مسجد ضرار

ویکی شیعہ سے
فائل:Masjid Zarar.jpg
مسجد ضرار کے کھنڈرات

مسجد ضرار اس مسجد کو کہا جاتا ہے جو حیات طیبہ نبی اکرم میں منافقین نے بنائی اور یہ اسی نام سے تاریخ میں معروف ہے ۔ اس کے متعلق قرآن کریم کی سورہ توبہ کی 107 اور 108 ویں آیت نازل ہوئی ۔اس مسجد کے بنائے جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے اللہ کے فرمان پر اسے گرانے کا حکم دیا.

اس مسجد کے بنانے کا ہدف مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنا تھا۔لیکن اس کے بنانے والوں نے اس مسجد کی تعمیر کا ہدف بیان کرتے ہوئے کہا :ان بیماروں اور مجبوروں کیلئے بنائی گئی جو مسجد قبا میں حاضر نہیں ہو سکتے ہیں۔

محل وقوع

یہ مسجد خذام بن خالد کے گھر کے ایک حصے میں بنائی گئی جس کا تعلق منافقین[1] سے تھا اور وہ بنی عمر بن عوف [2] سے تھا اور یہ قبیلۂ خزرج کی شاخ ہے۔.[3] لیکن بلاذری نے خذام بن خالد کو قبیلۂ اوس سے قرار دیا ہے۔[4]

بانیان مسجد

واقدی کے مطابق اس مسجد کے بنانے والے افراد کی تعداد 15 تھی. [5] دوسرے قول کے مطابق یہ 12 افراد تھے[6]. ان کی امامت کے فرائض مُجَمِّع بن جاریہ کے ذمے تھی ۔[7]

قبیلۂ بنی عمرو بن عوف نے رسول اللہ کے مدینے تشریف لانے پر مسجد قبا کو بنایا اور رسول اللہ سے اس مسجد میں نماز پڑھانے کی درخواست کی۔ رسول اللہ نے ان کی درخواست کو قبول کیا اور وہاں نماز پڑھائی۔اس قبیلے کے کچھ دل میں نفاق رکھنے والے افراد نے حسد کیا اور انہوں نے اپنی ایک الگ مسجد بنانے کا ارادہ کر لیا کہ جس میں ابو عامر کی اقتدا میں نماز ادا کریں اور مسجد قبا کی نماز جماعت میں حاضر نہ ہوں۔ ابو عامر اس وقت شام میں موجود تھا۔[8] بنی سالم بن عوف قبیلۂ خزرج کی ایک شاخ ہے۔[9]

بہانے بازی

جب اس مسجد کی تعمیر مکمل ہو گئی تو اس کے بانی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ ہمارے گھروں سے مسجد قبا کی مسافت بہت زیادہ ہے لہذا ہمارے بیمار افراد اور ہمارے لئے سردیوں کی بارانی راتوں میں ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے مسجد قبا میں حاضر ہونا مشکل ہو جاتا ہے. اس بنا پر ہم نے ایک نئی مسجد تعمیر کی ہے اور ہماری خواہش ہے کہ آپ اس مسجد میں نماز پڑھا کر اس کا افتتاح کریں تا کہ ہم آپ کی دعاوں سے فیضیاب ہو سکیں ۔[10] آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غزوۂ تبوک کے سفر کا ارادہ کر چکے تھے اس لئے آپ نے عذر پیش کیا اور اس بات کو اپنی واپسی پر موقوف کر دیا.

آیت کا نزول

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب غزوۂ تبوک سے واپسی پر مدینے کے نزدیک "ذی آورن" یا "آروان" کے مقام پہ پہنچے تو منافقین کے بارے میں سورۂ توبہ کی 107 ویں آیت نازل ہوئی :وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَترجمہ:اور (منافقین میں سے) وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اس غرض سے ایک مسجد بنائی، کہ نقصان پہنچائیں، کفر کریں اور مؤمنین میں تفرقہ ڈالیں، اور ان لوگوں کے لیے کمین گاہ بنائیں جو اس سے پہلے خدا اور رسول سے جنگ کر چکے ہیں وہ ضرور قَسمیں کھائیں گے کہ بھلائی کے سوا ہمارا کوئی مقصد نہیں ہے اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں۔ (107)۔

پیغمبر کا حکم

اس کے بعد رسول اللہ نے مالک بن دُخْشُم و مَعْن بن عَدی یا س کے بھائی عاصم بن عدی اور ایک قول کے مطابق حضرت حمزہ کے قاتل وحشی کے ہمراہ ایک گروہ کو حکم دیا کہ وہ اس مسجد کو گرا دیں اور اسے آگ لگادیں. [11] نیز آپ کے حکم سے یہ جگہ گندگی اور کوڑا اکھٹا کرنے کی جگہ مقرر کر دی گئی۔ [12] ابو لبابہ بن عبد المنذر لکڑی کے ہمراہ مسجد بنانے میں منافقوں کی مدد کرتا تھا۔ مسجد کے گرانے کے بعد اس نے مسجد کے کنارے لکڑیوں سے ایک گھر بنایا۔ کہا گیا ہے کہ اس گھر میں کسی کی ولادت ہوئی اور نہ کوئی کبوتر وہاں بیٹھا اور نہ ہی کسی پرندے نے اپنا آشیانہ درست کیا۔[13]

ابو عامر اور مسجد کی تعمیر

کہتے ہیں اس مسجد بنانے کا اصلی عامل کا نام ابو عامر تھا[14] ۔وہ قبیلۂ اوس کے بزرگوں اور غسیل الملائکۃ کا باپ تھا ۔ایام جاہلیت میں رہبانیت کی طرف میلان رکھتا تھا اور ابو عامر راہب کے نام سے معروف تھا ۔اس نے اپنے قبیلے کے بر عکس کفر اختیار کیا اور پیغمبر گرامی سے مجادلہ کیا اور مکہ چلا گیا نیز اس نے مکے میں مسلمانوں کے خلاف مشرکین مکہ کی مدد کی ۔اس وجہ سے رسول اللہ نے اسے فاسق کہا ۔جب رسول اللہ نے مکہ فتح کیا وہ پہلے طائف پھر شام چلا گیا جو اس وقت روم کی بادشاہت کے تابع تھا ۔ اس نے وہاں مسیحیت اختیار کی اور آخر کار ہجرت کے دسویں سال اس نے وہیں وفات پائی ۔[15]

ابو عامر کا کردار

ابو عامر نے اپنے حمایتیوں کو پیغام بھیجا کہ بادشاہ روم ہرقل کی جانب سے جلد ہی ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ مدینہ وارد ہو گا۔ رسول اللہ اور اسکے اصحاب کو مدینے سے نکال باہر کرے گا ۔پس مدینے میں اس کے ساتھی ان کی سرگرمیاں جاری رکھنے کیلئے کوئی جگہ درست کریں اور اسلحہ کی ذخیرہ سازی کریں [16]۔ ایسے ہی وعدوں کے پیش نظر منافقین نے مسجد ضرار کی تعمیر کا کام انجام دیا ۔

حوالہ جات

  1. ابن ہشام،السیرۃ النبویہ، ج۴، ص530
  2. ابن شبہ،تاریخ المدینہ، ج۱، ص۵۱ـ۵۲؛ بلاذری،انساب الاشراف، ج۱، ص۳۲۹ـ۳۳۰؛ طوسی و طبرسی، ذیل توبہ: ۱۰۷؛ حلبی، ج۳، ص۲۰۳
  3. رجوع کریں: معرفۃ الصحابہ، ابن منده، (ص: 533)معرفۃ الصحابہ،أبو نعيم (2/ 1000)
  4. أنساب الأشراف در ذیل فہرست منافقین از اوس1/ 119
  5. واقدی، ج۳، ص۱۰۴۷،
  6. ابن ہشام،السیرہ النبویہ،4/530
  7. رجوع کریں: واقدی،المغازی،3/
  8. ابن شبہ،تاریخ المدینہ ج۱، ص۵۱ـ۵۲؛ بلاذری،انساب الاشراف، ج۱، ص۳۲۹ـ۳۳۰؛ طوسی و طبرسی، ذیل توبہ: ۱۰۷؛ حلبی،السیرہ الحلبیہ ج۳، ص۲۰۳
  9. رجوع کریں: ابن ہشام،السیرہ النبویہ ج۴، ص۱۷۴؛ مسعودی،مروج الذہب ص۲۷۲
  10. ابن ہشام، السیرہ النبویۃ ج۴، ص۱۷۳؛ طبری، تاریخ الطبری، ج۲، ص۱۱۰
  11. واقدی، کتاب المغازی ،ج۳، ص۱۰۴۶؛ ابن ہشام،السیرۃ النبویہ ج۴، ص۱۷۳ـ۱۷۴؛ طبرسی، ذیل توبہ: ۱۰۷؛ حلبی، ج۳، ص۲۰۲ـ۲۰۳
  12. طبرسی، ذیل توبہ: ۱۰۷؛ حلبی،السیرہ الحلبیہ ج۳، ص۲۰۳
  13. واقدی، المغازی ،ج۳، ص۱۰۴۷
  14. واقدی،کتاب المغازی، ج۳، ص۱۰۴۶، ۱۰۴۹، ۱۰۷۳؛ حلبی، ج۳، ص۲۰۳
  15. واقدی،کتاب المغازی، ج۱، ص۲۰۵ـ۲۰۶، ج۲، ص۴۴۱؛ ابن ہشام،السیرۃ النبویہ، ج۲، ص۲۳۴ـ۲۳۵؛ بلاذری،انساب الاشراف، ج۱، ص۳۳۰؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۳، ص۱۴۰
  16. حلبی،السیرہ الحلبیہ ج۳، ص۲۰۳؛ حسنی،سیرة المصطفی ص۶۳۸

ماخذ

  • قرآن کریم.
  • ابن سیدالناس، عیون الاثر فی فنون المغازی و الشمائل و السیر، چاپ محمد عید خطراوی و محی الدین متو، مدینہ منوره ۱۴۱۳/۱۹۹۲.
  • ابن شبہ نمیری، تاریخ المدینہ المنورة، چاپ فہیم محمد شلتوت، افست قم ۱۴۱۰ق/۱۳۸۶ش.
  • ابن ہشام، السیرة النبویہ، چاپ مصطفی سقا، ابراهیم.
  • ابیاری و عبدالحفیظ شلبی، قاہره ۱۹۳۶.
  • ازہری، محمدبن احمد، تہذیب اللغہ، قاہره، بی‌تا.
  • بلاذری، احمدبن یحیی، انساب الاشراف، چاپ محمود فردوس عظم، دمشق ۱۹۹۷ـ۲۰۰۰.
  • جوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح تاج اللغہ و صحاح العربیہ، چاپ احمد عبدالغفور عطار، بیروت (افست قم ۱۳۶۸ش).
  • حسنی، ہاشم معروف، سیرة المصطفی، بیروت ۱۴۰۶/۱۹۸۶.
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، چاپ مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، بیروت ۱۴۰۸/۱۹۸۸.
  • طبرسی.
  • طبری، تاریخ (بیروت).
  • طبری، جامع.
  • طوسی.
  • محمد غزالی، فقہ السیرة، قاهره، بی‌تا.
  • مسعودی، تنبیہ.
  • مالک موسوی، «قصہ آیة: حذار من مساجد الضرار»، رسالۃ القرآن، شماره ۱۰، ربیع الثانی، جمادی الاولی و جمادی الثانیہ ۱۴۱۳.
  • واقدی، محمدبن عمر، کتاب المغازی للواقدی، چاپ مارسدن جونس، قاہره ۱۹۶۶.

بیرونی روابط