آیت اخوت
آیت اُخُوَّت سورہ حجرات کی دسویں آیت ہے جسے خداوند عالم نے مسلمانوں کے درمیان اخوت اور بھائی چارہ برقرار کرنے کے بارے میں نازل فرمایا ہے۔ اس آیت کے مطابق مؤمنین ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ ان کے درمیان کسی لڑائی جگڑے کی صورت میں دوسرے مسلمانوں اور مؤمنین پر ان کے درمیان صلح کرنا واجب ہے۔ پیغمبر اکرمؐ نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کے درمیان اخوت اور بھائی چارہ قائم کیا اور حضرت علیؑ کو اپنا بھائی بنایا۔
آیت کی خصوصیات | |
---|---|
آیت کا نام | اخوت |
سورہ | حجرات |
آیت نمبر | 10 |
پارہ | 26 |
صفحہ نمبر | 516 |
محل نزول | مدینہ |
موضوع | اخلاقی |
مضمون | مسلمانوں کی برادری |
مربوط آیات | اصلاح ذات البین |
آیت اور ترجمہ
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُواْ بَینْ أَخَوَیکمُ وَ اتَّقُواْ اللَّهَ لَعَلَّکمُ تُرْحَمُونَ ﴿۱۰﴾
مومنین آپس میں بالکل بھائی بھائی ہیں لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان اصلاح کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے!
سورہ حجرات: آیت 10
آیت کی تفسیر
یہ آیت مجیدہ مسلمانوں کی اجتاعی مسئولیتوں میں سے ایک اہم وظیفے کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اس میں مؤمنین کو ایک دوسرے کا بھائی بتایا گیا ہے اور ان کے آپ کے لڑائی جگڑوں کو دو بھائیوں کے درمیان لڑائی کی طرح قرار دیتی ہے۔ اس وجہ سے بقیہ مؤمنین کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ ان کے درمیان لڑائی کی صورت میں ان کی صلح کی جائے۔ پس جس طرح دو سگے بھائیوں کے درمیان صلح برقرار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اسی طرح ایک دوسرے سے لڑنے والے مؤمنین کے درمیان بھی سلح اور امن برقرار کرنے کیلئے سعی اور کوشش کی جانی چاہئے. کیونکہ یہ برادری اور بھائی چارگی صرف باتوں کی حد تک نہیں ہونا چاہئے بلکہ عملی طور پر بھی ایک دوسرے کے بھائی اور بہن کی طرح معاشرے میں زندگی بسر کرنا چاہئے۔[1]
امام صادقؑ فرماتے ہیں:
- "مؤمن مؤمن کا بھائی اور اس کی آنکھیں اور اس کا رہنما ہوا کرتا ہے۔ مؤمن کبھی بھی کسی مؤمن کے ساتھ خیانت نہیں کرتا نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے دھوکہ دیتا ہے اور اگر اس کے ساتھ کوئی وعدہ کیا ہے تو اسے ضرور نبھاتا ہے۔"[2]
آلوسی، تفسیر روح المعانی کے مصنف مؤمنین کے درمیان موجود بھائی چارگی کو ایک مجازی اور تشبیحی قرار دیتے ہوئے کہتا ہے: دو اشخاص کا ایمان لانے میں ایک ہونا گویا ان دونوں کے تولد میں ایک ہونے کی طرح ہے کیونکہ جس طرح پیدائش اور تولد دنیا میں باقی رہنی کیلئے منشاء بقا ہے اسی طرح ایمان بھی بہشت میں باقی رہنے کیلئے سبب بقا ہوگا۔.[3] علامہ طباطبایی مؤمنین پر ایک دوسرے کی نسبت اخوت اور بھائی چارگی کے اطلاق کو حقیقی اور اعتباری قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: اس آیت میں اخوت سے مراد دینی اور اعتباری ہے جس کے صرف اجتماعی آثار مترتب ہوتے ہیں ارث اور نکاح وغیرہ میں اس کا کوئی دخل نہیں ہے۔[4] چونکہ بسا اوقات اس طرح کے مسائل میں روابط، ضوابط اور قوانین کا جانشین بن جاتا ہے اسلئے خداوند عالم آیت کے آخر میں ایک بار پھر آگاہ فرماتے ہیں کہ تقوای الہی اختیار کرو تاکہ اس کی رحمت شامل حال ہو جائے۔(وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ)[5]
پیغمبر اکرم کا صحابہ کے درمیان عقد اخوت جاری کرنا
ابن عباس کہتا ہے: جب آیت اخوت نازل ہوئی تو پیغمبر اکرمؐ نے مسلمانان کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا یوں ابوبکر اور عمر، عثمان اور عبدالرحمن بن عوف اسی طرح ہر دو مسلمان کے درمیان اخوت اور بھائی چارہ قائم کیا۔ اس علی بن ابی طالبؑ کو اپنا بھائی قرار دیا اور علیؑ سے مخاطب ہو کر فرمایا: "تم میرے بھائی ہو اور میں تیرا بھائی ہوں"[6]
حوالہ جات
مآخذ
- قرآن کریم
- آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، دار الکتب العلمیہ، بیروت (لبنان)، ۱۴۱۵ق، اول.
- بحرانی، ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیر القرآن، بنیاد بعثت، تہران، ۱۴۱۶ق.
- الحاکم النیشابوری، الامام الحافظ ابوعبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، دار المعرفہ، بیروت (لبنان)، بیتا.
- طباطبایی، سید محمدحسین، مترجم، موسوی ہمدانی، سید محمد باقر، ترجمہ تفسیر المیزان، دفتر نشر اسلامی، ۱۳۷۴ش، پنجم.
- کلینی، محمد بن یعقوب؛ مترجم، کمرہ ای، محمد باقر، اصول کافی، اسوہ، ۱۳۷۵ش، سوم.
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۷۴ش.