حدیث امان

ویکی شیعہ سے
حدیث امان
حدیث امان
حدیث کے کوائف
دوسرے اسامیحدیث نجوم
موضوعاہل بیتؑ اہل زمین کے لیے باعث امان و ہدایت
صادر ازرسول خداؐ
اعتبارِ سندتواتر، صحیح
شیعہ مآخذعیون اخبار الرضاؑ، امالی شیخ طوسی، کمال الدین شیخ صدوق
مشہور احادیث
حدیث سلسلۃ الذہب . حدیث ثقلین . حدیث کساء . مقبولہ عمر بن حنظلہ . حدیث قرب نوافل . حدیث معراج . حدیث ولایت . حدیث وصایت . حدیث جنود عقل و جہل


حدیث اَمان یا حدیث نُجوم پیغمبر خداؐ سے منقول وہ حدیث ہے جس کے مطابق اہل بیتؑ اہل زمین کے لیے امن و نجات کا باعث اور ان کے لیے پناہگاہ کی حیثیت رکھتے ہیں؛ جس طرح ستارے اہل آسمان کے لیے باعث امان ہیں۔ یہ حدیث مختلف عبارتوں کے ساتھ شیعہ اور اہل سنت کے حدیثی مآخذ میں اصحاب پیغمبرؐ اور دیگر اسناد کے ذریعے نقل ہوئی ہے۔ حدیث کا تعددِ اسناد اس کے راویوں پر اعتماد کی نشاندہی کرتا ہے۔ چودہویں صدی ہجری کے اہل سنت محدث حاکم نیشاپوری نے اس حدیث کو اپنی کتاب "المستدرک علی الصحیحین" میں نقل کیا ہے اور اسے صحیح السند حدیث قرار دی ہے۔ بعض شیعہ محققین کی نظر میں اس حدیث کا تواتر ثابت ہے۔

بعض احادیث کے مطابق اہل بیتؑ سے مراد شیعوں کے بارہ امام ہیں۔ شیعہ متکلمین نے اہل بیتؑ کا اہل زمین کے لیے باعث امان ہونے کو اہل بیتؑ کی عصمت، ان کی افضلیت اور ان کی امامت کی علامت قرار دی ہے۔ اس حدیث کی رو سے اہل بیتؑ تا قیامت لوگوں کے ہادی اور پیشوا ہیں؛ لہذا ائمہؑ لوگوں کو گمراہی، کفر اور گناہ و کجرویوں سے دور رکھتے ہیں۔

اہل سنت کے بعض مآخذ میں لفظ "اہل بیتؑ" کے بجائے لفظ "اصحاب" ذکر ہوا ہے جو کہ سند اور مضمون حدیث میں اشکال کی وجہ سے جعلی حدیث معلوم ہوتی ہے۔

مضمون حدیث

حدیث امان

رسول اللہؐ نے فرمایا:
النُّجُومُ أَمَانٌ لِأَهْلِ السَّمَاءِ فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومُ ذَهَبَ أَهْلُ السَّمَاءِ وَ أَهْلُ بَيْتِی أَمَانٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ فَإِذَا ذَهَبَ أَهْلُ بَيْتِی ذَهَبَ أَهْلُ الْأَرْضِ۔
ترجمہ: ستارے آسمان والوں کے لیے امان ہیں، جب ستارے ٹوٹ کر گر جائیں تو اہل آسمان بھی ختم ہو جائیں گے، اور میرے اہل بیتؑ اہل زمین کے لیے امان ہیں اگر اہل بیتؑ نہ ہوں تو اہل زمین بھی ختم ہوجائیں گے۔

مآخذ، صدوق، کمال الدین و تمام النعمۃ، ۱۳۹۵ھ، ج۱، ص۲۰۵.

حدیث امان یا حدیث نجوم[1] ایک مشہور حدیث ہے جو پیغمبر خداؐ سے منقول ہے۔ شیعہ [2] اور اہل سنت [3] مآخذ حدیثی میں یہ حدیث مختلف عبارتوں کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ حدیث کی مشہور اور مشترک[4] عبارت یہ ہے: «النُّجُومُ أَمَانٌ لِأَهْلِ السَّمَاءِ وَ أَهْلُ بَيْتِی أَمَانٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ؛ ستارے آسمان والوں کے لیے امان ہیں اور میرے اہل بیتؑ اہل زمین کے لیے امان ہیں۔[5]اہل ارض سے مراد تمام جن و انس ہیں.[6]

بعض حدیثی منابع میں «أَمَانٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ» کے بجائے «أَمَانٌ لِأُمَّتِی» والا جملہ ذکر ہوا ہے۔ یعنی اہل بیتؑ امت پیغمبر اسلامؑ کے لیےامان ہیں۔[7] کہا گیا ہے کہ اہل بیتؑ کا اہل زمین کے لیے امان ہونے اور امت محمدیؐ کے لیے امان ہونے میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ یہ ذکر عام بعد از خاص والے قانون کے مطابق ہے۔ یہاں اہل زمین عام ہیں اور امت محمدیؑ خاص ہیں۔ خاص طور پر امت محمدیؐ کا ذکر کرنا امت کی باقی سب امتوں پر شرافت اور ان کی خاص منزلت کے بموجب ہے۔ بہر حال اہل بیتِؑ پیغمبرؐ امت محمدیؐ کے علاوہ باقی تمام امتوں اور تمام اہل زمین کے لیے امان ہیں۔[8]

متن حدیث کی وضاحت

مختلف منابع حدیثی میں اس حدیث کی مشہور عبارت کے بعد مختلف وضاحتی عبارتیں بھی ذکر ہوئی ہیں؛ منجملہ: اگر ستارے ٹوٹ جائیں تو اہل آسمان بھی ٹکم ہوجائیں گے، اسی طرح اگر اہل بیتؑ نہ ہوں تو اہل زمین بھی فنا ہوجائیں گے؛[9] امام حسن عسکریؑ سے منسوب تفسیر اس حدیث کی وضاحت یوں آئی ہے کہ اہل بیتؑ، امت محمدیؐ کے لیے اختلاف و گمراہی سے نجات کا ذریعہ ہیں لہذا جو بھی سیرت اہل بیتؑ پر عمل پیرا ہوگا کبھی ہلاک نہیں ہوگا۔[10] حاکم نیشاپوری کی تصنیف "المستدرک علی الصحیحین" میں آیا ہے کہ پیغمبر خدؐ کی اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اہل بیتؑ، امت محمدیؐ میں اختلاف پیدا ہونے سے روکیں گے، اگر کوئی قبیلہ ان کے ساتھ مخالفت کرے تو گویا وہ حزب شیطان میں سے ہوگا۔[11]

یہ حدیث عبارت کے معمولی اختلاف کے ساتھ شیعہ اماموں جیسے امام علیؑ،[12] امام زین العابدینؑ[13] اور امام جعفر صادقؑ[14] سے بھی نقل ہوئی ہے.

شیعہ مجتہد اور مفسر قرآن ناصر مکارم شیرازی کے مطابق حدیث امان درج ذیل چند چیزوں کی نشاندہی کرتی ہے:

  • اہل بیت پیغمبرؐ لوگوں کو کفر، گمراہی، فساد اور گناہوں کے دلدل میں غرق ہونے سے بچا کر ہدایت کے راستے پر چلا دیتے ہیں، شیطان جنی و انسی کے گمراہ کن حربوں سے محفوظ رکھتے ہیں اور اسلامی تعلیمات میں تحریف اور کجروی پیدا ہونے سے بچالیتے ہیں۔
  • لوگوں کے لیے اہل بیتؑ کی ہدایت تا قیامت جاری رہے گی؛ جس طرح سے ستارے ہمیشہ کے لیے اہل آسمان کے لیے امان کا باعث ہیں۔
  • جس طرح آسمان پر ایک ستارہ غروب ہونے کے بعد دوسرا ستارہ طلوع کرتا ہے اسی طرح اہل بیتؑ بھی ایک کے بعد دوسرا آتا ہے۔[15]

نہج البلاغہ میں موجود امام علیؑ کا یہ فرمان صراحت کے ساتھ اسی مطلب کو بیان کرتا ہے: آل محمدؐ آسمان کے ستاروں کے مانند ہیں؛ جب بھی کوئی ستارہ غروب ہوتا ہے تو دوسرا طلوع ہوتا ہے۔[16]

سند کا جائزہ

کہا جاتا ہے کہ حدیث امان کے سلسلہ سند کی تعداد 22 ہے۔[17] اصحاب پیغمبر خداؐ جیسے امام علیؑ،[18] جابر بن عبد اللہ انصاری،[19] ابن‌عباس،[20] سَلَمَة بن اَکْوَع[21] اور ابوسعید خُدْری[22] سے یہ حدیث نقل ہوئی ہے[23] چودہویں صدی ہجری کے اہل سنت محدث حاکم نیشاپوری نے حدیث امان کو ابن عباس اور جابر بن عبد اللہ انصاری سے نقل کیا ہے اور اسے صحیح السند حدیث قرار دی ہے۔[24] محدثین نے اس حدیث کے تعدد اسناد کو راویوں کی جانب سے اس کے صدور پر اعتماد اور اطمینان کا نتیجہ قرار دیا ہے۔[25] بعض علما کے اعتقاد کے مطابق، اہل سنت کے ہاں کسی حدیث میں اسناد کی کثرت اس کے سلسلہ سند کے ضعف کی تلافی اور جبران کا باعث ہے؛ نتیجتا یہ حدیث بھی معتبر اور قابل اعتماد احادیث میں شامل ہے۔[26]

علم کلام میں دور حاضر کے محقق علی ربانی گلپائگانی کا کہنا ہے کہ شیعہ اور اہل سنت منابع حدیثی سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث امان ایک متواتر حدیث ہے اور پیغمبر خداؐ سے اس کا صدور یقینی ہے۔[27]

اس حدیث کی مشہور ترین سند اور ایک راوی سلمہ بن اکوع ہے جسے علمائے رجال نے ثقہ جانا ہے۔[28]

اہل بیتؑ سے مراد

بعض روایات کے مطابق حدیث امان میں اہل بیتؑ سے مراد شیعوں کے بارہ امامؑ ہیں۔[29] بعض اہل سنت کا کہنا ہے کہ اہل بیتؑ سے مراد فاطمہ الزہرا(س) اور آپؑ کی ساری اولاد(بالواسطہ اور بلا واسطہ) ہیں۔[30] ان کی نظر میں حضرت محمد مصطفیٰؐ وجہِ تخلیقِ کائنات اور اس کی وجہ بقا بھی ہیں اور قرآن کے سورہ انفال کی آیت 33 کے مطابق آپؐ امت محمدیؐ کے لیے امان ہیں۔ اس مورد میں اہل بیتؑ بھی پیغمبر خداؐ کا ہم پلہ ہیں اور امان امت ہیں اسی طرح بقائے کائنات کا باعث بھی ہیں؛ کیونکہ اہل بیتِ پیامبرؐ بہت سی چیزوں میں پیغمبر خداؐ سے مشابہت رکھتے ہیں اور دونوں ذوات آپس میں مساوی ہیں؛ اسی طرح حضرت فاطمہ زہرا(س) کی بدولت تمام اہل بیتؑ آپؐ کے جگر کا ٹکڑا شمار ہوتے ہیں۔[31]

مکارم شیرازی کے مطابق زواج رسول خداؐ اہل بیتؑ میں شامل نہیں ہیں؛ کیونکہ وہ ایک خاص دور میں زندگی کرتی تھیں لہذا امت محمدیؐ کو اختلافات و گمراہی سے دور رکھنے میں ان کا کوئی کردار نہیں رہا ہے۔[32]

حدیث کی کلامی اعتبار سے تفسیر

متکلمین نے حدیث امان کی کلامی لحاظ سے تفسیر و تشریح کی ہے، ان میں سے چند یہ ہیں:

  • عصمت اہل بیتؑ: محمد حسن مظفر اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کوئی شخص انسانوں اور اہل زمین کے لیے باعث امان اور ان کے لیے پناہ گاہ نہیں ہوسکتا، سوائے اس شخص کے جس پر خدا کا فضل و کرم ہو اور عبادت، اطاعت اور عصمت جیسی خصوصیات کے حامل ہوں۔ وہ گنہگار جو اپنے نفس کے لیے باعث امان نہیں وہ دوسروں کے لیے کیسے امان کا باعث ہو سکتا ہے؟ پس اہل بیتؑ کا روئے زمین پر بسنے والوں کے لیے باعث امان ہونا ان کی عصمت کی نشانی ہے۔

[33] اسی طرح بعض علما کہتے ہیں کہ پیغمبر خداؐ نے اہل بیتؑ کو بغیر کسی قید و شرط کے لوگوں کے لیے باعث امان اور ان کو گمراہی و اختلاف سے محفوظ رہنے کا وسیلہ قرار دیا ہے؛ اس سے بھی اہل بیتؑ کی عصمت نمایاں ہوتی ہے؛ کیونکہ کسی کی عصمت کے بغیر ایسا قرار دینا ممکن نہیں۔[34] کفایۃ الاثر میں منقول روایت میں اہل بیتؑ کی عصمت صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔[35]

  • افضلیت اہل‌بیتؑ: حدیث امان سے اہل بیتؑ کی افضلیت بھی ثابت ہوتی ہے کیونکہ اہل زمین کے لیے امان کا باعث قرار پانا ان کی افضلیت کی نشانی ہے۔[36]
  • اہل بیتؑ کی امامت: محمد حسن مظفر مزید کہتے ہیں کہ حدیث امان اہل بیتؑ کی عصمت اور ان کی افضلیت پر دلالت کرنے کے ساتھ ساتھ اہل بیتؑ کے لیے اثبات امامت پر بھی بہترین دلیل بھی شمار ہوتی ہے؛ کیونکہ جب یہ بات ثابت ہوجائے کہ اہل بیتؑ تمام لوگوں پر برتری رکھتے ہیں اور مقام عصمت کے حامل ہیں تو خود بخود ان کی امامت بھی ثابت ہوتی ہے۔[37]

منابع اہل سنت میں اصحاب کو باعث امان قرار دینا

اہل سنت کے بعض منابع حدیثی میں یہ حدیث لفظ «اهل بیتی» کے بجائے لفظ «اصحابی» کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور اصحاب پیغمبرؐ کو امان امت قرار دیا گیا ہے۔[38] لیکن علما نے ان روایات کو سند اور مضمون کے لحاظ سے قابل اعتراض ہونے کی بنا پر جعلی قرار دیا ہے؛[39] مضمون کے لحاظ سے ان روایات پر اعتراض یہ کہ اس روایت کے اگر اصحاب پیغمبرؐ اہل زمین کے لیے باعث امان ہوں اور ان کی عدم موجودگی سے اہل زمین ہلاک ہوجائے تو ضروری ہے کہ کم از کم ایک صحابی اب تک روئے زمین پر باقی رہنا چاہیے تھا؛ حالانکہ تاریخی شواہد کے مطابق تمام اصحاب رسولؐ پہلی صدی ہجری میں ہی وفات پاچکے ہیں۔[40] علاوہ بر ایں، کہا گیا ہے کہ قرآن [41] اور تاریخ کی گواہی کے مطابق بعض اصحاب گناہ کبیرہ جیسے شراب نوشی کا مرتکب ہوئے ہیں اور عقیدتی لحاظ سے بھی منحرف(یعنی منافق) ہوچکے تھے؛ یہ لوگ کیسے امت محمدیؐ کے لیے امان کا باعث بن سکتے ہیں؟![42]

اہل سنت کے بعض حدیثی منابع میں آیا ہے کہ اصحاب رسول خداؐ آسمان کے ستاروں کے مانند ہیں جس کی پیروی کی جائے ہدایت ملے گی۔[43] شیعہ علما جیسے ناصر مکارم شیرازی[44] اور جعفر سبحانی[45] اسی طرح بعض اہل سنت علما جیسے ابوحیان اندلسی اور ابن‌ حزم[46] نے اس مضمون کی حامل حدیث کو جعلی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پیغمبر خداؐ نے ایسی کوئی حدیث بیان نہیں فرمائی ہے۔

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج9، ص85.
  2. ملاحظہ کریں: التفسیر المنسوب الی الامام الحسن العسکری، 1409ھ، ص546؛ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص27؛ طوسی، الامالی، 1414ھ، ص259 و 379.
  3. ملاحظہ کریں: ابن‌حنبل، فضائل الصحابه، 1403ھ، ج2، ص671؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج2، ص486 و ج3، ص162 و 517؛ طبرانی، المعجم الکبیر، نشر مکتبة ابن‌تیمیة، ج7، ص22؛‌ ابن‌عساکر، تاریخ دمشق، 1415ھ، ج40، ص20.
  4. ربانی گلپایگانی و فاطمی‌نژاد، «حدیث امان و امامت اهل بیت علیهم السلام»، ص9 و 10.
  5. خزاز قمی، کفایة الاثر، 1401ھ، ص29 و 210؛ ابن‌حنبل، فضائل الصحابة، 1403ھ، ج2، ص671؛ قاضی نعمان، شرح الأخبار فی فضائل الأئمة الأطهار(ع)، 1409ھ، ج‏2، ص502 و ج3، ص10 و 13؛ طبری، ذخایر العقبی، 1356ھ، ص17.
  6. ربانی گلپایگانی و فاطمی‌نژاد، «حدیث امان و امامت اهل بیت علیهم السلام»، ص18.
  7. ملاحظہ کریں: صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص27؛ طوسی، الامالی، 1414ھ، ص259 و 379؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج2، ص486 و ج3، ص162 و 517؛ طبری، ذخایر العقبی، 1356ھ، ص17.
  8. ربانی گلپایگانی و فاطمی‌نژاد، «حدیث امان و امامت اهل بیت علیهم السلام»، ص18.
  9. ملاحظہ کریں:‌ صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، 1395ھ، ج1، ص205؛ ابن‌حنبل، فضائل الصحابة، 1403ھ، ج2، ص671.
  10. التفسیر المنسوب الی الامام الحسن العسکری، 1409ھ، ص546.
  11. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص162.
  12. لیثی واسطی، عیون الحکم و المواعظ، 1376ہجری شمسی، ص165؛ تمیمی آمدی، غرر الحکم و درر الکلم، 1410ھ، ص262.
  13. صدوق، کمال الدین و تمام النعمة، 1395ھ، ج1، ص207.
  14. ابن‌قولویه، کامل الزیارات، 1356ہجری شمسی، ص36؛ ابن‌عقده کوفی، فضائل امیرالمؤمنین(ع)، 1424ھ، ص138.
  15. مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج9، ص89 و 90.
  16. نهج‌البلاغه، تصحیح صبحی صالح، خطبه 100، ص146.
  17. ربانی گلپایگانی و فاطمی‌نژاد، «حدیث امان و امامت اهل بیت علیهم السلام»، ص11.
  18. ابن‌حنبل، فضائل الصحابة، 1403ھ، ج2، ص671؛ طبری، ذخایر العقبی، 1356ھ، ص17.
  19. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج2، ص486.
  20. طوسی، الامالی، 1414ھ، ص379؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج3، ص162.
  21. قاضی نعمان، شرح الأخبار فی فضائل الأئمة الأطهار(ع)، 1409ھ، ج3، ص13؛ طبری، ذخایر العقبی، 1356ھ، ص17.
  22. خزاز قمی، کفایة الاثر، 1401ھ، ص29.
  23. مراجعہ کریں: شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ، ج9، ص294-308 و ج18، ص323-330.
  24. حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج2، ص486.
  25. ربانی گلپایگانی و فاطمی‌نژاد، «حدیث امان و امامت اهل بیت علیهم السلام»، ص11.
  26. ربانی گلپایگانی و فاطمی‌نژاد، «حدیث امان و امامت اهل بیت علیهم السلام»، ص13.
  27. «درس امامت -کتاب المراجعات- استاد ربانی»، وبگاه مدرسه فقاهت.
  28. ربانی گلپایگان و فاطمی‌نژاد، «حدیث امان و امامت اهل بیت علیهم السلام»، ص11-13.
  29. ملاحظہ کریں: صدوق، علل الشرایع، 1385ہجری شمسی، ج1، ص124؛ خزاز قمی، کفایة الاثر، 1401ھ، ص29.
  30. سمهودی، جواهر العقدین، 1405ھ، ج2، ص124و125؛ ابن‌حجر هیتمی، الصواعق المحرقه، 1417ھ، ج2، ص446.
  31. سمهودی، جواهر العقدین، 1405ھ، ج2، ص124و125؛ ابن‌حجر هیتمی، الصواعق المحرقه، 1417ھ، ج2، ص446.
  32. مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج9، ص90.
  33. مظفر، دلائل الصدق، 1422ھ، ج6، ص259.
  34. ملاحظہ کریں: مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج9، ص90؛ ربانی گلپایگانی و فاطمی‌نژاد، «حدیث امان و امامت اهل بیت علیهم السلام»، ص31.
  35. خزاز قمی، کفایة الاثر، 1401ھ، ص29.
  36. ملاحظہ کریں: ابن‌عطیه، ابهی المداد، 1423ھ، ج1، ص819؛ مظفر، دلائل الصدق، 1422ھ، ج6، ص259.
  37. مظفر، دلائل الصدق، 1422ھ، ج6، ص259.
  38. تفصیلات جاننے کے لیے ملاحظہ کریں: مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج4، ص1961؛ طبرانی، المعجم الکبیر، نشر مکتبة ابن‌تیمیة، ج11، ص53 و ج20، ص360.
  39. دیکھیے: زینلی، «حدیث امان»، ص56 -61.
  40. دیکھیے: زینلی، «حدیث امان»، ص56 و 57.
  41. ملاحظہ کریں:‌ سوره نور، آیه 11 و 12؛‌ سوره توبه، آیه 101.
  42. دیکھیے: زینلی، «حدیث امان»، ص58-61.
  43. ابن‌عساکر، تاریخ دمشق، 1415ھ، ج22، ص359.
  44. مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ہجری شمسی، ج9، ص91.
  45. سبحانی، الالهیات، 1412ھ، ج4، ص443.
  46. دیکھیے: ابوحیان اندلسی، البحر المحیط فی التفسیر، ‌1420ھ، ج6، ص582 و 583.

مآخذ

  • ابن‌حجر هیتمی، احمد بن محمد، الصواعق المحرقه علی أهل الرفض والضلال والزندقة، تحقیق عبدالرحمن بن عبدالله الترکی و کامل محمد الخراط، بیروت، مؤسسه الرسالة، چاپ اول، 1417ھ.
  • ابن‌حنبل، احمد بن محمد بن حنبل، فضائل الصحابه، تحقیق وصی‌الله محمد عباس، بیروت، مؤسسه الرسالة، چاپ اول، 1403ھ-1983ء.
  • ابن‌عساکر، علی بن حسن، تاریخ دمشق، تحقیق عمرو بن غرامة العمروی، بیروت، دارالفکر، 1415ھ-1995ء.
  • ابن‌عطیه، مقاتل، ابهی المداد فی شرح مؤتمر علماء بغداد، شرح و تحقیق محمد جمیل حمود، بیروت، مؤسسه الاعلمی، چاپ اول، 1423ھ.
  • ‌ ابن‌عقده کوفی، احمد بن محمد، فضائل امیرالمؤمنین(ع)، تحقیق عبدالرزاق محمد حسین حرزالدین، ‏ قم، دلیل ما، چاپ اول، 1424ھ.
  • ‌ ابن‌قولویه، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، تحقیق عبدالحسین امینی، نجف اشرف، دار المرتضویة، چاپ اول، 1356ہجری شمسی.
  • ابوحیان اندلسی، محمد بن یوسف، البحر المحیط فی التفسیر، تحقیق صدقى محمد جمیل، بیروت، دار الفکر، چاپ اول، ‌1420ھ.
  • التفسیر المنسوب الی الامام الحسن العسکری، تحقیق محمدباقر موحد ابطحی، قم، مدرسه امام مهدی(ع)، چاپ اول، 1409ھ.
  • ‌ تمیمی آمدی، عبدالواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، تحقیق سید مهدی رجائی، قم، دار الکتاب الإسلامی، چاپ دوم، 1410ھ۔
  • حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول، 1411ھ-1990ء.
  • خزاز قمی، علی بن محمد، کفایة الاثر فی النص علی الائمة الاثنی عشر، تحقیق و تصحیح عبدالطیف حسینی کوه‌کمری، قم، بیدار، 1401ھ.
  • «درس امامت - کتاب المراجعات - استاد ربانی گلپایگانی»، وبگاه مدرسه فقاهت، تاریخ درس: 15 اردیبهشت 1395ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 1 خرداد 1402ہجری شمسی.
  • ربانی گلپایگانی، علی و علیرضا فاطمی‌نژاد، «حدیث امان و امامت اهل بیت علیهم السلام»، فصلنامه کلام اسلامی، شماره 100، زمستان 1395ہجری شمسی.
  • زینلی، غلامحسین، «حدیث امان»، مجله حدیث اندیشه، شماره 2، پاییز و زمستان 1385ہجری شمسی.
  • ‌ سبحانی، جعفر، الالهیات علی هدی الکتاب و السنه و العقل، قم، المرکز العالمی للدراسات الاسلامیه، چاپ سوم، 1412ھ.
  • سمهودی، علی بن عبدالله، جواهر العقدین فی فضل الشریفین، بغداد، مطبعة العانی، 1405ھ.
  • شوشتری، قاضی نورالله، احقاق الحق و إزهاق الباطل‏، قم، مکتبة آیت الله المرعشی النجفی، چاپ اول، 1409ھ.
  • صدوق، محمد بن علی بن بابویه، علل الشرایع، قم، کتاب‌فروشی داوری، چاپ اول، 1385ہجری شمسی.
  • صدوق، محمد بن علی بن بابویه، عیون اخبار الرضا(ع)، تحقیق مهدی لاجوردی، تهران، نشر جهان، چاپ اول، 1378ھ.
  • صدوق، محمد بن علی بن بابویه، کمال الدین و تمام النعمة، تحقیق علی اکبر غفاری، تهران، اسلامیه، چاپ دوم، ‌1395ھ.
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی بن عبدالمجید السفلی، قاهره، نشر مکتبة ابن‌تیمیة، چاپ دوم، بی‌تا.
  • طبری، محب الدین، ذخایر العقبی فی مناقب ذوی القربی، قاهره، دار الکتب المصریة، 1356ھ.
  • طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دار الثقافة، چاپ اول، 1414ھ.
  • قاضی نعمان، نعمان بن محمد مغربی، شرح الاخبار فی فضائل الائمة الاطهار(ع)، قم، جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، چاپ اول، 1409ھ.
  • ‌ لیثی واسطی، علی بن محمد، عیون الحکم و المواعظ، تحقیق حسین حسنی بیرجندی، قم، دار الحدیث، 1376ہجری شمسی.
  • مظفر، محمدحسن، دلائل الصدق لنهج الحق، قم، مؤسسه آل‌بیت، چاپ اول، 1422ھ.
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ نهم، 1386ہجری شمسی.
  • نهج‌البلاغه، تصحیح صبحی صالح، قم، هجرت، چاپ اول، ‌1414ھ.