بیعت رضوان

ویکی شیعہ سے

بیعت رضوان یا بیعت شجرہ، پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كے بعض صحابہ كی تجدید عہد كا نام ہے جو مکہ كے نزدیك چھ ہجری قمری كو صلح حدیبیہ سے پہلے واقع ہوئی۔ سورہ فتح كی آیت نمبر 18 اس واقعے كی طرف اشارہ كرتی ہے اور بیعت رضوان یا بیعت شجرہ كا نام بھی اسی آیہ مجیدہ سے لیا گیا ہے۔

اہل سنت، بیعت کرنے والوں پر خدا کی رضایت کو بغیر كسی قید اور شرط كے ہمیشہ كے لیے ثابت کرتے ہیں اسی لئے وہ اس عہد و پیمان میں شامل تمام صحابہ كے لئے ایك خاص احترام كے قا‏ئل ہیں لیكن شیعہ معتقد ہیں كہ مذكورہ آیت شریفہ میں رضائے الہی ان كی قربانی، جانفشانی اور اس بیعت کے نتیجے میں تھی اور خدا کی رضایت کا تسلسل اس شرط پر ہے کہ یہ لوگ پیغمبر اكرم(ص) كی اطاعت اور پیروی میں ثابت قدم رہیں۔

قرآن میں بیعت رضوان کا تذکرہ

قرآن مجید میں سورہ فتح كی آیت نمبر ۱۸ میں اس واقعہ کا تذکرہ ہوا ہے اور بیعت رضوان یا بیعت شجرہ كا نام بھی اسی آیت سے لیا گیا ہے:لقد رضی اللّہ عن المؤمنینَ اِذْ یبایعونَکَ تَحتَ الشجرة فَعَلِمَ ما فی قُلوبِہم فَأَنْزَلَ السَّکینة علیہم (ترجمہ: یقینا خدا صاحبانِ ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو ان کے دلوں میں تھا تو ان پر سکون نازل کردیا۔)

صلح حدیبیہ كا ماجرا

ہجرت كے چھٹے سال پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صحابہ كے ایك گروہ کے ساتھ حج بیت اللہ کا فریضہ انجام دینے کے لئے مکے کی طرف روانہ ہوئے، جن کے پاس صرف تلوار اور وہ بھی غلاف میں تھی۔ پیغمبر اکرم(ص) کے اس کاروان میں 1400 سے 1600 سو تک افراد موجود تھے۔[1] جیسے ہی یہ کاروان مدینہ سے 9 منزلین طے کر کے مكہ سے ایک منزل كے فاصلے پر[2] حدیبیہ نامی گاوں پہنچے تو مكہ كے مشركوں نے ان کا راستہ روك لیا اور مكہ جانے سے منع كیا۔

رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے خراش نامی شخص كو اپنی اونٹ پر سوار كر كے مكہ بھیجا تاکہ وہ مكہ كے بزرگوں تک یہ پیغام پہنچا دے کہ مسلمان ان سے لڑنے کیلئے نہیں آئے بلکہ وہ صرف بیت اللہ كی زیارت كر كے واپس چلے جائیں گے، لیكن مكہ والوں نے آںحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كے اونٹ كو مار ڈالا اور خراش كو بھی مارنے كا قصد ركھتے تھے لیكن بعض لوگ مانع بنے اور وہ واپس لوٹ آئے۔ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوسری دفعہ عثمان ابن عفان كو مکہ والوں کے پاس بھیجا لیکن جب ان كی واپسی طولانی ہوئی تو یہ افواہ پھیلی كہ عثمان كو مكے كے لوگوں نے قتل كر دئے ہیں۔

عثمان كے قتل كی افواہ پھیلنے كے بعد پیغمبر اکرم(ص) نے اپنے اصحاب كو جمع کرکے ان سے بیعت لیا۔ یہ بیعت "ببول كے درخت" كے نیچے منعقد ہوئی جس میں شریک تمام افراد نے آنحضرت پر اپنی جان قربان كرنے كا عہد کیا لیکن بعد میں پتہ چلا كہ عثمان قتل نہیں ہوا ہے۔ [3] اس مقام پر مكہ والوں كی طرف سے بھیجے گئے وفد نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے صلح كی اور یہ طے پایا كہ اس سال آپ مدینہ واپس چلے جائیں اور اگلے سال دوبارہ زیارت كیلئے مكہ آئیں۔[4]

بیعت

عثمان كی تین دن كی تاخیر اس كے قتل كی افواہ پھیلنے كا سبب بنی۔[5] پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ خبر اس وقت سنی جب آپ ایك درخت كے نیچے تشریف فرما تھے[6] آپ نے لوگوں سے بیعت مانگی[7]، اور اسی وجہ سے اس عہد و پیمان كو بیعت شجرہ بھی كہا جاتا ہے۔ حاضرین میں سے صرف جدّ بن قیس اونٹ كے پیچھے چھپ كر رہا اور بیعت نہیں كی۔[8] لیكن سب سے پہلے كس نے بیعت كی؟ اس بارے میں جابر انصاری كی نقل كے مطابق سب سے پہلے حضرت علی علیہ السلام نے بیعت كی اور ان كے بعد "ابوسنان عبد اللہ بن وہب اسدی" اور ان كے بعد سلمان فارسی نے بیعت كی۔[9] بعض نے عبداللہ بن عمر[10] یا ابوسنان[11] (یا سنان)[12] بن وہب اسدی كا نام ذكر كیا ہے اور كہا ہے كہ عمر نے سب سے آخر میں بیعت كی ہے۔[13]

بیعت كے مندرجات اور اس کے نتا‏ئج

پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كے ساتھیوں نے قریش كی طرف سے احتمالی اقدامات كے پیش نظر یہ عہد كیا كہ ان كے مقابلے میں ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كو تنہا نہیں چھوڑینگے۔[14] اس حوالے سے بعض نے اس عہد نامے کے مندرجات کو جان كی بازی ہار نے تك ثابت قدم رہنے كا عزم قرار دیا ہے۔[15] جبکہ بعض نے کہا ہے کہ بیعت کرنے والوں نے جب تک ثابت قدم رہنے اور مقابلہ کرنے کی قدرت ہے اس وقت تک ثابت قدم رہنے کا عہد کیا تھا۔[16] یہ احتمال دیا جاتا ہے كہ پیغمبر اکرم(ص) کی طرف سے بیعت لینے کا یہ قدم اس لئے اٹھایا تا کہ جنگ احد کی طرح میدان چھوڑ كر کوئی بھاگ نہ جائے۔ بکیر بن اشجّ سے منقول ہے كہ لوگوں نے اپنی جان کی بازی ہارنے تک ثابت قدم رہنے کا عہد کیا؛ لیكن پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جتنی آپ كی قدرت میں ہے اس كا وعدہ كرو۔[17]

قریش كی طرف سے احتمالی خطرات كے پیش نظر پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كی اپنے ساتھیوں كو منظم كرنے یا شاید جنگ احد كے تلخ تجربے کی تكرار کو روكنے كے لیے موقعے پر بیعت لینے کی تدبیر كی وجہ سے بہت بڑی كامیابی ملی۔ بیعت كی خبر سنتے ہی مشركین میں خوف و ہراس پھیل گیا اور عثمان اور بعض مسلمانوں كے واپس آنے کے بعد قریش نے بعض نمایندے بھیج كر صلح كے لیے تیار ہوگئے اور آخر كار صلح حدیبیہ كی شكل میں یہ مسئلہ انجام كو پہنچ گیا۔[18]

بیعت كرنے والوں كے بارے میں مختلف نظریات

بعض اہل سنت نے بعض ضعیف رویات كی روشنی میں كوشش كی ہے كہ اس آیہ شریفہ میں بیعت کرنے والوں کے اوپر اللہ كی رضایت كو ہمیشہ اور ابدی قرار دیں؛ اور ایك روایت كے مطابق پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں زمین كے باسیوں میں سب سے بہتر قرار دیا ہے۔[19] اور ایك ضعیف روایت كے مطابق اس بیعت میں بیعت كرنے والوں میں سے كوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔[20]

اسی آیت اور اہل سنت كی بعض كتابوں كے نقل كے پیش نظر شیعہ معتقد ہیں كہ مذكورہ آیہ (لقد رضی اللّہ عن المؤمنینَ) میں « رضائے الہی» بیعت كرنے والوں كی اس دن كی جانفشانی اور بیعت كا نتیجہ ہے اور اسی لئے بلافاصلہ اللہ كی رضایت كی علت بھی ذكر ہوئی ہے (اِذْ یبایعونَکَ تَحتَ الشجرة) اور اس رضایت كا تسلسل ان كی پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كی پیروی میں ثابت قدم رہنے سے مشروط ہے، جبكہ بیعت كرنے والوں میں سے بعض كے بارے میں تاریخ کچھ اور بتاتی ہے۔

شیخ طوسی لكھتے ہیں كہ جن لوگوں نے درخت كے نیچے پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كی بیعت كی اور بیعت كے وقت مومن تھے ان لوگوں سے اللہ راضی تھا[21] لیكن جنہوں نے بعد میں عہد كو توڑا اور صراط مستقیم سے منحرف ہوگئے وہ لوگ رضوان الہی میں باقی نہیں رہینگے۔[22]

موجودہ مسجد شمیسی كے ساتھ مسجد بیعت رضوان كے باقیماندہ آثار

سورہ فتح كی آیت نمبر 10 پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كی بیعت كو اللہ تعالی كی بیعت قرار دیتی ہے لیكن بیعت توڑنے والوں كی خسارت اور نقصان كی بھی خبر دیتی ہے اور اجر عظیم صرف ان لوگوں كے لیے قرار دیتی ہے جو پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كی بیعت پر وفادار رہیں۔ اِنَّ الَّذینَ یبایعُونَکَ اِنَّما یبایعونَ اللّہ یدُ اللّہ فَوقَ اَیدیہم فَمَن نَکَثَ فَاِنَّما ینکُثُ عَلی نَفسِہ ومَن اَوفی بِما عہدَ عَلَیہ اللّہ فَسَیؤتیہ اَجرًا عَظیماً (ترجمہ: بتحقیق جو لوگ آپ كی بیعت كر رہے ہیں وہ یقینا اللہ كی بیعت كر رہے ہیں، اللہ كا ہاتھ ان كے ہاتھ كے اوپر ہے، پس جو عہد شكنی كرتا ہے وہ اپنے ساتھ عہد شكنی كرتا ہے اور جو اس عہد كو پورا كرے جو اس نے اللہ كے ساتھ كر ركھا ہے تو اللہ عنقریب اسے اجر عظیم دے گا۔)

اہل سنت كے بزرگ عالم ابن حجر، علا‏ بن مسیب سے اور وہ اپنے باپ سے نقل كرتا ہے كہ براء بن عازب سے میں نے ملاقات كی اور اسے كہا: تم كتنے خوش نصیب ہو كہ پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم كے ہم ركاب تھے اور درخت كے نیچے بیعت كی! تو اس نے كہا: اے بھتیجے! تم نہیں جانتے ہو كہ ہم نے اس كے بعد كیا كچھ كیا ہے۔[23]

مسجد کی بنیاد

خلیفہ دوم نے اپنی خلافت كے دوران حكم دیا كہ اس درخت كو كاٹا جائے۔ اور بعض نے اس درخت كو كاٹنے كی علت یہ قرار دیا ہے كہ لوگ اس درخت كی تعظیم كر كے گمراہی میں نہ پڑجائیں۔[24] بعد میں اس بیعت كی جگہ ایك مسجد بنائی گئی[25] جس كے آثار اب بھی باقی ہیں۔

حوالہ جات

  1. ابن سعد، ج۲، ص۹۵؛ طبری، ج۲، ص۶۲۰ـ۶۲۱؛ ابوالفتوح رازی، ج۱۷، ص۳۳۷.
  2. یاقوت حموی، ج۲، ص۲۲۲.
  3. ابن سعد، ج۲، ص۹۵ـ۹۷؛ ابن ہشام، ج۲، ص۷۸۱ـ ۷۸۲؛ طبری، ج۲، ص۶۳۱ـ۶۳۲؛ حسن ابراہیم حسن، ج۱، ص۱۲۷؛ ابوالفتوح رازی، ج۱۷، ص۳۳۶ـ۳۳۷
  4. ابن سعد، ج۲، ص۹۵ـ۹۷؛ ابن ہشام، ج۲، ص۷۸۱ـ ۷۸۲؛ طبری، ج۲، ص۶۳۱ـ۶۳۲؛ حسن ابراہیم حسن، ج۱، ص۱۲۷؛ ابوالفتوح رازی، ج۱۷، ص۳۳۶ـ۳۳۷.
  5. جامع البیان، مج ۱۳، ج ۲۶، ص۱۱۱.
  6. . السیرة النبویہ، ج ۳، ص۳۱۵.
  7. . جامع البیان، مج ۱۳، ج ۲۶، ص۱۱۱.
  8. . جامع البیان، مج ۱۳، ج ۲۶، ص۱۱۲؛ التکمیل و الاتمام، ص۳۸۹.
  9. . بحارالانوار، ج ۳۸، ص۲۱۷؛ مناقب، ج ۱، ص۳۰۳.
  10. المعارف، ص۱۶۲
  11. جامع البیان، مج ۱۳، ج ۲۶، ص۱۱۲؛ الدرالمنثور، ج ۷، ص۵۲۳.
  12. . الطبقات، ج ۲، ص۷۷؛ المغازی، ج ۲، ص۶۰۳.
  13. . فتح الباری، ج ۷، ص۵۷۹.
  14. جامع البیان، مج ۱۳، ج ۲۶، ص۱۱۰.
  15. . مجمع البیان، ج ۹، ص۱۷۶؛ الدرالمنثور، ج ۷، ص۵۲۲؛ انساب الاشراف، ج ۱، ص۴۴۱.
  16. السیرة النبویہ، ج ۳، ص۳۱۵؛ جامع البیان، مج ۱۳، ج ۲۶، ص۱۱۲.
  17. جامع البیان، مج ۱۳، ج ۲۶، ص۱۱۲.
  18. روح المعانی، مج ۱۴، ج ۲۶، ص۱۶۲.
  19. صحیح البخاری، ج ۵، ص۷۵.
  20. . فتح الباری، ج ۷، ص۵۶۲؛ الدرالمنثور، ج ۷، ص۵۲۳.
  21. التبیان، ج ۹، ص۳۲۸.
  22. . بحارالانوار، ج ۳۸، ص۲۱۸ ۲۲۰.
  23. . فتح الباری، ج ۷، ص۵۷۱.
  24. صالحی دمشقی، سبل الہدى و الرشاد، ج۵، ص۷۶
  25. ابن سعد، ج۲، ص۹۹ـ۱۰۱.

مآخذ

  • قرآن
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، ۱۴۰۵/۱۹۸۵
  • ابن ہشام، السیرہ النبویہ، چاپ سہیل زکار، بیروت، ۱۴۱۲/۱۹۹۲
  • حسین بن علی ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، چاپ محمد جعفر یاحقی و محمد مہدی ناصح، مشہد، ۱۳۶۵ـ ۱۳۷۵ ش
  • حسن ابراہیم حسن، تاریخ الاسلام: السیاسی والدینی والثقافی والاجتماعی، ج۱، قاہرہ، ۱۹۶۴، چاپ افست بیروت، بی‌تا
  • محمدبن جریر طبری، تاریخ الطبری: تاریخ الامم والملوک، چاپ محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، ۱۳۸۲ـ۱۳۸۷/ ۱۹۶۲ـ۱۹۶۷
  • یاقوت حموی، معجم البلدان، چاپ فردیناند ووستنفلد، لایپزیگ، ۱۸۶۶ـ۱۸۷۳، چاپ افست تہران، ۱۹۶۵