آیت غیبت

ویکی شیعہ سے
آیت غیبت
آیت کی خصوصیات
آیت کا نامآیت غیبت
سورہحُجُرات
آیت نمبر12
پارہ26
محل نزولمدینہ
موضوعفقہی، اخلاقی
مضمونغیبت کی حرمت اور اس کی علت


آیت غیبت، سورہ حُجُرات کی آیت نمبر 12 کو کہا جاتا ہے جس میں غیبت کی حرمت اور اس کی علت کا بیان آیا ہے۔ اس آیت میں غیبت‌ کرنے کو مردہ بھائی کے گوشت کھانے کا مترادف قرار دیا گیا ہے تو جس طرح انسان کو مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے کراہت اور نفرت ہوتی ہے اسی طرح غیبت سے بھی کراہت اور نفرت ہوئی چاہئے۔

یہ آیت پیغمبر اکرمؐ کے دو اصحاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے سلمان فارسی اور اُسامۃ بن زید کی غیبت کی تھیں۔

چونکہ آیت اُخُوَّت کی بنا پر مؤمنین ایک دوسرے کا ایمانی بھائی ہیں اسی لئے مذکورہ آیت میں بھی "اخ" یعنی بھائی کی تعبیر لائی گئی ہے۔ بعض فقہاء کے مطابق "لَحْمَ أَخِیہِ مَیْتاً" کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف مسلمان کی غیبت حرام ہے اور کافِر حتی فاسق کی غیبت مُباح اور جائز ہے؛ اس کے مقابلے میں بعض دیگر فقہاء کا کہنا ہے کہ چونکہ آیت میں غیبت سے نہی کی گئی ہے اور یہ عام ہے اس میں مؤمن اور غیر مؤمن سب شامل ہیں لھذا غیر مؤمن کی غیبت بھی حرام ہے۔ آیت اللہ مکارم شیرازی کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت کے مطابق بد گمانی تَجَسُّس کا اور تجسس چھپے ہوئے عیوب کے ظاہر ہونے کا اور عیوب پر آگاہی غیبم کا سبب بنتا ہے اس بنا پر اسلام ان تینوں چیزوں سے منع کی گئی ہے۔

متن اور ترجمہ

سورہ حجرات کی آیت نمیر 12 آیت غیبت کے نام سے موسوم ہے:[1]

يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرً‌ا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيہِ مَیْتًا فَكَرِ‌ہْتُمُوہُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـہَ ۚ إِنَّ اللَّـہَ تَوَّابٌ رَّ‌حِيمٌ


اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے پرہیز کرو (بچو) کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اور تجسس نہ کرو اور کوئی کسی کی غیبت نہ کرے کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھا ئے؟ اس سے تمہیں کراہت آتی ہے اور اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو بےشک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔!



(سورہ حجرات، آیہ 12)


شأن نزول

آیت غیبت مدینہ میں نازل ہونے والی آیات میں سے ہے،[2] اور اس کے لئے دو شأن نزول نقل ہوئی ہیں:

  1. مَجْمَعُ البیان کے مصنف طَبَرْسی (متوفی: 548ھ) کے مطابق یہ آیت پیغمبر اکرمؐ کے دو اصحاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے سلمان فارسی کی غیبت کی تھی۔ ان دو صحابیوں نے کھانا لانے کے لئے سلمان کو پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ پیغمبر اکرمؐ نے سلمان کو اُسامۃ بن زید کے پاس بھیجا جو اس وقت سٹور میں تھا، اسامہ سلمان سے کہتا ہے کہ اس وقت کھانا ختم ہو گیا ہے یوں سلمان خالی ہاتھ واپس لوٹ آتے ہیں۔ مذکورہ دو صحابیوں نے اسامہ کو بَخیل کا لقب دیتے ہوئے سلمان کے بارے میں کہا کہ اگر انہیں سمیحہ چشمہ (کسی چشمے کا نام) بھیجا جائے تو یہ چشمہ بھی خشک ہو جائے گا۔ اس کے بعد یہ دونوں صحابی خود اسامہ کے یہاں چلے گئے تاکہ اس بارے میں خود تحقیق کریں، پیغمبر اکرمؐ نے ان سے فرمایا کیا بات ہے آج تم دونوں کے ہونٹوں پر گوشت کے آثار دیکھ رہا ہوں۔ انہوں نے کہا اے رسول خداؐ ہم نے آج گوشت نہیں کھایا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا تم دونوں سلمان اور اسامہ کا گوشت کھا رہے ہیں! اس کے بعد آیت غیبت نازل ہوئی۔[3]
  2. منقول ہے کہ "وَلایَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضاً" پیغمبر اکرمؐ کے خدمت کاروں میں سے کسی ایک کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب بھی صحابہ پیغمبر اکرمؐ کی ملاقات کے لئے آتے تو یہ شخص ان سے کھانے کا مطالبہ کرتے اور پھر انہیں پیغمبر اکرمؐ سے ملاقات سے مانع بنتے اس بنا پر صحابہ انہیں بخیل اور نرم زبان کا لقب دیتے تھے یوں یہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[4]

نکات تفسیری

ابن‌ عباس آیت غیبت کی تفسیر میں کہتے ہیں: جس طرح خدا نے مُردار کا گوشت حرام قرا دیا ہے، اسی طرح غیبت کو بھی حرام قرار دیا ہے۔[5] اس آیت کے مطابق جس طرح انسان کو مردار کے گوشت کھانے میں کراہت ہوتی ہے، اسی طرح کسی شخص کی غیبت کرنے سے بھی کراہت محسوس ہونا چاہئے۔[6] کیونکہ پہلی چیز انسانی طبیعت کے خلاف ہے اور دوسری چیز انسان کی عقل اور شریعت کے خلاف ہے۔[7] علامہ طباطبایی فرماتے ہیں: "فَكَرِ‌ہْتُمُوہ" اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مردہ بھائی کے گوشت کھانے میں انسان کو کراہت اور نفرت ہوا ایک مسلمہ امر ہے اور کوئی شخص ایسا کرنے کے لئے کسی وقت تیار نہیں ہے۔ پس کسی مؤمن بھائی کی غیبت کرنے میں بھی انسان کو بالکل اسی طرح کی نفرت ہوئی چاہئے کیونکہ یہ بھی مردہ بھائی کے گوشت کھانے کی طرح ہے۔[8] امام خمینی کتاب شرح چہل حدیث میں کہتے ہیں: مردہ بھائی کا گوشت کھانا غیبت کی باطنی شکل ہے اور آخرت میں غیبت اسی شکل میں ظاہر ہوگی۔[9]

غیبت کو مردار کے گوشت کے ساتھ تشبیہ دینے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جس طرح اگر کوئی شخص کسی مردار کا گوشت کھا لے تو اس مراد کو کچھ محسوس نہں ہوتا اسی طرح غیبت میں بھی جب کسی کی غیر موجودگی میں اس کی برائی بیان کی جاتی ہے تو اسے بھی اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا۔[10] علامہ طباطبایی کے مطابق مذکورہ آیت میں بھائی کی تعبیر اس لئے لائی گئی ہے کہ اس سے دو آیت پہلے آیت اخوت میں مؤمنین کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا گیا ہے اور مردار کی تعبیر اس لئے لائی گئی ہے کہ جس طرح مردار کو اس کے گوشت کھائے جانی کی خبر نہیں ہوتی اسی طرح غیبت ہونے والے شخص کو بھی اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا۔[11]

آیت‌اللہ مکارم شیرازی تفسیر نمونہ میں فرماتے ہیں کہ: اس آیت کے مطابق بد گمانی تجسس موجب ہے، تجسس پوشیدہ عیوب کے ظاہر ہونے کا موجب ہے اور عیوب کا ظاہر ہونا غیبت کا موجب بنتا ہے اس بنا پر اسلام نے ان تینوں سے بھی منع کیا ہے۔[12]

فقہی استعمال

فقہاء آیت غیبت سے استناد کرتے ہوئے غیبت کے بارے میں بعض احکام کا ذکر کرتے ہیں جو درج ذیل ہیں:

  • فقہاء اس آیت سے غیبت کے حرام ہونے کا فتوا دیتے ہیں۔[13] غیبت کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں[14] علامہ طباطبایی کے مطابق ان تمام تعریفوں کا وجہ مشترک یہ ہے کہ کسی شخص کے پیٹھ پیچھے کوئی ایسی چیز کہی جائے جس سے وہ ناراض ہو جائے۔[15]
  • مذکورہ آیت میں غیبت کو ایک ناپسند امر قرار دینے اور اسے مردار کے گوشت کے ساتھ تشبیہ دینے کی وجہ سے گناہ کبیرہ میں شمار کی گئی ہے۔[16]
  • کہا گیا ہے کہ مذکورہ آیت میں غیبت کی حرمت سے مراد صرف مسلمان کی غیبت ہے؛ کیونکہ "لَحْمَ أَخِیہِ مَیْتاً" کی تعبیر میں کافر نہیں ہوتا۔[17] اسی طرح "بعضکم" کی تعبیر مذکورہ آیت میں کافر کی غیبت کے جائز ہونے پر دلیل قرار دی جاتی ہے۔[18]
  • بعض فقہاء غیبت کی نہی کی عمومیت سے استناد کرتے ہوئے غیرمؤمن کی غیبت کو بھی حرام قرار دیتے ہیں؛[19] لیک بعض فقہاء کے مطابق آیت غیبت میں صرف مؤمنین کی غیبت شامل ہے غیر مؤمنین کی غیبت شامل نہیں ہے۔[20]
  • فاسق کی غیبت آیت کے عموم سے مستثنی قرار دی گئی ہے اس بنا پر فاسق کی غیبت مُباح اور جائز شمار کی جاتی ہے۔[21]

حوالہ جات

  1. مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1385ش، ج1، ص199۔
  2. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج18، ص305۔
  3. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج9، ص203۔
  4. ابن‌ابی‌حاتم، تفسیر القرآن العظیم، 1409ھ، ج10، ص3306۔
  5. ابن‌ابی‌حاتم، تفسیر القرآن العظیم، 1409ھ، ج10، ص3306۔
  6. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج9، ص206؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، 2008ء، ج6، ص87؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج18، ص323۔
  7. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج9، ص206؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، 2008ء، ج6، ص87۔
  8. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج18، ص324۔
  9. امام خمینی، شرح چہل حدیث، 1380ہجری شمسی، ص303۔
  10. طبرسی، مجمع البیان، 1372ہجری شمسی، ج9، ص206؛ طبرانی، التفسیر الکبیر، 2008ء، ج6، ص87۔
  11. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج18، ص324۔
  12. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج22، ص184۔
  13. نراقی، مستند الشیعہ، 1415ھ، ج14، ص161؛ مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1385ہجری شمسی، ج1، ص199 و200۔
  14. مراجعہ کریں: امام خمینی، مکاسب المحرمہ، 1415ھ، ج1،‌ ص381 -385۔
  15. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج18، ص323۔
  16. شہید ثانی، رسائل الشہید الثانی، کتابفروشی بصیرت، ص285؛ اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البرہان، 1403ھ، ج12، ص339؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج22، ص185۔
  17. اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البرہان، 1403ھ، ج8، ص76 و 77؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج18، ص325۔
  18. فاضل کاظمی، مسالک الافہام، 1365ہجری شمسی، ج2، ص416 و417۔
  19. اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البرہان، 1403ھ، ج8، ص76 و 77۔
  20. نراقی، مستند الشیعہ، 1415ھ، ج14، ص161؛ فاضل کاظمی، مسالک الافہام، 1365ہجری شمسی، ج2، ص416۔
  21. فاضل کاظمی، مسالک الافہام، 1365ہجری شمسی، ج2، ص416۔

مآخذ

  • ابن‌ابی‌حاتم، عبدالرحمن بن محمد، تفسیر القرآن العظیم، ریاض، مکتبۃ نزار مصطفی الباز، چاپ سوم، 1409ھ۔
  • اردبیلی، احمد بن محمد، مجمع الفائدۃ و البرہان فی شرح ارشاد الاذہان، قم، دفتر انتشارات اسلامی،‌ چاپ اول، 1403ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ موسوی، شرح چہل حدیث (اربعین حدیث)، قم، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ 24، 1380ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ موسوی، مکاسب المحرمہ، قم، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ اول، 1415ھ۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، رسائل الشہید الثانی، قم، کتابفروشی بصیرت، چاپ اول،‌ بی‌تا۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسہ الاعلمی، چاپ دوم، 1390ھ۔
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، التفسیر الکبیر (تفسیر القرآن العظیم)، اردن-اربد، دار الکتاب الثقافی،‌ چاپ اول، 2008ء۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تصحیح فضل‌اللہ یزدی طباطبایی و ہاشم رسولی محلاتی، تہران،‌ ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • فاضل کاظمی، جواد بن سعید، مسالک الافہام الی آیات الاحکام، تحقیق و تصحیح محمدتقی کشفی و محمدباقر شریف‌زادہ، تہران، مرتضوی، چاپ دوم، 1365ہجری شمسی۔
  • مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، زیرنظر محمود ہاشمی شاہرودی، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، چاپ دوم، 1385ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔
  • نراقی، ملااحمد، مستند الشیعہ فی احکام الشریعۃ، قم، مؤسسہ آل البیت،‌ چاپ اول، 1415ھ۔