سہو النبی

ویکی شیعہ سے

سَہو النبی ایک کلامی مسئلہ ہے جس کا معنی پیغمبر اکرمؐ سے خطا اور فراموشی کا امکان ہونا ہے۔ اکثر شیعہ علماء اس کو قبول نہیں کرتے ہیں لیکن بعض علماء جیسے شیخ صدوق اور ان کے استاد ابن ولید سہو النبی کے قائل تھے؛ اس کے باوجود گناہ اور رسالت کی ذمہ داریوں میں معصوم ہونے کو مانتے ہیں لیکن زندگی کے دیگر امور میں خطا اور فراموشی کو ممکن سمجھتے ہیں۔

سہو النبی کے قائلین اس بات کو ان روایات سے مستند کرتے ہیں جن میں پیغمبر اکرمؐ کو نماز میں اشتباہ ہونے کا ذکر ہوا ہے؛ لیکن سہو النبی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ خطا اور فراموشی نبوت کے ساتھ سازگار نہیں ہے اور ایسی روایات معتبر نہیں ہیں۔

مفہوم‌شناسی

سَہوُالنَّبی (پیغمبر اکرمؐ کا اشتباہ)، علم کلام کا ایک مسئلہ ہے[1] جس کے بارے میں متکلمین کے درمیان بہت بحث ہوئی ہے۔[2] سہو النبی کے بارے میں علم کلام کی کتابوں میں انبیاؑ کی عصمت کے ذیل میں بحث ہوئی ہے جبکہ فقہی میں نماز میں فراموشی کی بحث میں بھی اس بارے میں تذکرہ ہوا ہے۔[3]

متکلمین کا سہوالنبی سے مراد دینی احکام پر عمل کرنے اور عام روزمرہ کے امور میں آنحضرتؐ کی خطا اور فراموشی ہے۔[4]سہو النبی کے بارے میں سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ پیغمبر اکرمؐ شرعی احکام پر عمل کرنے یا عام امور میں فراموشی اور اشتباہ کا مرتکب ہوجائے؟ مثال کے طور پر نماز میں بعض اوقات کوئی ذکر بھول جائے یا بھولے سے جس شخص سے ہزار دینار قرض لیا تھا اسے 100 دینار واپس کرے۔[5]

مختلف نظریات

سہو النبی کے بارے میں شیعہ امامیہ علماء کے درمیان مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر سہوالنبی کو ناممکن سمجھتے ہیں؛[6]جبکہ بعض اسے ممکن سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں شرعی احکام پر عمل کرنے میں آنحضرت بھی اشتباہ کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔[7]

موافق

ابن ولید قمی، شیخ صدوق، سیدِ مُرتَضی،[8] مجمع البیان کے مصنف فضل بن حسن طبرسی اور محمدتقی شوشتری،[9] از سہوالنبی کے نظرئے کے طرفدار ہیں۔[10] شیخ صدوق اپنی کتاب مَن لایَحْضُرُہ الفقیہ میں سہو النبی کا دفاع کرتے ہوئے اس کے مخالفوں کو غالی اور اہل تفویض سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ دین پہنچانے میں معصوم ہیں لیکن دوسرے امور جیسے نماز پڑھنے میں عام لوگوں کی طرح ہے اور ان سے اشتباہ کا امکان ہے۔[11]

شیخ صدوق اسی کتاب میں سہو النبی کے بارے میں ایک کتاب لکھنے کا وعدہ دیتے ہیں جس میں منکرین سہو النبی کو ثابت کریں گے اور اس کے منکروں کی دلائل کو رد کریں گے۔[12] آپ اپنے استاد ابن ولید سے نقل کرتے ہیں کہ غلو کا پہلا درجہ اسی سہوالنبی کا انکار کرنا ہے۔[13]

ادلہ

سہو النبی کے قائلین نے اس امکان کو قرآن اور روایات سے مستند کیا ہے۔ فضل بن حسن طبرسی سورہ انعامکی 68ویں آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں: شیعوں کے عقیدے کے مطابق پیغمبر اکرمؐ اور امام جو کچھ اللہ کی طرف سے بیان کرتے ہیں اس میں خطا اور فراموشی میں مبتلا نہیں ہوتے ہیں۔ البتہ یہ مسئلہ اس مرحلے تک ہے کہ ان کی عقل مختل نہ ہوجائے۔[14]

ان کا کہنا ہے کہ: جس طرح سے ہم مانتے ہیں کہ پیغمبرؐ اور امامؑ پر نیند یا بیہوشی طاری ہوسکتی ہے تو اشتباہ اور فراموشی بھی ان سے ممکن ہونا چاہیے۔ کیونکہ نیند اور بیہوشی سہو کی مانند ہے۔[15]

شیخ صدوق نے بھی ایسی روایات سے استناد کیا ہے جس میں رسول اکرمؐ سے نماز میں اشبتاہ ہونے کا تذکرہ ہوا ہے[16]اور یہ روایت شیعہ اور اہل سنت کے روائی مآخذ میں موجود ہے۔[17] جعفر سبحانی کے مطابق شیعہ احادیث کی کتب میں ایسی بارہ روایات موجود ہیں۔[18]ان میں سے ایک وہ روایت ہے جسے کُلینی نے کافی میں امام صادقؑ سے نقل کیا ہے۔ جس کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے نماز ظہر کی دوسری رکعت میں غلطی سے سلام پھیرا اور مامومین کی یاددہانی پر آپؐ نے نماز کو آخر تک پہنچایا اور پھر دو سجدہ سہو بجا لے آیا۔[19]

سہوالنبی کے مخالف

کتاب رِسالَۃٌ فی عَدَمِ سَہْوِ النَّبیّ بقلم شیخ مفید

جعفر سبحانی کے بقول، اکثر شیعہ علما سہوالنبی کو نہیں مانتے ہیں۔[20] آپ سہوالنبی کی نفی میں شیعہ متقدمین میں سے شیخ مفید، علامہ حلی، محقق حلی اور شہید اول کی قول نقل کرتے ہیں[21]اور کہتے ہیں کہ سہو النبی کا نظریہ شیعہ مذہب میں قابل قبول نظریہ نہیں ہے۔[22]

سہوالنبی کے مخالفین نے مختلف مباحث جیسے فقہ میں[23]میں سہو کی بحث میں اور کلام میں انبیاء کی عصمت کے بارے میں بحث کرتے ہوئے سہو النبی کے موافقین پر اشکال کیا ہے۔ اور اس بارے میں پوری کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں ایک کتاب کی نسبت علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں شیخ مفید سے دی ہے۔[24]یہ کتاب "رسالۃٌ فی عدم سہو النبی"‏ کے نام سے منتشر ہوئی ہے۔ اسی طرح «التنبیہ بالمعلوم من البرہان عن تنزیہ المعصوم من السہو و النسیان» نامی کتاب میں حُرّ عامِلی نے اس بارے میں تفصیل سے گفتگو کی ہے۔[25]

مخالفین کے دلائل

شیخ مفید کے مطابق سہوالنبی کے بارے میں موجود روایات خبر واحد ہیں اور گمان آور ہیں اور شرعی حوالے سے معتبر نہیں ہیں۔[26] ان کے بقول ان روایات کے متن میں باہم اختلاف پایا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ان کے اعتبار پر سوال اٹھایا ہے۔[27]

علامہ حلی کشف‌المراد میں لکھتے ہیں: اگر سہوالنبی ممکن ہو تو یہ خطا نبوت تک پہنچ سکتی ہے۔[28]وہ اپنی فقہی کتاب مُنتَہَی المَطلب میں سہوالنبی کے بارے میں موجود روایات کو یہ کہہ کر باطل سمجھتے ہیں کہ سہوالنبی عقلی اعتبار سے محال ہے۔[29] شہید اول نے بھی اسی دلیل کے ذریعے اپنی کتاب ذکریٰ میں سہوالنبی کے متعلق روایات پر اشکال کی ہے۔[30]

کتاب‌‌شناسی

سہو النبی کے بارے میں لکھی جانے والی بعض کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:

  • رسالۃٌ فی عدم سہو النبی، جو شیخ مفید سے منسوب ہے
  • نفی السہو عن النبی، بقلم میرزا جواد تبریزی
  • رسالۃٌ فی سہو النبی، تألیف محمدتقی شوشتری۔ یہ کتاب، قاموس الرجال کی گیارہویں جلد کے آخر میں چھپ چکی ہے۔[31]
  • عصمۃ رسالۃ سہو النبی،‏ بقلم محمداسماعیل خواجویی

محمدباقر مجلسی نے بھی بحارالانوار میں پیغمبر اکرمؐ کی تاریخ کا 16واں حصہ سہو النبی سے مختص کیا ہے۔[32]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. سبحانی، عصمۃالانبیاء، ۱۴۲۰ھ، ص۲۹۲.
  2. سبحانی، عصمۃالانبیاء، ۱۴۲۰ھ، ص۲۹۲.
  3. مراجعہ کریں: سبحانی، الالہیات، ۱۴۱۲ھ، ص۱۹۱؛ سیدِ مرتضَی، تنزیہ الانبیاء، ۱۳۸۰ش، ص۳۴-۴۱؛ سبحانی، عصمۃالانبیاء، ۱۴۲۰ھ، ص۲۹۱؛ علامہ حلی، منتہی المطلب، ۱۴۱۲ھ، ج۷، ص۷۸؛ شہید اول، ذکری، ۱۴۱۹ھ، ج۴، ص۱۰.
  4. سبحانی، عصمۃالانبیاء، ۱۴۲۰ھ، ص۲۹۱و۲۹۲.
  5. سبحانی، عصمۃالانبیاء، ۱۴۲۰ھ، ص۲۹۲.
  6. سبحانی، عصمۃالانبیاء، ۱۴۲۰ھ، ص۳۰۲.
  7. سبحانی، عصمۃالانبیاء، ۱۴۲۰ھ، ص۳۰۲.
  8. سبحانی، عصمۃ الانبیاء، ۱۴۲۰ھ، ص۳۰۵.
  9. سبحانی، عصمۃالانبیاء، ۱۴۲۰ھ، ص۳۰۶.
  10. سبحانی، عصمۃالانبیاء، ۱۴۲۰ھ، ص۳۰۲.
  11. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳، ج‏۱، ص۳۵۹.
  12. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳، ج‏۱، ص۳۶۰.
  13. شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳، ج‏۱، ص۳۶۰.
  14. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۴۹۰.
  15. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۴، ص۴۹۰.
  16. شیخ صدوق، ص۳۶۰.
  17. سبحانی، عصمۃالاببیاء، ۱۴۲۰ھ، ص۳۰۴و۳۰۵.
  18. سبحانی، عصمۃالانبیاء، ۱۴۲۰ھ، ص۳۰۵.
  19. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۳، ص۳۵۵.
  20. سبحانی، عصمۃالانبیاء، ۱۴۲۰ھ، ص۳۰۲.
  21. سبحانی، عصمۃالانبیاء، ۱۴۲۰ھ، ص۳۰۴.
  22. سبحانی، عصمۃالانبیاء، ۱۴۲۰ھ، ص۳۰۳.
  23. نماز
  24. ابراہیمی راد،‌ «تحلیل و بررسی روایات سہو النبی (ص)»، ص۵۷.
  25. ابراہیمی راد،‌ «تحلیل و بررسی روایات سہو النبی (ص)»، ص۵۷.
  26. شیخ مفید، عدم سہوالنبی، ص۲۱.
  27. شیخ مفید، عدم سہوالنبی، ص۲۲.
  28. علامہ حلی، کشف‌المراد، ۱۴۱۷ھ، ص۴۷۲.
  29. علامہ حلی، منتہی المطلب، ۱۴۱۲ھ، ج۷، ص۷۸.
  30. شہید اول، ذکری، ۱۴۱۹ھ، ج۴، ص۱۰.
  31. سبحانی، عصمۃالانبیاء، ۱۴۲۰ھ، ص۳۰۶.
  32. دیکھیں: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۱۷، ص۹۷-۱۲۹.

مآخذ

  • ابراہیمی راد،‌ محمد، «تحلیل و بررسی روایات سہو النبی (ص)»، علوم حدیث، ش۵۲، ۱۳۸۸شمسی ہجری۔
  • سبحانی، جعفر، الاہیات، علی ہدی الکتاب و السنۃ و العقل، تدوین حسن محمد مکی عاملی، قم، المرکز العالمیہ للدراسات الاسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۱۳ھ۔
  • سبحانی، جعفر، عصمۃالانبیاء فی القرآن الکریم، قم، مؤسسہ امام صادق، چاپ دوم، ۱۴۲۰ھ۔
  • سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء و الائمہ، تحقیق فارس حسون کریم، قم، بوستان کتاب، ۱۴۲۲ھ۔
  • شہید اول، محمد بن عاملى مکى‌، ذکرى الشيعۃ فی أحکام الشریعۃ‌، قم، مؤسسہ آل البیت، چاپ اول‌، ۱۴۱۹ھ۔‌
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ھ۔
  • شیخ مفید، محمد، عدم سہو النبی‏، قم‏، ناشر المؤتمر العالمی للشیخ المفید، چاپ اول‏، ۱۴۱۳ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف‌المراد فی شرح تجریدالاعتقاد، قم، مؤسسہ انتشارات اسلامی، چاپ ہفتم، ۱۴۱۷ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، منتہى‌المطلب فی تحقیق المذہب‌، مشہد، مجمع البحوث الإسلامیہ، چاپ اول‌، ۱۴۱۲ھ۔‌
  • طبرسى، فضل بن حسن، مجمع البيان فى تفسیر القرآن، تہران، ناصرخسرو، ۱۳۷۲شمسی ہجری۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی،‌ تحقیق علی‌اکبر غفاری، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔
  • مجلسى، محمدباقر، بحارالانوار الجامعہ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار ، بیروت‏، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم‏، ۱۴۰۳ھ۔