اسراف
اخلاقی آیات | |
---|---|
آیات افک • آیہ اخوت • آیہ اطعام • آیہ نبأ • آیہ نجوا • آیہ مشیت • آیہ بر • آیہ اصلاح ذات بین • آیہ ایثار | |
اخلاقی احادیث | |
حدیث قرب نوافل • حدیث مکارم اخلاق • حدیث معراج • حدیث جنود عقل و جہل | |
اخلاقی فضائل | |
تواضع • قناعت • سخاوت • کظم غیظ • اخلاص • خشیت • حلم • زہد • شجاعت • عفت • انصاف • اصلاح ذات البین • عیبپوشی | |
اخلاقی رذائل | |
تکبر • حرص • حسد • دروغ • غیبت • سخنچینی • تہمت • بخل • عاق والدین • حدیث نفس • عجب • عیبجویی • سمعہ • قطع رحم • اشاعہ فحشاء • کفران نعمت | |
اخلاقی اصطلاحات | |
جہاد نفس • نفس لوامہ • نفس امارہ • نفس مطمئنہ • محاسبہ • مراقبہ • مشارطہ • گناہ • درس اخلاق • استدراج | |
علمائے اخلاق | |
ملامہدی نراقی • ملا احمد نراقی • میرزا جواد ملکی تبریزی • سید علی قاضی • سید رضا بہاءالدینی • سید عبدالحسین دستغیب • عبدالکریم حقشناس • عزیزاللہ خوشوقت • محمدتقی بہجت • علیاکبر مشکینی • حسین مظاہری • محمدرضا مہدوی کنی | |
اخلاقی مآخذ | |
قرآن • نہج البلاغہ • مصباح الشریعۃ • مکارم الاخلاق • المحجۃ البیضاء • رسالہ لقاءاللہ (کتاب) • مجموعہ وَرّام • جامع السعادات • معراج السعادۃ • المراقبات | |
اسراف کے معنی ہیں حدّ اعتدال سے تجاوز کرنا۔ اسراف سے متعلق قرآن، فقہ اور اخلاق میں بحث کی جاتی ہے اور آیات قرآنی اور احادیث میں اس کی حرمت بیان کی گئی ہے۔ بعض علما اس کی حرمت کو ضروریات دین میں سے قرار دیتے ہیں جبکہ بعض دیگر علما اسے گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ شہوت پرستی، یاد خدا سے غفلت، تکبر اور عجب و خودپسندی اسراف کے اسباب و عوامل میں سے ہیں۔ اسراف کی کئی قسمیں ہیں؛ قرآن و احادیث کی بناء پر ان میں سے ہر قسم کے اپنے برے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، مثلا عذاب الہی، برکت میں کمی اور دعا کا مستجاب نہ ہونا اسراف کے برے نتائج میں سے ہیں۔
قال الصّادق علیہ السلام:
لِلمُسرِفِ ثَلاثُ عَلاماتٍ: يَشتَرى ما لَيسَ لَہُ وَ يَلبِسُ ما لَيسَ لَہُ و َيَاكُلُ ما لَيسَ لَہُ. (ترجمہ: اسراف کرنےوالے کی تین نشانیاں ہیں: اپنے شان کے برخلاف خرچ کرنا، اپنے شان سے ہٹ کر لباس پہننا اور اپنے شان کے برخلاف کھانا۔)
خصال ص 121، ح 113.
معنی و مفہوم
کسی بھی امر میں حد اعتدال سے ہٹ کر افراط یا تفریط کی جانب مائل ہونے کو اسراف کہتے ہیں۔[1] بعض محققین اسراف کے اس عام معنی کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی چیز میں زیادہ روی اور افراط کی طرف مائل ہونے کو «اسراف» جبکہ اگر صرف تفریط کی طرف مائل ہو تو اس صورت میں «سرف» کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔[2] البتہ یہ لفظ بطور مطلق حد اعتدال سے ہٹ کر صرف تفریط کی جانب مائل ہونے کو شامل نہیں ہوتا اور اکثر اوقات زیادہ روی کی طرف مائل ہونے کی صورت میں بھی لفظ سرف ہی استعمال ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض علما نے اسے افراط کا مترادف اور تقصیر و «تقتیر» کا متضاد قرار دیا ہے۔[3] جس کے معنی تنگی اور بُخل کے ہیں۔[4]
اسراف میں حدّ وسط
«حدّ وسط» اور حد اعتدال کہ جس کی دو طرف میں افراط اور تفریط ہوتی ہیں، ایک نسبی مفہوم کا حامل لفظ ہے جو اشخاص اور زمان و مکان کے فرق سے اس کے مفہوم میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔ فقہاء کے مطابق ہر وہ کام جس میں کوئی عقلائی غرض نہ پایا جاتا ہو اسے اسراف نہیں کہا جاتا؛ یعنی ایسے موارد حد اعتدال سے خارج ہونے والے مصادیق میں سے نہیں،[5] چنانچہ عقلا کی نظر میں ناشائستہ اور غیر متناسب جگہوں پر مال خرچ کرنا اسراف کے مصادیق میں سے ہے۔[6]امام جعفر صادقؑ ایک روایت میں ایک کلی قاعدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہر وہ کام جس میں انسان کی سلامتی ہو اس میں اسراف نہیں، اور اسراف صرف اس صورت میں ہے جب انسان مال کو ضائع کرے اور انسان کی سلامتی کے نقصان میں اسے خرچ کیا جائے۔[7][یادداشت 1]
اسراف کا حکم
شرعی لحاظ سے اسراف کرنا حرام عمل ہے۔[8] بعض علما کے مطابق اس کی حرمت ضروریات دین میں سے ہے،[9] اور بعض دیگر علما اسے گناہان کبیرہ میں سے سے شمار کرتے ہیں۔[10] غالباً کتب فقہی میں اسراف سے متعلق مستقل بحث نہیں کی گئی ہے بلکہ فقہی مباحث کے ضمن میں کچھ ابواب مثلا باب عبادات، عقودو ایقاعات اور احکام میں اس سے متعلق بحث کی گئی ہے۔ البتہ بعض علما نے اسراف کے موضوع پر مستقل رسالے لکھے ہیں اور اس کے مختلف پہلؤوں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔[11]
اسراف قرآن کی نظر میں
لفظ اسراف اپنے دیگر مشتقات کے ساتھ مجموعی طور 23 مرتبہ قرآن میں استعمال ہوا ہے۔[12] [13] اسی طرح لفظ تبذیر جس کے لغوی معنی مال و دولت کو تباہ کرنا ہیں، اپنے دیگر مشتقات کے ساتھ تین مرتبہ قرآن کی دو آیات میں آیا ہے[14] جو کہ مفہوم کے لحاظ سے اسراف کے قریب المعنی ہے۔[15]
اسراف اور تبذیر کے مابین فرق
- اسراف ایک وسیع مفہوم کا حامل لفظ ہے جو ہر قسم کے انحراف (عقیدتی، اخلاقی، سماجی، اقتصادی وغیرہ) کو شامل ہے۔[16] لیکن تبذیر زیادہ تر اقتصادی امور میں استعمال ہوتی ہے،[17] اور شاذ و نادر دوسرے امور میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔[18]
- اسراف کبھی مباح عمل میں زیادہ روی پر بھی اطلاق آتا ہے؛ جیسے افراطی حد تک کھانا کھانا، جبکہ ضرورت کی حد تک کھانا کھانا ایک مباح اور جائز عمل بلکہ ایک مطلوب عمل ہے۔ اسی طرح کبھی لفظ اسراف بے موقع خرچ کرنے پر بھی اطلاق ہوتا ہے اگرچہ کم مقدار میں ہی کیوں نہ ہو؛ مثلا خوراک کا ضائع کرنا، ایسا کرنا کم مقدار میں ہی کیوں نہ ہو، جائز کام نہیں۔[19] بنابرایں، اسراف کے مصادیق کو کمیت اور کیفیت کے لحاظ سے پرکھنا ہوگا۔ لیکن تبذیر غالباً کیفیت میں متحقق ہوتی ہے اور بے موقع خرچ کرنے کی صورت میں تبذیر صدق آتی ہے؛ مثلا کسی شخص پر انفاق کیا جائے اور وہ اس مال کو حرام کام میں صرف کرے۔[20] اسراف کے خلاف تبذیر کبھی بھی نیک امور مثلا انفاق میں زیادہ روی کےلیے استعمال نہیں ہوتی ہے۔[21] یہی وجہ ہے کہ امام جعفر صادقؑ تبذیر کو اسراف کا جزء سجمھتے ہوئے[22] تبذیری صورت میں اسراف کرنے کو اسراف کی دیگر اقسام میں سے بدتر صورت قرار دیتے ہیں۔[23]
وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا﴿67﴾ (ترجمہ: اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ کنجوسی (بلکہ) ان کا خرچ کرنا ان (دونوں) کے درمیان (حد اعتدال پر) ہوتا ہے۔)
فرقان، 67
قِوام اور اسراف
قرآن مجید میں لفظ قِوام (حد وسط و اعتدال) کا ذکر بھی ملتا ہے،[24] جو کہ اسراف کی حدوں کو متعین کرتا ہے جس کی تشخیص کرنا عقل، شرع یا عرف کی زمہ داری ہے۔[25] کیونکہ اسراف کا تعلق ہمیشہ کسی نہ کسی زیادہ روی حالت سے ہوتا ہے اور کبھی تفریطی صورت کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور اس کے تمام مصادیق میں یہ حکم الٰہی کی نافرمانی کے طور پر نظر آتا ہے،[26] اس کا براہ راست تعلق فساد و نابودی سے ہے،[27] کیونکہ کسی بھی معاملے کے توازن اور حالت تعادل میں بگاڑ لانا اس کے فساد اور نابودی کا سبب بنتا ہے۔[28] اس بنا پر اسراف جو کہ انسان کے مال و منال کو تباہ کر دیتا ہے، کو لفظ سُرفہ (دیمک کی طرح ایک کیڑا جو درختوں کو کھا جاتا ہے اور اسے اندر سے سڑا دیتا ہے) سے اخذ کیا گیا ہے۔[29]
اسراف کے اسباب وعوامل
اسراف کی تمام قسمیں اپنے مخصوص اسباب و عوامل رکھتی ہیں اور یہ عوامل ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے:
شہوت پرستى
قرآن مجید نے حضرت لوط کی زبانی،[30] شہوت رانى کو قوم لوط کے اخلاقی اسراف کا سبب قرار دیا ہے۔ نیز سورہ کہف کی آیت نمبر 28 میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر خدا(ص) کو افراط کی راہ پر چلنے والوں(ایسا گروہ جن کے ہر کام میں افراط پایا جاتا ہے) کی اطاعت کرنے سے منع کیا ہے۔[31]) اللہ نے انہیں نفسانی خواہشات کے پیروکار کے طور پر متعارف کرایا ہے۔[32]
یاد خدا سے غفلت
سورہ کہف کی آیت نمبر 28 میں افراط کی راہ پر چلنے والوں کو ایسے لوگ قرار دیا گیا ہے جو اپنے کاموں میں افراط کا شکار ہوتے ہیں اور ان کے دل یاد خدا سے غافل ہوتے ہیں۔[33]
ناشکری اور کفران نعمت
وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِہِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّہُ ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴿12﴾ (ترجمہ: جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ کروٹ کے بل لیٹے یا بیٹھے یا کھڑے ہوئے (ہر حال میں) ہمیں پکارتا ہے اور جب ہم اس کی تکلیف دور کر دیتے ہیں تو وہ اس طرح (منہ موڑ کے) چل دیتا ہے جیسے اس نے کسی تکلیف میں جو اسے پہنچی تھی کبھی ہمیں پکارا ہی نہ تھا اسی طرح حد سے گزرنے والوں کے لیے ان کے وہ عمل خوشنما بنا دیئے گئے ہیں جو وہ کرتے رہے ہیں۔)
یونس، 12
اللہ تعالیٰ نے سورہ اسراء کی آیات 26-27 میں تبذیر سے منع اور مبذرین کو شیاطین کا بھائی قرار دینے کے بعد فرمایا: شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ٹھہرا۔[34]
تکبر، استبداد، استعمار اور تسلط
سورہ یونس کی آیت نمبر83 اور سورہ دخان کی آیت نمبر31 میں اللہ تعالیٰ نے فرعون کو مسرف اور برتری طلب انسان کہا ہے۔ نیز سورہ نمل کی آیت نمبر 34 میں قوم سبا کی ملکہ بلقیس کی زبانی اس زمانے کے بادشاہوں کے بارے میں کہا گیا ہے: جب وہ کسی آباد علاقے میں داخل ہوتے ہیں تو اس میں فساد اور تباہی لاتے ہیں۔ اس آیت کا فرعون سے متعلق آیات سے موازنہ بتاتا ہے کہ معاشرتی فساد اور اسراف کے درمیان ایک قسم کا متبادل تعلق قائم ہے۔[35]
عجب اور خود پسندى
سورہ یونس آیت نمبر 12 میں ان انسانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جو اپنی سختیوں کے موقع پر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہیں جبکہ آسائش کےموقع پر اسے بھلادیتے ہیں؛ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتا ہے: اسی طرح حد سے گزرنے والوں کے لیے ان کے وہ عمل خوشنما بنا دیئے گئے ہیں جو وہ کرتے رہے ہیں اور وہ اس کا ادراک نہیں کر پاتے۔[36]
دیگراسباب و عوامل
مذکورہ اسباب و عوامل کے علاوہ بے جا تقلید، ایک دوسرے کا دیکھا دیکھی، وسواسی، خاندانی تربیت، احساس کمتری اور خود اعتمادی کا فقدان اور دینی اخلاق سے دوری وغیرہ کو بھی اسراف کے عوامل میں سے شمار کیا جا سکتا ہے۔[37]
اسراف کی قسمیں
قرآن مجید کے نقطہ نظر سے اسراف کے متعدد مصادیق ہیں، ان تمام میں حد اعتدال سے روگردانی کا مفہوم پایا جاتا ہے:
عقیدتی لحاظ سے اسراف
قرآن مجید کی بعض آیات[38] میں خدا اور انبیاء کا انکار، خدا کے ساتھ شرک، بت پرستی اور آیات الہی پر ایمان نہ لانے کو اسراف کہا گیا ہے۔ نیز اسے دنیاوی زندگی میں بہت سی مشکلات اور آخرت میں انسان کے اندھے پن اور ایک دردناک اور دائمی عذاب میں گرفتار ہونے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔[39] سورہ انبیاء کی ابتدائی آیات میں بھی مسرفین کو پوری تاریخ میں انبیاء کے مخالف اور ظالم قرار دیے گئے ہیں اور ان کے تباہ کن انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اخلاق و کردار کے لحاظ سے اسراف
گناہوں کا ارتکاب اور مادی چیزوں کی طرف مائل ہونا نیز خدا سے قطع تعلق کرنا انسان کو راہ حق سے ہٹا دیتا ہے اور اسے اسراف کے اندھیروں میں ڈال دیتا ہے۔[40] بعض علما نے غیر اہم باتوں پر بہت زیادہ توجہ دینے اور آخرت کے مقابلے میں دنیاوی امور کو اصل چیز سمجھنے کو بھی اسراف قرار دیا ہے۔ جیسے وہ شخص جو دنیا کی ایک حقیر چیز کے لیے بہت گراں قیمت سرمایہ صرف کردیتا ہے۔[41] اخلاقی امور کے سلسلے میں اسراف کی ایک مثال جنسی انحراف ہے۔[42] قوم لوط وہ پہلے افرا د تھے جنہوں نے عورتوں سے منہ موڑ کر ہم جنس پرستی کی طرف مائل ہوگئے۔ سورہ اعراف کی آیات 80-81 میں حضرت لوط نے انہیں مسرفین میں سے قرار دیے ہیں اور انہیں اس طرح کی بدسلوکی کے ارتکاب سے منع کیا ہے۔[43] نیز، کوئی بھی غلط رفتار اور اعتدال سے ہٹ کر اختیار کیے جانے والا رویہ کو قرآن کی اصطلاح میں اسراف سمجھا گیا ہے۔[44]
سماجی لحاظ سے اسراف
استبداد، استکبار، استحصال، خونریزی، ظلم و ستم اور ہر قسم کا سماجی انحراف اور فساد اسراف کی واضح مثالیں ہیں۔[45] سورہ مائدہ کی آیت نمبر 32 میں ہابیل اور قابیل کے درمیان ہونے والے جھگڑے کو بیان کرنے کے بعد، جس کا انجام زمین پر پہلی بار فساد کا برپا ہونا تھا، خدا نے بنی اسرائیل کو زمین پر بے گناہوں کا خون بہانے اور فساد سے منع فرمایا۔ ان کی سماجی فساد کو اسراف سے تعبیر کیا ہے۔ [46]
عدالتی اور جرم کے لحاظ سے اسراف
قرآن مجید کے مطابق مجرم کی سزا اس کے جرم کے برابر اور مساوی ہونی چاہیے۔[47] اللہ تعالیٰ نے سورہ اسراء کی آیت نمبر 33 میں بے گناہوں کے قتل سے منع کیا ہے اور قتل کرنے کی صورت میں مقتول کے ولی کے لیے اس کے بدلہ لینے حق (قصاص) محفوظ رکھا گیا ہے؛ البتہ سزا کے نفاذ میں اسراف کی ممانعت کی گئی ہے: «فَلاَ یُسرِف فِىالقَتِل إِنّهُ کانَ مَنصورًا» حکم قصاص کے نفاذ میں اسراف درج ذیل صورتوں میں ہوسکتا ہے:
- قاتل کے علاوہ کسی اور کو قتل کرنا،[48]
- ہر قتل کے مقابلے میں ایک سے زیادہ افراد کو قتل کرنا،[49] سوائے اس کے کہ اس میں متعدد افراد کی شرکت ہو،[50]
- انتقام کے بعد قاتل کے جسم کے اعضاء کو مثلہ کرنا اور کاٹنا،[51]
- قاضی کا فیصلہ سنانے سے پہلے قاتل کو قتل کرنا،[52]
- مقتول کو قتل کرنے سے زیادہ دردناک طریقے سے قاتل کو قتل کرنا،[53]
- مقتول کے ولی کی جانب سے معافی مانگنے اور اس سے دیت لینے کے بعد قاتل کو قتل کرنا۔[54]
غیر منصفانہ فیصلے جو بعض اوقات جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں، اسراف کی مثالیں ہیں۔ سورہ غافر آیت نمبر 28 کے مطابق مومن آل فرعون نے فرعونیوں کے عقائد کو مسرافانہ کہنے سے پہلے فیصلے میں ان کے اسراف کی طرف اشارہ کیا ہے۔[55] انہوں نے حضرت موسیٰ کو سزائے موت سنانے کے بعد فرعونیوں سے مخاطب ہو کر کہا: کیا تم اس شخص کو یگانہ اللہ پر ایمان لانے کی وجہ سے قتل کرنا چاہتے ہو؟، حالانکہ وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیلیں لے کر آیا ہے؟ اللہ کسی کو مسرف اور اور جھوٹے شخص کو ہدایت نہیں کرتا: «إِنّ اللّهَ لاَیَهدِى مَن هو مُسرِفٌ کَذّاب.» بعض علما نے اس قول کو حضرت موسیٰؑ سے متعلق جانا ہے، جس میں مؤمن آل فرعون نے کہا کہ اگر وہ واقعی نبوت کے جھوٹے دعوے سے معاشرے میں اسراف اور فساد پھیلانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو جان لیں کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی مسرفین اور جھوٹ بولنے والوں کو معجزے دے کرحمایت نہیں کی ہے اور وہ گمراہی کے راستے پر چلنے والوں کو کامیاب نہیں کرتا۔[56] اس صورت میں اسراف کا یہ استعمال بھی اس کی سماجی مثالوں میں شمار ہوگا۔
وَ مِنْ كَلام لَہُ عَلَيْہِ السَّلامُ:
لَمّا عُوتِبَ عَلى تَصْييرِہِ النّاسَ اِسْوَةً فِى الْعَطاءِ مِن غَيْرِ تَفضيلِ اُولِى السّابِقاتِ وَ افرادالشَّــرَفِ. اَتَأْمُرُونّى اَنْ اَطْلُبَ النَّصْرَ بِالْجَوْرِ فيمَنْ وُلِّيتُ عَلَيْہِ؟! وَ اللّہِ لا اَطُورُ بِہ ما سَمَرَ سَميرٌ، وَ ما اَمَّ نَجْمٌ فِى السَّماءِ نَجْماً. لَوْ كانَ الْمالُ لى لَسَوَّيْتُ بَيْنَہُمْ فَكَيْفَ وَ اِنَّمَا الْمالُ مالُ اللّہِ! اَلا وَ اِنَّ اِعْطاءَ الْمالِ فى غَيْرِ حَقِّہِ تَبْذيرٌ وَ اِسْرافٌ، وَ ہُوَ يَرْفَعُ صاحِبَہُ فِى الدُّنْيا وَ يَضَعُہُ فِى الاْخِرَةِ، وَ يُكْرِمُہُ فِى النّاسِ وَ يُہينُہُ عِنْدَ اللّہِ. وَ لَمْ يَضَعِ امْرُؤٌ مالَہُ فى غَيْرِ حَقِّہِ وَ لا عِنْدَ غَيْرِ اَہْلِہِ اِلاّ حَرَمَہُ اللّہُ شُكْرَہُمْ، وَ كانَ لِغَيْرِہِ وُدُّہُمْ، فَاِنْ زَلَّتْ بِہِ النَّعْلُ يَوْماً فَاحْتاجَ اِلى مَعُونَتِہِمْ فَشَرُّ خَدين، وَ اَلاَْمُ خَليل. (ترجمہ: جب عطا یا کی برابری پر اعتراض کیا گیا کہ آپؑ کیوں مساوات سابقہ شرافت کا خیال نہیں رکھتے؟ آپؑ نے فرمایا: کیاتم مجھے اس بات پرآمادہ کرنا چاہتے ہو کہ میں جن رعایا کا ذمہ دار بنایا گیا ہواں پر ظلم کرکے چند افراد کی مدد حاصل کرلوں۔ خدا کی قسم جب تک اس دنیا کا قصہ چلتا رہے گا اور ایک ستارہ دوسرے ستارہ کی طرف جھکتا رہے گا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ مال اگر میرا ذاتی ہوتا جب بھی میں برابر سے تقسیم کرتا چہ جائیکہ یہ مال، مالِ خداہے اور یاد رکھو! کہ مال کا ناحق عطا کردینا بھی اسراف اور فضول خرچی میں شمار ہوتا ہے اوریہ کام انسان کو دنیا میں بلند بھی کر دیتا ہے تو آخرت میں ذلیل کر دیتا ہے۔ لوگوں میں محترم بھی بنا دیتا ہے تو خدا کی نگاہ میں پست تر بنا دیتا ہے اور جب بھی کوئی شخص مال کو ناحق یا نا اہل پر صرف کرتا ہے تو پروردگار اس کے شکریہ سے بھی محروم کر دیتا ہے اور اس کی محبت کا رخ بھی دوسروں کی طرف مڑ جاتا ہے۔ پھر اگرکسی دن پیر پھسل گئے اور ان کی امداد کا بھی محتاج ہوگیا تو وہ بد ترین دوست اور ذلیل ترین ساتھی ہی ثابت ہوتے ہیں۔)
نہج البلاغہ، خطبہ126
اقتصادی لحاظ سے اسراف
اس نوعیت کا اسراف کئی قسم کے ہوسکتا ہے:
خرچ کرنے میں اسراف
خرچ کرنے کے سلسلے میں اسراف کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں:
- قابل استعمال چیزوں کا نقصان اور انہیں ضائع کرنا۔[57]
- سرمایے کو کسی صورت استعمال میں نہ لانا۔[58]
- چیزوں کا اس طرح استعمال کرنا جس سے مادی یا روحانی فوائد حاصل نہ ہوں۔
- آمدنی کی مقدار سے زیادہ استعمال کرنا جو اس کے شان نہ ہو؛ جیسا کہ کسی ایسے شخص کا آرائشی سامان خریدنا جو اپنی روزی کا انتظام نہیں کر سکتا،[59] اسی لیے امام جعفر صادقؑ نے اس شخص کو جو اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کرنے کے لیے دوسروں سے مانگتا پھرتا ہے اسے فضول خرچ اور مسرف قرار دیا ہے۔[60]
- ضرورت سے زیادہ استعمال؛ جیسے کئی مکان خریدنا یا زیادہ کھانا وغیرہ۔[61]
ان صورتوں کے علاوہ گناہ کی راہ میں سرمایہ خرچ کرنا،[62] یا جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کے سلسلے میں شہوت کی تسکین کا خیال رکھنا[63]بھی دینی نقطہ نظر سے اسراف کی مثال سمجھا جاتا ہے۔ وہ روایات جو خوشبو، روشنی، کھانا، وضو، حج اور عمرہ کی فراوانی کو اسراف نہیں سمجھتی ہیں، ان امور میں اسراف کے عدم تحقق کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی ضرورت سے زیادہ اہمیت اور مطلوبیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔[64] اسراف خواہ بہت ہی کم ہو، اگر کسی کے لیے نقصان دہ ہو تو حرام ہے،[65] اور«اِنَّهُ لاَ یُحِبُّ المُسرِفیِنَ» کے حکم میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو دوسروں کے لیے اسراف کے لیے زمینہ فراہم کرتے ہیں۔[66]
دوسروں کے حقوق میں اسراف
عمومی اور انفرادی لحاظ سے دوسروں کے حقوق سے تجاوز کرنا معاشی اور اقتصادی اسراف کی واضح مثالوں میں سے ہے:
- عمومی حقوق
سورہ اسراء کی آیات 26-27 میں اللہ تعالیٰ نے عمومی اموال کا کچھ حصہ رسول خدا (ص) کے قرابت داروں، غریبوں اور مسافرت میں بے چارہ ہونے والوں کو دینے کا حکم دیا ہے۔ پھر اسراف سے منع فرمایا اور مسرفین کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے اور شیطان کی ناشکری یاد دلائی ہے۔ مفسرین نے اس آیت کے تناظر میں تبذیر کے متعدد مصادیق بیان کیے ہیں: اموال کو باطل راستے، گناہ اور فساد میں تقسیم کرنا،[67] دکھاوا اور فخر سے مال خرچ کرنا،[68] غیر منصفانہ طریقے سے خرچ کرنا،[69] خاص طریقے اور منصوبہ بندی سے ہٹکر مال خرچ کرنا،[70] اور مفادات اور مصلحتوں کو مدنظر رکھے بغیر مال خرچ کرنا وغیرہ۔[71] اور مجموعی طور پر خرچ و تقسیم کا کوئی بھی طریقہ جو خدا کے حکم کے خلاف ہو،[72] اور اموال کی تباہی کا باعث بنتا ہو۔[73] تبذیر کی حرمت عمومی اموال کے ساتھ مختص نہیں ہے، مذکورہ آیت میں عمومیت و شمولیت پائی جاتی ہے۔ بنابر ایں جو شخص اپنے یا دوسروں کے اموال کو نادرست طریقوں اور نامناسب انداز سے خرچ کرے وہ مبذرکہلائے گا۔[74] اہل سنت کے بعض فقہاء نے مذکورہ آیت کی بنیاد پر مبذر کو محجور(اپنے مال میں خرچ کرنے سے روک دینا) قرار دیا ہے؛ البتہ ابوحنیفہ اس بات کو مد نظررکھتے ہوئے کہ مبذر شرعی طور پر مکلف ہے اسے محجور قرار دینے کو جائز نہیں سمجھتا ہے۔[75] اس آیت میں خدا نے مبذر کو شیطانوں کا پیروکار اور زمین میں فساد برپا کرنے والوں میں اس کا شریک اور آتش جہنم میں شیاطین کا شریک قرار دیا ہے اور اس کا سبب کفران نعمت اور رب کی ناشکری قرار دیا ہے۔[76]
- خصوصی حقوق
سورہ نساء کی آیت نمبر 4 میں یتیم کے مال کے ناجائز استعمال کو اسراف سمجھا گیا ہے اور یتیم کے سرپرست کو مندرجہ ذیل باتوں سے منع کیا گیا ہے: یتیم کے مال کو بلا ضرورت استعمال کرنا، ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا، مال یتیم کے دیکھ بھال کے معاوضے کے معاملے میں حد سے زیادہ استعمال کرنا۔ یتیم کواس کے مال یتیم ادا کرنے کی ممانعت جبکہ اس بات کا خوف ہو کہ سرپرست کو اس کے استعمال کو جاری رکھنے سے روک دے گا۔[77] دوسری طرف، اگر یتیم کا سرپرست نادار ہو تو یتیم کے مال سے صحیح اور منصفانہ استعمال کو اس کےلیے جائز قرار دیا گیا ہے۔[78]
انفاق میں اسراف
اللہ تعالیٰ سورہ فرقان کی آیت نمبر 67 میں اپنے بندوں کی توصیف بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: جب وہ اپنے مال کو خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ ہی سختی، بلکہ ان دونوں کے درمیان حد اعتدال اختیار کرتے ہیں۔ انفاق میں تقتیر سے مراد بخل اور مستحقین کو ان کے واجب حقوق ادا نہ کرنا ہے۔[79] انفاق میں اسراف کے معنی کے بارے میں درج ذیل اقوال ذکر کیے گئے ہیں۔
- معصیت و گناہ کی راہ میں انفاق کرنا،[80]
- دکھاوا اور تکبر سے انفاق کرنا،[81]
- حد سے زیادہ انفاق کرنا،[82] اس طرح کہ اس سے آدمی اپنے دیگر واجبات کو انجام دینے سے عاجز آجائے۔[83]
نیکی کے کاموں میں اسراف کی ممانعت اور انفاق و ایثار کا حکم دینے میں کوئی تعارض و تضاد نہیں ہے، کیونکہ نیک کاموں میں اسراف کا مصداق وہ مورد ہے کہ اس سے دوسرے اہم کام انجام نہ پائے یا وہ نیکی کا کام اس طرح انجام دیتا ہے کہ جس میں خدا کی مرضی پوری نہ ہو، اس بنا پر رسول خدا(ص) کا فرمان ہے: جس نے بے جا انفاق کیا اس نے اسراف کیا اور جس نے درست جگہ انفاق کرنے سے گریز کیا اس نے کنجوسی کی ہے۔[84] اس لیے رسول خدا(ص) نے انفاق میں افراط کو واجب حد تک کی ادائیگی کی ممانعت کی طرح ناپسند فرمایا ہے۔[85]
اسراف کے برے اثرات
اسراف اپنی تمام صورتوں میں سنت الہی سے متصادم ایک عمل ہے؛ کیونکہ اسراف اعتدال میں ایک خلل ہے جو انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں فساد و بربادی کا باعث بنتا ہے۔[86] اسراف کے بعض برے اثرات مندرجہ ذیل ہیں:
- امام جعفر صادقؑ کی ایک حدیث کے مطابق، اسراف کرنے والے کی دعا اللہ تعالیٰ کے حضور قبول نہیں ہوتی۔[87]
- یہ انسان سے خدا کی محبت سلب ہونے کا سبب بنتا ہے،[88] اور انسان کی معنوی کمزوری کا سبب بنتا ہے اور اسے زندگی کے مختلف شعبوں میں کامیابی حاصل کرنے سے روکتا ہے۔[89]
- اسراف کا تسلسل انسان میں کفر نعمت اور ناشکری کا سبب بنتا ہے۔[90]
- یہ انسان کو ہدایت الہی سے محروم کر دیتا ہے۔[91]
- بعض اوقات یہ انسان کو عقیدتی اور اخلاقی کفر کی طرف لے جاتا ہے۔[92]
- یہ دنیا میں عذاب الٰہی کا سبب بنتا ہے اور آخرت میں بھی انسان کو جہنم کے عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔[93] [94]
- اسراف مال و دولت کا ضیاع اور دوسروں کے حقوق سے تجاوز اور معاشرے کی عمومی فلاح و بہبود کی خلاف ورزی کا سبب بنتا ہے۔[95]
- امام جعفر صادقؑ اسراف کو نعمتوں میں کمی کا سبب،[96] اور غربت کو اسراف کا نتیجہ اور مالداری کو اعتدال کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔[97]
- ان تمام معاملات کے علاوہ، اسراف، خاص طور پر معاشی پہلو میں انسانوں کی جسمانی اور نفسیاتی سلامتی کو خطرے میں ڈالتا ہے۔[98]
حوالہ جات
- ↑ طبرسی، مجمعالبیان، 1360شمسی، ج4، ص176؛ آلوسی، روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم و السبع المثانی، 1415ھ، ج6، ص174؛ حسینی میلانی، التحقيق فی نفی التحريف عن القرآن الشريف، 1426ھ، ج5، ص110، «سرف»۔
- ↑ طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 1412ھ، ج4، ص337۔
- ↑ سورہ فرقان، آیہ67۔
- ↑ التبیان، ج3، ص12؛ طبرسی، مجمع البیان، ج2، ص854؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج24، ص109۔
- ↑ بروجردی، المستند فی شرح العروہ الوثقی 1379شمسی، ج2، ص239۔
- ↑ نراقی، عوائد الایام، 1375شمسی، ص635۔
- ↑ کلینی، کافی، 1375شمسی، ج6، ص499۔
- ↑ ،ابن ادریس، السرائر، 1410ھ، ج1، ص440۔
- ↑ نراقی، عوائد الایام، 1375شمسی، ص615۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362شمسی، ج13، ص313. و ج13، ص320۔
- ↑ نراقی، عوائد الایام، 1375شمسی، ص635۔
- ↑ روحانی، لمعجم الاحصائی، 1366شمسی، ج1، ص454، «سرف»۔
- ↑ ابن منظور، لسانالعرب، 1408ھ، ج9، 149، «سرف»۔
- ↑ سورہ اسراء، آیہ27-26۔
- ↑ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج20، ص193۔
- ↑ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج9، ص28؛ رشید رضا، تفسیر المنار، 1414ھ، ج8، ص385۔
- ↑ راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، 1412ھ، ص40، «سرف»۔
- ↑ صادقی تہرانی، الفرقان، 1363شمسی، ج15، ص165۔
- ↑ احکامالقرآن، ج3، ص51. قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1387ھ، ج7، ص123ـ125. عسکری، الفروقاللغویہ، 1998ء، ص115۔
- ↑ طبرسی، مجمع البحرین، ج1، ص170. صادقی تہرانی، الفرقان، 1363شمسی، ج15، ص165 ؛ آلوسی، روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم و السبع المثانی، 1415ھ، ج15، ص90۔
- ↑ ابن عاشور، التحریر و التنویر، 1420ھ، ج15، ص79۔
- ↑ حرعاملی، وسائلالشیعہ، 1392شمسی، ج9، ص46. مجلسی، بحارالانوار، 1402ھ، ج72، ص302۔
- ↑ عسکری، الفروق اللغویہ، 1998ء، ص115. آلوسی، روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم و السبع المثانی، 1415ھ، ج15، ص90۔
- ↑ سورہ فرقان، آیہ67۔
- ↑ رشیدرضا، تفسیر المنار، 1414ھ، ج6، ص351؛ حسینی میلانی، التحقيق فی نفی التحريف عن القرآن الشريف، 1426ھ، ج5، ص110، «سرف»۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیرنمونہ، 1387شمسی، ج15، ص307308؛سیوطی، الدرالمنثور، 1404ھ، ج3، ص369۔
- ↑ سورہ شعراء، آیہ152-121؛ مکارم شیرازی، تفسیرنمونہ، 1387شمسی، ج15، ص307309۔
- ↑ رشیدرضا، تفسیر المنار، 1414ھ، ج6، ص352؛ صادقی تہرانی، الفرقان، 1363شمسی، ج15، ص169؛ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج15، ص306۔
- ↑ ابن منظور، لسانالعرب، 1498ھ، ج6، ص244-245؛ راغب اصفہانی، المفردات فی غریبالقرآن، 1412ھ، ص231، «سرف»؛ رشیدرضا، تفسیر المنار، 1414ھ، ج6، ص351۔
- ↑ سورہ اعراف، آیہ81. سورہ نمل، آیہ55۔
- ↑ سورہ کہف،آیہ28۔
- ↑ ہاشمی رفسنجانی، تفیسر راہنما، 1386شمسی، ج6، ص108۔
- ↑ حسینی میلانی، التحقيق فی نفی التحريف عن القرآن الشريف، 1426ھ، ج5، ص110۔
- ↑ ابن عاشور، التحریر و التنویر، 1420ھ، ج15، ص81۔
- ↑ حسینی میلانی، التحقيق فی نفی التحريف عن القرآن الشريف، 1426ھ، ج1، ص238. تفسیر راہنما، ج7، ص523۔
- ↑ ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، 1386شمسی، ج7، ص391۔
- ↑ موسوی کاشمری، پژوہشى در اسراف، 1388شمسی، ص87ـ103۔
- ↑ سورہ طہ، آیات 124ـ127؛ سورہ غافر، آیات 34ـ35۔
- ↑ طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 1412ھ، ج24، ص87؛ طبرسی، مجمع البیان، 1360شمسی، 1360شمسی، ج3، ص290؛ ج9، ص61؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج15، ص307۔
- ↑ حسینی میلانی، التحقيق فی نفی التحريف عن القرآن الشريف، 1426ھ، ج5، ص111، «سرف». دامغانی، الوجوہ والنظائر، 1416ھ، ج1، ص63۔
- ↑ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج17، ص52ـ53۔
- ↑ طبرسی، مجمعالبیان، 1360شمسی، ج4، ص684ـ685۔
- ↑ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج28، ص218۔
- ↑ ہاشمی رفسنجانی، تفیسر راہنما، 1386شمسی، ج3، ص104۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج15، ص307۔
- ↑ دانشنامہ موضوعی قرآنبررسی ظرافتہای بلاغی تربیتی آیہ 32 سورہ مائدہ در پیشگیری از وقوع جرم قتل عمد
- ↑ حسینی میلانی، التحقيق فی نفی التحريف عن القرآن الشريف، 1426ھ، ج5، ص111، «سرف» ; دامغانی، الوجوہ والنظائر، 1416ھ، ج1، ص63۔
- ↑ کلینی، اصول کافى، 1375شمسی، ج7، ص371. ماوردی، تفسیر ماوردی، دارالکتب العلمیہ، ج3، ص241۔
- ↑ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج2، ص203. سیوطی، الدرالمنثور، 1404ھ، ج5، ص282۔
- ↑ عیاشی، تفسیر عیاشى، 1380ھ، ج2، ص291۔
- ↑ طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 1412ھ، ج15، ص105و106 کلینی، اصول کافى، 1375شمسی، ج7، ص371۔
- ↑ سیوطی، الدرالمنثور، 1404ھ، ج5، ص284۔
- ↑ سیوطی، الدرالمنثور، 1404ھ، ج5، ص283۔
- ↑ ماوردی، تفسیر ماوردی، دارالکتب العلمیہ، ج3، ص241۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیرنمونہ، 1387شمسی، ج15، ص307۔
- ↑ مفاہیم اخلاقى، ص356ـ357۔
- ↑ نراقی، عوائد الایام، 1375شمسی، ص633و635؛سیوطی، الدرالمنثور، 1404ھ، ج3، ص444۔
- ↑ نراقی، عوائد الایام، 1375شمسی، ص633و635۔
- ↑ نراقی، عوائد الایام، 1375شمسی، ص633و635؛ سیوطی، الدرالمنثور، 1404ھ، ج3، ص444۔
- ↑ عیاشی، تفسیر عیاشى، 1380ھ، ج2، ص13۔
- ↑ نراقی، عوائد الایام، 1375شمسی، ص633و635؛ سیوطی، الدرالمنثور، 1404ھ، ج3، ص444۔
- ↑ طبرسی، مجمعالبیان، 1360شمسی، ج4، ص638؛ سیوطی، الدرالمنثور، 1404ھ، ج3، ص444؛ رشیدرضا، تفسیر المنار، 1414ھ، ج8، ص138۔
- ↑ سیوطی، الدرالمنثور، 1404ھ، ج3، ص444؛ ابن عاشور، التحریر و التنویر، 1420ھ، ج8، ص124۔
- ↑ نراقی، عوائد الایام، 1375شمسی، ص636ـ637۔
- ↑ احکامالقرآن، ج3، ص52۔
- ↑ صادقی تہرانی، الفرقان، 1363شمسی، ج8ـ9، ص85۔
- ↑ طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 1412ھ، ج15، ص95۔
- ↑ میبدی، کشفالاسرار، 1371شمسی، ج5، ص544۔
- ↑ طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 1412ھ، ج15، ص95۔
- ↑ حسینی میلانی، التحقيق فی نفی التحريف عن القرآن الشريف، 1426ھ، ج1، ص237، «بذر»۔
- ↑ طبرسی، مجمعالبیان، 1360شمسی، ج6، ص633؛ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، 1360شمسی، ج13، ص80۔
- ↑ تفسیر قمى، ج2، ص18۔
- ↑ فخر رازی، فخر رازی، التفسیر الکبیر،1420ھ، 1420ھ، ج20، ص193ـ194۔
- ↑ تفسیر قرطبى، ج10، ص161۔
- ↑ احکام القرآن، ج3، ص292؛ تفسیر قرطبى، ج10، ص162۔
- ↑ طبرسی، مجمعالبیان، 1360شمسی، ج6، ص634؛ احکام القرآن، ج3، ص293؛ تفسیرقرطبى، ج10، ص162۔
- ↑ طبرسی، مجمعالبیان، 1360شمسی، ج3، ص16؛ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج4، ص173۔
- ↑ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج9، ص190؛ تفسیر قرطبى، ج5،، ص28۔
- ↑ جامعالبیان، مج11، ج19، ص48؛ سیوطی، الدرالمنثور، 1404ھ، ج6، ص275۔
- ↑ قمی، تفسیر قمی، 1404ھ، ج2، ص117؛ ماوردی، تفسیر ماوردی، دارالکتب العلمیہ، ج4، ص155؛ دامغانی، الوجوہ والنظائر، 1416ھ، ج1، ص63۔
- ↑ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج24، ص109؛ سیوطی، الدرالمنثور، 1404ھ، ج3، ص444۔
- ↑ طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 1412ھ، ج19، ص48؛ ماوردی، تفسیر ماوردی، دارالکتب العلمیہ، ج4، ص156؛ طبرسی، مجمعالبیان، 1360شمسی، ج7، ص280۔
- ↑ طبری، جامع البیان فی تفسیر القرآن، 1412ھ، ج19، ص48؛ ماوردی، تفسیر ماوردی، دارالکتب العلمیہ، ج4، ص156؛ طبرسی، مجمعالبیان، 1360شمسی، ج7، ص280۔
- ↑ طبرسی، مجمعالبیان، 1360شمسی، ج7، ص280۔
- ↑ ماوردی، تفسیر ماوردی، دارالکتب العلمیہ، ج2، ص178۔
- ↑ رشیدرضا، تفسیر المنار، 1414ھ، ج8، ص384۔
- ↑ کلینی، اصول کافى، 1375شمسی، ج4، ص56۔
- ↑ سورہ اعراف، 31. سورہ انعام، آیہ141۔
- ↑ ہاشمی رفسنجانی، تفیسر راہنما، 1386شمسی، ج3، ص104؛ ج7، ص391۔
- ↑ سورہ اسراء، 27۔
- ↑ سورہ غافر، آیہ 28۔
- ↑ ابن عاشور، التحریر و التنویر، 1420ھ، ج15، ص81۔
- ↑ طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج15، ص306ـ307؛ مکارم شیرازی، تفسیرنمونہ، 1387شمسی، ج12، ص96۔
- ↑ سورہ انبیاء، 3ـ9؛ سورہ غافر، 41ـ45؛ سورہ یس، 13ـ19؛ سورہ ذاریات، 32ـ34۔
- ↑ ابن عاشور، التحریر و التنویر، 1420ھ، ج15، ص79۔
- ↑ کلینی، اصول کافى، 1375شمسی، ج4، ص57۔
- ↑ نراقی، عوائد الایام، 1375شمسی، ص618؛ کلینی، اصول کافى، 1375شمسی، ج4، ص53۔
- ↑ رشیدرضا، تفسیر المنار، 1414ھ، ج8، ص384؛ صادقی تہرانی، الفرقان، 1363شمسی، ج8ـ9، ص84۔
نوٹ
- ↑ ليْسَ فِيمَا أَصْلَحَ الْبَدَنَ إِسْرَافٌ... إِنَّمَا الْإِسْرَافُ فِيمَا أَتْلَفَ الْمَالَ وَ أَضَرَّ بِالْبَدَنِ.
مآخذ
- قرآن۔
- نہج البلاغہ۔
- آلوسی، محمودبن عبداللہ، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1415ھ۔
- ابن ادریس، محمدبن احمد، السرائر الحاوی لتحرير الفتاوی، قم، موسسہ النشر الاسلامی التابعہ لجماعہ المدرسین، 1410ھ۔
- ابن عاشور، محمد طاہر، تفسیر التحریر و التنویر المعروف بتفسیر ابن عاشور، بیروت، موسسہ التاریخ العربی، 1420ھ۔
- ابن منظور، محمدبن مکرم، لسان العرب، محقق: علی شیری، بیروت، دار إحياء التراث العربی، 1408ھ۔
- بروجردی، مرتضی، المستند فی شرح العروہ الوثقی، قم، موسسہ احیاء آثار امام خویی، 1379ہجری شمسی۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشيع إلی تحصيل مسائل الشريعہ، محقق: عبدالرحیم محقق شیرازی، تہران، نشر اسلامی، 1392ہجری شمسی۔
- حسینی میلانی، سیدعلی، التحقيق فی نفی التحريف عن القرآن الشريف، قم، مركزالحقايق الاسلاميہ، 1426ھ۔
- دامغانی، حسینبن محمد، الوجوہ و النظایر لالفاظ کتاب اللہ العزیز، محقق: محمدحسن ابوالعزم زفیتی، قاہرہ، المجلس الاعلی للشئون الاسلامیہ لجنہ احياء التراث الاسلام، 1416ھ۔
- راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، مصحح: صفوانعدنان داوودی، بیروت، دارالشامیہ، 1412ھ۔
- رشیدرضا، محمد، تفسير القرآن الحكيم الشہير بتفسير المنار، بیروت، دارالمعرفہ، 1414ھ۔
- روحانی، محمود، معجمالاحصائی لالفاظ القرآنالکریم، مشہد، موسسہ چاپ و انتشارات، آستان قدس رضوی، 1366ہجری شمسی۔
- سیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر، الدر المنثور فی التفسیر بالماثور، قم، مکتبہ آیت اللہ المرعشی النجفی، 1404ھ۔
- صادقی تہرانی، محمد، الفرقان فی تفسیر القرآن بالقرآن و السنہ، قم، فرہنگ اسلامی، 1363ہجری شمسی۔
- طباطبایی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، 1393ھ۔
- طبرسی، فضل بن حسن، ترجمہ تفسير مجمع البيان، ترجمہ: ہاشم رسولی، تہران، نشر فراہانی، 1360ہجری شمسی۔
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفہ، 1412ھ۔
- طوسی، محمدبن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، مصحح: احمدحبیب عاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا۔
- عسکری، ابوہلال، الفروق الغویہ للعسکری، محقق: محمدابراہیم سلیم، قاہرہ، دار العلم والثقافہ للنشر والتوزيع، 1998ء۔
- عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر (للعیّاشی)، محقق: ہاشم رسولی، تہران، مکتبہ العلمیہ الاسلامیہ، 1380ھ۔
- فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1420ھ۔
- قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، قاہرہ، دارالکتب المصریہ، 1387ھ۔
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق: سیدطیب موسوی جزایری، قم، دار الکتاب، 1404ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، ترجمہ: محمدباقر کمرہای، قم، اسوہ،، 1375ہجری شمسی۔
- ماوردی، علیبن محمد، النكت و العيون (تفسير الماوردی) مصحح: سیدبن عبدالمقصود عبدالرحیم، بیروت، دارالکتب العلمیہ، بیتا۔
- مجلسی، محمد باقر، بحارالأنوار الجامعہ لدرر أخبار الأئمہ الأطہار، مصحح: محمدباقر محمودی، بیروت، دار إحياء التراث العربی، 1402ھ۔
- مکارم شیرازی ناصر با ہمکاری جمعی از نویسندگان، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1387ہجری شمسی۔
- موسوی کاشمری، مہدی، پژوہشی در اسراف، قم، موسسہ بوستان کتاب، 1388ہجری شمسی۔
- میبدی، احمدبن محمد، كشف الأسرار و عدہ الأبرار (معروف بہ تفسیر خواجہ عبداللہ انصاری)، بہ اہتمام: علی اصغر حکمت، تہران، امیر کبیر، 1371ہجری شمسی۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1362ہجری شمسی۔
- نراقی، احمدبن محمد مہدی، عوائد الایام فی بیان قواعد الاحکام و مہمات مسایل الحلال و الحرام، قم، منشورات مكتبہ بصيرتی، 1375ہجری شمسی۔
- ہاشمی رفسنجانی، اکبر، تفسیر راہنما، قم، بوستان کتاب، 1386ہجری شمسی۔