ:کفِّروا ذُنوبَکمْ وَتَحَبَّبوا اِلی رَبِّکمْ بِالصَّدَقَةِ وَ صِلَةِ الرَّحِمِ؛ صدقہ اور صلہ رحمی کے ذریعے اپنے گناہوں کو پاک کرو اور خود کو اپنے پروردگار کے محبوب بناو۔ غررالحکم، ح ۷۲۵۸
  38. امام علیؑ: نعمتوں کی حفاظت صلہ رحمی میں نہاں ہے۔غررالحکم، ح ۴۹۲۹
  39. بحار الانوار، ج ۷۴، ص۹۳.
  40. «صلۃ الارحام تزکی الاعمال و تنمی الاموال و تدفع البلوی و تیسر الحساب و تنسی فی الاجل»، اصول کافی، ج ۲ ص۱۵۰
  41. رسول اللہؐ کا ارشاد ہے: «صلۂ رحمی عمر کو اضافہ اور فقر کو ختم کرتی ہے۔بحارالانوار، ج۷۱، ص۱۰۳.
  42. اصول کافی، ج ۲ ص۱۵۰
  43. پیامبر اکرمؐ کا فرمان ہے: جو شخص خود یا اپنے مال کو رشتہ داروں کی خدمت میں استعمال کرتا ہے، اللہ تعالی اسے سو شہیدوں کا اجر عطا کرتا ہے، اور اس راہ میں جو قدم اٹھاتا ہے چالیس ہزار حسنات عطا کرتا ہے اور چالیس ہزار گناہ معاف کرتا ہے اور اسی تعداد میں اس کے معنوی درجات کو بلند کرتا ہے۔۔۔۔ اور اس کی ستر دنیوی حاجات کو قبول کرتا ہے۔بحارالانوار، ج۷۳، ص۳۳۵.
  44. امام علیؑ: زَکوةُ الْیسارِ بِرُّ الْجیرانِ وَ صِلَةُ الاَرحامِ؛ ہمسائیوں سے نیکی اور صلہ رحمی آسائشوں کی زکات ہے۔غررالحکم، ح ۵۴۵۳
  45. امام صادقؑ: «صلہ رحمی اخلاق کو اچھا، ہاتھ کو دینے والا، جان کو پاکیزہ، روزی کو زیادہ، اور موت کو دور کرتی ہے۔»اصول کافی، ج۲، ص۱۵۱.
  46. امام باقرؑ: اِنَّ اَعْجَلَ الْخَیرِ ثَواباً صِلَةُ الرَّحِمِ؛ ہر نیک کام سے پہلے صلہ رحمی کا ثواب انسان تک پہنچتا ہے۔ کافی، ج ۲، ص۱۵۲، ح ۱۵
  47. پیامبر اکرمؐ:مَنْ مَشی اِلی ذی قَرابَةٍ بِنَفْسِهِ وَ مالِهِ لِیصِلَ رَحِمَهُ اَعْطاهُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ اَجْرَ مِأَةِ شَهیدٍ؛ جو بھی جان اور مال کے ذریعے سے رشتہ داروں سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کرے تو اللہ تعالی اس کو سو شہید کا اجر دیتا ہے۔ من لایحضرہ الفقیہ، ج ۴، ص۱۶
  48. امام صادقؑ:«صلة الارحام تحسن الخلق و تسمح الکف و تطیب النفس و تزید فی الرزق و تنسئ الاجل»، کافی،ج۲، ص۱۵۰ و ۱۵۱
  49. کافی،ج۲، ص۱۵۰ و ۱۵۱
  50. کافی، ج۲، ص۱۵۰ و ۱۵۱
  51. امام صادقؑ فرماتے ہیں: «صلہ رحمی کے علاوہ کسی اور چیز کا ہمیں علم نہیں جو (مستقیم)عمر کو زیادہ کرتی ہو۔ یہاں تک کہ اگر کسی کی عمر صرف تین سال باقی رہی ہو اور وہ صلہ رحمی کرنے والا ہو تو اللہ تعالی اس کی عمر میں تیس سال اور اضافہ کرتا ہے اور 33 سال زندہ رہتا ہے۔ اور کبھی کسی عمر 33 سال باقی ہے لیکن رشتہ دار سے رابطہ کاٹنے کی وجہ سے عمر کم ہوتی ہے اور تین سال کے بعد موت آجاتی ہے۔کافی، ج۲، ص۱۵۲
  52. اصول کافی، ج ۲ ص۱۵۰
  53. پیامبر اسلام(ص): رشتہ داروں سے رابطہ شہروں کو آباد کرتا ہے، عمروں کو زیادہ کرتا ہے، اگرچہ انجام دینے والے نیک لوگ نہ ہوں۔ سفینہ البحار، ج ۱، ص۵۱۴
  54. امام سجادؑ نے ابوحمزہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: «اگر تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالی تمہاری موت اچھی قرار دے اور قیامت کے دن تمہارے گناہ بخشدے تو پس تم نیکی کرو، چھپا کر صدقہ دو اور صلہ رحمی بجا لے آؤ، یقینا یہ انسان کی عمر کو زیادہ اور غربت کو ختم کرتی ہے۔ بحارالانوار، ج۹۳، ص۱۹۵.
  55. کسی نے رسول خدا صلّی اللّہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا:... قَالَ فَقَالَ الرَّجُلُ فَأَی الْأَعْمَالِ أَبْغَضُ إِلَی اللَّهِ قَالَ الشِّرْک بِاللَّهِ قَالَ ثُمَّ مَاذَا قَالَ قَطِیعَةُ الرَّحِم...؛ اللہ تعالی کے حضور سب سے منفور ترین کام کیا ہے؟ فرمایا: اللہ تعالی کا شریک ٹھہرانا۔ پھر کہا: شرک بعد کون سا عمل ہے؟ فرمایا: قطع رحمی۔۔۔۔ کافی، ج۵، ص۵۸
  56. امام سجادؑ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: پانچ قسم کے لوگوں سے بچے رہو، ان پانچ میں سے ایک گروہ رشتہ داروں سے رابطہ کاٹنے والے ہیں: رشتہ داروں سے رابطہ کاٹنے والی کی معاشرت سے بچے رہو کیونکہ قرآن نے اسے ملعون کہا ہے اور وہ اللہ کی رحمت سے دور قرار دیا ہے۔ سفینہ البحار، ج ۱، ص۵۱۴
  57. پیامبر(ص): کوئی بھی ایسی اطاعت نہیں جس کی پاداش صلہ رحمی سے پہلے ملے اور ظلم اور قطع رحمی کی سزا کی طرح جلدی ملنے والی کوئی سزا نہیں ہے۔ نہج الفصاحہ، ح ۲۳۹۸
  58. رسول اللہؐ کا فرمان ہے:ان ریح الجنة توجد من مسیرة ألف عام مایجدها عاق، و لاقاطع رحم... بحارالانوار، ج ۸ م باب الجنة و نعیمها، ح ۱۷۴
  59. امام باقرؑ نے پیغمبر اکرمؐ سے نقل کیا ہے: امام باقرؑ نے پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث نقل کی ہے: «پل صراط کے دونوں طرف امانت اور صلۂ رحمی ہے۔ پس جس نے لوگوں کی امانت میں خیانت نہیں کی اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک کیا تو وہ اس پل سے آسانی کے ساتھ عبور کرتا ہوا بہشت میں داخل ہوگا۔لیکن جس نے امانت میں خیانت کی اور رشتہ دار سے رابطہ قطع کیا اس کا کوئی اور عمل اس کے کام نہیں آیا گااور وہ جہنم میں پھینکا جائے گا۔بحارالانوار، ج۷۱، ص۱۱۸.
  60. پیامبرؐ:کلُّ بَیتٍ لایدْخُلُ فیهِ الضَّیفُ لاتَدْخُلُهُ الْمَلائِکةُ؛ جس گھر میں مہمان نہیں آتے وہاں فرشتے نہیں آتے ہیں۔ جامع الأخبار، ص۳۷۸
  61. امام علی علیہ‌السلاماِذا قَطَّعُوا الأْرحامَ جُعِلَتِ الأْمْوالُ فی أیدی الأْشْرارِ؛ جب بھی لوگ رشتہ داروں سے تعلقات ختم کرینگے تو ثروت برے لوگوں کے ہاتھ آئے گی۔ کافی، ج ۲، ص۳۴۸، ح ۸
  62. روی عن النبی: لَا تَنْزِلُ الرَّحْمَةُ عَلَی قَوْمٍ فِیهِمْ قَاطِعُ الرَّحِمِ؛ جس قوم میں رشتہ داروں سے رابطہ قطع کرنے والا کوئی ہو تو اللہ اس قوم سے رحمت کو روکتا ہے۔ مستدرک الوسایل ج۱۵ ص۱۸۴
  63. صلة الرحم و قطیعتہا، صص۲۹-۵۱
  64. صلة الرحم و قطیعتہا، صص۶۵-۷۹
  65. سایت پاسخگو
  66. پورتال انہار
  67. سایت انہار
  68. صلة الرحم و قطیعتہا، صص ۹۲-۱۱۸
  69. . مآخوذ از صراط النجاہ مرحوم تبریزی و خوئی، ج ۳، ص۲۹۴
  70. قرآن، إسراء، ۲۶.
  71. «فَمَن أتاه اللّه مالاً فلیصل به قرابَتَه»؛ نہج البلاغہ صبحی صالح، خطبہ ۱۴۲
  72. . توضیح المسائل مراجع، ج ۲، ص۷۷۲، س ۱۰۵۸
  73. . سورہ توبہ، آیہ ۱۱۳؛ مراجعہ کریں: طباطبائی، محمد حسین، المیزان، ج ۹ و ۱۰، ص۲۸۲، منشورات ذوی القربی، بی‌جا، بی‌تا.
  74. سورہ توبہ، آیہ ۱۱۴، «وَ ما کانَ اسْتِغْفارُ إِبْراهیمَ ِلأَبیهِ إِلاّ عَنْ مَوْعِدَهٍ وَعَدَها إِیاهُ فَلَمّا تَبَینَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوُّ لِلّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْراهیمَ َلأَوّاهٌ حَلیمٌ»؛ اور ابراہیم کا استغفار ان کے باپ کے لئے صرف اس وعدہ کی بنا پر تھا جو انہوں نے اس سے کیا تھا اس کے بعد جب یہ واضح ہوگیا کہ وہ دشمن خدا ہے تو اس سے بربَت اور بیزاری بھی کرلی کہ ابراہیم بہت زیادہ تضرع کرنے والے اور اِردبار تھے۔ سورہ ممتحنہ، آیہ ۴، «قَدْ کانَتْ لَکُمْ أُسْوَهٌ حَسَنَهٌ فی إِبْراهیمَ وَ الَّذینَ مَعَهُ إِذْ قالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنّا بُرَآؤُا مِنْکُمْ وَ مِمّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللّهِ کَفَرْنا بِکُمْ وَ بَدا بَینَنا وَ بَینَکُمُ الْعَداوَهُ وَ الْبَغْضاءُ أَبَدًا حَتّی تُؤْمِنُوا بِاللّهِ وَحْدَهُ إِلاّ قَوْلَ إِبْراهیمَ ِلأَبیهِ َلأَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ وَ ما أَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللّهِ مِنْ شَی ءٍ رَبَّنا عَلَیکَ تَوَکَّلْنا وَ إِلَیکَ أَنَبْنا وَ إِلَیکَ الْمَصیرُ». «تمہارے لئے بہترین نمونہ عمل ابراہیم علیہ السّلام اور ان کے ساتھیوں میں ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے کہہ دیا کہ ہم تم سے اور تمہارے معبودوں سے بیزار ہیں - ہم نے تمہارا انکار کردیا ہے اور ہمارے تمہارے درمیان بغض اور عداوت بالکل واضح ہے یہاں تک کہ تم خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لے آؤ علاوہ ابراہیم علیہ السّلام کے اس قول کے جو انہوں نے اپنے مربّی باپ سے کہہ دیا تھا کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا لیکن میں پروردگار کی طرف سے کوئی اختیار نہیں رکھتا ہوں. خدایا میں نے تیرے اوپر بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف رجوع کیا ہے اور تیری ہی طرف بازگشت بھی ہے ».
  75. سایت حوزہ

مآخذ

  • پژوہشکدہ باقرالعلوم(ع)
  • فرہنگ فقہ فارسی
  • قرآن
  • ابوالقاسم خویی، صراط النجاۃ فی أجوبۃ الإستفتاءات، تعلیقہ جواد تبریزی، نشر برگزیدہ، قم، ۱۳۷۴
  • آمدی عبدالواحدمحمد، غرر الحکم، چاپ دانشگاہ تہران
  • پایندہ ابوالقاسم، نہج الفصاحہ، دارالعلم، ۱۳۸۷ ش.
  • تفسیر نمونہ، مکارم شیرازی، ناصر، دار الکتب الإسلامیۃ، تہران، چاپ اول، ۱۳۷۴ ش.
  • توضیح المسائل مراجع، دفتر انتشارات اسلامی، قم
  • حسینی مدنی شیرازی، سید علی خان، ریاض السالکین، چاپ ششم، جامعہ مدرسین
  • دستغیب، سید عبدالحسین، گناہان کبیرہ، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ نہم، بہار۱۳۷۵.
  • دہخدا، علی اکبر؛ لغت نامہ، موسسہ انتشارات و چاپ دانشگاہ تہران، چاپ اول، ۱۳۷۳ ش.
  • سید رضی، نہج البلاغہ، ترجمہ دشتی، قم، انتشارات امیر المومنین،۱۳۸۴ش.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، نشر صدوق، ۱۳۶۷ش
  • صادقی، علی، رمضانی، حسین، جایگاہ نوروز در فرہنگ ایران، با تأکید بر دید و بازدید و صلہ ی رحم، پیوند، شمارہ ۴۱۳، اسفند ۱۳۹۲.
  • طاہری خرم آبادی، صلۃ الرحم و قطیعتہا، مؤسسہ نشر اسلامی، ۱۴۰۷ق
  • طباطبائی، محمد حسین، المیزان، منشورات ذوی القربی
  • فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی، مفاتیح الشرایع محقق:رجایی، مہدی، کتابخانہ حضرت آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی، قم.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، مترجم صادق حسن زادہ، جاپ اول، قم، صلوات، ۱۳۸۳.ش.
  • مجلسی، محمد تقی، بحارالانوار، بیروت، دارالوفاء، ۱۴۰۳ہق.
  • محقق کرکی، اطائب الکلم فی بیان صلہ الرحم، منشورات کتابخانہ آیت اللہ مرعشی
  • محمد بن حسن طوسی، معروف بہ شیخ طوسی، امالی، قم، دارالثقانہ، ۱۴۱۴ ق.
  • نمازی، علی؛ مستدرک سفینۃ البحار، موسسہ نشر اسلامی، ۱۴۱۹ ق.
  • نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، مؤسسہ آل البیت: لاحیاء التراث، طبعۃ الاولی، قم، ۱۴۰۷ ق.