غزوہ بدر
سرزمین بدر کا نقشہ | |
| تاریخ | 17 رمضان سنہ 2 ہجری |
|---|---|
| مقام | علاقہ بدر |
| علل و اسباب | قریش کے تجارتی قافلے پر قبضہ |
| نتیجہ | مسلمانوں کی فتح |
| فریق 1 | مسلمانوں کا 313 افراد پر مشتمل لشکر |
| فریق 2 | مشرکین قریش کا 900 افراد پر مشتمل لشکر |
| سپہ سالار 1 | حضرت محمدؐ |
| سپہ سالار 2 | ابوجہل (عمرو بن ہشام) مَخزومی |
| نقصان 1 | مسلمانوں کے 14 افراد کی شہادت؛ 6 افراد مہاجرین میں سے اور 8 افراد انصار میں سے |
| نقصان 2 | مشرکین کے 70 افراد کی ہلاکت اور 74 افراد کی گرفتاری |
غزوہ بدر یا جنگ بدر رسول خداؐ کی مشرکین قریش کے ساتھ پہلی جنگ تھی جو سنہ 2 ہجری قمری کی 17 رمضان کو مقام بدر پر لڑی گئی۔
رسول خداؐ 313 افراد کے ساتھ قریش کے تجارتی قافلے کے اموال ضبط کرنے کے ارادے سے روانہ ہوئے، جبکہ قریش تقریباً 900 سے 1000 جنگجوؤں کے ساتھ میدان میں اتر آئے۔ تعداد میں کم ہونے کے باوجود مسلمانوں نے اپنے ایمان، بہتر نظم و ضبط اور اللہ کی طرف سے غیبی امداد کی بدولت فتح حاصل کی۔ اس جنگ میں 14 مسلمان شہید ہوئے اور 70 سے زائد مشرکین ہلاک ہوئے۔ مسلمانوں کے حاصل کردہ مالِ غنیمت میں تقریباً 150 اونٹ اور 10 گھوڑے شامل تھے جو مسلمانوں میں تقسیم کیے گئے۔ اسی طرح 74 مشرکین کو قیدی بنا لیا گیا جن میں سے بعض نے فدیہ دے کر، بعض نے مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھا کر اور بعض دیگر قیدیوں کو ان کی غربت کی بنا پر بلا معاوضہ رہا کیا گیا۔
جنگ کے بعد پیغمبر اکرمؐ نے ہلاک شدہ مشرکین کے جنازوں کو ایک کنویں میں ڈالنے کا حکم دیا اور آنحضرتؐ نے ان سے خطاب بھی کیا۔ یہ واقعہ سَماعِ موتیٰ (مرنے کے بعد بھی اموات کا ہماری باتوں کو سننا) کے عقیدے کی دلیل کے طور پر اسلامی تعلیمات میں بیان کیا گیا ہے۔
اہمیت
جنگِ بدر اسلامی تاریخ کی سب سے اہم اور فیصلہ کن جنگوں میں سے ایک ہے جو 17 رمضان اور بعض روایات کے مطابق 19 رمضان سنہ 2 ہجری قمری میں رسولِ اکرمؐ کی قیادت میں مقام بدر میں لڑی گئی۔[1] اس جنگ میں مسلمانوں نے اپنی کم تعداد کے باوجود قریش پر فتح حاصل کی۔ یہ کامیابی مسلمانوں کے لیے اقتدار، خود اعتمادی اور اسلامی قلمرو کے استحکام کا باعث بنی۔[2] مفسرین نے قرآن کی کئی آیات کو اس جنگ کے ساتھ مربوط جانا ہے؛ جیسے سورہ آل عمران کی آیت 123 اور سورہ انفال کی آیت 17 اور آیت نمبر41۔ [3] ناصر مکارم شیرازی کے مطابق قرآن میں بدر کو یَومُ الفُرقان (حق و باطل کے جدا ہونے کا دن) کہا گیا ہے۔[4]
روایات کے مطابق اس جنگ میں تین ہزار فرشتے مسلمانوں کی مدد کو نازل ہوئے۔[5] جنگ بدر میں شریک ہونے والے "بَدریوں" کے لقب سے مشہور ہوئے[6] اور ان کا مسلمانوں کے مابین ایک خاص مقام بن گیا۔ ان کی موجودگی یا گواہی بعد کے واقعات میں خصوصی امتیاز کے حامل قرار پائی۔[7]
علتِ جنگ
کتاب فروغ ابدیت کے مطابق، 15 جمادی الاول سنہ 2 ہجری میں رسول اکرمؐ کو خبر ملی کہ قریش کا تجارتی قافلہ ابو سفیان کی قیادت میں مکہ سے شام کی نکلا ہے۔ آںحضرتؐ قافلے کے تعاقب میں مقام "ذات العشیرۃ" تک گئے مگر قافلے تک نہیں پہنچ سکے۔[8] آیت اللہ جعفر سبحانی کے مطابق، چونکہ قریش نے مہاجر مسلمانوں کے اموال ضبط کر لیے تھے، اس لیے نبی اکرمؐ نے حکم صادر فرمایا کہ مسلمان مدینہ سے نکلیں اور قریش کے تجارتی قافلے پر قبضہ کرلیں۔[9] بعض مؤرخین کے بیان کے مطابق، رسول خداؐ نے پہلے طلحہ بن عبید اللہ اور سعید بن زید کو معلومات حاصل کرنے کے لیے بھیجا تاکہ قافلے کے انتخاب کردہ راستہ، محافظوں کی تعداد اور ساز و سامان کی نوعیت معلوم کریں۔[10] قافلے والوں کے پاس تقریباً پچاس ہزار دینار کی مالیت کے اموال تھے جسے ہزار اونٹوں پر لادے گئے تھے۔[11] دوسری صدی ہجری کے مؤرخ واقدی کے مطابق، مکہ کے تقریباً تمام لوگ اس قافلے میں شریکِ سرمایہ تھے۔[12]
قافلے کو بچانے کی ابو سفیان کی کوششیں
جعفر سبحانی کے مطابق جب پیغمبر اکرمؐ مقام "ذَفران" میں ٹھہرے ہوئے تھے تو ابو سفیان کو مسلمانوں کے منصوبے کی خبر ہوئی۔ اس نے ضُمضُم بن عَمرو کو مکہ بھیجا تاکہ قریش کو قافلے کی حفاظت کے لیے متحرک کرے۔[13] محمد ابراہیم آیتی کے بیان کے مطابق، سوائے ابو لہب کے قریش کے تقریباً تمام سردارجنگ کے لیے تیار ہوگئے۔[14] ابو لہب نے چار ہزار درہم دے کر عاص بن ہشام کو اپنی جگہ جنگ پر بھیجا۔[15]تاریخ طبری (تالیف: 303ھ) کے مطابق، قریش کے جنگجوؤں کی تعداد 900 سے 1000 کے درمیان تھی۔[16]
جانشین کا تعین
بعض مؤرخین کے مطابق، پیغمبر خداؐ نے مدینہ سے روانگی کے وقت عبد اللہ بن اُمّ مکتوم کو اقامہ نماز کے لیے اپنا جانشین جبکہ اَبولُبابہ کو سیاسی امور کے سلسلے میں اپنا نمایندہ مقرر کیا۔[17] اسی طرح عاصم بن عَدی کو علاقہ قبا اور مدینہ کے بالائی علاقوں کے انتظامات کی ذمے داری سونپ دی۔[18] رسول اکرمؐ تقریباً 305[19] یا 313 افراد کے ساتھ مدینہ سے نکلے۔[20] کہتے ہیں کہ راستے میں مقام "بُقع" پر رکے اور جنگ میں شرکت کے لیے آنے والے کم سن نوجوانوں کو مدینہ واپس بھیج دیا۔[21] اس سفر کے دوران آنحضرتؐ نے ابو جہل سمیت دیگر کفارِ قریش پر لعنت بھیجی۔[22] دو افراد، خُبَیب بن یَساف اور قَیس بن مُحرِث، جو ایمان کے بغیر صرف مالِ غنیمت لینے کی نیت سے لشکر میں شامل ہوئے تھے، جنگ میں شریک ہونے سے روک دیے گئے۔[23]
عسکری شوریٰ کی تشکیل نو
رسول جعفریان کے مطابق، رسول خداؐ کے زیادہ تر اصحاب انصار سے تھے جنہوں نے مدینہ میں آپؐ سے دفاعی معاہدہ کیا تھا، جو صرف مدینہ کی حدود پر مبنی تھا۔ چونکہ جنگ بدر مدینہ سے باہر ہونی تھی، اس لیے آپؐ نے ایک عسکری شوریٰ تشکیل دی تاکہ شریک جنگ افراد خصوصاً انصار کی رائے اور حمایت حاصل کر کے مسئلے کا حل پیدا کیا جاسکے۔[24] دوسری اور تیسری صدی ہجری کے مورخ ابن سعد کے مطابق، بعض اصحاب جیسے مقداد نے قافلے کے تعاقب اور دشمن سے لڑنے کو ترجیح دی اور انصار کے نمائندے کے طور پر سعد بن مُعاذ نے رسول خداؐ کی ہر حال میں اطاعت اور آپؐ کی بتائی گئی راہ میں جان قربان کرنے کو اپنا فریضہ سمجھا۔[25] سعد کا جذبہ قربانی دیکھ کر رسول اکرمؐ نے فوراً پیش قدمی کا حکم دیا۔[26]
شیخ حُرّ عاملی کی نقل کردہ روایت کے مطابق، نبی اکرمؐ نے پہلے سے پیشنگوئی کی تھی کہ لشکرِ اسلام قریش کے قافلے یا ان کے جنگی لشکر سے مقابلہ کرے گا اور آپؐ نے دشمنوں کے مارے جانے کے مقامات بھی متعین کر دیے تھے۔[27] حَباب بن مُنذِر کی رائے پر عمل کرتے ہوئے لشکرِ اسلام نے دشمن کے قریب ترین کنویں پر پڑاؤ ڈالا۔[28]
اطلاعات حاصل کرنے کا طریقہ
جنگ بدر میں رسول اکرمؐ نے سفیان ضَمریّ سے خفیہ طور پر پوچھ گچھ،[29] پانی لینے کے لیے بدر کے کنویں پر آنے والوں سے خبر لینے[30] اور قریش کے قیدیوں سے بازپرس[31] جیسے مختلف طریقوں سے دشمن کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں اور موصولہ اطلاعات کے تجزیے کے بعد آپؐ نے قریش کے سرکردگان کے سامنے فرمایا: مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمہاری طرف پھینک دیا ہے۔[32]
تجارتی قافلے کا بچ نکلنا اور دشمن لشکر کا بدر پہنچنا
ابو سفیان کو جب مسلمانوں کی موجودگی کا پتہ چلا تو اس نے اپنا راستہ بدل لیا اور قریشیوں کو مکہ واپس بلا لیا۔[33] اگرچہ کچھ واپس چلے گئے[34] لیکن ابو جہل جنگ کے سلسلے میں مصر رہا اور قریش کا لشکر بدر میں قیام پذیر ہوا۔[35] واقدی کے مطابق، قریش نے مسلمانوں کو کم تعداد کے باوجود متحد اور پُرعزم پایا۔[36] علامہ مجلسی کے بیان کے مطابق، رسول اکرمؐ نے دشمن کے لشکر کو دیکھ کر اللہ سے نصرت طلب کی۔[37]

صف بندی اور شعار
رسول خداؐ نے لشکرِ اسلام کی صفیں اس طرح ترتیب دیں کہ سورج مسلمانوں کی پشت پر اور مشرکین سورج کے سامنے قرار پائے۔[38] آپؐ نے مختلف قبائل کے سرداروں کو پرچم دیے؛ مرکزی اور اصلی پرچم اپنے پاس، مہاجرین کا پرچم مُصعب بن عُمیر کو، قبیلہ خزرج کا پرچم حباب بن مُنذِر کو اور قبیلہ اوس کا پرچم سعد بن مُعاذ کو دیا۔[39] ہر گروہ کے لیے ایک شعار(مبارزاتی نعرہ) بھی مقرر کیا[40] اور حکم دیا کہ ہر مجاہد اپنے ساتھ ایک الگ نشان رکھے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکیں۔[41]
کلینی کی امام جعفر صادقؑ سے منقول روایت کے مطابق، مسلمانوں کا شعار یہ تھا: «یا نَصْرَاللَّہِ اِقْتَرِبْ اِقْتَرِبْ» (اے نصرت خدا! قریب آ، قریب آ)۔[42] ایک اور روایت کے مطابق، رسول خداؐ کا شعار یہ تھا: «یا مَنْصُورُ اَمِتْ» (اے فتحیاب لوگو! دشمن کو مارو)۔[43] تیسری صدی ہجری کے تاریخ نگار ابنِ ہشام نے لکھا ہے کہ اصحاب رسولؐ کا شعار یہ تھا: «اَحد اَحد» (یعنی: یکتا، یکتا)۔[44]
خطبۂ رسول خداؐ
جنگ شروع ہونے سے پہلے رسول اکرمؐ نے خطبہ دیا، جس میں صحابہ کو جہاد کی ترغیب دی اور اللہ کی طرف سے اجر و ثواب کی بشارت دی۔[45] ساتھ ہی آپؐ نے کچھ افراد کے لیے تحفظ فراہم کرنے کا اعلان کیا، جیسے ابو البختری، عباس اور بنی ہاشم کے بعض افراد؛[46] کیونکہ ابو البختری نے مکہ میں مسلمانوں کا ساتھ دیا تھا اور زیادہ تر بنی ہاشم زبردستی مکہ سے نکالے گئے تھے اور دل سے اسلام کے خواہاں تھے۔[47] مزید برآں، آپؐ نے مجاہدین کے حوصلے بڑھانے کے لیے وعدہ کیا کہ جو دشمن کو قتل کرے یا قید کرے گا، اسے انعام ملے گا۔[48]
تن بہ تن جنگ
جنگ شروع ہونے سے پہلے رسول خداؐ نے قریش کو صلح کا پیغام بھیجا تاکہ تنازعہ ٹل جائے۔[49] کچھ لوگ، جیسے حَکیم بن حِزام، واپس جانے کے حامی تھے؛ لیکن ابو جہل نے تعصب کی آگ کو بھڑکاتے ہوئے عامر حَضرَمی کو میدان میں بھیجا اور یوں جنگ کا میدان سج گیا۔[50] عرب کی جنگی روایت کے مطابق لڑائی مبارزے سے شروع ہوئی۔ قریش کے تین سردار(عُتبہ، شَیبہ اور ولید) میدان میں آئے اور مقابلے کے لیے حریف کو بلایا۔[51] رسول اکرمؐ نے پہلے انصار کے تین جوانوں کو بھیجا لیکن قریش نے برابری کے فقدان کا بہانہ بنا کر ان سے لڑنے سے انکار کر دیا۔[52] پھر آپؐ نے حضرت علیؑ، [حضرت حمزہ]] اور عبیدہ کو میدان میں بھیجا۔[53] اس لڑائی میں حضرت حمزہ نے شیبہ کو قتل کیا، حضرت علیؑ نے ولید کو مار گرایا اور عبیدہ نے عتبہ سے مقابلہ کیا اور حضرت علیؑ و حضرت حمزہ کی مدد سے اسے بھی شکست سے دوچار کیا۔[54] علم تاریخ کے شیعہ محقق جعفر سبحانی کے مطابق، نہج البلاغہ کے مکتوب نمبر 64 سے ظاہر ہوتا ہے کہ حمزہ کا مقابلہ شیبہ سے اور عبیدہ کا مقابلہ عتبہ سے تھا۔ حضرت علیؑ اور حمزہ نے اپنے حریفوں کو مارنے کے بعد عبیدہ کی مدد کی اور عتبہ کو مار دیا۔[55]

عمومی جنگ
قریش کے سرداروں کی ہلاکت کے بعد عمومی جنگ شروع ہوگئی۔[56] بعض مؤرخین کے مطابق، اگرچہ رسول اکرمؐ کے لیے ایک سایہ دار کمان گاہ تیار تھی،[57] لیکن آپؐ خود بھی میدان کارزار کے عین وسط میں موجود رہے اور مجاہدین مشکل وقت میں آپؐ کی پناہ لیتے تھے۔[58] کچھ مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب سَلمَۃ بن اَسلَم کی تلوار ٹوٹ گئی تو رسول اکرمؐ نے اپنی لاٹھی اسے دی جو معجزانہ طور پر تلوار بن گئی۔[59]
پیغمبر خداؐ نے مٹھی بھر خاک مشرکین کی طرف پھینکی۔ آپؐ کی دعا سے اللہ نے دشمن کے دل میں رعب ڈال دیا اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔[60] اس جنگ میں کامیابی آدھے دن سے بھی کم وقت میں حاصل ہوگئی۔[61] مورخین کے مطابق، یہ فتح مسلمانوں کی شجاعت و استقامت، رسول اکرمؐ کی دعا[62] اور غیبی امداد[63] کی برکت سے حاصل ہوئی۔
جنگ بدر کے بعد کے واقعات
بعض مؤرخین کے مطابق، مشرکین کی شکست کے بعد کچھ مسلمان، جیسے سعد بن معاذ، رسول خداؐ کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوگئے۔ کچھ لوگ مال غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے اور کچھ دشمن کا پیچھا کرتے ہوئے انہیں قیدی بناتے رہے۔[64] حضرت علیؑ نے ولید بن عُتبہ کا آہنی لباس، ٹوپی اور ڈھال حاصل کی۔ حمزہ نے عُتبہ کا اسلحہ لیا اور عُبَیدۃ بن الحارث نے شَیبہ کی زرہ اپنے قبضے میں لے لی۔[65]
تقسیم غنایم
جنگ کے بعد رسول اکرمؐ نے پہلے سے مقرر حصے ادا کیے اور باقی مالِ غنیمت؛ جو کہ 150 سے زائد اونٹ، 10 گھوڑے اور کچھ چمڑے، کپڑے اور جنگی سامان پر مشتمل تھا؛[66] عبد اللہ بن کعب یا خباب بن اَرَت کے حوالے کیا تاکہ اپنے پاس تمام اموال کو جمع کریں۔[67] میدان کارزار میں جاکر لڑنے والوں اور مددگاروں کے درمیان تقسیم غنائم کے مسئلے پر اختلاف ہوا،[68] لیکن مورخین کے مطابق قرآن کی آیات کے نزول سے یہ اختلاف ختم ہوگیا۔[69]
آخر کار قرعہ اندازی سے مال غنائم تقسیم کی گئی[70] جس کے مطابق گھڑ سواروں کو دو یا تین حصے ملے (ایک گھوڑے کا اور دو سوار کا)۔[71] رسول خداؐ نے اپنی سپہ سالاری کا حصہ کے طور پر شمشیر ذوالفقار کو منتخب کیا۔[72] جنگ میں شرکت کے سلسلے میں عذر رکھنے والے غائبین،[73] شہداء[74] کے خاندان اور بعض غلام مجاہدین[75] کے لیے بھی کچھ حصے مقرر کیے گئے۔ اس جنگ میں ابوجہل کا اونٹ بھی بطور غنیمت رسول اللہؐ کے حصے میں آیا[76] اور اس موقع پر خمس نہیں لیا گیا۔[77]
اس جنگ سے تعلق رکھنے والے واقعات میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ کسی نے غنیمت سے سرخ جبہ بغیر اجازت اٹھایا، جس پر سورہ آل عمران کی آیت 161 نازل ہوئی اور رسول خداؐ کو ہر طرح کے الزام سے بری قرار دیا گیا۔[78]
قیدیوں کو مارنے سے ممانعت پر مشتمل ہدایات
رسول اکرمؐ نے اپنے غلام شقران کو قیدیوں کے نگہبان کے طور پر مقرر کیا۔[79] آپؐ نے قیدیوں کو قتل کرنے[80] اور ان کے اجساد کو مثلہ کرنے سے منع کیا۔[81] تاہم نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو قتل کرنے کا حکم دیا،[82] تاریخ اسلام کے محقق جعفر سبحانی کے مطابق؛ کیونکہ یہ دونوں اسلام دشمن سازشوں کے بڑے منصوبہ ساز تھے اور رہائی کی صورت میں وہ پیغمبر خداؐ کے خلاف کوئی بھی منفی اقدام کرسکتے تھے[83]
محمد باقر مجلسی کے مطابق، جبرائیلؑ نے نبی مکرم اسلامؐ کو اختیار دیا کہ چاہیں تو قیدیوں کو قتل کریں یا ان سے فدیہ لیں۔ صحابہ کی رائے اور مشاورت کے بعد آپؐ نے فدیہ لینے کو ترجیح دی۔[84] اصحاب کے مابین قیدیوں کی تقسیم قرعہ اندازی سے ہوئی[85] اور آپؐ نے قیدیوں کے سلسلے میں اصحاب کو تاکید کی کہ ان کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے۔[86] انصار اپنی روٹی قیدیوں کو دیتے تھے اور خود کھجور پر گزارہ کرتے تھے؛ نیز انہیں سواری پر بٹھاتے اور خود پیدل چلتے تھے۔[87]
اسلامی تاریخ کے محقق محمد ہادی یوسفی غَرَوی کے مطابق فدیہ کی مقدار 1000 سے 4000 درہم تھی۔[88] جو لوگ نادار تھے انہیں بغیر فدیہ کے آزاد کر دیا گیا۔[89] تیسری صدی ہجری کے مورخ ابن سعد کے مطابق وہ پڑھے لکھے قیدی جن کے پاس مال نہیں لیکن پڑھے لکھے تھے؛ انہیں اس شرط پر آزاد کیا گیا کہ وہ 10 مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھائیں۔[90] پیغمبر خداؐ نے عمرو بن ابی سفیان کو سعد بن نعمان کے بدلے؛ جو حج کے موقع پر قریش کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا تھا؛ رہا کردیا۔[91]
دعا کی قبولیت اور پیغمرؐ کا معجزہ
ابن سعد کے مطابق، رسول خداؐ نے روانگی کے وقت پیادے، برہنہ، بھوکو اور محتاجوں کے لیے دعا کی۔ اس دعا کی برکت سے واپسی پر سب مسلمان سواریوں پر سوار تھے، برہنہ صاحب لباس تھے، بھوکے سیر تھے اور غریب فدیے کی بدولت خوشحال ہوگئے۔[92] یہ بھی روایت ہے کہ ایک مجاہد کا اونٹ چلتے چلتے رک گیا تو رسول خداؐ نے اپنے وضو کا پانی اس پر چھڑکا تو اونٹ دوبارہ چلنے لگا۔[93]
مسلمان شہداء اور قریش کے مقتولین کی تعداد

جنگ بدر میں 14 مسلمان شہید ہوئے جن میں سے 6 مہاجر اور 8 انصاری تھے۔[94] مشرکین کے 70 یا اس سے زیادہ جنگجو مارے گئے اور 74 قیدی بنایے گئے۔ بعض روایات میں قیدیوں کی تعداد 70 یا 49 بیان ہوئی ہے۔[95] طبقات ابن سعد کے مطابق قریش کے بڑے سرداروں میں سے شیبہ، عتبہ، ولید بن عتبہ، ابو جہل، نوفل بن خویلد، عاص بن سعید، ابوالبختری، حنظلہ بن ابی سفیان، امیہ بن خلف اور منبہ بن حجاج مارے گئے۔[96] شیعہ مورخ سید جعفر مرتضی عاملی (متوفی: 1441ھ) نے متعدد تاریخی مآخذ سے استناد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ زیادہ تر مشرک سرداران حضرت علیؑ کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں۔[97]
شہدا کی نماز اور تدفین
مورخ واقدی کے بیان کے مطابق، رسول خداؐ نے بدر کے شہداء کی نماز جنازہ ادا کی اور وہیں دفن کیا۔[98] کچھ زخمی راستے میں جانبر نہ ہوسکے اور وہیں دفن کیے گئے۔[99] کچھ بدر میں زخمی ہوئے اور مدینہ پہنچ کر شہید ہوئے اور وہیں دفن ہوئے۔[100] رسول خداؐ نے عصر کی نماز بدر میں پڑھی اور سورج غروب ہونے سے پہلے بدر کے میدان سے نکل گئے اور مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور اُثیل نامی علاقے میں پہنچ گئے۔[101] بعض دیگر روایات کے مطابق آپؐ نے نماز عصر اُثیل میں پڑھی۔[102]
قریش کے مقتولین سے پیغمبر خداؐ کا خطاب
جنگ بدر کے بعد پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے مشرکین کے مقتولین کو ایک کنویں میں ڈالا گیا[103] جس کی بنا پر وہ اصحاب قلیب کہلائے۔ آپؐ نے ان مردوں کی تکذیب رسالت اور نبی کو [[مکہ] سے نکالے جانے پر ان کی ملامت کی۔[104] جب عمر بن خطاب نے کہا کہ یہ مردے ہیں، سنتے نہیں، رسول اللہؐ نے فرمایا: وہ سنتے ہیں لیکن جواب نہیں دے سکتے۔[105] یہ واقعہ مردوں کے سننے (سَماعِ موتیٰ) اور ارواح سے رابطے کی دلیل سمجھا گیا ہے۔[106]
غزوہ بدر پر سید حمیری کی شاعری
شیعہ شاعر سید اسماعیل حمیری (متوفی: 179ھ) نے جنگ بدر میں فرشتوں کی مدد کو یوں بیان کیا ہے:
ترجمہ: بدر کی شب میکائیل ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ، جبرائیل ایک ہزار کے ساتھ اور اسرافیل بھی ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ اُترے۔ گویا وہی ابابیل کے پرندے تھے جنہوں نے ابرہہ اور اس کے لشکر کو پتھروں سے مارا تھا۔
حوالہ جات
- ↑ علامہ مجلسى، حياۃ القلوب، 1384شمسی، ج4، ص894۔
- ↑ احمدی، «تحلیل و بررسی دلایل و پیامدہای جنگ بدر(با تآکید بر جغرافیای تاریخی جنگ بدر)»، ص123۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج9، ص38؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج7، ص171؛ طیب، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، 1369شمسی، ج3، ص335۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج7 ص173۔
- ↑ قرشی بنابی، تفسیر احسن الحدیث، 1375شمسی، ج2، ص180۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص472۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص472۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص472۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص473۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص472۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص473۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص27۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص473۔
- ↑ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، 1378شمسی، ص255۔
- ↑ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، 1378شمسی، ص255۔
- ↑ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ھ، ج2، ص437۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص473۔
- ↑ مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج9، ص227۔
- ↑ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ھ، ج2، ص478۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص473۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص21 و 23۔
- ↑ علامہ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج 19، ص332۔
- ↑ جعفریان، سیرہ رسول خدا(ص)، 1383شمسی، ص476۔
- ↑ جعفریان، سیرہ رسول خدا(ص)، 1383شمسی، ص477۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الكبرى، 1418ھ، ج2، ص10۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الكبرى، 1418ھ، ج2، ص10۔
- ↑ حر عاملی، اثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات، 1425ھ، ج1، ص426۔
- ↑ ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج1، ص620۔
- ↑ مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص96۔
- ↑ ذہبی، تاريخ الإسلام، 1409ھ، ج2، ص52۔
- ↑ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ھ، ج2، ص436۔
- ↑ صالحى دمشقى، سبل الہدى و الرشاد في سيرۃ خير العباد، 1414ھ، ج4، ص28۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص483۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص485۔
- ↑ مشاط، انارۃ الدجی، 1426ھ، ص124۔
- ↑ واقدی، المغازی، ج1، ص62۔
- ↑ علامہ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج 19، ص334۔
- ↑ صالحى دمشقى، سبل الہدى و الرشاد ، 1414ھ، ج4، ص33۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص58۔
- ↑ مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، 1403ھ، ج 19، ص335۔
- ↑ واقدی، محمد بن عمر، المغازی، ج1، ص76۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، ص47۔
- ↑ امين عاملى، أعيان الشيعۃ، 1403ھ، ج1، ص247۔
- ↑ ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج1، ص634۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص58۔
- ↑ کلینی، کافی، 1407ھ، ج8، ص202۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص495۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص98۔
- ↑ مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، 1403ھ، ج 19، ص224۔
- ↑ واقدی، محمد بن عمر، المغازی، ج1، ص61۔
- ↑ علامہ مجلسى، حياۃ القلوب، 1384شمسی، ج4، ص896۔
- ↑ علامہ مجلسى، حياۃ القلوب، 1384شمسی، ج4، ص897۔
- ↑ علامہ مجلسى، حياۃ القلوب، 1384شمسی، ج4، ص897۔
- ↑ بلاذری، أنساب الأشراف، 1417ھ، ج1، ص297۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص493۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص493۔
- ↑ دیار بَکری، تاریخ الخمیس، بیروت، ج1، ص376؛ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص486۔
- ↑ ذہبی، تاريخ الإسلام، 1409ھ، ج1، ص458؛ ابن سعد، الطبقات، 1418ھ، ج2، ص17۔
- ↑ حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، 1427ھ، ج2، ص245؛ واقدی، محمد بن عمر، المغازی، ج1، ص94۔
- ↑ أمین عاملی، أعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج1، ص248؛ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، 1403ھ، ج 19، ص340۔
- ↑ جعفریان، سیرہ رسول خدا(ص)، 1383شمسی، ص484۔
- ↑ مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص108۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418ھ، ج2، ص11؛ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص70 و 81۔
- ↑ مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص111؛ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص98۔
- ↑ یوسفی، موسوعۃ التاريخ الاسلامی، نشر مجمع الفکرالاسلامی، ج2، ص145۔
- ↑ جعفریان، سیرہ رسول خدا(ص)، 1383شمسی، ص485۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص100۔
- ↑ العاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، 1426ھ، ج5، ص89۔
- ↑ جعفریان، سیرہ رسول خدا(ص)، 1383شمسی، ص485۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص100۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص102 و 103۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات، 1418ھ، ج2، ص13۔
- ↑ صالحى دمشقى، سبل الہدى و الرشاد في سيرۃ خير العباد، 1414ھ، ج4، ص62۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص102۔
- ↑ مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص113۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص102۔
- ↑ العاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، 1426ھ، ج5، ص89 و 90۔
- ↑ ابنبابویہ، الأمالی، 1376شمسی، ص103۔
- ↑ مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج9، ص243۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص106۔
- ↑ ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج1، ص649۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابدیت، 1385شمسی، ص500۔
- ↑ سبحانی، فروغ ابديت، 1385شمسی، ص500۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج 34، ص391۔
- ↑ یوسفی غروی، موسوعۃ التاريخ الاسلامی، نشر مجمع الفکرالاسلامی، ج2، ص153۔
- ↑ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385شمسی، ج2، ص131۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص119۔
- ↑ یوسفی، موسوعۃ التاريخ الاسلامی، نشر مجمع الفکرالاسلامی، ج2، ص153۔
- ↑ یوسفی، موسوعۃ التاريخ الاسلامی، نشر مجمع الفکرالاسلامی، ج2، ص153۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات، 1418ھ، ج2، ص16۔
- ↑ یوسفی، موسوعۃ التاريخ الاسلامی، نشر مجمع الفکرالاسلامی، ج2، ص165۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات، 1418ھ، ج2، ص14۔
- ↑ إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص93۔
- ↑ علامہ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج 19، ص359۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص144۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات، 1418ھ، ج2، ص13۔
- ↑ العاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، 1426ھ، ج5، ص59۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص146 و 147۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص147۔
- ↑ ابنسعد، الطبقات الکبرى، 1418ھ، ج3، ص446۔
- ↑ علامہ مجلسى، حياۃ القلوب،1384شمسی، ج4، ص920۔
- ↑ علامہ مجلسى، حياۃ القلوب،1384شمسی، ج4، ص920۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص111-112؛ ابنہشام، السیرۃ النبویۃ، 1430ھ، ص306۔
- ↑ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص112؛ ابنہشام، السیرۃ النبویۃ، 1430ھ، ص306۔
- ↑ بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج5، ص98۔
- ↑ میبدی، کشف الاسرار، 1371شمسی، ج4، ص65-66۔
- ↑ شیخ طوسی، امالی، 1414ھ، ص199۔
مآخذ
- آیتی، محمدابراہیم، تاریخ پیامبر اسلام، تہران، دانشگاہ تہران، چاپ ششم، 1378ہجری شمسی۔
- ابناثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار الصادر، 1385ھ۔
- ابنسعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ دوم، 1418ھ۔
- ابنہشام، عبدالملک، السیرۃ النبویۃ، بیروت، دارالمعرفۃ، بیتا۔
- احمدی، علی، «تحلیل و بررسی دلایل و پیامدہای جنگ بدر(با تآکید بر جغرافیای تاریخی جنگ بدر)»، در مجلہ میقات حج، شمارہ 121، پاییز 1401ہجری شمسی۔
- امین عاملی، سید محسن، أعیان الشیعۃ، بیروت، دار التعارف، 1403ھ۔
- بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، تحقیق محمد زہیر بن ناصر الناصر، دار طوق النجاۃ، الطبعۃ الأولی، 1422ھ۔
- بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، بیروت، دار الفکر، چاپ اول، 1417ھ۔
- جعفریان، رسول، سیرہ رسول خدا(ص)، قم، دلیل ما، چاپ سوم، 1383ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، اثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات، بیروت، اعلمی، چاپ اول، 1425ھ۔
- حلبی، ابوالفرج، السیرۃ الحلبیۃ، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ دوم، 1427ھ۔
- دیار بَکری، شیخ حسین، تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس، بیروت، دار الصادر، بیتا۔
- ذہبی، شمسالدین، تاریخ الإسلام، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ دوم، 1409ھ۔
- سبحانی، جعفر، فروغ ابدیت: تجزیہ و تحلیل کاملی از زندگی پیامبر اکرم(ص)، قم، بوستان کتاب، 1385ہجری شمسی۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، امالی، مصحح: مؤسسۃ البعثۃ، قم، دار الثقافۃ، چاپ اول، 1414ھ۔
- صالحی دمشقی، محمد بن یوسف، سبل الہدی و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، چاپ اوّل، 1414ھ۔
- صدوق، محمد بن علی، الأمالی، تہران، کتابچی، چاپ ششم، 1376ہجری شمسی۔
- طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1390ھ۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، 1387ھ۔
- طیب، عبدالحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، اسلام، چاپ دوم، 1369ہجری شمسی۔
- علامہ مجلسی، محمدباقر، حیاۃ القلوب، قم، سرور، چاپ ششم، 1384ہجری شمسی۔
- قرشی بنابی، علیاکبر، تفسیر احسن الحدیث، تہران، بنیاد بعثت، چاپ دوم، 1375ہجری شمسی۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، محقق، جمعی از محققان، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
- مشاط، حسن بن محمد، إنارۃ الدجی فی مغازی خیر الوری، جدہ، دار المنہاج، چاپ دوم، 1426ھ۔
- مقریزی، احمد بن علی، إمتاع الأسماع، تحقیق محمد عبد الحمید، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1420ھ۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیہ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔
- میبدی، احمد بن محمد، کشف الاسرار و عدۃ الابرار، تہران، امیرکبیر، 1371ہجری شمسی۔
- یوسفی، محمدہادی، موسوعۃ التاریخ الاسلامی، قم، مجمع اندیشہ اسلامی، چاپ اول، 1417ھ۔