نفس امارہ

ویکی شیعہ سے
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

نَفْسِ اَمَّارہ،ایک نفسانی حالت ہے جو انسان کو برائی اور گناہ پر ابھارتی ہے۔ یہ اصطلاح سورہ یوسف کی آیت ۵۳ سے اخذ کی گئی ہے۔ خواہشات نفسانی کو بھی نفس امارہ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح کہا جاسکتا ہے کہ احادیث میں جہاد بالنفس یا جہاد اکبر کی جو بات کی گئی ہے، اس سے مراد اسی نفس امارہ سے مقابلہ ہے۔

نفس امارہ کا ذکر نفس لوامہ اور نفس مُطمئنّہ کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے۔ نفس امارہ نفس کا سب سے نچلا مرتبہ ہے۔ اس سے اوپر نفس لوّامہ ہے، جس کی وجہ سے انسان خطاؤوں اور گناہوں پر اپنی سرزنش کرتا ہے۔ اس سے اوپر نفس مطمئنہ ہے جس میں انسان سکون و اطمینان کے مقام پر فائز ہوتا ہے۔

نفس امارہ کی تعریف

نفس امارہ، یعنی برائیوں پر بہت زیادہ ابھارنے والا اور ایک ایسی نفسانی حالت کہ جس کی وجہ سے انسان عقل کی پیروی نہیں کرتا اور گناہ و فساد کی جانب مائل ہوجاتا ہے۔۔[1] یہ اصطلاح آیہ «إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَ‌ۃ بِالسُّوءِ[؟؟]؛نفس یقینا برائیوں کا حکم دیتا ہے»[2] سے اخذ کی گئی ہے۔ ۔[3] نفس امارہ کو خواہشات نفسانی بھی کہا جاتا ہے۔۔[4]

نفس امارہ، نفس کا سب سے نچلا مرتبہ

بعض ماہرین، نفس کے لئے درجات و مراتب کے قائل ہیں اور وہ نفس امارہ کو نفس کا سب نچلا مرتبہ اور مرحلہ جانتے ہیں۔ ان کے مطابق نفس کے چند مراتب ہیں: اس کا سب سے نچلا مرتبہ نفس امارہ ہے جس میں انسان عقل کی پیروی سے دستبردار ہوجاتا ہے۔ اس سے مافوق مرتبہ نفس لوامہ ہے جس میں انسان برے کاموں کی وجہ سے اپنی ملامت کرتا ہے۔ اس سے بھی اوپر کا مرتبہ نفس مطمئنّہ ہے۔ ۔[5] اس مرحلہ میں انسان ہمیشہ عقل کی پیروی کرتا ہے، اور یہ انسان کا ایک ملکہ یا عادت بن جاتی ہے جس کی وجہ سے انسان سکون و اطمینان کے مرحلہ تک پہنچتا ہے۔[6]

نفس کئی طرح کے لیکن انسانی حقیقت ایک

مسلمان علما کا ماننا ہے کہ انسان کی ایک خودی اور حقیقت ہے اور نفس امّارہ،نفس لوّامہ اور نفس مطمئنہ یعنی نفس کی مختلف اقسام ہونے کا اس کی واحد حقیقت سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ ان کے نظریے کے مطابق یہ مختلف اصطلاحات انسانی نفس کی مختلف حالتوں کو بیان کرتی ہیں؛[7] یعنی جب نفس برے کاموں کا حکم دیتا ہے، اس وقت نفس کو امارہ کہا جاتا ہے، جب وہ اپنی غلطیوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنی سرزنش کرتا ہے تو اسے نفس لوامہ کہا جاتا ہے۔[8]

نفس سے مقابلہ

پیغمبر اکرمؐ کی ایک حدیث میں فوجی جنگ کو جہاد اصغر کہا گیا ہے اور نفس کے ساتھ مقابلہ کو جہاد اکبر کا نام دیا گیا ہے۔۔[9] علامہ طباطبائی کے مطابق اس حدیث میں جہاد اکبر سے مراد نفس امارہ سے مقابلہ ہے۔[10] اسی طرح علامہ مجلسی پیغمبر اکرم کی اس حدیث ’’تمہارا سب سے بڑا دشمن تمہارا نفس ہے‘‘[11] کو سند بناتے ہوئے لکھتے ہیں: انسان کا سب سے بڑا دشمن نفس امارہ ہے۔[12] مرتضی مطہری بھی حدیث «المُجاہد مَن جاہدَ نَفْسَہ؛ مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے»[13] » سے استناد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جہاد بالنفس سے مراد، نفس امارہ سے مقابلہ ہے۔[14]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۷۔
  2. سورہ یوسف، آیت ۵۳۔
  3. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۷، ص۳۷۔
  4. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۷، ص۳۶؛ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۲۳، ص۵۹۲۔
  5. مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۶-۲۷؛ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۵-۵۹۶۔
  6. مصباح یزدی، آیین پرواز، ۱۳۹۹ش، ص۲۷۔۔
  7. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۷، ص۳۶-۳۷؛ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۳، ص۵۹۵؛ مصباح یزدی، «اخلاق و عرفان اسلامی»، ص۸۔
  8. مصباح یزدی، «اخلاق و عرفان اسلامی»، ص۸۔
  9. دیکھیے: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۵، ص۱۲۔
  10. علامہ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۱۴، ص۴۱۱۔
  11. مجموعہ ورام، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۵۹۔
  12. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۷، ص۳۶-۳۷۔
  13. سید رضی، المَجازات النبویہ، ۱۳۸۰ش/۱۴۲۲ھ، ص۱۹۴۔
  14. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۹ش، ج۲۳، ص۵۹۲۔

مآخذ

  • سعدی، مصلح‌ الدین، بوستان، باب ششم در قناعت، بخش ۴، تاریخ بازدید: ۲۸ اردیبہشت ۱۳۹۶ش۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، المَجازات النبویہ، قم، دار الحدیث، تحقیق/تصحیح مہدی ہوشمند، چاپ اول، ۱۳۸۰ش/۱۴۲۲ھ۔
  • شبستری، محمود، کنز الحقایق، وبگاہ گنجور، تاریخ بازدید: ۲۷ آبان ۱۳۹۹ش۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح علی‌ اکبر غفارى و محمد آخوندى، تہران، ‏دار الكتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعہ لدرر اخبار ائمۃ الاطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
  • مصباح یزدی، محمد تقی، «اخلاق و عرفان اسلامی»، معرفت، شمارہ ۱۲۷، ۱۳۸۷ش۔
  • مصباح یزدی، محمد تقی، آیین پرواز، تلخیص جواد محدثی، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ نہم، ۱۳۹۹ش۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، انتشارات صدرا، ۱۳۸۹ش۔
  • ورّام بن ابی‌ فراس، مسعود بن عیسى،‏ مجموعہ ورّام، ‏قم، ‏کتابخانہ فقيہ، چاپ اول، ۱۴۱۰ھ۔